ایران امریکی مذاکرات
ایران امریکی مذاکرات 12 سال جاری رہے لیکن اس کا انکشاف نومبر 2013ء میں ہوا۔
ایران امریکی مذاکرات 12 سال جاری رہے لیکن اس کا انکشاف نومبر 2013ء میں ہوا۔ یہ پوری دنیا کے لیے ایک دھماکا خیز خبر تھی۔ امریکا نے یہ مذاکرات انتہائی خفیہ رکھے، یہاں تک کہ اسرائیل اور سعودی عرب کو بھی اس کی خبر نہیں تھی۔ یہ دونوں مشرق وسطیٰ میں امریکا کے انتہائی اہم اتحادی ہیں تو پھر ایسا کیا ہوا کہ امریکا نے اس خطے میں اپنے دو اہم ترین اتحادیوں کو ان مذاکرات کے حوالے سے بھنک بھی نہ پڑنے دی۔ یہ وہ اتحادی ہیں جن کے گرد امریکا کی مشرق وسطیٰ کی سیاست گھومتی ہے اور اس کے تمام مفادات کا انحصار ان دو اہم ترین ملکوں پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کی نظر میں ان دو ملکوں کی اہمیت وہ نہیں رہی جو ماضی میں تھی۔
امریکا ایران مذاکرات جن سخت مراحل سے گزرے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ری پبلکنز نے امریکی صدر اوباما کو امریکا کے لیے پیوٹن سے بھی بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ امریکا میں یہ شدید مخالفت ہی تھی کہ ری پبلکن پارٹی نے جس کی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت ہے اسرائیلی وزیر بینجمن نیتن یاہو کو امریکی صدر کی اجازت کے بغیر امریکا آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ مارچ کے شروع میں اسرائیلی وزیراعظم نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی عوام پر بھر پور دباؤ ڈالا کہ وہ ہر صورت میں امریکی حکومت کو اس ڈیل سے روکیں۔ نیتن یاہو اس ڈیل پر اتنے برافروختہ تھے کہ انھوں نے اوباما کو جھوٹا اور دھوکا باز بھی قرار دے دیا۔
47 ری پبلکن سینیٹرز نے براہ راست ایرانی حکومت کو خط لکھ کر یہ انتباہ کیا کہ اگر یہ ڈیل ہو بھی جاتی ہے تو آیندہ آنے والا ری پبلکن صدر اسے منسوخ کر دے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کو امریکی صدر کی اجازت کے بغیر مدعو کرنا ہو یا ری پبلکن سینیٹر کو خط لکھنا امریکا کی پوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یعنی جب گروہی طبقاتی مفادات پیش نظر ہوں تو آئین و قانون کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ الگور کی مثال زیادہ پرانی نہیں جب سپریم کورٹ کے ذریعے کس طرح جیتے ہوئے صدر کو ہرایا گیا۔
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکا میں اسرائیلی لابی کس قدر طاقتور ہے جس نے پوری دیدہ دلیری سے اپنے ہی صدر کے خلاف بغاوت کا مظاہرہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ادھر ایران میں بھی صورت حال اتنی آسان نہیں تھی۔ قدامت پسندوں کا سخت گیر گروہ ان مذاکرات کے سخت خلاف تھا۔ اگر آیت اللہ خامنہ ای کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو یہ سخت گیر گروہ مذاکرات کرنے والوں کو برطرف کر دیتا۔
بہرحال ان تمام رکاوٹوں کے باوجود 12 سال بعد یہ تاریخی معاہدہ عمل میں آ گیا جس کے پوری دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ پر انتہائی دوررس اثرات پڑیں گے۔ 35 سالہ دشمنی کے بعد تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ امریکا ایران دوستی کیا ویسے ہی ہو گی جیسی سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں تھی۔ کیا ایران مشرق وسطیٰ میں ایک نیا رول ادا کرے گا جس میں وہ مسلم دنیا کی نمایندگی کرتے ہوئے ان کے مفادات کی بھی حفاظت کرے اور امریکی مفادات سے ٹکراؤ بھی نہ پیدا ہو جس میں اسرائیل ناگزیر ہے۔ لیکن یہ نیا کردار اس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جس سعودی عرب کے تحفظات ایرانی عزائم کے حوالے سے دور ہوں۔
ایک طویل مدت تک امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران کو مشرق وسطیٰ اور دنیا میں اچھوت بنا کر رکھا۔ چین اور روس کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ ایران بھی دے سکتا ہے۔ دے بھی رہا ہے۔ معاشی نظام کے حوالے سے ایران اور امریکا میں کوئی بڑا تضاد نہیں۔ تیل کا متبادل بھی دریافت ہو گیا ہے جب کہ تیل کی ترسیل اس معاہدے کے بعد زیادہ محفوظ ہو جائے گی۔ اصل مسئلہ اسرائیل کے تحفظ کا ہے۔ دوسرا مسئلہ مذہبی بنیادوں پر اس ہولناک قتل و غارت کا ہے جس کی ذمے دار القاعدہ اور داعش وغیرہ ہیں۔ جن کو امریکا نے ایرانی انقلاب سے انتقام لیتے ہوئے تخلیق کیا۔
تیسرا اہم مسئلہ بادشاہت کو آئینی بادشاہت میں بدلنا ہے۔ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے بادشاہتوں اور آمریتوں کی سرپرستی سے عرب عوام مجموعی طور پر امریکا سے بے پناہ نفرت کرنے لگے ہیں۔ جس میں فلسطین کے مسئلے کا حل نہ ہونا اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے بے پناہ مظالم بھی شامل ہیں۔ فلسطینی ریاست کے حوالے سے اسرائیل مکمل طور پر دنیا میں تنہا ہو چکا ہے۔
عرب بہار کا تجربہ باؤنس بیک ہو چکا لیکن عرب دنیا میں بھی مذہبی شدت پسندوں، دہشت گردوں کا مقابلہ اسی وقت ہی کیا جا سکتا ہے جب وہاں شخصی اور خاندانی اقتدار پر مشتمل حکمران طبقے اپنے اقتدار اعلیٰ میں صدیوں سے محروم عرب عوام کو شریک کریں۔ اس طرح عرب دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت میں بہت حد تک کمی آ سکتی ہے۔ یوں اس طرح سے مشرق وسطیٰ کی ری برتھ بھی ممکن ہے جس میں بادشاہتوں، آمیتوں کی جگہ عرب عوام اپنا حق حکمرانی حاصل کر سکیں۔
31 مارچ امریکا ایران جوہری معاہدے کی ڈیڈ لائن تھی جب کہ 26 مارچ کو سعودی عرب نے یمن پر ہوائی حملہ کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس حملے کا مقصد ایسی صورتحال پیدا کرنا ہو جس کے نتیجے میں امریکا ایران جوہری ڈیل رک جائے۔ گرہن ہمیشہ نقصان دہ نہیں ہوتے۔ بعض اوقات فائدہ مند بھی ہوتے ہیں۔ فرد، ملک، خطے کے لیے۔ جیسے کہ ایران امریکا جوہری ڈیل میں تمام رکاوٹیں 20 مارچ کے سورج گرہن اور 4 اپریل کے چاند گرہن نے دور کر دیں۔ لیکن اس گرہن کے نقصانات کہیں اور پڑیں گے۔ کب پڑیں گے کیسے پڑیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ پاکستانی رائے عامہ کے تمام حلقوں نے چند کو چھوڑ کر پاکستان کی یمن میں مداخلت کی شدید مخالفت کی ہے کیونکہ ایک طرف تو حرمین شریفین کو کوئی خطرہ نہیں تو دوسری طرف موجودہ حملے کا فائدہ صرف القاعدہ اور داعش کو ہو گا جو عرب بادشاہتوں کی سخت ترین دشمن ہیں اور ہر صورت ہر قیمت پر ان کا خاتمہ چاہتی ہیں۔
...یمن کے بحران کے حوالے سے فوری طور پر اہم تاریخیں 9,8,7,6 اپریل ہیں۔
...2015ء اور اس کے کچھ خاص مہینے مشرق وسطیٰ اور اس سے جڑے پاکستان کے مقدر کا فیصلہ کریں گے لیکن کا ذکر آیندہ ہو گا۔
سیل فون:0346-4527997۔
امریکا ایران مذاکرات جن سخت مراحل سے گزرے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ری پبلکنز نے امریکی صدر اوباما کو امریکا کے لیے پیوٹن سے بھی بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ امریکا میں یہ شدید مخالفت ہی تھی کہ ری پبلکن پارٹی نے جس کی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت ہے اسرائیلی وزیر بینجمن نیتن یاہو کو امریکی صدر کی اجازت کے بغیر امریکا آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ مارچ کے شروع میں اسرائیلی وزیراعظم نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی عوام پر بھر پور دباؤ ڈالا کہ وہ ہر صورت میں امریکی حکومت کو اس ڈیل سے روکیں۔ نیتن یاہو اس ڈیل پر اتنے برافروختہ تھے کہ انھوں نے اوباما کو جھوٹا اور دھوکا باز بھی قرار دے دیا۔
47 ری پبلکن سینیٹرز نے براہ راست ایرانی حکومت کو خط لکھ کر یہ انتباہ کیا کہ اگر یہ ڈیل ہو بھی جاتی ہے تو آیندہ آنے والا ری پبلکن صدر اسے منسوخ کر دے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کو امریکی صدر کی اجازت کے بغیر مدعو کرنا ہو یا ری پبلکن سینیٹر کو خط لکھنا امریکا کی پوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یعنی جب گروہی طبقاتی مفادات پیش نظر ہوں تو آئین و قانون کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ الگور کی مثال زیادہ پرانی نہیں جب سپریم کورٹ کے ذریعے کس طرح جیتے ہوئے صدر کو ہرایا گیا۔
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکا میں اسرائیلی لابی کس قدر طاقتور ہے جس نے پوری دیدہ دلیری سے اپنے ہی صدر کے خلاف بغاوت کا مظاہرہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ادھر ایران میں بھی صورت حال اتنی آسان نہیں تھی۔ قدامت پسندوں کا سخت گیر گروہ ان مذاکرات کے سخت خلاف تھا۔ اگر آیت اللہ خامنہ ای کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو یہ سخت گیر گروہ مذاکرات کرنے والوں کو برطرف کر دیتا۔
بہرحال ان تمام رکاوٹوں کے باوجود 12 سال بعد یہ تاریخی معاہدہ عمل میں آ گیا جس کے پوری دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ پر انتہائی دوررس اثرات پڑیں گے۔ 35 سالہ دشمنی کے بعد تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ امریکا ایران دوستی کیا ویسے ہی ہو گی جیسی سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں تھی۔ کیا ایران مشرق وسطیٰ میں ایک نیا رول ادا کرے گا جس میں وہ مسلم دنیا کی نمایندگی کرتے ہوئے ان کے مفادات کی بھی حفاظت کرے اور امریکی مفادات سے ٹکراؤ بھی نہ پیدا ہو جس میں اسرائیل ناگزیر ہے۔ لیکن یہ نیا کردار اس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جس سعودی عرب کے تحفظات ایرانی عزائم کے حوالے سے دور ہوں۔
ایک طویل مدت تک امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران کو مشرق وسطیٰ اور دنیا میں اچھوت بنا کر رکھا۔ چین اور روس کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ ایران بھی دے سکتا ہے۔ دے بھی رہا ہے۔ معاشی نظام کے حوالے سے ایران اور امریکا میں کوئی بڑا تضاد نہیں۔ تیل کا متبادل بھی دریافت ہو گیا ہے جب کہ تیل کی ترسیل اس معاہدے کے بعد زیادہ محفوظ ہو جائے گی۔ اصل مسئلہ اسرائیل کے تحفظ کا ہے۔ دوسرا مسئلہ مذہبی بنیادوں پر اس ہولناک قتل و غارت کا ہے جس کی ذمے دار القاعدہ اور داعش وغیرہ ہیں۔ جن کو امریکا نے ایرانی انقلاب سے انتقام لیتے ہوئے تخلیق کیا۔
تیسرا اہم مسئلہ بادشاہت کو آئینی بادشاہت میں بدلنا ہے۔ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے بادشاہتوں اور آمریتوں کی سرپرستی سے عرب عوام مجموعی طور پر امریکا سے بے پناہ نفرت کرنے لگے ہیں۔ جس میں فلسطین کے مسئلے کا حل نہ ہونا اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے بے پناہ مظالم بھی شامل ہیں۔ فلسطینی ریاست کے حوالے سے اسرائیل مکمل طور پر دنیا میں تنہا ہو چکا ہے۔
عرب بہار کا تجربہ باؤنس بیک ہو چکا لیکن عرب دنیا میں بھی مذہبی شدت پسندوں، دہشت گردوں کا مقابلہ اسی وقت ہی کیا جا سکتا ہے جب وہاں شخصی اور خاندانی اقتدار پر مشتمل حکمران طبقے اپنے اقتدار اعلیٰ میں صدیوں سے محروم عرب عوام کو شریک کریں۔ اس طرح عرب دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت میں بہت حد تک کمی آ سکتی ہے۔ یوں اس طرح سے مشرق وسطیٰ کی ری برتھ بھی ممکن ہے جس میں بادشاہتوں، آمیتوں کی جگہ عرب عوام اپنا حق حکمرانی حاصل کر سکیں۔
31 مارچ امریکا ایران جوہری معاہدے کی ڈیڈ لائن تھی جب کہ 26 مارچ کو سعودی عرب نے یمن پر ہوائی حملہ کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس حملے کا مقصد ایسی صورتحال پیدا کرنا ہو جس کے نتیجے میں امریکا ایران جوہری ڈیل رک جائے۔ گرہن ہمیشہ نقصان دہ نہیں ہوتے۔ بعض اوقات فائدہ مند بھی ہوتے ہیں۔ فرد، ملک، خطے کے لیے۔ جیسے کہ ایران امریکا جوہری ڈیل میں تمام رکاوٹیں 20 مارچ کے سورج گرہن اور 4 اپریل کے چاند گرہن نے دور کر دیں۔ لیکن اس گرہن کے نقصانات کہیں اور پڑیں گے۔ کب پڑیں گے کیسے پڑیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ پاکستانی رائے عامہ کے تمام حلقوں نے چند کو چھوڑ کر پاکستان کی یمن میں مداخلت کی شدید مخالفت کی ہے کیونکہ ایک طرف تو حرمین شریفین کو کوئی خطرہ نہیں تو دوسری طرف موجودہ حملے کا فائدہ صرف القاعدہ اور داعش کو ہو گا جو عرب بادشاہتوں کی سخت ترین دشمن ہیں اور ہر صورت ہر قیمت پر ان کا خاتمہ چاہتی ہیں۔
...یمن کے بحران کے حوالے سے فوری طور پر اہم تاریخیں 9,8,7,6 اپریل ہیں۔
...2015ء اور اس کے کچھ خاص مہینے مشرق وسطیٰ اور اس سے جڑے پاکستان کے مقدر کا فیصلہ کریں گے لیکن کا ذکر آیندہ ہو گا۔
سیل فون:0346-4527997۔