ایک دوست کی تشریف آوری

ہماری خوش قسمتی کہ ہم نے ان دنوں جنوب مشرقی ایشیا (سارک) میں اپنے سب سے بڑے دوست کی میزبانی کی ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

KARACHI:
ہماری خوش قسمتی کہ ہم نے ان دنوں جنوب مشرقی ایشیا (سارک) میں اپنے سب سے بڑے دوست کی میزبانی کی ہے۔ یہ تھے سری لنکا کے صدر جو تین روز کے دورے پر تشریف لائے تھے۔ بھارت نے جن پڑوسیوں کو سب سے زیادہ تنگ کر رکھا ہے ان میں سری لنکا بھی شامل ہے۔ یہ چھوٹے ملک پاکستان کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں اور ان کے عوام تک برملا کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیں بھارت سے بچا سکتا ہے۔

جب پاکستان ایک ایٹمی ملک نہیں تھا تب بھی یہ ممالک یہی کہا کرتے تھے اور اب تو وہ بڑے اطمینان کے ساتھ پاکستان سے یہ توقع وابستہ کیے ہوئے ہیں اور بہت خوش ہیں۔ بھارت کا یہ حال ہے کہ دنیا میں سرکاری طور پر واحد ہندو ملک نیپال بھی بھارت سے خوفزدہ رہتا ہے۔ اس کا بیرون ملک راستہ بھارت سے ہو کر گزرتا ہے اور بھارت اسے مستقل تنگ کرتا رہتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ بھارت کا جو سلوک چلا آ رہا ہے وہ ساری دنیا جانتی ہے سری لنکا جو بھارت سے سمندر کے چند قدموں پر واقع ہے بھارت نے اس کا ناک میں دم کر رکھا تھا لیکن داد دیجیے اس کمزور ملک کی کہ بھارت کی پروا کیے بغیر اس نے پاکستان کے ساتھ خاص تعلق قائم رکھا اور جب ایک بار بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت بگڑ گئے اور بھارت کے ہوائی راستے ہم پر بند ہو گئے تو ہمارے جہاز براستہ کولمبو ڈھاکا جایا کرتے تھے۔

یہی ملک اپنے ملک کے دوسرے حصے تک ہمارا راستہ تھا جسے بھارت کی شدید ناراضگی کی پروا نہیں تھی۔ بھارت نے سری لنکا سے اس کی پاکستان دوستی کا بدلہ یہ لیا کہ اس کے اندر دہشت گردی شروع کرا دی اور تامل ناڈو کے شورش پسند اس ملک کے امن کو تباہ کرنے لگ گئے۔ سری لنکا بدھ مت کا ماننے والا ملک ہے جو خون ریزی کو بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے اور ایک کیڑے تک کو مارنا بھی غلط سمجھتا ہے چنانچہ اس امن پسند ملک کی کوئی خاص فوج نہیں تھی جو تامل ناڈو کے باغیوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

پاکستان کے صدر ضیاء الحق نے اس طرف خصوصی توجہ دی اور سری لنکا کو اس کی فوج بنا کر دی۔ شورش پسندوں کو کچلنے میں بھی سری لنکا کی مدد کی اور اسے بھارت کی اس تخریب کاری سے نجات دلائی۔ سری لنکا والوں کو ہمارا یہ تعلق خوب یاد ہے لیکن ہمارے ہاں بعض ایسی حکومتیں بھی آتی رہیں اور ایسے حکمران بھی آئے جنھیں بھارت کی خوشنودی مطلوب رہی اور انھوں نے بھارت کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو بے فکر ہو کر تنگ کر سکے اور ان پر اپنی برتری اور ہر لحاظ سے اپنی بالادستی ثابت کرتا رہے کیونکہ اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ تھا۔

پاکستان کی اس 'دشمن دوست' پالیسی کا نتیجہ یہ تک نکلا کہ حالیہ الیکشن میں جب موجودہ حکمرانوں کو بھرپور عوامی مدد حاصل ہوئی اور ان کے حق میں ووٹوں کے ڈھیر لگ گئے تو انھوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ انھیں پاکستانیوں نے یہ ووٹ بھارت دوستی کے لیے دیے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ۔ اس اعلان پر بھارت کے ظلم اور زیادتیاں سہنے والے ہمارے پڑوسیوں کو یقیناً مایوسی ہوئی ہو گی کہ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔


ان میں سری لنکا سرفہرست ہو گا کیونکہ اس نے اپنی توفیق سے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی تھی اور بھارت کے خلاف اس کا ساتھ دیا تھا۔ اسی ملک کا صدر محترم ہمارا مہمان تھا۔ معلوم نہیں ہمارے بھارت دوست حکمرانوں نے اس دوست پڑوسی کے ساتھ کیا عہد و پیمان کیے یا یہ محض ایک رسمی سا دورہ رہا جس کا مقصد پڑوسیوں کے تعلقات کو تازہ کرنا تھا اور بس۔ اس سلسلے میں خدا کرے اچھی اور امید افزاء باتیں ہی ہوئی ہوں گی۔

میں سری لنکا میں دو تین بار گیا ہوں۔ یہ انتہائی سرسبز جزیرہ کے سیاح پسند شہری آپ کی خوب خاطر تواضع کرتے ہیں یہ ملک ایک عالمی سیاحتی ملک ہے جہاں دنیا بھر کے سیاح چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ سانولے رنگ کے یہ لوگ گورے مہمانوں کو مایوس نہیں کرتے۔ کئی ایسے خوبصورت مقامات ہیں جو سیاحوں کو اپنے قدرتی حسن کا قیدی بنا لیتے ہیں۔

کینیڈی کا علاقہ بہت ہی دلکش ہے۔ اس ملک کی شاید سب سے بڑی خوبصورتی اس کا امن تھا جو بھارت نے غارت کر دیا اور اس کی تخریب کاری سے بچنے کے لیے اسے فوج بنانی پڑی جس کی تشکیل میں پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ تھا اس طرح پاکستان کی کوششوں سے یہ خوبصورت جزیرہ بھارتی تسلط سے بچ تو گیا لیکن اس کی امن و امان کی وہ خوبصورتی باقی نہ رہی یا ماند پڑ گئی جو اس کا ایک بڑا وصف تھی بہر کیف اس ملک کے ساتھ ہماری دوستی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی اور اسے مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس خطے میں یہ واحد ملک ہے جو پاکستان کے ساتھ دوستی کی جرات کرتا ہے اور اس کے لیے بھارت کی ناراضگی بھی مول لے لیتا ہے۔

سری لنکا بھی انگریزوں کا غلام رہا ہے کولمبو کی کئی سرکاری عمارتوں سے اس کا پتہ چلتا ہے خصوصاً لاہور کے کسی شہری کو جس کے ہاں برطانوی دور کی یہ نشانیاں موجود ہیں۔ مثلاً کولمبو کا بڑا ڈاک خانہ لاہور کے جی پی او جیسا ہے۔ یہی طرز تعمیر اور یہی رنگ و روغن لیکن سری لنکا کا صدر اپنے کسی مہمان کا استقبال ایک فٹ پاتھ پر کرتا ہے کیونکہ کوئی دوسری ایسی موزوں جگہ نہیں جہاں گارڈ آف آنر جیسی تقریب منعقد ہو سکے۔

بدھ مت کے پیروکاروں کا یہ ملک ان کے مذہب کی طرح پرامن انسان دوست اور فراخدلی ہے۔ میں نے کینڈی کے قریب وہ مندر بھی دیکھا تھا جس میں ایک روایت کے مطابق مہاتما بدھ کا دانت محفوظ ہے یہ مندر بہت ہی مقدس سمجھا جاتا ہے۔

ہم پاکستانی اپنے اس محترم مہمان کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اسے یقین دلاتے ہیں کہ ماضی میں بھارت جیسے بڑے ملک کے مقابلے میں اس نے پاکستان کی حمایت کر کے جس جرات سے کام لیا ہے ہم بھی اسے یاد رکھیں گے اور خدا نہ کرے اگر اس پر ایسا وقت آیا جب اسے کسی کی ضرورت پڑے تو ہم حاضر ہیں۔ اس نے کمزور اور چھوٹا ملک ہو کر ایک بڑے اور بالادست ملک کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ دیا تو پاکستان جو اب پہلے سے بڑا ملک ہو چکا ہے اس کے امن پسند شہریوں کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ یہ پاکستان کا فرض ہے۔
Load Next Story