بل دیجئے اپنے لیے قوم کے لیے

یہ مسئلہ تو ایسا ہی ہے کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا یعنی صارفین کہتے ہیں پہلے بجلی دو اور حکام کہتے ہیں پہلے بل دو۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ بجلی کی ترسیل کا نظام پہلے سے زیادہ جدید خطوط پر استوار ہوچکا ہے. ایکسپریس ٹریبیون

ڈنگ ڈانگ، ڈنگ ڈانگ، ڈنگ ڈانگ ۔۔

مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی نے فراز کی نیند اُڑا کر رکھ دی۔

''ارے آرہا ہوں بھائی، کال بیل کے نیچے دم تو لو۔ بجائے چلے جارہے ہو''۔

یہ کہتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا تو مجبوراً اُسے مودب ہونا پڑا کیوں کہ سامنے مالک مکان بجلی کا بل ہاتھ میں لیے اسے گھور رہا تھا۔

''ک کک کیا ہوا بشیر بھائی۔ اب کیا مسئلہ ہوگیا؟ کل تو آپ کو گھر کا کرایہ بمعہ بل دیا تھا''۔

''میاں بجلی کا بل دیکھا ہے؟ اس بار چودہ سو روپے آیا ہے اور آپ نے سات سو دیئے ہیں۔ یہ کیا چکر ہے؟ ''بشیر بھائی نے منہ بناتے ہوئے فراز کے سامنے بل لہرایا۔







''ہائیں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔۔ ذرا دکھائیے گا''۔ فراز نے بشیر بھائی کے ہاتھ سے بل لیا تو چکرا کر رہ گیا۔۔ واقعی سات سو کی جگہ چودہ سو کا ہندسہ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔۔ اس نے بل میں موجود پچھلے مہینوں کا ریکارڈ پڑھا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ غلطی کسی کی بھی نہیں بلکہ مس پرنٹگ کی ہے ۔۔ کے الیکٹرک نے اوسط بلنگ کے چکر میں مس پرنٹنگ کر دی تھی اور گزشتہ مہینے کا بل اس ماہ بھی لگا کر بھیج دیا تھا۔۔ جبکہ ریکارڈ کے مطابق وہ پرانا بل جمع کرواچکا تھا اور اتفاق سے رواں مہینے لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں خوشگوار حد تک کمی واقع ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی بجلی کا ماہانہ خرچ اتنا نہیں بڑھا تھا کہ بل دوگنا ہو کر آجاتا۔ اس نے مالک مکان کو بھی یہ بات سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ بل جمع کروانے جائیں تو ان کو یہ پرانا ریکارڈ دیکھا کر تصحیح کروالیں۔

لیکن بشیر بھائی تو بشیر بھائی تھے انہوں نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ جھاڑ دیے کہ بھائی میں ان بکھیڑوں کو نہ سمجھتا ہوں نہ ہی ان کا کچھ کرسکتا ہوں یہ کام آپ جیسے پڑھے لکھے آدمیوں کا ہے۔

فراز نے حامی تو بھرلی لیکن وہ یہ سوچنے لگا کہ آخر مسئلہ ہے کیا؟ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ کراچی کے کچھ علاقے لوڈشیڈنگ سے مستثنٰی قرار پاچکے ہیں کیوں کہ صارفین نے ایمانداری سے پورا بل جمع کروانا شروع کردیا ہے اور اب 'کے الیکٹرک' چونکہ نجی شعبے کا حصہ ہے اس لیے انھیں بھی صرف پیسے اور منافع سے مطلب ہے یعنی بل پورا اور وقت پر دو اور بجلی حاصل کرو۔






یہ بات بھی خوش آئند تو ہے کہ بجلی کی ترسیل کا نظام پہلے سے زیادہ جدید خطوط پر استوار ہوچکا ہے۔ کسٹمر ڈیلنگ، ٹیکنیکل مراحل اور جدید میٹروں کی تنصیب جیسے اقدام بھی کافی حد تک تسلی بخش ہیں۔ لیکن ان علاقوں میں جہاں بجلی کی چوری اب بھی جاری ہے وہاں موجود ''محب کے الیکٹرک'' صارفین کا کیا قصور جو بروقت اور پورا بل دے رہے ہیں پھر بھی اُنھیں لوڈشیڈنگ کے جھٹکے برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ وہ بھی ایسے لوگوں کی وجہ سے جو سینہ ٹھوک کر کنڈا لگاتے ہیں اور مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی گرمیوں میں چار چار اے استعمال کرتے ہیں۔ نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے کہ لوڈ شیڈنگ اور اوسط بلنگ کا اضافی بوجھ پورے محلے کے کندھوں پر آپڑتا ہے۔

یہاں 'کے الیکٹرک' اور صارفین دونوں کو تحمل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ چند ماہ قبل حکام نے یہ کہا تھا کہ اپنے اپنے علاقوں میں موجود بجلی چوروں کی نشاندہی کیجئے اور ہمارا ساتھ دے کر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی طرف قدم بڑھائیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر اور اُس سے ملحق کچے گنجان آباد علاقوں میں ایسا ہوا بھی ہے ۔۔ کہ لوڈ شیڈنگ ڈھائی گھنٹے سے ایک گھنٹے پر آگئی ہے ۔۔









اب ضرورت اس بات کی ہے اپنے اپنے محلوں اور بیٹھکوں میں اس شعور کو عام کیا جائے کہ بجلی کی چوری کا نقصان صرف اور صرف صارفین کو ہوتا ہے ۔۔ اور یہ شعور کسی بھی ریلی یا احتجاج کے بغیر ممکن ہے ۔۔ بس ایک ارادہ اور ایک ٹھوس قدم ۔ ورنہ یہ مسئلہ تو ایسا ہی ہے کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا یعنی صارفین کہتے ہیں پہلے بجلی دو اور حکام کہتے ہیں پہلے بل دو۔

دونوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ مرغی پہلے آئی تھی نہ ہی انڈا بلکہ مرغا اور مرغی کا ایک جوڑا آیا تھا جنہوں نے مفاہمت کے ساتھ مل جل کر انڈے کو جنم دیا۔۔ بس مسئلے کے حل کا وہی انڈا کے الیکٹرک اور صارفین کو جننا پڑے گا ۔۔ تو پھر کیا کہتے ہیں آپ؟ ورنہ باتیں کرنے سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے نہ اب کچھ ہوگا۔

[poll id="344"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story