اللہ ہم پر رحم فرمائے

ملکی ترقی کے لیے اہم ترین کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا۔...

ترجیحات ذاتی ہوں تو ملک نہیں افراد ترقی کرتے ہیں اور ایک خاندان جو اقتدار میں آنے سے قبل ملک کے سو امیر ترین خاندانوں میں شامل نہ تھا30 سال بعد ملک کا چوتھا امیر ترین خاندان بن گیا جب کہ دوسرا23 سال میں سے گیارہ سال جیل میں گزارنے کے باوجود ملک کا دوسرا امیر ترین شہری ہے جو اقتدار میں آنے سے قبل ایک ہزار امیر افراد کی فہرست میں شامل نہ تھا۔

بعض وزراء جو 1985 سے پہلے تنگ و تاریک گھروں کے مکین تھے آج کروڑوں اربوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ وہ بیوروکریٹس جن کی سالانہ تنخواہ ایک کروڑ سے کم ہے ان کے ماہانہ گھریلو اخراجات اور بچوں کے تعلیمی اخراجات کئی کروڑ روپے ہیں۔ وہ پولیس افسر، تحصیلدار، پٹواری اور کلرک جن کی ماہانہ تنخواہ ہزاروں میں ہے۔

ان کے ماہانہ اخراجات لاکھوں میں ہیں اور طرز زندگی شاہانہ ہے۔ دوسری طرف ہر پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ ایک لاکھ دس ہزار قرض کا بوجھ سر پر لے کر دنیا میں آتا ہے۔ ملک پر بیرونی قرضوں کا حجم 19 ارب ڈالر کی حد کو چھو رہا ہے۔ اندرونی قرضہ اس سے سوا ہے۔ اگر ترجیح قومی مفاد ہو تو افراد نہیں اقوام ترقی کرتی ہیں جیسا کہ چین، جاپان، کوریا، انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، برازیل وغیرہ۔

جنوبی کوریا کے سفیر نے ایک تقریب میں انکشاف کیا کہ ہم نے پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو اپنا کر تیز رفتار ترقی کی منزل حاصل کی۔ واضح رہے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبو ں پر عمل کر کے ایک آمر ایوب خان نے منگلا اور تربیلا ڈیم، کراچی تا حیدر آباد سپر ہائی وے تعمیر کی۔ لاہور تا خانیوال الیکٹرک ٹرین چلائی۔ کراچی تا پشاور ریلوے ٹریک ڈبل کرنے کے منصوبہ کا آغاز ہوا۔ ماڈل اور پائلٹ تعلیمی ادارے اور اسپتال متعارف کرائے گئے۔ صنعت و تجارت کو فروغ دیا گیا مگر پھر یہ طویل المیعاد ترقیاتی منصوبے شخصی ویژن کا شکار ہو گئے اور ملکی ترقی کو بریک لگ گئی۔

1977کے بعد وجود میں آنے والی حکومتوں نے طویل المیعاد منصوبوں سے نجات حاصل کر کے فوری تکمیل پانے والے منصوبوں پر فوکس کر لیا۔ مقصد صاف اور واضح کہ اپنے نام کی افتتاحی تختی نصب کر کے کریڈٹ اور اپنا حصہ ہاتھ کے ہاتھ وصول کیا جا سکے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ 77کے بعد ملک میں کوئی بڑا قومی منصوبہ تعمیر نہ ہو سکا۔

ملکی ترقی کے لیے اہم ترین کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا۔ دیامیر بھاشا، داسو ڈیمز کے منصوبے مسلسل تعطل کا شکار ہیں۔ نندی پور منصوبہ کو تھپکیاں دے کر گہری نیند سلا دیا گیا۔

یہ تمام منصوبے طویل المیعاد ہیں اور ہمارے منصوبہ سازوں کی نگاہ ان کی ناک سے آگے نہیں جاتی۔ موٹر وے، میٹرو بس، انڈرپاسز، اوور ہیڈبرج اور سڑکوں، پلوں کو قومی منصوبہ قرار دینے والوں کو شائد ادراک ہی نہیں کہ ایسے منصوبے ان ممالک میں افادیت رکھتے ہیں۔ جہاں بنیادی انفراسٹرکچر قائم ہو۔


جس ملک میں کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہوں۔ تدریس کاروبار بن جائے، سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات تو کیا اساتذہ تک دستیاب نہ ہوں۔ اور اس اہم ترین شعبہ کا بجٹ میں حصہ رائی برابر یعنی ایک فیصد صرف 27.6 ارب روپے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش میں تعلیمی بجٹ کل بجٹ کا 4 فیصد، بھارت میں 3.80 فیصد جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح10 فیصد سے زائد ہے۔ سری لنکا میں شرح خواندگی سو اور تعلیمی بجٹ 7 فیصد کے قریب ہے۔

پاکستان میں کروڑوں شہری علاج معالجے کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اس اہم ترین شعبہ کا کل بجٹ میں حصہ چند چھلکے یعنی 64 ارب روپے ہے قریباً 2.30 فیصد۔

جمع تقسیم کریں تو سال بھر میں ایک شہری کو تعلیم کے لیے فی کس 153 اور صحت کے لیے 355 روپے مختص ہیں۔ جو ایک روز کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ تعلیم و صحت کے لیے مختص اس معمولی بجٹ میں افسروں کی عیاشی، ڈاکٹروں، اساتذہ اور عملہ و ملازمین کی تنخواہیں اور تعمیر و مرمت بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک میں علاج مکمل طور پر حکومت کی ذمے داری ہے۔ اکثر ترقی پذیر ممالک میں صحت کا بجٹ پانچ سے آٹھ فیصد ہے۔ مگر ہمارے منصوبہ سازوں کی ترجیحات میں تعلیم و صحت کے اہم ترین شعبے آخری نمبر پر ہیں۔

حکمران طبقہ اور منصوبہ سازوں کو توانائی بحران کی بھی فکر لاحق نہیں جس کی وجہ سے ملک 24 میں سے 12 گھنٹے تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ صنعت زوال پذیر ہے۔ معلوم نہیں ہمارے منصوبہ سازوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ تمام تر توجہ وقتی عارضی اور محدود افادیت کے حامل منصوبوں پر ہے۔ سڑکیں، پل، اوور ہیڈبرج، انڈر پاسز بناتے جاؤ، چند ماہ میں منصوبہ مکمل اور جیب گرم۔ چند سڑکوں پر اربوں روپے پھونکے جا رہے ہیں مگر لاہور کی رنگ روڈ 7سال سے نامکمل ہے۔

جرنیلی سڑک سے لاہور اور راولپنڈی میں فاصلہ 245 کلو میٹر تھا لیکن موٹروے سے یہ فاصلہ 105 کلو میٹر بڑھ گیا۔ مری سے مظفر آباد ہائی وے کی تعمیر کا کام کئی سال سے ٹھپ پڑا ہے لیکن منصوبہ سازوں نے اسلام آباد سے مظفر آباد تک 127 کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ گھڑ ڈالا، جس کی فزیبلٹی رپورٹ پر اب تک 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کے اخراجات آ چکے ہیں۔

انگریز حکومت جاتے وقت ریلوے کا جو اسٹرکچر ہمارے سپرد کر کے گئی تھی۔ ہم سے وہ نہیں سنبھالا جا رہا۔ ہزاروں کلو میٹر ریلوے ٹریک کو اکھاڑ کر اسکریپ میں بیچ ڈالا گیا، درجنوں روٹس پر ریل سروس بند کر دی گئی۔ اب بھی ہزاروں کلو میٹر ریلوے ٹریک فالتو پڑی زنگ آلود ہو رہی ہے۔ کئی ریلوے اسٹیشن بیکار پڑے ہیں۔ ریلوے کا مال بردار شعبہ وسیع ترین اور سب سے منافع بخش تھا جو ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

لاہور میں ایشیا کی سب سے بڑی لوکو موٹیو ورکشاپ تھی، جہلم، راولپنڈی، سکھر خانیوال میں سلیپر فیکٹریاں آج کھنڈر بن چکی ہیں۔ ریلوے ورکشاپس بند اور ٹریک ڈھالنے والی بھٹیاں سرد ہو چکی ہیں۔ پشاور سے کراچی تک ٹریک کا بیشتر حصہ خستہ ہو چکا جس پر تیز رفتار ٹرین چلانا ممکن نہیں، ریلوے کے اکثر پل بوسیدہ ہیں جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتے ہیں اور بڑا سانحہ ہو سکتا ہے، از کار رفتہ سگنل اور پھاٹک سسٹم کے باعث متعدد حادثات ہو چکے ہیں۔ دس سال قبل ٹوٹنے والا رانی پور پل آج بھی زیر تکمیل ہے۔

ابو الکلام آزاد نے کیا خو ب کہا تھا ''بیمار جسم کا دماغ لاغر ہوتا ہے۔ جسے علم سے توانا بنایا جا سکتا ہے'' مگر ہمارے حکمران شہریوں سے صحت و تعلیم کی سہولیات چھین کر پوری قوم کو مریض اور دماغ کمزور بنا رہے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے ملک پر معماروں اور ٹھیکیداروں کی حکمرانی ہو۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے، اور منصوبہ سازوں، حکمرانوں کو عقل دے۔
Load Next Story