ہمارے ا با جی ہمارے رول ماڈل
گاؤں میں بڑا سخت ڈسپلن نافذ تھا۔کسی غریب کے ساتھ ظلم کرنے والے کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے اپنے ہاتھوں ...
بہت سے بزرگوں اور جاننے والوں نے توجہ دلائی کہ جس شخصیت نے اپنے عمل سے تمہاری راہ ِحیات کو روشن کیا تمہاری کتاب اور تحریریں اس کے ذکر سے محروم کیوں ہیں؟
بڑی بہن نے تو سرزنش ہی کر دی کہ حلا ل و حرام کا گہرا تصور تینوں بھائیوں کے دل و دماغ میں کس نے واضح کیا ؟ کیریکٹر اور integrity کی فضیلت اور عظمت سے روشناس کرانے والی ہستی کا ذکر کیوں بھول گئے ؟ ابّاجی کے بارے میں کیوں نہیں لکھا جنہوں نے پانچوں بہن بھائیوں کو سب سے زیادہ متاثر اور Inspire کیا"۔کو تاہی کا احساس ہوا اور فیصلہ کیا کہ "جنگ " میں پہلا مضمون والدہ صاحبہ کے بارے میں تھا، اب دوسرے دور میں روزنامہ ''ایکسپریس'' میں پہلی تحریروالد صاحب کے بارے میں ہوگی۔
جنوری 1994 میں ابا جی کی وفات پر ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس سردار اقبال صاحب افسوس کے لیے گاؤں تشریف لائے ۔ توہمیں مخاطب کر کے کہنے لگے کہ '' صحیح اور غلط کے تصور کے بارے میں ہم نے پڑھا ہو تا ہے مگر اس تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے کوئی عملی نمونہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے، آپ خوش قسمت تھے کہ آپ نے اپنے والد صاحب کی صورت میں ایک نمونہ اور رول ماڈل دیکھ لیا۔''
کل گاؤں جا کر ان کی قبر پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سارے منظر یاد آنے لگے ۔ سخت گیر منتظم، مگر انصاف پر سختی سے قائم ! گاؤں کے لوگ(لاہور سے گریجوئیشن کے بعد گاؤں آگئے ) انھیں بڑے چوہدری صاحب کہتے تھے مگر وہ روایتی قسم کے چوہدری نہیں تھے مخالفت کے باوجود انھوں نے گاؤں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول بنوائے۔ نہ غلط رواج کو مانتے تھے نہ ہی بیہودہ روایات کے پابند ہوتے ۔ اپنے علاقے میں کینو کی کاشت کے Pioneer تھے۔
باغ کا پھل خریدنے کے لیے ٹھیکیدار دور دور سے آتے ایک سے ہاں کر دی تو اس کے بعد کسی نے دو گنی ، تگنی رقم دینے کی بھی کوشش کی تو اسے دھتکار دیا۔ قرآن مجید لے کر باغ میں چلے جاتے اور پورا پورا دن اُس پر غور و فکر کرنے میں گزار دیتے۔ علاقے کے پڑھے لکھے لوگ کہتے تھے کہ ''ہم سب پیدائشی مسلمان ہیں چوہدری محمد اسلم صاحب نے تفکرّ اور تدبر کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔''
گاؤں میں سب سے زیادہ زمین کے مالک اور مقتدر تھے مگر بے زمینوں ، غریبوں اور مسکینوں کو کبھی حقارت سے نہ دیکھتے ، انھیں عزت دیتے اور اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے جس پر دوسرے دیہاتوں کے چوہدری اعتراض کرتے کہ"کٹھوڑوالوں نے کمیوں (بے زمین کاشتکاروں) کا دماغ خراب کر دیا ہے۔" گاؤں کے غریب لوگ بھی اپنے "چوہدری جی" سے دلی محبت کرتے تھے۔
خالص دیسی خوراک اور جوانی میں سخت ورزش کے باعث والد صاحب بڑے مضبوط اور طاقتور جسم کے مالک تھے۔
گاؤں میں بڑا سخت ڈسپلن نافذ تھا۔کسی غریب کے ساتھ ظلم کرنے والے کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے اپنے ہاتھوں سے بھی سزا دیتے۔ انتہائی سنگین جرم کے مرتکب کو گاؤں سے نکال دیا جاتا ، ان کے رعب ،دبدبے اور ڈر کے باعث کے باعث کسی میں سرتابی کی مجال نہ تھی اور ہمارا گاؤں ہر قسم کے جرائم اور منشیات سے محفوظ تھا ۔ لوگ دور دراز سے پڑھنے کے لیے اپنی بچیاںکٹھوڑ بھیجتے کہ "چوہدری اسلم صاحب کے گاؤں میں بچیاں اپنے گھر کی طرح محفوظ ہیں"
ان کا رہن سہن سادہ تھا۔ پیسے اور دولت سے بالکل لگاؤ نہیں تھا ، بڑے سے بڑے دنیاوی نقصان پر پریشان نہ ہوتے ،ساری فصل تباہ ہو جاتی تو غم میں مبتلا نہ ہوتے اور بہت اچھی ہو جاتی توبھی کوئی اثر نہ لیتے۔ ہر حال میں خالق اور مالک کی مرضی پر راضی رہتے۔ میں سی ایس ایس کر کے اے ایس پی بنا تو لوگ مبارکباد دینے کے لیے آئے۔ چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے، لیٹے لیٹے ہی کہنے لگے ''محکمہ تو بدنام ہے اللہ تعالیٰ اِسے سیدھی راہ پر رکھے''
وعظ ا ور تقریر سے گریز کرتے۔تلقین سے نہیں اپنے عمل سے تربیت کرتے تھے۔ لوگوں کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ چوہدری محمد اسلم صاحب کے منہ سے جھوٹ تو درکنار مبالغہ آمیز بات تک نہیں نکل سکتی اور فیصلے میں ہمیشہ انصاف ہوتا ہے ، چاہے اپنی اولاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
لڑکپن میں ان کے بیٹوں نے گاؤں میں کسی لڑکے کو مارا۔تحقیق پر بیٹوں کی زیادتی ثابت ہو گئی تو بیٹوں پر انصاف کرنے والے باپ کے مضبوط ہاتھ کوڑوں کی طرح اس طرح برسے کہ ان کی چیخیں نکل گئیں اور بات یہیں ختم نہیں کی انھیں تھانے بھی بھجوایا، دوسرے فریق کی مداخلت سے ہی بیٹوں کو معافی مل سکی۔
ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں خاندانی دباؤ کے باوجود یہ کہہ کر مادر ِ ملت کاکھُل کر ساتھ دیا کہ ایک طرف بانی پاکستان کی بہن ہوں تو دوسری طرف جانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
دانشوروں سے سن رکھا تھا کہ گھر سب سے بڑی تربیت گاہ ہو تی ہے میں اس''اکیڈیمی'' میں ہونے والی ٹریننگ کو خود کئی برس آزماتا اور برتتا رہا، دلوں میں اترتے ہوئے ''لیکچرز'' کے اوقات مختلف ہوتے کبھی کھانے کے بعد،کبھی سونے سے پہلے اور کبھی دن میں کسی بھی وقت ، جب والد صاحب زمینوں پر ساتھ لے جاتے اور پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے کوئی چیز سمجھاتے، بات مختصر مگر دلیل سے اور انتہائی دلپذیر انداز میں کرتے کہ سننے والے کے دل میں اتر جاتی۔پہاڑوں کی طرح مضبوط حوصلہ تھا۔ ہر صدمے کو حوصلے سے برداشت کیا مگر سقوطِ مشرقی پاکستان پر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور زار و قطار روتے رہے۔
ان کی عملی زندگی کا کینوس محدود تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے شخصی اوصاف سے نوازا تھا جو آج نہ مقتدر حلقوں میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی صاحبانِ منبر و محراب میں ۔ہر حال میں رزق ِحلال اس پر پختہ ایمان تھا اور اسی عقیدے کو انھوں نے اولاد میں بھی منتقل کیا۔
ان کی شخصیت کے جو دوسرے پہلو بہت زیادہ inspire کرتے ان میں ان کی لازوال سچائی ،خالص سفید چاندنی کی طرح اُجلا کردار اور بے داغ دل جو حسد سے پاک، غیبت سے مبّراجس میں کسی کی برائی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، تحصیل کے باکردار لوگ اپنے برملا کہتے تھے کہ انصاف، اصول اور اعلیٰ کردار کی چلتی پھرتی تصویر دیکھنی ہے تو کٹھوڑ جا کر دیکھ لو۔ والد صاحب کے اوصاف اپنانے میں بھائی ڈاکٹر نثار احمد سب سے بازی لے گئے ہیں۔
ایک بار باجی نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ اگر ابّا جی کو پتہ چلے کہ ان کے کسی بیٹے نے رشوت لی ہے تو کیا کریں گے ؟ جواب ملا کہ ''سخت ترین سزا دیں گے نا قابلِ تصّور اور گھر سے بھی نکال دینگے ''یقینا ایسا ہی ہوتا۔
والدہ صاحبہ کی بہت عزت کرتے۔ گھر کے معاملات میں انھی کی رائے کو تسلیم کیاجاتا۔ ایک اختلافِ رائے یاد آتا ہے۔ ہم بہت چھوٹے تھے جب والدہ صاحبہ کھڑکیوں کے پردے لگوانے لگیں تو اعتراض کیا کہ''بستی میں انسانوں کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے میسّر نہ ہوں اور ہم دیواروں کو کپڑے پہنا دیں ۔ مالک کو اس کا کیا جواب دیں گے؟"
ڈسٹرکٹ کونسل کا الیکشن بڑا اہم سمجھا جا تا تھا۔ ضلع گوجرانوالہ میں دو بڑے متحارب سیاسی گروپ تھے ایک کے قائد سابق اسپیکر محمد انور بھنڈر صاحب اور دوسرے کے سربراہ حامد ناصر چٹھہ صاحب کے والد صلاح الدین چٹھہ مرحوم تھے۔ یونین کونسل کے چئیر مینوں نے ڈسٹرکٹ کونسل کے دس ممبر منتخب کرنے تھے۔
والد صاحب یونین کونسل کے چئیرمین تھے، اس لیے ان سے ووٹ مانگنے کے لیے بھنڈر صاحب ہمارے گاؤں آئے وہ ایک شریف اور پڑھے لکھے آدمی تھے والد صاحب نے انھیں ووٹ دینے کی حامی بھر لی ، بعد میں چٹھہ گروپ کی میٹنگ لاہور میں ہوئی اس گروپ نے اپنے پینل میں ہمارے بڑے بھائی افتخار احمد چیمہ صاحب (جو ابھی ایل ایل بی کر کے فارغ ہوئے تھے) کو بھی شامل کیا تھا۔ جب چٹھہ گروپ کے زعما بھائی صاحب کو لے کر ابّا جی کے پاس ووٹ مانگنے آئے تو انھوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ ''میں انور بھنڈر صاحب کے ساتھ ہاں کرچکا ہوں'' ۔
کئی رشتے داروں نے آکر والد صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ "آپ کے ووٹ سے بیٹے کاسیاسی کیرئیر بن جائیگا، ایک ووٹ نے فیصلہ کرنا ہے (دونوں طرف برابر ووٹ تھے والد صاحب کا ووٹ فیصلہ کن تھا) آپ ووٹ نہ دیکر بیٹے کا کیرئیر تباہ کر دیں گے اور اس طرح بڑی زیادتی ہوگی"۔ والد صاحب کہتے تھے کہ" بھائی! میرے منہ سے جس کے لیے ہاں نکلی ہے اسی کو ووٹ دونگا بیٹے کا سیاسی کیرئیر بنتا ہے یا خراب ہوتا ہے اس سے غرض نہیں "۔
اور پھر لوگوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ اپنی بات اور اصول کے پاس کی خاطرباپ نے بیٹے کے خلاف ووٹ دے دیا۔ بیٹا ہار گیا مگر عظیم باپ نے اپنے اصولوں کو شکست نہیں ہونے دی۔ بھائی صاحب چندروز ناراض بھی رہے مگر بعد میں ہمیشہ سر اٹھا کر ذکر کرتے رہے کہ ''مجھے فخر ہے کہ میں ایسی با اصول اوراعلیٰ کردارشخصیّت کا بیٹا ہوں'' ۔
بہت سے سیاسی لیڈر یہ حیران کُن واقع مختلف محفلوں میں سناتے ہیں مگر والد صاحب نے خودکبھی اس کا ذکر تک نہیں کیا اگر کوئی شخص ان کی منصف مزاجی اور اصول پسندی کا ذکر کرتا تو ناراض ہوتے اور منع کر دیتے۔
کبھی ان کے منہ سے اپنی اصول پسندی کا ذکر یا ''میں'' کا لفظ نہیں سنا ۔ بلا شبہ ہمیں صحیح اور غلط حلال و حرام میں تمیز ابّا جی نے ہی سکھائی کچھ باتوں سے اور زیادہ اپنے عمل سے !! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی پاکیزہ روح پر رحمتیں نازل فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں۔
بڑی بہن نے تو سرزنش ہی کر دی کہ حلا ل و حرام کا گہرا تصور تینوں بھائیوں کے دل و دماغ میں کس نے واضح کیا ؟ کیریکٹر اور integrity کی فضیلت اور عظمت سے روشناس کرانے والی ہستی کا ذکر کیوں بھول گئے ؟ ابّاجی کے بارے میں کیوں نہیں لکھا جنہوں نے پانچوں بہن بھائیوں کو سب سے زیادہ متاثر اور Inspire کیا"۔کو تاہی کا احساس ہوا اور فیصلہ کیا کہ "جنگ " میں پہلا مضمون والدہ صاحبہ کے بارے میں تھا، اب دوسرے دور میں روزنامہ ''ایکسپریس'' میں پہلی تحریروالد صاحب کے بارے میں ہوگی۔
جنوری 1994 میں ابا جی کی وفات پر ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس سردار اقبال صاحب افسوس کے لیے گاؤں تشریف لائے ۔ توہمیں مخاطب کر کے کہنے لگے کہ '' صحیح اور غلط کے تصور کے بارے میں ہم نے پڑھا ہو تا ہے مگر اس تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے کوئی عملی نمونہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے، آپ خوش قسمت تھے کہ آپ نے اپنے والد صاحب کی صورت میں ایک نمونہ اور رول ماڈل دیکھ لیا۔''
کل گاؤں جا کر ان کی قبر پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سارے منظر یاد آنے لگے ۔ سخت گیر منتظم، مگر انصاف پر سختی سے قائم ! گاؤں کے لوگ(لاہور سے گریجوئیشن کے بعد گاؤں آگئے ) انھیں بڑے چوہدری صاحب کہتے تھے مگر وہ روایتی قسم کے چوہدری نہیں تھے مخالفت کے باوجود انھوں نے گاؤں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول بنوائے۔ نہ غلط رواج کو مانتے تھے نہ ہی بیہودہ روایات کے پابند ہوتے ۔ اپنے علاقے میں کینو کی کاشت کے Pioneer تھے۔
باغ کا پھل خریدنے کے لیے ٹھیکیدار دور دور سے آتے ایک سے ہاں کر دی تو اس کے بعد کسی نے دو گنی ، تگنی رقم دینے کی بھی کوشش کی تو اسے دھتکار دیا۔ قرآن مجید لے کر باغ میں چلے جاتے اور پورا پورا دن اُس پر غور و فکر کرنے میں گزار دیتے۔ علاقے کے پڑھے لکھے لوگ کہتے تھے کہ ''ہم سب پیدائشی مسلمان ہیں چوہدری محمد اسلم صاحب نے تفکرّ اور تدبر کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔''
گاؤں میں سب سے زیادہ زمین کے مالک اور مقتدر تھے مگر بے زمینوں ، غریبوں اور مسکینوں کو کبھی حقارت سے نہ دیکھتے ، انھیں عزت دیتے اور اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے جس پر دوسرے دیہاتوں کے چوہدری اعتراض کرتے کہ"کٹھوڑوالوں نے کمیوں (بے زمین کاشتکاروں) کا دماغ خراب کر دیا ہے۔" گاؤں کے غریب لوگ بھی اپنے "چوہدری جی" سے دلی محبت کرتے تھے۔
خالص دیسی خوراک اور جوانی میں سخت ورزش کے باعث والد صاحب بڑے مضبوط اور طاقتور جسم کے مالک تھے۔
گاؤں میں بڑا سخت ڈسپلن نافذ تھا۔کسی غریب کے ساتھ ظلم کرنے والے کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے اپنے ہاتھوں سے بھی سزا دیتے۔ انتہائی سنگین جرم کے مرتکب کو گاؤں سے نکال دیا جاتا ، ان کے رعب ،دبدبے اور ڈر کے باعث کے باعث کسی میں سرتابی کی مجال نہ تھی اور ہمارا گاؤں ہر قسم کے جرائم اور منشیات سے محفوظ تھا ۔ لوگ دور دراز سے پڑھنے کے لیے اپنی بچیاںکٹھوڑ بھیجتے کہ "چوہدری اسلم صاحب کے گاؤں میں بچیاں اپنے گھر کی طرح محفوظ ہیں"
ان کا رہن سہن سادہ تھا۔ پیسے اور دولت سے بالکل لگاؤ نہیں تھا ، بڑے سے بڑے دنیاوی نقصان پر پریشان نہ ہوتے ،ساری فصل تباہ ہو جاتی تو غم میں مبتلا نہ ہوتے اور بہت اچھی ہو جاتی توبھی کوئی اثر نہ لیتے۔ ہر حال میں خالق اور مالک کی مرضی پر راضی رہتے۔ میں سی ایس ایس کر کے اے ایس پی بنا تو لوگ مبارکباد دینے کے لیے آئے۔ چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے، لیٹے لیٹے ہی کہنے لگے ''محکمہ تو بدنام ہے اللہ تعالیٰ اِسے سیدھی راہ پر رکھے''
وعظ ا ور تقریر سے گریز کرتے۔تلقین سے نہیں اپنے عمل سے تربیت کرتے تھے۔ لوگوں کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ چوہدری محمد اسلم صاحب کے منہ سے جھوٹ تو درکنار مبالغہ آمیز بات تک نہیں نکل سکتی اور فیصلے میں ہمیشہ انصاف ہوتا ہے ، چاہے اپنی اولاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
لڑکپن میں ان کے بیٹوں نے گاؤں میں کسی لڑکے کو مارا۔تحقیق پر بیٹوں کی زیادتی ثابت ہو گئی تو بیٹوں پر انصاف کرنے والے باپ کے مضبوط ہاتھ کوڑوں کی طرح اس طرح برسے کہ ان کی چیخیں نکل گئیں اور بات یہیں ختم نہیں کی انھیں تھانے بھی بھجوایا، دوسرے فریق کی مداخلت سے ہی بیٹوں کو معافی مل سکی۔
ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں خاندانی دباؤ کے باوجود یہ کہہ کر مادر ِ ملت کاکھُل کر ساتھ دیا کہ ایک طرف بانی پاکستان کی بہن ہوں تو دوسری طرف جانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
دانشوروں سے سن رکھا تھا کہ گھر سب سے بڑی تربیت گاہ ہو تی ہے میں اس''اکیڈیمی'' میں ہونے والی ٹریننگ کو خود کئی برس آزماتا اور برتتا رہا، دلوں میں اترتے ہوئے ''لیکچرز'' کے اوقات مختلف ہوتے کبھی کھانے کے بعد،کبھی سونے سے پہلے اور کبھی دن میں کسی بھی وقت ، جب والد صاحب زمینوں پر ساتھ لے جاتے اور پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے کوئی چیز سمجھاتے، بات مختصر مگر دلیل سے اور انتہائی دلپذیر انداز میں کرتے کہ سننے والے کے دل میں اتر جاتی۔پہاڑوں کی طرح مضبوط حوصلہ تھا۔ ہر صدمے کو حوصلے سے برداشت کیا مگر سقوطِ مشرقی پاکستان پر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور زار و قطار روتے رہے۔
ان کی عملی زندگی کا کینوس محدود تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے شخصی اوصاف سے نوازا تھا جو آج نہ مقتدر حلقوں میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی صاحبانِ منبر و محراب میں ۔ہر حال میں رزق ِحلال اس پر پختہ ایمان تھا اور اسی عقیدے کو انھوں نے اولاد میں بھی منتقل کیا۔
ان کی شخصیت کے جو دوسرے پہلو بہت زیادہ inspire کرتے ان میں ان کی لازوال سچائی ،خالص سفید چاندنی کی طرح اُجلا کردار اور بے داغ دل جو حسد سے پاک، غیبت سے مبّراجس میں کسی کی برائی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، تحصیل کے باکردار لوگ اپنے برملا کہتے تھے کہ انصاف، اصول اور اعلیٰ کردار کی چلتی پھرتی تصویر دیکھنی ہے تو کٹھوڑ جا کر دیکھ لو۔ والد صاحب کے اوصاف اپنانے میں بھائی ڈاکٹر نثار احمد سب سے بازی لے گئے ہیں۔
ایک بار باجی نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ اگر ابّا جی کو پتہ چلے کہ ان کے کسی بیٹے نے رشوت لی ہے تو کیا کریں گے ؟ جواب ملا کہ ''سخت ترین سزا دیں گے نا قابلِ تصّور اور گھر سے بھی نکال دینگے ''یقینا ایسا ہی ہوتا۔
والدہ صاحبہ کی بہت عزت کرتے۔ گھر کے معاملات میں انھی کی رائے کو تسلیم کیاجاتا۔ ایک اختلافِ رائے یاد آتا ہے۔ ہم بہت چھوٹے تھے جب والدہ صاحبہ کھڑکیوں کے پردے لگوانے لگیں تو اعتراض کیا کہ''بستی میں انسانوں کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے میسّر نہ ہوں اور ہم دیواروں کو کپڑے پہنا دیں ۔ مالک کو اس کا کیا جواب دیں گے؟"
ڈسٹرکٹ کونسل کا الیکشن بڑا اہم سمجھا جا تا تھا۔ ضلع گوجرانوالہ میں دو بڑے متحارب سیاسی گروپ تھے ایک کے قائد سابق اسپیکر محمد انور بھنڈر صاحب اور دوسرے کے سربراہ حامد ناصر چٹھہ صاحب کے والد صلاح الدین چٹھہ مرحوم تھے۔ یونین کونسل کے چئیر مینوں نے ڈسٹرکٹ کونسل کے دس ممبر منتخب کرنے تھے۔
والد صاحب یونین کونسل کے چئیرمین تھے، اس لیے ان سے ووٹ مانگنے کے لیے بھنڈر صاحب ہمارے گاؤں آئے وہ ایک شریف اور پڑھے لکھے آدمی تھے والد صاحب نے انھیں ووٹ دینے کی حامی بھر لی ، بعد میں چٹھہ گروپ کی میٹنگ لاہور میں ہوئی اس گروپ نے اپنے پینل میں ہمارے بڑے بھائی افتخار احمد چیمہ صاحب (جو ابھی ایل ایل بی کر کے فارغ ہوئے تھے) کو بھی شامل کیا تھا۔ جب چٹھہ گروپ کے زعما بھائی صاحب کو لے کر ابّا جی کے پاس ووٹ مانگنے آئے تو انھوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ ''میں انور بھنڈر صاحب کے ساتھ ہاں کرچکا ہوں'' ۔
کئی رشتے داروں نے آکر والد صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ "آپ کے ووٹ سے بیٹے کاسیاسی کیرئیر بن جائیگا، ایک ووٹ نے فیصلہ کرنا ہے (دونوں طرف برابر ووٹ تھے والد صاحب کا ووٹ فیصلہ کن تھا) آپ ووٹ نہ دیکر بیٹے کا کیرئیر تباہ کر دیں گے اور اس طرح بڑی زیادتی ہوگی"۔ والد صاحب کہتے تھے کہ" بھائی! میرے منہ سے جس کے لیے ہاں نکلی ہے اسی کو ووٹ دونگا بیٹے کا سیاسی کیرئیر بنتا ہے یا خراب ہوتا ہے اس سے غرض نہیں "۔
اور پھر لوگوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ اپنی بات اور اصول کے پاس کی خاطرباپ نے بیٹے کے خلاف ووٹ دے دیا۔ بیٹا ہار گیا مگر عظیم باپ نے اپنے اصولوں کو شکست نہیں ہونے دی۔ بھائی صاحب چندروز ناراض بھی رہے مگر بعد میں ہمیشہ سر اٹھا کر ذکر کرتے رہے کہ ''مجھے فخر ہے کہ میں ایسی با اصول اوراعلیٰ کردارشخصیّت کا بیٹا ہوں'' ۔
بہت سے سیاسی لیڈر یہ حیران کُن واقع مختلف محفلوں میں سناتے ہیں مگر والد صاحب نے خودکبھی اس کا ذکر تک نہیں کیا اگر کوئی شخص ان کی منصف مزاجی اور اصول پسندی کا ذکر کرتا تو ناراض ہوتے اور منع کر دیتے۔
کبھی ان کے منہ سے اپنی اصول پسندی کا ذکر یا ''میں'' کا لفظ نہیں سنا ۔ بلا شبہ ہمیں صحیح اور غلط حلال و حرام میں تمیز ابّا جی نے ہی سکھائی کچھ باتوں سے اور زیادہ اپنے عمل سے !! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی پاکیزہ روح پر رحمتیں نازل فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں۔