ضمنی انتخاب حلقہ NA246
عام ووٹرز کو بھی اپنی پسندیدہ پارٹی یا امیدوار کے مقابل کسی بھی جماعت یا اس کے امیدوار میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی...
متحدہ کے مستعفی ہونیوالے ممبر قومی اسمبلی نبیل گبول کی خالی نشست NA-246 پر 23 اپریل کو ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس انتخابی حلقے سے متحدہ کے کنور نوید جمیل، پی ٹی آئی کے عمران اسمٰعیل، جماعت اسلامی کے راشد نسیم، پاسبان کے معظم علی اور سابقہ طالب علم رہنما محفوظ یار خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
انتخابات سیاستدانوں کی مرغوب ترین ڈش ہے تو عام لوگوں کے لیے بھی ہلہ گلہ اور تفریح کا ذریعہ۔ انتخابی عمل میں سب سے زیادہ سرگرداں اور منہمک سیاسی جماعتوں کے کارکنان ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار کسی بھی قیمت پر انتخابات جیتنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لیے دوستوں کو دشمن بنانا پڑے یا دشمنوں سے ہاتھ ملانا پڑے۔
سیاسی کارکنان کو سب سے اچھی اپنی پارٹی یا امیدوار نظر آتا ہے اس کے علاوہ وہ تمام کو نکمے اور نااہل سمجھتے ہیں جن کے لیے وہ نہ صرف اپنا وقت اور توانائیاں خرچ کر ڈالتے ہیں مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات جان دینے اور جان لینے تک سے نہیں چوکتے ہیں۔
عام ووٹرز کو بھی اپنی پسندیدہ پارٹی یا امیدوار کے مقابل کسی بھی جماعت یا اس کے امیدوار میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی نہ وہ اس کے برعکس کچھ سننا گوارا کرتا ہے وہ ووٹ کو لیاقت، کردار، معیار یا منشور سے ہٹ کر سیاسی، لسانی، مذہبی اور علاقائی سوچ و دیگر ترجیحات کی بنیاد پر سیاستدانوں کی گھن گرج دار، مبالغہ آمیز تقریروں اور دعوؤں کی بنیاد پر دیتا ہے۔
بعض کا شعور تو اس سطح کا ہوتا ہے کہ جو ان کو ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے ساتھ لے جائے اسی امیدوار کو ووٹ دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں بعض چاہتے ہوئے بھی کسی اہل و دیانتدار امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا جواز یہ پیش کرتے ہیں اگر وہ مطلوبہ امیدوار کو ووٹ دے دیتے تو ان کا ووٹ ضایع ہو جاتا ۔
لہٰذا انھوں نے جیتنے والے امیدوار کو ووٹ دیکر اپنا ووٹ ضایع ہونے سے بچا لیا ہے اکثر اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ دو مضبوط امیدواروں میں مقابلے کی صورت حال میں تعلیم یافتہ اور اچھا شعور رکھنے والے افراد بھی اپنے مطلوبہ اہل امیدوار کے بجائے کسی دوسرے ناپسندیدہ امیدوار کو محض اس لیے ووٹ ڈال دیتے ہیں کہ جیتنا تو ان دونوں میں سے کسی ایک نے ہی ہے بعض بد دل، لاتعلق، لاپرواہ اور Opinion Less افراد ووٹ کا اختیار استعمال ہی نہیں کرتے جن کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اس قسم کے رویوں اور سوچ کی وجہ سے صحیح سیاسی نتائج سامنے نہیں آتے اور بہت سے اہل و دیانتدار امیدوار اپنی سابقہ حیثیت و ساکھ خراب ہو جانے کے خوف سے انتخابی عمل میں شرکت سے اجتناب برتتے ہیں جس کے سیاسی عمل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں حالانکہ ووٹ ایک قومی ہی نہیں مذہبی امانت بھی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ ''اپنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو'' یا یہ کہ ''تمہاری دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔''
ووٹ بھی ایک گواہی ہے جس کے لیے حکم ہے کہ گواہی تم پر فرض ہے۔ لیکن انتخابات کے موقعے پر ہم مذہب، اخلاق، عقل، اصول، ضمیر کو پس پشت ڈال کر اپنے ووٹ کا اختیار استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے خود بے اختیار، بے عمل اور بے سمت ہوتے جا رہے ہیں۔ NA-246 کے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں الیکشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو طلب کر کے ایک انتخابی ضابطہ اخلاق تیار کیا تھا جس پر تمام جماعتوں نے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔
اس ضابطہ اخلاق کے تحت تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے عہد کیا تھا کہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کوئی ریلی یا جلسہ منعقد نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی جماعتیں یا امیدوار ذاتیات پر مبنی تقاریر نہیں کریں گے، ووٹروں کو ڈرایا دھمکایا نہیں جائے گا، جلسوں کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہو گی، چندہ و عطیات وغیرہ پر پابندی ہو گی، جہاں ایک جماعت جلسہ کرے گی وہاں دوسرا امیدوار جلسہ یا ریلی منعقد نہیں کرے گا اور تمام جماعتیں انتخابی قوانین کی پابندی کریں گی۔ اجلاس میں شریک PTI کے امیدوار عمران اسمٰعیل نے مطالبہ کیا تھا کہ پولنگ فوج کی نگرانی میں کرائی جائے جب کہ محفوظ یار خان نے تجویز پیش کی تھی کہ پولنگ اسٹیشنز پر CCTV کیمرے نصب کیے جائیں۔
لیکن اس ضابطہ اخلاق کے چند گھنٹے بعد ہی پی ٹی آئی اور متحدہ کے کارکن آمنے سامنے آ گئے لڑائی بھڑائی ہوئی پی ٹی آئی کا کیمپ اکھاڑ دیا گیا کارکنوں کے درمیان شدید نعرے بازی اور اشتعال دیکھنے میں آیا۔ متحدہ کی مرکزی قیادت نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دوبارہ کیمپ لگانے کی کوشش اور پیشکش کی کہ کل متحدہ کی مرکزی قیادت اظہار یکجہتی کے لیے خود پی ٹی آئی کے انتخابی کیمپ میں بیٹھے گی لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے اس واقعے کو متحدہ کی منصوبہ بندی قرار دیتے ہوئے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کیمپ بند کرنے کا اعلان کر دیا اس سے قبل 31 مارچ کو بھی پی ٹی آئی کے امیدوار جناح گراؤنڈ پہنچے تھے ۔
جہاں انھوں نے کرکٹ کھیل کر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا باالفاظ دیگر اپنے آپ کو حلقے کے لوگوں سے متعارف کرانے کی کوشش کی تھی وہاں متحدہ کے کارکنان اور علاقے کے لوگ جمع ہو گئے تھے۔ دونوں پارٹیوں کے کارکنان اور ہمدردوں میں جھڑپ ہوئی جس میں PTI کے امیدوار کے قافلے میں شامل گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے گئے تھے گزشتہ چار دنوں کے اندر دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف 4 عدد ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہیں اس واقعے کے بعد گورنر ہاؤس میں فریقین میں صلح صفائی کرا دی گئی تھی اور انھوں نے ضابطہ اخلاق پر پابندی کا عہد بھی کیا تھا۔
کسی زمانے میں کراچی پر جماعت اسلامی کا سیاسی و سماجی غلبہ ہوا کرتا تھا دیگر جماعتیں اور سیاسی و سماجی شخصیات بھی اپنا اپنا حلقہ اثر رکھتی تھیں آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوا کرتے تھے لیکن پچھلے تین عشروں سے اس شہر کی سیاست میں متحدہ کے علاوہ کچھ نشستوں تک پی پی اور اے این پی کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ پی ٹی آئی جو پورے ملک کی جماعت ہونے کا عزم اور دعویٰ کرتی ہے سندھ میں اپنا سیاسی وجود منوانے کے لیے کراچی کی سیاست میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور اس نے NA-246 میں حصہ لے کر اپنی ساکھ اور وقار کے لیے ایک چیلنج قبول کر لیا ہے۔
دوسری جانب یہ نشست متحدہ کے امیدوار کی خالی کردہ ہے نشست ہے جس پر وہ طویل عرصے سے کامیاب ہوتی چلی آ رہی ہے اس حلقے میں متحدہ کے قائد کا گھر اور ہیڈ کوارٹر 90 ہے ایم پی اے ہاسٹل اور سیکریٹریٹ وغیرہ ہیں اس سے متصل جناح گراؤنڈ متحدہ کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا محور بلکہ آنگن کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں PTI نے 19 اپریل کو انتخابی جلسہ عام کا اعلان کر دیا ہے متحدہ کے لیے اس خالی نشست کو ہر حال میں واپس لینا اس کی ناگزیر سیاسی ضرورت اور ساکھ کا مسئلہ ہے۔ اس حلقے میں پی پی پی نے اپنا امیدوار کھڑا نہ کر کے خود کو متنازعہ اور شکست خوردہ ہونے سے بھی بچا کر متحدہ اور پی ٹی آئی کے درمیان ون ٹو ون مقابلے کی فضا قائم کر دی ہے۔
گو کہ اس علاقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم بھی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور ایک زمانے میں یہاں جماعت اسلامی کا گہرا حلقہ اثر بھی ہوا کرتا تھا۔ جماعت اسلامی اپنے منظم انداز میں کام کرتی ہے۔ یہی وتیرہ متحدہ نے بھی اپنایا ہوا ہے لیکن PTI میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ جماعت کے امیدوار نے عوام سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں مرکزی الیکشن آفس کے علاوہ 20 سے 25 الیکشن آفس اور مختلف کمیٹیاں بنا کر انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔
متحدہ نے 90 پر مرکزی الیکشن آفس کے علاوہ 30 سے زائد دفاتر قائم کر دیے ہیں اس کی خواتین نے گھر گھر رابطے شروع کر دیے ہیں جلد کارنر میٹنگز کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جب کہ اس کے برعکس PTI کی انتخابی مہم ہنگامی و حادثاتی نوعیت کی نظر آتی ہے جس کے لیے نہ سیاسی ہوم ورک کیا گیا ہے۔ پچھلے قومی الیکشن میں PTI کو کراچی کی بہت سی نشستوں سے کسی انتخابی مہم کے بغیر حیران کن طور پر اچھے خاصے ووٹ ملے تھے جو دوسری جماعتوں کی مخالفت یا PTI سے توقعات کی بنا پر ڈالے گئے تھے PTI عوامی رابطہ مہم کے ذریعے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کر سکتی ہے وہ اگر اس میں ناکام رہتی ہے تو اس کا سابقہ ووٹ بینک بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
کراچی کی موجودہ صورتحال اور جاری آپریشن نے اس انتخاب کو مزید اہم کر دیا ہے ذرا سی غفلت و لاپرواہی شہر بلکہ صوبے اور ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے کراچی کی سیاست اور معیشت مزید کسی تشدد اور عدم استحکام کی متحمل نہیں ہو سکتی یہ بات کراچی کی دعویدار سیاسی جماعتوں اور یہاں کے ووٹرز کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔
انتخابات سیاستدانوں کی مرغوب ترین ڈش ہے تو عام لوگوں کے لیے بھی ہلہ گلہ اور تفریح کا ذریعہ۔ انتخابی عمل میں سب سے زیادہ سرگرداں اور منہمک سیاسی جماعتوں کے کارکنان ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار کسی بھی قیمت پر انتخابات جیتنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لیے دوستوں کو دشمن بنانا پڑے یا دشمنوں سے ہاتھ ملانا پڑے۔
سیاسی کارکنان کو سب سے اچھی اپنی پارٹی یا امیدوار نظر آتا ہے اس کے علاوہ وہ تمام کو نکمے اور نااہل سمجھتے ہیں جن کے لیے وہ نہ صرف اپنا وقت اور توانائیاں خرچ کر ڈالتے ہیں مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات جان دینے اور جان لینے تک سے نہیں چوکتے ہیں۔
عام ووٹرز کو بھی اپنی پسندیدہ پارٹی یا امیدوار کے مقابل کسی بھی جماعت یا اس کے امیدوار میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی نہ وہ اس کے برعکس کچھ سننا گوارا کرتا ہے وہ ووٹ کو لیاقت، کردار، معیار یا منشور سے ہٹ کر سیاسی، لسانی، مذہبی اور علاقائی سوچ و دیگر ترجیحات کی بنیاد پر سیاستدانوں کی گھن گرج دار، مبالغہ آمیز تقریروں اور دعوؤں کی بنیاد پر دیتا ہے۔
بعض کا شعور تو اس سطح کا ہوتا ہے کہ جو ان کو ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے ساتھ لے جائے اسی امیدوار کو ووٹ دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں بعض چاہتے ہوئے بھی کسی اہل و دیانتدار امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا جواز یہ پیش کرتے ہیں اگر وہ مطلوبہ امیدوار کو ووٹ دے دیتے تو ان کا ووٹ ضایع ہو جاتا ۔
لہٰذا انھوں نے جیتنے والے امیدوار کو ووٹ دیکر اپنا ووٹ ضایع ہونے سے بچا لیا ہے اکثر اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ دو مضبوط امیدواروں میں مقابلے کی صورت حال میں تعلیم یافتہ اور اچھا شعور رکھنے والے افراد بھی اپنے مطلوبہ اہل امیدوار کے بجائے کسی دوسرے ناپسندیدہ امیدوار کو محض اس لیے ووٹ ڈال دیتے ہیں کہ جیتنا تو ان دونوں میں سے کسی ایک نے ہی ہے بعض بد دل، لاتعلق، لاپرواہ اور Opinion Less افراد ووٹ کا اختیار استعمال ہی نہیں کرتے جن کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اس قسم کے رویوں اور سوچ کی وجہ سے صحیح سیاسی نتائج سامنے نہیں آتے اور بہت سے اہل و دیانتدار امیدوار اپنی سابقہ حیثیت و ساکھ خراب ہو جانے کے خوف سے انتخابی عمل میں شرکت سے اجتناب برتتے ہیں جس کے سیاسی عمل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں حالانکہ ووٹ ایک قومی ہی نہیں مذہبی امانت بھی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ ''اپنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو'' یا یہ کہ ''تمہاری دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔''
ووٹ بھی ایک گواہی ہے جس کے لیے حکم ہے کہ گواہی تم پر فرض ہے۔ لیکن انتخابات کے موقعے پر ہم مذہب، اخلاق، عقل، اصول، ضمیر کو پس پشت ڈال کر اپنے ووٹ کا اختیار استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے خود بے اختیار، بے عمل اور بے سمت ہوتے جا رہے ہیں۔ NA-246 کے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں الیکشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو طلب کر کے ایک انتخابی ضابطہ اخلاق تیار کیا تھا جس پر تمام جماعتوں نے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔
اس ضابطہ اخلاق کے تحت تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے عہد کیا تھا کہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کوئی ریلی یا جلسہ منعقد نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی جماعتیں یا امیدوار ذاتیات پر مبنی تقاریر نہیں کریں گے، ووٹروں کو ڈرایا دھمکایا نہیں جائے گا، جلسوں کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہو گی، چندہ و عطیات وغیرہ پر پابندی ہو گی، جہاں ایک جماعت جلسہ کرے گی وہاں دوسرا امیدوار جلسہ یا ریلی منعقد نہیں کرے گا اور تمام جماعتیں انتخابی قوانین کی پابندی کریں گی۔ اجلاس میں شریک PTI کے امیدوار عمران اسمٰعیل نے مطالبہ کیا تھا کہ پولنگ فوج کی نگرانی میں کرائی جائے جب کہ محفوظ یار خان نے تجویز پیش کی تھی کہ پولنگ اسٹیشنز پر CCTV کیمرے نصب کیے جائیں۔
لیکن اس ضابطہ اخلاق کے چند گھنٹے بعد ہی پی ٹی آئی اور متحدہ کے کارکن آمنے سامنے آ گئے لڑائی بھڑائی ہوئی پی ٹی آئی کا کیمپ اکھاڑ دیا گیا کارکنوں کے درمیان شدید نعرے بازی اور اشتعال دیکھنے میں آیا۔ متحدہ کی مرکزی قیادت نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دوبارہ کیمپ لگانے کی کوشش اور پیشکش کی کہ کل متحدہ کی مرکزی قیادت اظہار یکجہتی کے لیے خود پی ٹی آئی کے انتخابی کیمپ میں بیٹھے گی لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے اس واقعے کو متحدہ کی منصوبہ بندی قرار دیتے ہوئے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کیمپ بند کرنے کا اعلان کر دیا اس سے قبل 31 مارچ کو بھی پی ٹی آئی کے امیدوار جناح گراؤنڈ پہنچے تھے ۔
جہاں انھوں نے کرکٹ کھیل کر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا باالفاظ دیگر اپنے آپ کو حلقے کے لوگوں سے متعارف کرانے کی کوشش کی تھی وہاں متحدہ کے کارکنان اور علاقے کے لوگ جمع ہو گئے تھے۔ دونوں پارٹیوں کے کارکنان اور ہمدردوں میں جھڑپ ہوئی جس میں PTI کے امیدوار کے قافلے میں شامل گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے گئے تھے گزشتہ چار دنوں کے اندر دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف 4 عدد ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہیں اس واقعے کے بعد گورنر ہاؤس میں فریقین میں صلح صفائی کرا دی گئی تھی اور انھوں نے ضابطہ اخلاق پر پابندی کا عہد بھی کیا تھا۔
کسی زمانے میں کراچی پر جماعت اسلامی کا سیاسی و سماجی غلبہ ہوا کرتا تھا دیگر جماعتیں اور سیاسی و سماجی شخصیات بھی اپنا اپنا حلقہ اثر رکھتی تھیں آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوا کرتے تھے لیکن پچھلے تین عشروں سے اس شہر کی سیاست میں متحدہ کے علاوہ کچھ نشستوں تک پی پی اور اے این پی کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ پی ٹی آئی جو پورے ملک کی جماعت ہونے کا عزم اور دعویٰ کرتی ہے سندھ میں اپنا سیاسی وجود منوانے کے لیے کراچی کی سیاست میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور اس نے NA-246 میں حصہ لے کر اپنی ساکھ اور وقار کے لیے ایک چیلنج قبول کر لیا ہے۔
دوسری جانب یہ نشست متحدہ کے امیدوار کی خالی کردہ ہے نشست ہے جس پر وہ طویل عرصے سے کامیاب ہوتی چلی آ رہی ہے اس حلقے میں متحدہ کے قائد کا گھر اور ہیڈ کوارٹر 90 ہے ایم پی اے ہاسٹل اور سیکریٹریٹ وغیرہ ہیں اس سے متصل جناح گراؤنڈ متحدہ کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا محور بلکہ آنگن کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں PTI نے 19 اپریل کو انتخابی جلسہ عام کا اعلان کر دیا ہے متحدہ کے لیے اس خالی نشست کو ہر حال میں واپس لینا اس کی ناگزیر سیاسی ضرورت اور ساکھ کا مسئلہ ہے۔ اس حلقے میں پی پی پی نے اپنا امیدوار کھڑا نہ کر کے خود کو متنازعہ اور شکست خوردہ ہونے سے بھی بچا کر متحدہ اور پی ٹی آئی کے درمیان ون ٹو ون مقابلے کی فضا قائم کر دی ہے۔
گو کہ اس علاقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم بھی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور ایک زمانے میں یہاں جماعت اسلامی کا گہرا حلقہ اثر بھی ہوا کرتا تھا۔ جماعت اسلامی اپنے منظم انداز میں کام کرتی ہے۔ یہی وتیرہ متحدہ نے بھی اپنایا ہوا ہے لیکن PTI میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ جماعت کے امیدوار نے عوام سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں مرکزی الیکشن آفس کے علاوہ 20 سے 25 الیکشن آفس اور مختلف کمیٹیاں بنا کر انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔
متحدہ نے 90 پر مرکزی الیکشن آفس کے علاوہ 30 سے زائد دفاتر قائم کر دیے ہیں اس کی خواتین نے گھر گھر رابطے شروع کر دیے ہیں جلد کارنر میٹنگز کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جب کہ اس کے برعکس PTI کی انتخابی مہم ہنگامی و حادثاتی نوعیت کی نظر آتی ہے جس کے لیے نہ سیاسی ہوم ورک کیا گیا ہے۔ پچھلے قومی الیکشن میں PTI کو کراچی کی بہت سی نشستوں سے کسی انتخابی مہم کے بغیر حیران کن طور پر اچھے خاصے ووٹ ملے تھے جو دوسری جماعتوں کی مخالفت یا PTI سے توقعات کی بنا پر ڈالے گئے تھے PTI عوامی رابطہ مہم کے ذریعے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کر سکتی ہے وہ اگر اس میں ناکام رہتی ہے تو اس کا سابقہ ووٹ بینک بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
کراچی کی موجودہ صورتحال اور جاری آپریشن نے اس انتخاب کو مزید اہم کر دیا ہے ذرا سی غفلت و لاپرواہی شہر بلکہ صوبے اور ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے کراچی کی سیاست اور معیشت مزید کسی تشدد اور عدم استحکام کی متحمل نہیں ہو سکتی یہ بات کراچی کی دعویدار سیاسی جماعتوں اور یہاں کے ووٹرز کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔