انتہا پسندی سامراج کی پیداوار
چیچنیا میں چیچن جانباز اور کوسوو میں کوسوو لیبریشن آرمی بھی امریکی سی آ ئی اے کی پیداوار ہیں...
KARACHI:
سامراج، سرمایہ داری کی انتہا ہے۔ جب بیسویں صدی میں دنیا بھر میں عالمی سرمایہ دا ری کے خلاف بغاوتیں اور انقلابات برپا ہو رہے تھے تو سامراج زیادہ خونخوار ہو گیا تھا۔ وہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں نہ صرف آپس میں گتھم گتھا ہوئے بلکہ کمیونسٹ، انارکسٹ اور سوشلسٹ انقلابات کو مزید روکنے کے لیے انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی تخلیق کی اور ان کو پالا پوسا۔ انڈونیشیا میں1962 میں سوئیکارنو کی انقلا بی حکومت کے خلاف امریکی سی آئی اے نے مذہبی انتہا پسند جماعت ندوۃ العلماء کی تخلیق کی اور فنڈنگ کی۔
بعد ازاں سامراجی ایجنٹ جنرل سوہارتو کی مدد سے15 لا کھ کمیونسٹوں، انقلابیوں، جنگ مخالف شہریوں، انارکسٹوں اور سوشلسٹوں کا قتل کیا۔ یہ آمر جنرل سوہارتو انڈونیشیا پر 30 سال قابض رہا۔ اسی طرح مصر میں انقلابی رہنما کرنل جمال عبدالناصرکی رہنمائی میں جب انقلاب برپا ہوا تو سرمایہ داری اورجاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا۔
تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی مفت فراہم کی گئیں۔ اس انقلاب سے متاثر ہو کر لیبیا، شام، عراق، الجزائر، تیونس وغیرہ میں بعث سوشلسٹ پارٹی تشکیل دی اور یہاں بھی انقلابات برپا ہوئے۔ ان انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا۔ عوام کو سہولتیں مہیا کی جانے لگیں۔ بنیادی اور بھاری صنعتوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ اس کے اثرات پورے عالم عرب، بادشاہتوں اور افریقا میں پھیلتے جا رہے تھے۔
جنوبی افریقا، نمیبیا، انگو لا، زمبابوے اور موزمبیق وغیرہ میں۔ امریکی سی آ ئی اے نے اخوان المسلمون نامی انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی تشکیل کی۔ افغانستان میں جب بائیں با زو کی سامراج مخالف حکومت قائم ہوئی تو امریکی سی آ ئی اے نے پا کستان کی سر زمین پہ حزب اسلا می سمیت13 افغان مذہبی انتہا پسند جماعتیں تشکیل دیں، جن کی تر بیت پاک افغان سرحدوں پہ دی جا رہی تھی۔ ان کو تربیت دینے والے انسٹرکٹرز کا تعلق ہالینڈ، برطانیہ، بلجیم، جرمنی، اسرائیل، فرانس، امریکا اور کینیڈا سے تھا۔
چیچنیا میں چیچن جانباز اور کوسوو میں کوسوو لیبریشن آرمی بھی امریکی سی آ ئی اے کی پیداوار ہیں۔ تھائی لینڈ اور فلپائن میں کمیونسٹ تحریک کو روکنے کے لیے یہاں بھی مذہبی انتہا پسند جماعتیں قائم کی گئیں۔ داعش، النصرۃ، بوکوحرام، جمعیت الدعوۃ اور انصار، یہ ساری جماعتیں القاعدہ کی پیداوار ہیں اور القاعدہ کو امریکی سی آئی اے نے تخلیق کیا۔ اب جب ان دہشت گرد جماعتوں نے اپنی منفی سرگرمیوں اور بم دھماکوں میں اضافہ کر لیا ہے تو ان کے اسلحے اور فنڈزکی ضرورتیں بڑھ گئی ہیں۔
اس لیے انھیں مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور دولت مند افراد سے فنڈنگ کی جاتی ہے اور انڈر ورلڈ سے اسلحہ بھی خریدنا ہوتا ہے اور اس اسلحے کا بیشتر حصہ بالواسطہ طور پر امریکا سے ہی خریدا جاتا ہے اور پھر اس اسلحے کو استعمال کرنے والے انسانی ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ یورپ اور امریکا میں شرح پیدائش کم ہو گئی ہے یا پھر رک گئی ہے جب کہ عالم عرب اور برصغیر میں بڑھتی جا رہی ہے، خاص کر افغانستان اور پا کستان میں، اس لیے کہ یہاں بے روزگا ری کی وجہ سے اسلحے پکڑنے وا لے ہاتھوں کا اضافہ ہو گیا ہے، امریکی اسلحے کی فروخت کے لیے میدان جنگ، مسلم دنیا کو منتخب کر لیا گیا ہے۔
دنیا کی10 بڑی اسلحہ سازکمپنیوں میں 7 کا تعلق امریکا سے ہے، اس لیے انھیں میدان جنگ چاہیے اور اسلحہ پکڑنے وا لے ہا تھ بھی۔ ایٹم بم رکھنے وا لے9 مما لک میں سے پاکستان چوتھے اور بھارت پانچویں نمبر پر ہے۔
ان کے پاس120 اور 110 کل ملا کر230 ایٹم بم ہیں جن کے ذریعے برصغیر کو23 بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر ان ڈھالوں کے دریافت سے امریکی سا مراج دنیا بھر کے محنت کشوں اور شہریوں کی سا مراج مخالف انقلا بی تحریکیں، غیر طبقا تی سماج کی تشکیل کی جدوجہد یا اسٹیٹ لیس سوسائٹی کے قیام کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ ملکوں کی سرحدوں کو توڑ تی جا رہی ہے۔ کیٹالونیہ، اسپین کے عوام نے خودکار ریفرنڈم کر کے80 فیصد ووٹ حاصل کیے، برکینا فاسو، افریقا میں انقلابی تحریک کے ذریعے آمرکو بھگا دیا، یونان میں دائیں بازو کو شکست ہوئی۔
یونان میں قا ئم ہو نے والی با ئیں بازوکی حکو مت نے اپنی تمام گا ڑیوں کو فروخت کر نے کا حکم صادر کیا ہے اورکہا ہے کہ اگر عوام بس میں سفر کر سکتے ہیں تو وزراء کیوں نہیں کر سکتے۔ ترکی میں کمیونسٹ تحریک زوروں پہ ہے، ملائشیا اور ہانگ کا نگ میں عوامی تحریکوں کا ابھار شروع ہو گیا ہے، دہلی میں بی جے پی کو شکست دیکر عام آدمی پار ٹی کامیاب ہوئی ہے۔ کریمیا، یوکرا ئن سے الگ ہو کر قومیانے کا عمل شروع کیا ہے اور مشرقی یوکرائن کے باغیوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
پہلی بار امریکا کے بغیر یورپیوں نے یورپ کا مسئلہ حل کیا ہے۔ ہندوستان میں اوباما کے آمد پرکمیو نسٹ پارٹی نے لا کھوں افراد کی ریلی نکالی۔ 2014 میں چین میں مزدوروں اورکسا نوں نے سوا لاکھ سے زیادہ مظاہرے کیے، لیبیا، تیونس میں عوامی تحریک جا ری ہے، کرد پیش قدمی کر رہے ہیں۔ فلپائن اور میانمار میں کمیونسٹ گوریلا آ زاد علا قے قائم کرتے جا رہے ہیں۔ لبنان، جنو بی افریقہ اور جرمنی میں کمیونسٹ تحریک میں اضافہ ہوا ہے۔ آ ئرلینڈ کی آ زادی کے ریفرنڈم میں شکست کے باوجود علیحدگی پسندوں نے خا صے ووٹ حاصل کیے۔ جنوبی امریکی ممالک ایکوا ڈور، نکارا گوئے، گوئٹے مالا، وینیزو یلا، بلوویا،کیوبا اور آرجینٹینا سمیت بیشتر ملکوں میں خود انحصاریت اور قومیانے کا عمل بڑھ رہا ہے۔
یہ نظام (سر ما یہ داری) اب چلائے نہیں چل پا رہا ہے۔ ایک جانب چولستان ( بہاولپور، رحیم یارخان اور بہا ولنگر) میں بارشیں نہ ہونے سے جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جانور کڑوا پا نی پینے سے سیکڑوں کی تعداد میں مر چکے ہیں اور خشک سالی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں جب کہ حکومت پنجاب نے عوام کے لیے پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام نہیں کیا اور نہ ہی نہروں کی بھل صفائی کروائی۔
ضلع تھرپارکر میں اب بھی روزانہ اوسطا تین بچے قحط کا شکار اور عدم علاج سے مر رہے ہیں جب کہ سندھ کے وزراء اور افسران لینڈکروزر، پراڈو، بی ایم ڈبلو سمیت دیگر قیمتی گا ڑیاں خرید رہے ہیں۔ پارلیمنٹیرینز کو325 گا ڑیاں جو کہ لا کھوں میں تھیں ایک ایک ہزار میں بیچی گئیں۔
دوسری جا نب اسی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا ہے کہ5 کروڑ رو پے کی بکتر بند گا ڑیاں17 کروڑ رو پے میں کیوں کر خریدی گئیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ ایک جا نب لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہیں، عدم علاج سے مر رہے ہیں تو دوسری جانب سا رے فنڈز اسلحے کی خر ید و فروخت میں جھونکے جا رہے ہیں، اسلحے کی بیشتر پیداوار امریکا، روس اور چین کرتا ہے۔ جب جنگیں، اسلحے، سرحدیں، ملکیتیں، سرمایہ داری، جاگیر دا ری اورذخیرہ اندوزی ختم ہو جائے گی، انسان جینے لگے گا۔
سامراج، سرمایہ داری کی انتہا ہے۔ جب بیسویں صدی میں دنیا بھر میں عالمی سرمایہ دا ری کے خلاف بغاوتیں اور انقلابات برپا ہو رہے تھے تو سامراج زیادہ خونخوار ہو گیا تھا۔ وہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں نہ صرف آپس میں گتھم گتھا ہوئے بلکہ کمیونسٹ، انارکسٹ اور سوشلسٹ انقلابات کو مزید روکنے کے لیے انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی تخلیق کی اور ان کو پالا پوسا۔ انڈونیشیا میں1962 میں سوئیکارنو کی انقلا بی حکومت کے خلاف امریکی سی آئی اے نے مذہبی انتہا پسند جماعت ندوۃ العلماء کی تخلیق کی اور فنڈنگ کی۔
بعد ازاں سامراجی ایجنٹ جنرل سوہارتو کی مدد سے15 لا کھ کمیونسٹوں، انقلابیوں، جنگ مخالف شہریوں، انارکسٹوں اور سوشلسٹوں کا قتل کیا۔ یہ آمر جنرل سوہارتو انڈونیشیا پر 30 سال قابض رہا۔ اسی طرح مصر میں انقلابی رہنما کرنل جمال عبدالناصرکی رہنمائی میں جب انقلاب برپا ہوا تو سرمایہ داری اورجاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا۔
تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی مفت فراہم کی گئیں۔ اس انقلاب سے متاثر ہو کر لیبیا، شام، عراق، الجزائر، تیونس وغیرہ میں بعث سوشلسٹ پارٹی تشکیل دی اور یہاں بھی انقلابات برپا ہوئے۔ ان انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا۔ عوام کو سہولتیں مہیا کی جانے لگیں۔ بنیادی اور بھاری صنعتوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ اس کے اثرات پورے عالم عرب، بادشاہتوں اور افریقا میں پھیلتے جا رہے تھے۔
جنوبی افریقا، نمیبیا، انگو لا، زمبابوے اور موزمبیق وغیرہ میں۔ امریکی سی آ ئی اے نے اخوان المسلمون نامی انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی تشکیل کی۔ افغانستان میں جب بائیں با زو کی سامراج مخالف حکومت قائم ہوئی تو امریکی سی آ ئی اے نے پا کستان کی سر زمین پہ حزب اسلا می سمیت13 افغان مذہبی انتہا پسند جماعتیں تشکیل دیں، جن کی تر بیت پاک افغان سرحدوں پہ دی جا رہی تھی۔ ان کو تربیت دینے والے انسٹرکٹرز کا تعلق ہالینڈ، برطانیہ، بلجیم، جرمنی، اسرائیل، فرانس، امریکا اور کینیڈا سے تھا۔
چیچنیا میں چیچن جانباز اور کوسوو میں کوسوو لیبریشن آرمی بھی امریکی سی آ ئی اے کی پیداوار ہیں۔ تھائی لینڈ اور فلپائن میں کمیونسٹ تحریک کو روکنے کے لیے یہاں بھی مذہبی انتہا پسند جماعتیں قائم کی گئیں۔ داعش، النصرۃ، بوکوحرام، جمعیت الدعوۃ اور انصار، یہ ساری جماعتیں القاعدہ کی پیداوار ہیں اور القاعدہ کو امریکی سی آئی اے نے تخلیق کیا۔ اب جب ان دہشت گرد جماعتوں نے اپنی منفی سرگرمیوں اور بم دھماکوں میں اضافہ کر لیا ہے تو ان کے اسلحے اور فنڈزکی ضرورتیں بڑھ گئی ہیں۔
اس لیے انھیں مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور دولت مند افراد سے فنڈنگ کی جاتی ہے اور انڈر ورلڈ سے اسلحہ بھی خریدنا ہوتا ہے اور اس اسلحے کا بیشتر حصہ بالواسطہ طور پر امریکا سے ہی خریدا جاتا ہے اور پھر اس اسلحے کو استعمال کرنے والے انسانی ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ یورپ اور امریکا میں شرح پیدائش کم ہو گئی ہے یا پھر رک گئی ہے جب کہ عالم عرب اور برصغیر میں بڑھتی جا رہی ہے، خاص کر افغانستان اور پا کستان میں، اس لیے کہ یہاں بے روزگا ری کی وجہ سے اسلحے پکڑنے وا لے ہاتھوں کا اضافہ ہو گیا ہے، امریکی اسلحے کی فروخت کے لیے میدان جنگ، مسلم دنیا کو منتخب کر لیا گیا ہے۔
دنیا کی10 بڑی اسلحہ سازکمپنیوں میں 7 کا تعلق امریکا سے ہے، اس لیے انھیں میدان جنگ چاہیے اور اسلحہ پکڑنے وا لے ہا تھ بھی۔ ایٹم بم رکھنے وا لے9 مما لک میں سے پاکستان چوتھے اور بھارت پانچویں نمبر پر ہے۔
ان کے پاس120 اور 110 کل ملا کر230 ایٹم بم ہیں جن کے ذریعے برصغیر کو23 بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر ان ڈھالوں کے دریافت سے امریکی سا مراج دنیا بھر کے محنت کشوں اور شہریوں کی سا مراج مخالف انقلا بی تحریکیں، غیر طبقا تی سماج کی تشکیل کی جدوجہد یا اسٹیٹ لیس سوسائٹی کے قیام کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ ملکوں کی سرحدوں کو توڑ تی جا رہی ہے۔ کیٹالونیہ، اسپین کے عوام نے خودکار ریفرنڈم کر کے80 فیصد ووٹ حاصل کیے، برکینا فاسو، افریقا میں انقلابی تحریک کے ذریعے آمرکو بھگا دیا، یونان میں دائیں بازو کو شکست ہوئی۔
یونان میں قا ئم ہو نے والی با ئیں بازوکی حکو مت نے اپنی تمام گا ڑیوں کو فروخت کر نے کا حکم صادر کیا ہے اورکہا ہے کہ اگر عوام بس میں سفر کر سکتے ہیں تو وزراء کیوں نہیں کر سکتے۔ ترکی میں کمیونسٹ تحریک زوروں پہ ہے، ملائشیا اور ہانگ کا نگ میں عوامی تحریکوں کا ابھار شروع ہو گیا ہے، دہلی میں بی جے پی کو شکست دیکر عام آدمی پار ٹی کامیاب ہوئی ہے۔ کریمیا، یوکرا ئن سے الگ ہو کر قومیانے کا عمل شروع کیا ہے اور مشرقی یوکرائن کے باغیوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
پہلی بار امریکا کے بغیر یورپیوں نے یورپ کا مسئلہ حل کیا ہے۔ ہندوستان میں اوباما کے آمد پرکمیو نسٹ پارٹی نے لا کھوں افراد کی ریلی نکالی۔ 2014 میں چین میں مزدوروں اورکسا نوں نے سوا لاکھ سے زیادہ مظاہرے کیے، لیبیا، تیونس میں عوامی تحریک جا ری ہے، کرد پیش قدمی کر رہے ہیں۔ فلپائن اور میانمار میں کمیونسٹ گوریلا آ زاد علا قے قائم کرتے جا رہے ہیں۔ لبنان، جنو بی افریقہ اور جرمنی میں کمیونسٹ تحریک میں اضافہ ہوا ہے۔ آ ئرلینڈ کی آ زادی کے ریفرنڈم میں شکست کے باوجود علیحدگی پسندوں نے خا صے ووٹ حاصل کیے۔ جنوبی امریکی ممالک ایکوا ڈور، نکارا گوئے، گوئٹے مالا، وینیزو یلا، بلوویا،کیوبا اور آرجینٹینا سمیت بیشتر ملکوں میں خود انحصاریت اور قومیانے کا عمل بڑھ رہا ہے۔
یہ نظام (سر ما یہ داری) اب چلائے نہیں چل پا رہا ہے۔ ایک جانب چولستان ( بہاولپور، رحیم یارخان اور بہا ولنگر) میں بارشیں نہ ہونے سے جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جانور کڑوا پا نی پینے سے سیکڑوں کی تعداد میں مر چکے ہیں اور خشک سالی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں جب کہ حکومت پنجاب نے عوام کے لیے پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام نہیں کیا اور نہ ہی نہروں کی بھل صفائی کروائی۔
ضلع تھرپارکر میں اب بھی روزانہ اوسطا تین بچے قحط کا شکار اور عدم علاج سے مر رہے ہیں جب کہ سندھ کے وزراء اور افسران لینڈکروزر، پراڈو، بی ایم ڈبلو سمیت دیگر قیمتی گا ڑیاں خرید رہے ہیں۔ پارلیمنٹیرینز کو325 گا ڑیاں جو کہ لا کھوں میں تھیں ایک ایک ہزار میں بیچی گئیں۔
دوسری جا نب اسی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا ہے کہ5 کروڑ رو پے کی بکتر بند گا ڑیاں17 کروڑ رو پے میں کیوں کر خریدی گئیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ ایک جا نب لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہیں، عدم علاج سے مر رہے ہیں تو دوسری جانب سا رے فنڈز اسلحے کی خر ید و فروخت میں جھونکے جا رہے ہیں، اسلحے کی بیشتر پیداوار امریکا، روس اور چین کرتا ہے۔ جب جنگیں، اسلحے، سرحدیں، ملکیتیں، سرمایہ داری، جاگیر دا ری اورذخیرہ اندوزی ختم ہو جائے گی، انسان جینے لگے گا۔