مرسوں مرسوں پڑھائی نہ کرسوں۔۔

میٹرک کے سالانہ امتحانات باربار انتظامیہ کی اہلیت کا امتحان لیتے ہیں اور سرکار ہر بار فیل ہو جاتی ہے۔۔

KARACHI:
سندھ میں میٹرک کے امتحانات جاری ہیںٕ۔ لیکن حسب توقع اور حسب روایت اس بار بھی ٹی وی چینلز نے نقل کرتے طلباء کے وہی مناظر دکھائے جو پوری قوم ہر سال دیکھتی ہے۔۔۔

لیکن آفرین ہے سندھ سرکار پر جو اپنے کان پر رینگنے والی تمام جوؤں کو بے حسی کے ٹانک سے مار چکی ہے۔ پرچوں میں نقل کا رواج اتنا عام ہوگیا ہےکہ اسے کوئی سنجیدہ لینے کی زحمت ہی نہیں کررہا۔ وزیراعلیٰ سندھ سے لیکر وزیر تعلیم اور نیچے بورڈ انتظامیہ سے لیکر طلباء تک ۔۔۔۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہے۔ نقل کرتے بچے کیمرے پر دانت نکالتے اور گانے گاتے نظر آئے لیکن نگران نقل پر دھیان دینے کی بجائے اطمینان سے ٹائم پاس کرنے میں مصروف تھے۔۔۔۔





شاید طلباء نے یہ سمجھ لیا ہے کہ پڑھو لکھو گے تو ہوگے خراب ۔۔۔ تعلیم کو تو زیور مانا جاتا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ سندھ سرکار اسے ریوڑ کی طرح سمجھتی ہے۔۔ اکثر اسکولوں میں گدھے اور کتے تو بندھے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہاں تعلیم کا داخلہ بند ہوتا ہے۔ اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں ۔۔ بچے پڑھائی کے بجائے نقل کرنے میں مہارت سیکھتے ہیں ۔۔۔ کتابیں صرف امتحانی مراکز میں ہی کھلتی ہیں، جو نالائق طلباء کی قسمت موقع پر ہی کھول دیتی ہیں ۔۔۔ طالب علم جوابات کو ڈیٹو کاپی کرتے ہیں تو انتظامیہ بے حسی کی روایت کو صرف کاپی پیسٹ ہی کرتی ہے۔

ٹی وی دیکھو تو نقل کرتے طالب علم کیمرے پر شرمندہ ہونے کے بجائے ہنس رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مسکڑاہٹ کوئی مذاق نہیں بلکہ سرکار کی اہلیت کا مذاق اڑا رہی ہے۔ ان کی بے حسی کو طمانچہ مار رہی ہے، یہ طلباء کیمرے پر نہیں بلکہ سندھ سرکار اور اپنے مستقبل پر ہنس رہے ہیں کیونکہ سب کچھ اسی نالائق سندھ حکومت کی ناک کے نیچے ہورہا ہے۔۔۔







ہر سال میڈیا شور مچاتا ہے لیکن سندھ کے ان کرتا دھرتاؤں نے کانوں میں یا تو روئی ٹھونس رکھی ہے اور یا پھر گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ آنکھیں دیکھتی ہیں لیکن صرف تماشا۔۔کان سنتے ہیں لیکن صرف خوشامد ۔۔۔ زبانی چلتی ہے لیکن صرف زبانی خرچ تک ۔۔۔ لیکن ہاتھ بے حسی کی رسی سے بندھے ہیں ۔۔ پاؤں میں نااہلیت کی بیڑیاں پڑی ہیں ۔۔۔ قوم کے مستقبل کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے اور سندھ سرکار من کی موجوں میں مست ہے۔۔۔

نقالوں سے ہوشیار والا جملہ تو ہم روز سنتے ہیں لیکن سندھ حکومت نے کبھی نقل پرعقل کےناخن نہیں لئے۔۔ نقل کا دھندا بالکل ایسے چل رہا ہے جیسے خود سندھ سرکار۔۔۔


نقلی پرچے، نقلی طلباء اور نقلی نگران ۔۔۔ عقل کے بجائے صرف نقل پر دھیان دیکھ کر لگتا ہے کہ سندھ میں یہ سب کچھ بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ پرچوں کی آڑ میں خانہ پوری کرکے بچوں کے مستقبل کا خانہ خراب کیا جارہا ہے۔ پرچے آؤٹ کرانا ہو، طالب علم کی جگہ کسی اور کو پرچے میں بٹھانا ہو، امتحانی مرکز تک بوٹیاں پہنچانا ہو یا نگران کی مٹھی گرم کرنی ہو تو دھڑلے سے کریں۔ تھوڑا سا خرچہ ضرور ہوگا لیکن تھانے میں پرچہ بالکل نہیں ہوگا ۔۔۔ امتحان نہ بھی دینا چاہیں تو کوئی بات نہیں ۔۔ یہاں تعلیم برائے فروخت ہے۔ یہ لازوال دولت صرف چند لاکھ روپے میں ڈگریوں میں پیک ہوکر گھر پہنچا دی جاتی ہے۔ انمول دولت کا مول لگتا ہے وہ بھی سرکار کی ناک کے نیچے۔۔۔

میٹرک کے امتحانات کو اگر آپ سندھ کے مستقبل کی بنیاد سمجھیں تو سمجھ آجائے گا کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ جس طالب علم کو میٹرک لیول پر ہی ''کام نکلوانے'' کا گڑ آجائے وہ مستقبل میں روشنیوں کے بجائے کرپشن کےاندھیر نگری کا ہی ذریعہ بنے گا۔ گڈ گورننس ویسی ہی ہو گی جیسی آج کل ہم سب بھگت رہے ہیں یا پھر شاید اِس سے بھی بدتر۔









جعلی ڈگریاں، جعلی لائسنس، ٹریفک پولیس کے خرچہ پانی کا چرچہ، رشوت کا گرما گرم بازار، سفارشی ٹولے کی ریل پیل، اقربا پروری، وڈیرانہ سوچ اور پتہ نہیں کیا گیا۔ سندھ میں یہ تو رواج ہی بنتا جارہا ہے۔ اب جس قوم کی بنیاد ہی نقل ہوگی تو ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مستقبل کی عمارت بھی ایسی ہی بنے گی۔۔

میٹرک کے سالانہ امتحانات بار بار انتظامیہ کی اہلیت کا امتحان لیتے ہیں اور سرکار ہر بار فیل ہوجاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر نقل کرنے کے ایسے مناظر میڈیا پر آجائیں تو وزیر تعلیم شرم سے استعفیٰ دے دے اور یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملک آج تعلیم کے میدان میں سرخرو ہیں اور اُن کی کامیابی کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ لیکن یہاں تو منزل یا تو وڈیرہ ہے اور یا وڈیرے کا بیٹا۔ تعلیم گھر کی لونڈی ہے اور سرکار صرف جیب کی مار۔۔۔ دنیا عقل سے چاند پر پہچ گئی اور اس قوم کی ماؤں کے "چاند " نقل بھی عقل سے کرنا نہ سیکھے۔ یوں کہیں کہ پورے نظام کو ہی نااہلیت کا گرہن لگ چکا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ پڑھائی چھوڑ دی جائے تاکہ یہ ''نونہال" کم از کم اسمبلی ممبر تو بن سکیں کیونکہ وزیر کا عہدہ وہ واحد عہدہ ہے جس کے لیے پڑھائی کی کوئی ضرورت نہیں۔۔

مرسوٕں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ۔۔ مرسوں مرسوں پڑھائی نہ کرسوں۔۔

 



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story