قبائلی علاقوں کے آئینی اسٹیٹس میں تبدیلی کی ضرورت

قبائلی علاقوں میں نئی لینڈ ریفارمز کی جائیں اور پرانےنظام کو ختم کرکے وہی سسٹم رائج کیا جائے جو پورے ملک میں رائج ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے با اثر افراد ملک کے دیگر حصوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔انھیں بھی چاہیے کہ وہ قبائلی علاقوں میں سرمایہ کاری کریں۔ فوٹو: ٹوئٹر

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بدھ کو خیبرایجنسی میں اگلے مورچوں کا دورہ کیا اور خیبر آپریشن ٹو میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا ۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق انھوں نے آپریشن میں شریک فوجیوں کی قربانیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ قوم پاک فوج کی قربانیوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن منطقی انجام تک پہنچائیں گے، آپریشن اسی رفتار سے جاری رکھا جائے،انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔

انھوں نے قبائلی بھائیوں کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کوششوں میں تعاون کو سراہا اور مقامی قبائلیوں سے کہا کہ وہ اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کو آنے کی اجازت نہ دیں۔ اس موقع پر جنرل راحیل شریف کو دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ خیبرایجنسی میں اب تک 263 دہشت گرد ہلاک اور شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں۔

خیبر آپریشن ٹو میں اب تک 35 فوجی جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ خیبر ایجنسی کا تمام علاقہ غیرملکی ساخت کی بارودی سرنگوں سے بھرا پڑا ہے۔ پاک فوج کے اسپیشل انجینئرز یونٹ نے 292 سرنگوں کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ دہشتگردوں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ فوجی کارروائیاں سرحدی علاقوں تک پہنچ چکی ہیں، درہ مساتل افغانستان تک مکمل کنٹرول ہے، دہشتگردوں کو کسی صورت فرار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں خیبرایجنسی میں آپریشن کے دوران 11 دہشتگرد کمانڈر مارے گئے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور جنگجوؤں نے کس قدر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، اس کی ایک جھلک خیبر ٹو آپریشن کے حوالے سے پیش کیے گئے اعدادوشمار سے دیکھی جا سکتی ہے۔ خیبر ایجنسی وہ علاقہ ہے جو خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے متصل ہے، اب اگر اس ایجنسی میں شر پسندوں کو غلبہ حاصل ہو اور ان کے پاس جدید ہتھیار ہوں تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور شہر کتنا محفوظ ہو گا، یہی وجہ ہے کہ کئی برسوں سے پشاور میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑے تسلسل سے ہوتی چلی آ رہی ہیں اور وہاں پر کاروباری سرگرمیاں بھی مانند پڑی ہوئی ہیں۔


اسی طرح جنوبی وزیرستان ، ڈیرہ اسماعیل خان ضلع سے مستقل ہے، اور یہ فاٹا کی سب سے بڑی ایجنسی بھی ہے۔کسی دور میں یہ بڑا پرامن علاقہ تھا۔ یہاں بھی تحریک طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا تھا جب کہ شمالی وزیرستان میں وہ عرصے سے ایک طرح کی حاکمیت قائم کیے ہوئے تھے، ان کے علاوہ مہمند ایجنسی اور کرم ایجنسی میں بھی جنگجو موجود رہے ہیں۔ باجوڑ میں بھی ان کا کسی حد تک اثر رہا ہے۔ یہ تو قبائلی علاقوں کی صورت حال ہے، اس کے ساتھ ساتھ سوات پر بھی مولوی فضل اللہ کا کنٹرول قائم ہو گیا تھا، پاک فوج نے پہلے سوات کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا اور پھر دیگر قبائلی علاقوں میں کارروائیاں کیں، جنوبی وزیرستان کو بھی طالبان سے آزاد کرایا اور پھر شمالی وزیرستان میں کامیاب آپریشن کیا۔

یوں دیکھا جائے تو پاکستان انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ پاک فوج بڑی جوانمردی سے ان علاقوں میں کارروائی کر رہی ہے اور دہشت گردوں کا صفایا کیا جا رہا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علاقوں میں مسلسل آپریشن جاری رکھا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ فاٹا اور ایف آر علاقوں کا آئینی اسٹیٹس تبدیل کیا جائے اور وہاں بڑے پیمانے پر معاشرتی، قانونی اور زرعی اصلاحات عمل میں لائی جائیں، قبائلی علاقوں میں نئی لینڈ ریفارمز کی جائیں اور پرانے نظام کو ختم کرکے وہی سسٹم رائج کیا جائے جو پورے ملک میں رائج ہے۔

اس طریقے سے قبائلی علاقوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔زرعی ترقی میں بھی تیزی آئے گی۔ غیر ملکی انویسٹر بھی یہاں آ کر سرمایہ کاری کریں گے ۔یہ سارے معاملات اسی وقت ہوں گے جب قبائلی علاقوں کے عوام ،اس علاقے کے بااثر افراد اور سیاسی جماعتیں کام کریں۔ ان علاقوں میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا کے باعث یہاں دہشت گردوں کو اپنا اثرورسوخ قائم کرنا کا موقع ملا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ جب تک ملک کے دیگر حصوں کو کاروباری افراد قبائلی علاقوں میں آ کر سرمایہ کاری نہیں کرتے تو اس وقت تک یہاں روز گار کے مواقع پیدا نہیں ہو سکتے۔

عجیب بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے با اثر افراد ملک کے دیگر حصوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔انھیں بھی چاہیے کہ وہ قبائلی علاقوں میں سرمایہ کاری کریں۔اس کے علاوہ اگر قبائلی علاقوں کا اسٹیٹس بندوبستی علاقوں جیسا ہو جائے تو یہاں دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے اچھی شہرت کے افسران اور اہلکار بھی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ پاک فوج ان علاقوں میں قیام امن کے لیے جو کارروائی کررہی ہے ،وقت آ گیا ہے کہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور قبائلی علاقوں کے عوام بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔
Load Next Story