شیطان بزرگ سے دوستی مرگ بر امریکا کی رخصتی 1
انقلاب اِیران ایک ایسا بڑا واقعہ ہے جس کی تاریخ میں بہت کم نظیر ملتی ہے۔
LONDON:
ایران کے شہر طوس میں سنگلاخ پتھروں سے بنی دیواروں پر شاہنامہ فردوسی کے کردار رستم و سہراب مجسموں کی صورت تراشے گئے ہیں۔ یہ فردوسی کے مقبرے کی دیواریں ہیں۔ یوں تو اس شہر میں اسلامی تاریخ کے کتنے عظیم لوگوں کے مزار ہیں، لیکن فردوسی سے ایرانیوں کی خصوصی محبت نے باقی مزاروں کے نام ونشان تک باقی نہیں رہنے دیے۔
ان کی حالتِ زار دیکھ کر رونا آتا ہے، جیسے امام غزالی کا مزار۔ وہ امام غزالی کہ جن کا اس امت پر ایک احسان اتنا بڑا ہے کہ اگلی کئی صدیاں اس کی زیرِ بار رہیں گئیں۔ ان کا زمانہ وہ تھا جب تراجم کی وجہ سے مسلمانوں میں یونانی فلسفہ اور اس سے پیدا ہونے والی تشکیک نے راستے بنالیئے تھے۔ ہر حکم، آیت، یاحدیث کو عقل، دلیل اور منطق کی کسوٹی پر رکھ پرکھا جانے لگا تھا۔ ایسے میں انھوں نے تہافتہ الفلاسفہ لکھی اور اسلامی فلسفہ میں الہیات کے باب کا اضافہ کیا۔
ایسا نہ ہوتا تو اس امت کے علماء اور دانشور بھی مغرب کے فلسفیوں کی طرح صدیوں منطق کی گتھیوں میں الجھے رہتے۔لیکن ایرانیوں کے نزدیک فردوسی محترم ہے کیونکہ اس کا احسان فارسی تہذیب و ثقافت، ادب وزبان پر بہت گہرا ہے۔ تمام مورٔخ مانتے ہیں کہ اگر فردوسی نہ ہوتا تو اِیران میں فارسی زبان کا فروغ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا۔ جس طرح قدیم ایرانی سلطنت پر عربی معاشرت و تہذیب اثر انداز ہو رہی تھی، یہاں تک دجلہ و فرات کی سرزمین جہاں کبھی ایرانی بادشاہوں کا ہیڈ کوارٹر قادسیہ واقع تھا۔
اب وہاں کے لوگوں کی مادری زبان تک عربی ہو چکی تھی، ایسے میں بچے کچھے ایران میں فارسی زبان کو سنبھالے اور بچائے رکھنا، یہاں کے ادیبوں اور شاعروں کا کمال ہے، جن میں فردوسی سرفہرست ہے۔ پورے کا پورا شاہنامہ ایرانی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور زبان وادب کی قصیدہ گوئی ہے۔ اس کا یہ مصرعہ ایرانی معاشرے کے ضرب المثل ہے'' گرایراں نہ مانندتنِ من مابعد''(اگر ایران نہیں رہتا تو میرا وجود بھی باقی نہ رہے)
فارسی تہذیب وثقافت سے محبت اور اس پر فخر کی جڑیں اسقدر مضبوط ہیں کہ جب1979میں ایران میں انقلاب آیا تو جہاں عورتوں کو حجاب پہننے کا حکم دیا گیا، وہیں ایران کے ہر چورا ہے پر لگے مختلف مجسموں کو بھی گرانے کے احکامات جاری کردیے گئے۔لیکن ایرانی قوم نے حجاب تو پہن لیئے، داڑھیاں بھی رکھ لیں، لیکن مجسمے نہیں گرنے دیے۔
اسی لیئے آپ کو ایران کے ہر شہر میں حافظ، سعدی، رومی، فردوسی، اقبال اور دیگرمشاہیر کے مجسمے چوراہوں میں نصب نظر آئیں گے۔ دنیا میں چند سفارت خانے ایسے ہیں کہ جو دوسرے ملکوں میں اپنی زبان سکھانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ ان میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ایران سرفہرست ہیں۔ فارسی شناسی ایرانی سفارت خانوں کا اہم ترین کام ہے جسے یہ سفارت خانے انقلابِ اسلامی سے پہلے بھی اورآج بھی انتہائی ذمے داری سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
فارسی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت سے ایرانیوں کا یہ والہانہ عشق ہی تھا کہ یہ زبان اپنے اردگرد کے ممالک پر بھی چھائی رہی۔ مغل نسلاً ترک تھے، لیکن ان کے گھر بار اور سرکار کی زبان فارسی رہی یہاں تک کہ رنجیت سنگھ کے دربار کی زبان بھی فارسی تھی۔ برصغیر پاک وہند میں تمام مدارس میں دینی، سیاسی اور دیگر علوم کی کتابیں بھی فارسی میں لکھی جاتی رہیں۔
ایرانیوں نے بحیثیت قوم جس طرح خود کو عربی ثقافت اور تہذیب کے مقابلے میں اپنی علیحدہ شناخت قائم رکھی،یہ انھی کا کمال ہے۔ ورنہ شام، مصر، اردن، عراق، لبنان، تیونس، مراکش، سوڈان اور لیبیا جیسے ممالک میں کبھی عربی نہیں بولی جاتی تھی، لیکن آج یہ سب کے سب عرب دنیا کا حصہ ہیں۔ وہاں کے باسی بھول بھی گئے کہ صدیوں پہلے ان کی مادری زبان کیا ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام ایرانی بھی اپنی تہذیب و ثقافت پر اس قدر فخر کرتا ہے کہ اسے دنیا کی تمام تہذبیں ہیچ لگتی ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کسی دوسرے ملک میں کوئی اچھا فارسی شاعر پیدا ہو جائے تو وہ اسے کھینچ تان کر ایران میں لے آتے ہیں۔ ہمدان کے شہر میں آپ چلے جائیں تو لوگ آپ کو ایک قصہ ضرور سنائیں گے کہ علامہ اقبال کے والد یہاں زرد چوبہ یعنی ہلدی کا کاروبار کرتے تھے اور اقبال یہیں پیدا ہوئے اور جوان ہونے کے بعد یہاں سے ہندوستان گئے۔
آپ ان سے بحث کریں کہ ایسا نہیں ہے، وہ تو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تو وہ کہیں گے کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ جس شخص نے اپنا بچپن ایران میں نہ گذارا ہو وہ اتنی اچھی فارسی شاعری کر سکے۔ایران کے مفاد کو مقدم رکھنا، ایران تہذیب کی بالادستی اور قدیم ایرانی بادشاہت کے اثر روسوخ کو قائم رکھنا، ہر ایرانی کا خواب ہے۔ انقلابِ ایران کے بعد اسے مذہب اور مسلک کا تڑکا ضرور لگا، لیکن معاشرت سے ایرانی تفاخررخصت نہ ہو سکا۔
انقلاب اِیران ایک ایسا بڑا واقعہ ہے جس کی تاریخ میں بہت کم نظیر ملتی ہے۔ انقلاب ایران، فرانس، روس اور چین یہی چند انقلاب ہی تو ہیں۔ایران پورے خطے میں امریکا کا چوکیدار اور پولیس مین تھا اور کئی دہائیوں تک رہا۔
سرد جنگ کے زمانے میں کچھ دیر کے لیے کیمونسٹ انقلابیوں نے مصدق کی حکومت کو قائم توکر لیا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد امریکا نے شاہ رضا پہلوی کو پوری طاقت اور قوت کے ساتھ واپس تخت پر بٹھادیا۔ اپنا سب سے بڑا سفارت خانہ وہاں قائم کیا۔سی آئی اے کی سب سے بڑی قوت یہاں پر بٹھائی گئی۔
شاہ کے اقتدارکو مستحکم کرنے کے لیے اس کی فوج کو بہترین جنگی ساز و سامان سے لیس کیا گیا۔ تو انائی پیدا کرنے کے لیے ایٹمی ری ایکٹر قائم کیے گئے، اور عوام کو دبانے کے لیے سی آئی اے نے ساواک جیسی ظالم خفیہ ایجنسی قائم کی۔ شاہ کے اقتدار میں آنے کے بعد دوقوتیں اس کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں۔ ایک کیمونسٹ انقلابی اور دوسرے چند علمائے کرام، علماء میں ڈاکٹر شریعتی کے لٹریچر نے ایرانی نوجوانوں کو آتش فشاں بنا کر رکھ دیا تھا۔
کیمونسٹ انقلابی'' تودہ ''پارٹی جیسی خفیہ تنظیم کے تحت منظم تھے اور ظاہری طور پر مجاہدین خلق کے پرچم تلے نظر آتے تھے۔ علامہ اقبال کی انقلابی شاعری ایرانی نوجوانوں میں جوش وجذبہ بھردیا تھا۔ ایرانی انقلاب کا سب سے مقبول نعرہ ''مرگ برامریکا'' تھا جسے'' مرگ برشاہ'' کے ساتھ ملا کر لگایا جاتا تھا۔ مدتوں ساواک کے نشانے پر دوطرح کے لوگ آتے رہے، ایک وہ جو بال بڑھائے، جینز جاگر پہنے کا رل مارکس کی گفتگو کرتے تھے یا پھر وہ جو مدرسوں اور اما م بارگاہوں جنھیں ایرانی حسینیان کہتے ہیں وہاں جانا شروع ہوگئے تھے۔
ان دونوں قوتوں کا نعرہ مشترک تھا ''مرگ برامریکا''۔ مذہبی قیادت شروع میں بٹی رہی۔ بہت سے علماء ایسے تھے جو اس بات پر ہی خوش ہو جاتے تھے کہ شاہ ایران نے خصوصی اہتمام کے ساتھ انتہائی قیمتی قالین مشہد میں امام رضاکی مسجد میں ڈلوائے ہیں۔ لیکن وہ جو انقلاب کی سوچ رکھتے تھے، وہ جلا وطن آیت اللہ خمینی کی قیادت میں جمع ہو چکے تھے۔ آیت اللہ خمینی اس وقت عراق میں تھے اور صدام حسین نے انھیں شاہ اِیران کے مقابلے میں خصوصی پناہ دے رکھی تھی۔
ایرانی مذہبی قیادت اپنے اندر ایک شاندار تنظیم رکھتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی بلکہ حکومت بھی اتنی منظم ہو جتنی ایران کی مذہبی قیادت منظم ہے۔ ہر کوئی اپنے علم، صلاحیت اور کردار سے منزلیں طے کرتا مرجع کے مقام تک پہنچتا ہے۔ کتنے مرتبے ہیں جن پر لوگ راستے میں فائز ہوتے ہیں۔ لیکن سب کے سب مرجع کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کسی ملک میں انار کی پھیلتی ہے، حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ہنگامے زور پکڑتے ہیں۔
شہر تشدد کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، حکومتی اقتدار ڈولنے لگتا ہے، انتظامیہ کی گرفت ختم ہو جاتی ہے تو ایسے میں اقتدار پر صرف وہ گروہ قبضہ کر سکتا ہے جو منظم ہو۔غیر منظم بکھرے ہوئے ہجوم کی طرح سرتسلیم خم کر لیتے ہیں۔شاہ ایران کا زوال قریب ہوا تو ایران کی مذہبی قیادت نے منظم ہونے کی وجہ سے اس سارے انقلاب کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آیت اللہ خمینی فرانس منتقل ہوگئے اور پھر جب ایک دن واپس ایران لوٹے تو لاکھوں کا جم غفیر تہران شہر میں''مرگ بر امریکا'' اور ''مرگ برشاہ'' کا نعرہ لگاتا ہوا باہر نکل آیا۔ شاہ رخصت ہوگیا۔
اقتدار مذہبی قیادت کے ہاتھ میں آیا اور مجاہدین خلق اس میں برابر کی شریک ہوئی۔آیت اللہ خیمنی نے مذہبی قائد اور سربراہ ہونے کی حیثیت سے اقتدارحاصل کرنے کے بعد پوری قوم کو ایک نعرہ دیا کہ امریکا'' شیطانِ بزرگ'' ہے یعنی سب سے بڑا شیطان ہے۔ اِدھر یہ نعرہ گونجا اور اُدھر انقلابی دستوں نے تہران کے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر کے عملے کو یرغمال بنا لیا۔
(باقی آیندہ۔۔۔)
ایران کے شہر طوس میں سنگلاخ پتھروں سے بنی دیواروں پر شاہنامہ فردوسی کے کردار رستم و سہراب مجسموں کی صورت تراشے گئے ہیں۔ یہ فردوسی کے مقبرے کی دیواریں ہیں۔ یوں تو اس شہر میں اسلامی تاریخ کے کتنے عظیم لوگوں کے مزار ہیں، لیکن فردوسی سے ایرانیوں کی خصوصی محبت نے باقی مزاروں کے نام ونشان تک باقی نہیں رہنے دیے۔
ان کی حالتِ زار دیکھ کر رونا آتا ہے، جیسے امام غزالی کا مزار۔ وہ امام غزالی کہ جن کا اس امت پر ایک احسان اتنا بڑا ہے کہ اگلی کئی صدیاں اس کی زیرِ بار رہیں گئیں۔ ان کا زمانہ وہ تھا جب تراجم کی وجہ سے مسلمانوں میں یونانی فلسفہ اور اس سے پیدا ہونے والی تشکیک نے راستے بنالیئے تھے۔ ہر حکم، آیت، یاحدیث کو عقل، دلیل اور منطق کی کسوٹی پر رکھ پرکھا جانے لگا تھا۔ ایسے میں انھوں نے تہافتہ الفلاسفہ لکھی اور اسلامی فلسفہ میں الہیات کے باب کا اضافہ کیا۔
ایسا نہ ہوتا تو اس امت کے علماء اور دانشور بھی مغرب کے فلسفیوں کی طرح صدیوں منطق کی گتھیوں میں الجھے رہتے۔لیکن ایرانیوں کے نزدیک فردوسی محترم ہے کیونکہ اس کا احسان فارسی تہذیب و ثقافت، ادب وزبان پر بہت گہرا ہے۔ تمام مورٔخ مانتے ہیں کہ اگر فردوسی نہ ہوتا تو اِیران میں فارسی زبان کا فروغ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا۔ جس طرح قدیم ایرانی سلطنت پر عربی معاشرت و تہذیب اثر انداز ہو رہی تھی، یہاں تک دجلہ و فرات کی سرزمین جہاں کبھی ایرانی بادشاہوں کا ہیڈ کوارٹر قادسیہ واقع تھا۔
اب وہاں کے لوگوں کی مادری زبان تک عربی ہو چکی تھی، ایسے میں بچے کچھے ایران میں فارسی زبان کو سنبھالے اور بچائے رکھنا، یہاں کے ادیبوں اور شاعروں کا کمال ہے، جن میں فردوسی سرفہرست ہے۔ پورے کا پورا شاہنامہ ایرانی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور زبان وادب کی قصیدہ گوئی ہے۔ اس کا یہ مصرعہ ایرانی معاشرے کے ضرب المثل ہے'' گرایراں نہ مانندتنِ من مابعد''(اگر ایران نہیں رہتا تو میرا وجود بھی باقی نہ رہے)
فارسی تہذیب وثقافت سے محبت اور اس پر فخر کی جڑیں اسقدر مضبوط ہیں کہ جب1979میں ایران میں انقلاب آیا تو جہاں عورتوں کو حجاب پہننے کا حکم دیا گیا، وہیں ایران کے ہر چورا ہے پر لگے مختلف مجسموں کو بھی گرانے کے احکامات جاری کردیے گئے۔لیکن ایرانی قوم نے حجاب تو پہن لیئے، داڑھیاں بھی رکھ لیں، لیکن مجسمے نہیں گرنے دیے۔
اسی لیئے آپ کو ایران کے ہر شہر میں حافظ، سعدی، رومی، فردوسی، اقبال اور دیگرمشاہیر کے مجسمے چوراہوں میں نصب نظر آئیں گے۔ دنیا میں چند سفارت خانے ایسے ہیں کہ جو دوسرے ملکوں میں اپنی زبان سکھانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ ان میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ایران سرفہرست ہیں۔ فارسی شناسی ایرانی سفارت خانوں کا اہم ترین کام ہے جسے یہ سفارت خانے انقلابِ اسلامی سے پہلے بھی اورآج بھی انتہائی ذمے داری سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
فارسی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت سے ایرانیوں کا یہ والہانہ عشق ہی تھا کہ یہ زبان اپنے اردگرد کے ممالک پر بھی چھائی رہی۔ مغل نسلاً ترک تھے، لیکن ان کے گھر بار اور سرکار کی زبان فارسی رہی یہاں تک کہ رنجیت سنگھ کے دربار کی زبان بھی فارسی تھی۔ برصغیر پاک وہند میں تمام مدارس میں دینی، سیاسی اور دیگر علوم کی کتابیں بھی فارسی میں لکھی جاتی رہیں۔
ایرانیوں نے بحیثیت قوم جس طرح خود کو عربی ثقافت اور تہذیب کے مقابلے میں اپنی علیحدہ شناخت قائم رکھی،یہ انھی کا کمال ہے۔ ورنہ شام، مصر، اردن، عراق، لبنان، تیونس، مراکش، سوڈان اور لیبیا جیسے ممالک میں کبھی عربی نہیں بولی جاتی تھی، لیکن آج یہ سب کے سب عرب دنیا کا حصہ ہیں۔ وہاں کے باسی بھول بھی گئے کہ صدیوں پہلے ان کی مادری زبان کیا ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام ایرانی بھی اپنی تہذیب و ثقافت پر اس قدر فخر کرتا ہے کہ اسے دنیا کی تمام تہذبیں ہیچ لگتی ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کسی دوسرے ملک میں کوئی اچھا فارسی شاعر پیدا ہو جائے تو وہ اسے کھینچ تان کر ایران میں لے آتے ہیں۔ ہمدان کے شہر میں آپ چلے جائیں تو لوگ آپ کو ایک قصہ ضرور سنائیں گے کہ علامہ اقبال کے والد یہاں زرد چوبہ یعنی ہلدی کا کاروبار کرتے تھے اور اقبال یہیں پیدا ہوئے اور جوان ہونے کے بعد یہاں سے ہندوستان گئے۔
آپ ان سے بحث کریں کہ ایسا نہیں ہے، وہ تو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تو وہ کہیں گے کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ جس شخص نے اپنا بچپن ایران میں نہ گذارا ہو وہ اتنی اچھی فارسی شاعری کر سکے۔ایران کے مفاد کو مقدم رکھنا، ایران تہذیب کی بالادستی اور قدیم ایرانی بادشاہت کے اثر روسوخ کو قائم رکھنا، ہر ایرانی کا خواب ہے۔ انقلابِ ایران کے بعد اسے مذہب اور مسلک کا تڑکا ضرور لگا، لیکن معاشرت سے ایرانی تفاخررخصت نہ ہو سکا۔
انقلاب اِیران ایک ایسا بڑا واقعہ ہے جس کی تاریخ میں بہت کم نظیر ملتی ہے۔ انقلاب ایران، فرانس، روس اور چین یہی چند انقلاب ہی تو ہیں۔ایران پورے خطے میں امریکا کا چوکیدار اور پولیس مین تھا اور کئی دہائیوں تک رہا۔
سرد جنگ کے زمانے میں کچھ دیر کے لیے کیمونسٹ انقلابیوں نے مصدق کی حکومت کو قائم توکر لیا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد امریکا نے شاہ رضا پہلوی کو پوری طاقت اور قوت کے ساتھ واپس تخت پر بٹھادیا۔ اپنا سب سے بڑا سفارت خانہ وہاں قائم کیا۔سی آئی اے کی سب سے بڑی قوت یہاں پر بٹھائی گئی۔
شاہ کے اقتدارکو مستحکم کرنے کے لیے اس کی فوج کو بہترین جنگی ساز و سامان سے لیس کیا گیا۔ تو انائی پیدا کرنے کے لیے ایٹمی ری ایکٹر قائم کیے گئے، اور عوام کو دبانے کے لیے سی آئی اے نے ساواک جیسی ظالم خفیہ ایجنسی قائم کی۔ شاہ کے اقتدار میں آنے کے بعد دوقوتیں اس کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں۔ ایک کیمونسٹ انقلابی اور دوسرے چند علمائے کرام، علماء میں ڈاکٹر شریعتی کے لٹریچر نے ایرانی نوجوانوں کو آتش فشاں بنا کر رکھ دیا تھا۔
کیمونسٹ انقلابی'' تودہ ''پارٹی جیسی خفیہ تنظیم کے تحت منظم تھے اور ظاہری طور پر مجاہدین خلق کے پرچم تلے نظر آتے تھے۔ علامہ اقبال کی انقلابی شاعری ایرانی نوجوانوں میں جوش وجذبہ بھردیا تھا۔ ایرانی انقلاب کا سب سے مقبول نعرہ ''مرگ برامریکا'' تھا جسے'' مرگ برشاہ'' کے ساتھ ملا کر لگایا جاتا تھا۔ مدتوں ساواک کے نشانے پر دوطرح کے لوگ آتے رہے، ایک وہ جو بال بڑھائے، جینز جاگر پہنے کا رل مارکس کی گفتگو کرتے تھے یا پھر وہ جو مدرسوں اور اما م بارگاہوں جنھیں ایرانی حسینیان کہتے ہیں وہاں جانا شروع ہوگئے تھے۔
ان دونوں قوتوں کا نعرہ مشترک تھا ''مرگ برامریکا''۔ مذہبی قیادت شروع میں بٹی رہی۔ بہت سے علماء ایسے تھے جو اس بات پر ہی خوش ہو جاتے تھے کہ شاہ ایران نے خصوصی اہتمام کے ساتھ انتہائی قیمتی قالین مشہد میں امام رضاکی مسجد میں ڈلوائے ہیں۔ لیکن وہ جو انقلاب کی سوچ رکھتے تھے، وہ جلا وطن آیت اللہ خمینی کی قیادت میں جمع ہو چکے تھے۔ آیت اللہ خمینی اس وقت عراق میں تھے اور صدام حسین نے انھیں شاہ اِیران کے مقابلے میں خصوصی پناہ دے رکھی تھی۔
ایرانی مذہبی قیادت اپنے اندر ایک شاندار تنظیم رکھتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی بلکہ حکومت بھی اتنی منظم ہو جتنی ایران کی مذہبی قیادت منظم ہے۔ ہر کوئی اپنے علم، صلاحیت اور کردار سے منزلیں طے کرتا مرجع کے مقام تک پہنچتا ہے۔ کتنے مرتبے ہیں جن پر لوگ راستے میں فائز ہوتے ہیں۔ لیکن سب کے سب مرجع کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کسی ملک میں انار کی پھیلتی ہے، حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ہنگامے زور پکڑتے ہیں۔
شہر تشدد کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، حکومتی اقتدار ڈولنے لگتا ہے، انتظامیہ کی گرفت ختم ہو جاتی ہے تو ایسے میں اقتدار پر صرف وہ گروہ قبضہ کر سکتا ہے جو منظم ہو۔غیر منظم بکھرے ہوئے ہجوم کی طرح سرتسلیم خم کر لیتے ہیں۔شاہ ایران کا زوال قریب ہوا تو ایران کی مذہبی قیادت نے منظم ہونے کی وجہ سے اس سارے انقلاب کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آیت اللہ خمینی فرانس منتقل ہوگئے اور پھر جب ایک دن واپس ایران لوٹے تو لاکھوں کا جم غفیر تہران شہر میں''مرگ بر امریکا'' اور ''مرگ برشاہ'' کا نعرہ لگاتا ہوا باہر نکل آیا۔ شاہ رخصت ہوگیا۔
اقتدار مذہبی قیادت کے ہاتھ میں آیا اور مجاہدین خلق اس میں برابر کی شریک ہوئی۔آیت اللہ خیمنی نے مذہبی قائد اور سربراہ ہونے کی حیثیت سے اقتدارحاصل کرنے کے بعد پوری قوم کو ایک نعرہ دیا کہ امریکا'' شیطانِ بزرگ'' ہے یعنی سب سے بڑا شیطان ہے۔ اِدھر یہ نعرہ گونجا اور اُدھر انقلابی دستوں نے تہران کے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر کے عملے کو یرغمال بنا لیا۔
(باقی آیندہ۔۔۔)