جوڈیشل نہیں انکوائری کمیشن ہےلامحدود اختیارات حاصل ہیں ایکسپریس فورم
کمیشن کی سفارشات پرعملدرآمد کی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی پابندی ہوگی،اعظم تارڑ، سب نازک موڑ پرکھڑے ہیں، ڈاکٹر عاصم اللہ
2013 کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلیے بنایا جانے والا کمیشن جوڈیشل نہیں بلکہ انکوائری کمیشن ہے جسے لامحدود اختیارات حاصل ہیں، جوڈیشل کمیشن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا جا چکا ہے، حکومت کو ترمیم کے ذریعے اس کمیشن کو آئینی حیثیت دینی چاہیے تھی۔
ان خیالات کا اظہار ''جوڈیشل کمیشن کا قیام اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں قانونی و سیاسی ماہرین نے کیا، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس میں آئین سے روگردانی محسوس ہو رہی ہے، میرے نزدیک یہ حکومت نے چالاکی کی ہے کیونکہ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو پارلیمنٹ کے ذریعے آرٹیکل 225 میں ترمیم لائی جاتی، انھوں نے کہا کہ یہ جوڈیشل کمیشن نہیں بلکہ انکوائری کمیشن ہے جو صرف انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کرے گا اور اس کی سفارشات پر عملدرآمد کی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی پابندی ہوگی۔
اس کمیشن کو فوجداری اور دیوانی سمیت لامحدود اختیارات سے نوازا گیا ہے، تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا کہ اس وقت سب ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں اگر انتخابات غلط قرار دے دیے جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کون کروائے گا؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کمیشن کے سربراہ ہیں، لوگوں کی اس کمیشن پر نگاہ ہوگی لہٰذا سب کو محتاط رہنا ہوگا کیونکہ عدلیہ پر سوال اٹھ سکتا ہے۔
دانشور سلمان عابد نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں انتخابات ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں لیکن 2013 کے انتخابات واحد ہیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول حکومتی جماعت نے بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے، کمیشن بننے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ کمیشن میں جائیں اور دھاندلی کے خلاف ثبوت پیش کریں، استاد شعبہ سیاسیات ایف سی کالج زمرد اعوان نے کہا کہ ہم ابھی تک جمہوریت کے ساتھ تجربے کر رہے ہیں تاہم جوڈیشل کمیشن کا قیام ایک مثبت اقدام ہے، اس کمیشن کے اثرات اگلے انتخابات پر ہوں گے۔
ان خیالات کا اظہار ''جوڈیشل کمیشن کا قیام اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں قانونی و سیاسی ماہرین نے کیا، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس میں آئین سے روگردانی محسوس ہو رہی ہے، میرے نزدیک یہ حکومت نے چالاکی کی ہے کیونکہ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو پارلیمنٹ کے ذریعے آرٹیکل 225 میں ترمیم لائی جاتی، انھوں نے کہا کہ یہ جوڈیشل کمیشن نہیں بلکہ انکوائری کمیشن ہے جو صرف انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کرے گا اور اس کی سفارشات پر عملدرآمد کی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی پابندی ہوگی۔
اس کمیشن کو فوجداری اور دیوانی سمیت لامحدود اختیارات سے نوازا گیا ہے، تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا کہ اس وقت سب ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں اگر انتخابات غلط قرار دے دیے جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کون کروائے گا؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کمیشن کے سربراہ ہیں، لوگوں کی اس کمیشن پر نگاہ ہوگی لہٰذا سب کو محتاط رہنا ہوگا کیونکہ عدلیہ پر سوال اٹھ سکتا ہے۔
دانشور سلمان عابد نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں انتخابات ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں لیکن 2013 کے انتخابات واحد ہیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول حکومتی جماعت نے بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے، کمیشن بننے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ کمیشن میں جائیں اور دھاندلی کے خلاف ثبوت پیش کریں، استاد شعبہ سیاسیات ایف سی کالج زمرد اعوان نے کہا کہ ہم ابھی تک جمہوریت کے ساتھ تجربے کر رہے ہیں تاہم جوڈیشل کمیشن کا قیام ایک مثبت اقدام ہے، اس کمیشن کے اثرات اگلے انتخابات پر ہوں گے۔