ینگ لک شینا وترا تاجِ سیاست سے طوق ِاسیری تک کا سفر

سیاسی رہ نماؤں کی زندگیوں میں قیدوبند کی صعوبتیں کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں

شینا وترا کو دی جانے والی سزا کے خلاف شدید احتجاج متوقع ہے.فوٹو : فائل

لاہور:
عروج و زوال ہر کسی کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ کوئی چیز مستقل نہیں، آج جو بلندی پہ ہے وہ ایک نہ ایک دن پستی کا شکار ہوسکتا ہے اور جو زوال پذیر نظر آرہا ہے وہ بلندیوں کو اپنا نصیب بنا دیکھ سکتا ہے۔ تاج و تخت کسی کی میراث ہیں نہ ہی اسیری کے شب و روز مستقل ہوتے ہیں۔

بہت سی شخصیات ایسی ہیں جن کا کوئی نام تک نہیں جانتا تھا لیکن پھر وہ شہرت کی اُن بلندیوں پر پہنچیں جہاں اُن کے بغیر کوئی کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح بہت سے لوگ دولت، عزت، شہرت اور طاقت کے ساتھ سامنے آئے، لیکن پھر وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ سب چیزیں ختم ہوگئیں اور اُن کے لیے انتہائی مشکلات بھرے دور کا آغاز ہوگیا۔

تھائی لینڈ کی تقریباً 48 سالہ معروف سیاسی شخصیت اور سابق وزیراعظم یِنگ لک شیناوترا(Yingluck Shinawatra) بھی اُنھی لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے عروج و زوال کی انتہاؤں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ آئیے! شینا وترا کے حالات زندگی کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

21 جون 1967 کوتھائی لینڈ کے چیانگ مے (Chiang mai) صوبے میں جنم لینے والی ینگ لک شیناوترا نے بچپن میں شاید ہی سوچا ہو کہ وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گی اور پھر اپنی حکومت میں کیے گئے اقدامات اور فیصلوں کی وجہ سے ہی اُنھیں پابند سلاسل ہونا پڑے گا۔ ایک بڑے دولت مند گھرانے کی فرد ہونے کے ناتے ینگ لک شینا وترا کو زندگی میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اُنھوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا اور پھر اُنھوں نے کاروبار پر توجہ دینا شروع کردی۔

بزنس ویمن ہونے کے ناتے ینگ لک شیناوترا میں قائدانہ صلاحیتیں تو تھیں ، اسی لیے وہ بطور بزنس ویمن بھی اپنا نام بنانے میں کام یاب رہیں۔ بزنس کیریر کا آغاز سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے میں بطور انٹرن کرنے والی ایک بیٹے کی ماں شینا وترا درجہ بہ درجہ ترقی کرتے ہوئے اپنی خاندانی کمپنی شینا وترا ڈئریکٹریز کمپنی لمیٹڈ کی ڈپٹی سی ای او بنیں، بعد میں وہ تھائی لینڈ کی مشہور اور سب سے بڑی موبائل فون کمپنی ایڈوانسڈ اانفو سروسز (Advanced Info Services) کی سربراہ (سی ای او) بنائی گئیں۔جب تھائی لینڈ کی ''فیو تھائی پارٹی ''Pheu Thai Party کی ذمے داری اُنھیں ملی تو وہ آگے ہی بڑھتی چلی گئیں۔

2011 کے عام انتخابات میں انھوں نے اپنے انتخابی جلسوں اور انتخابات سے قبل بھی غربت کے خاتمے، قومی مفاہمت اور عوامی بہبود کے دیگر منصوبوں کے لیے آواز بلند کی۔ شیناوترا کی پُرکشش شخصیت، اُن کے منشور اور ارادوں نے تھائی عوام کو اپنا گرویدہ بنالیا، جس کے نتیجے میں شینا وترا ملک کی 28 ویں وزیراعظم بن گئیں۔ قارئین کے لیے یہ بات قابل ذکر ہے۔



ینگ لک شینا وترا کے بڑے بھائی تھاکسین شیناوترا (Thaksin Shinawatra)بھی 2001 میں تھائی لینڈ کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، تھاکسین کو تھائی لینڈ کا انتہائی بااثر فیصلہ ساز سمجھا جاتا رہا ہے۔ اپنے دورحکومت میں بھی وہ تمام فیصلوں میں خودمختار تھے اور من مانے فیصلے کرتے تھے۔ تھاکسین کی حکومت فوجی بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوئی اور شیناوترا کے بھائی کو جلاوطن ہونا پڑا تھائی عدالتوں نے غیرحاضری میں اُنھیں سزائیں سنائیں۔

یہی کچھ شیناوترا کے ساتھ بھی ہوا کہ دوران حکومت بطور سربراہ مملکت اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزام میں تھائی عدالت نے7 مئی 2014 کو شیناوترا کو حکومت سے برطرف کردیا تھا۔

شیناوترا کے وزیراعظم بننے سے پہلے وکی لیکس میں تھائی لینڈ کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے انکشاف کیا گیا تھا کہ ینگ لک شینا وترا کے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم تھاکسین قومی سیاست میں شینا وترا کے کسی اہم کردار کے حامی تھے نہ وہ ایسا چاہتے تھے۔ تھاکسین کی خواہش تھی کہ اپنی بہن کے بجائے وہ خود سیاسی طور پر متحرک رہیں اور پارٹی بھی اُن ہی کی کمان میں چلے۔ دوسری طرف شینا وترا کے ذہن میں اپنی پارٹی کی تنظیم سازی، سرگرمیوں، مقاصد اور مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے بہت سے پروگرام تھے۔

جن کا اظہار وہ مختلف فورمز پر کرتی بھی رہتی تھیں۔ کئی مواقع پر اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی شخص جو اپنی پارٹی کے لیے خدمات انجام دے سکتا ہے وہ بطور وزیراعظم بھی ذمے داریاں سنبھال سکتا ہے۔ گوکہ ابتدا میں ینگ لگ شینا وترا نے وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہونے کے تاثر کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ میں اپنی توجہ اپنے بزنس پر مرکوز رکھنا چاہتی ہوں، لیکن پھر سنیئر سیاسی راہ نماؤں کے کہنے پر جب اُنھیں بطور وزیر اعظم اور پارٹی لیڈر نام زد کیا گیا تو اُنھوں نے انکار نہیں کیا۔

شیناوترا کے بھائی نے بھی بعد میں اپنی بہن کی سیاسی پوزیشن کی حمایت کی، اُن کے وزیراعظم بننے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، جس کے بعد سیاسی حلقوں اور میڈیا ذرائع کو یقین ہوگیا تھا کہ اب تھائی لینڈ کی نئی وزیراعظم ینگ لک شینا وترا ہی ہوں گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔

2011 کے عام انتخابات میں شیناوترا نے انتخابی مہم خوب چلائی، ''جو تھاکسین سوچتا ہے، وہ فیوپارٹی کرتی ہے'' کے سلوگن کے ساتھ چلنے والی مہم کو زبردست پذیرائی ملی۔ عوام تیزی سے شینا وترا کی شخصیت اور پالیسیوں کے گرویدہ ہونے لگے۔ شینا وترا کی قیادت میں فیو پارٹی نے 500 رکنی تھائی پارلیمنٹ کی 265 نشستیں حاصل کی تھیں۔

یہ تھا ئی سیاست کی تاریخ میں دوسرا موقع تھا جب کسی ایک سیاسی جماعت نے انتخابات میں پارلیمنٹ کی مجموعی نشستوں میں سے آدھی سے زاید حاصل کیں۔ پہلی بار 2005 میں شینا وترا کے بھائی تھاکسین نے یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ اتحادیوں کے ساتھ مل کرشینا وترا کی پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد 300تک پہنچ گئی تھی۔

جب شینا وترا وزیراعظم بنیں تو دنیا بھر سے اُنھیں تہنیتی پیغامات ملے تھے اور یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ ان کی قیادت میں تھائی لینڈ تجارتی اور معاشی طور پر مزید ترقی کرے گا، عالمی پلیٹ فارم پر اپنا کردار مزید بہتر انداز میں ادا کرنے کے قابل ہوگا اور پڑوسیوں سے اُس کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ وزیراعظم بننے کے بعد شینا وترا نے ویژن 2020 کا بھی اعلان کیا، جس کا مقصد آئندہ 10 سال میں تھائی عوام کے حالات زندگی کو بہتر بنانا اور اُنھیں ایک خوش حال آج اور مستقبل دینا تھا۔

اِس حوالے سے شیناوترا نے عوام سے کئی وعدے بھی کیے جن میں انکم ٹیکس کی شرح میں کمی، کم ازکم آمدنی میں اضافہ، یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو ماہانہ وظیفے کی فراہمی نمایاں فیصلے تھے۔ اس کے علاوہ وہ زرعی اصلاحات اور شہری و دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے بھی کئی پالیسیاں ے کر آئیں۔


وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے فوری بعد شینا وترا کے سامنے سب سے بڑا چیلینج بدترین سیلاب کی صورت میں سامنے آیا، اس مشکل صورت حال میں بھی وزیراعظم کی حیثیت سے امدادی سرگرمیوں اور بحالی کے کاموں کے لیے موثر اقدامات کرنے کے ساتھ شینا وترا نے سیلاب زدہ علاقوں کے بھی دورے کیے جس سے عوام کے دلوں میں شینا وترا کے لیے جگہ مزید بنی۔شینا وترا نے چاول کے کاشت کاروں کی بھلائی کے چاولوں کی سبسڈی قیمت بھی متعارف کرائی۔ اس فیصلے کو بھی سیاسی انداز میں لیا گیا، کیوںکہ شینا وترا کی سیاسی پارٹی میں چاولوں کے کاشت کاروں کا بڑا حصہ ہے۔

اس کے علاوہ جب سابق تھائی وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں ایک مفاہمتی بل لانے کی کوشش کی تو سڑکوں پر احتجاج شروع ہوگیا۔ شینا وترا کے مخالفین کو خدشہ تھا کہ اس حکومتی بل کا مقصدوزیراعظم کے بھائی تھاکسین کو واپس تھائی لینڈ لانا ہے جو فوجی بغاوت کے بعد سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ حالات پھر اتنے بگڑے کہ روزانہ پولیس اور مظاہرین میں پُرتشددد جھڑپیں ہونے لگیں۔ اس دوران شینا وترا نے تھائی لینڈ کے مختلف علاقوں میں مسلم علیحدگی پسندوں سے بھی مذاکرات کیے۔

عوام کے لیے قربانیاں دینے کے وعدے کرنے والی شینا وترا کے مخالفین کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی تھی اور ہزاروں لاکھوں مظاہرین بینکاک اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر نکل کر وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اسی دوران انتخابات کی تاریخ بھی قریب آگئی۔ شینا وترا نے مظاہرین کے مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گی، جب کہ عام انتخابات بھی اُنہی کی نگرانی میں ہوں گے۔ الیکشن ہوئے لیکن تھائی سپریم کورٹ نے اُنھیں غیرقانونی قرار دے دیا اور پھر مئی 2014 میں شینا وترا کو وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کا حکم بھی سنادیا گیا۔

حکومت سے برطرفی کے بعد شینا وترا کو گرفتار کرلیا گیا ، اُ ن کے ساتھ اُن کی پارٹی کے متعدد راہ نما اور کابینہ میں شامل وزرا بھی سلاخوں کے پیچھے پہنچائے گئے۔ ابتدائی طور پر شینا وترا کو ایک آرمی کیمپ میں قائم جیل میں لایا گیا ، پھر اُس کے بعد عدالتی کارروائیاں شروع ہوئیں۔فوجی حکام نے سابق وزیراعظم شینا وترا پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے جو الزامات لگائے اُن میں یہ بتایا گیا کہ شینا وترا مالی کرپشن میں بھی ملوث رہیں۔ کئی سودوں اور معاہدوں میں کی گئی ادائیگیاں غلط اور ناجائز طریقے سے کی گئیں۔



انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اور ہر تجارتی معاہدے میں اپنی فیملی کو زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچانے کے لیے قوانین و ضوابط کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ دوسری طرف ینگ لک شینا وترا نے ان تمام الزامات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے اور میرے گھر والوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اب معزولی کے بعد شینا وترا کو جہاں بہت سے الزامات کا سامنا ہے وہاں چاولوں کے سودوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی فرد جرم بھی اُن کے سامنے ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ شینا وترا حکومت سے برطرفی، قید، نظر بندی، کرپشن کے الزامات، اختیارات سے تجاوز کی فرد جرم جیسی پریشانیوں میں گھری ہوئی ہیں۔

اس وقت شینا وترا کا زیادہ وقت جیل اور عدالت کے چکر لگاتے گزر رہا ہے۔ شیناوترا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اُن کی لیڈر کے خلاف تمام الزامات غلط ہیں اور وہ باعزت بری ہوکر واپس آئیں گی۔ خود شینا وترا نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بہت جلد عوام کے درمیان ہوں گی، کیوں کہ ان پر لگائے گئے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں۔

شینا وترا کے مخالفین تو اس بات پر خوش ہیں کہ وہ اقتدار سے باہر ہیں اور اُنھیں بہت جلد سزا ملے گی، لیکن اُن کے پرستاروں کو قوی امید ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح ان چیلینجوں کا بھی سامنا حوصلہ مندی سے کریں گی اور دوبارہ تھائی سیاست میں اپنا سرگرم کردار ادا کریں گی۔

مختلف سنجیدہ حلقوں کی جانب سے شینا وترا کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بہت سی آرا پیش کی جارہی ہیں۔ تھائی لینڈ کی سیاسی بساط پر جو چالیں چلی جارہی ہیں، اُن کے تناظر میں بھی لوگ خاص طور پر سیاسی امور کے ماہرین مختلف تجزیے و تبصرے پیش کررہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ آئندہ دنوں میں شینا وترا کے حوالے سے کیے گئے فیصلے کیا ہوسکتے ہیں؟ اور اُن کے تھائی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ایک رائے یہ ہے کہ ینگ لک شیناوترا کو سخت سزا دی جائے گی۔ ان کے سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اُنھیں قید بامشقت کی سزا سنا کر بینکاک کی کسی جیل میں بھیجا جاسکتا ہے۔ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ شینا وترا پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی تاحیات پابندی کا تو امکان نہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ چند سال کے لیے یعنی 5 یا 7 سال کے لیے سیاست سے باہر کردی جائیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ شینا وترا کو مکمل طور پر سیاسی میدان سے باہر رکھنا موجودہ حکم رانوں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک انتخابی مدت کے لیے اُنھیں سیاسی ایوانوں سے دور کردیا جائے اور لگائے گئے الزامات کے حوالے سے اُن کو سزائیں دی جائیں۔

یہ شینا وترا کی آئندہ کی سیاسی زندگی کے بارے میں کچھ ممکنہ منظر کشی ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں:

ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر سابق وزیراعظم کو سزا ملی تو ان کے حامی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ جس طرح سابق وزیراعظم کی برطرفی کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے، بنکاک سمیت مختلف شہروں میں شدید احتجاج ہوا تھا، پُرتشدد مظاہرے کیے گئے تھے، بعض مقامات پر دھرنے بھی دیے گئے تھے ، اُسی طرح شینا وترا کو دی جانے والی سزا کے خلاف بھی شدید احتجاج متوقع ہے۔ ایسے میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو ہر فیصلہ انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا، ذرا سی بے احتیاطی سے احتجاج اور مظاہرے خوںریزی میں بھی بدل سکتے ہیں۔

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ تھائی حکم رانوں کو چاہیے کہ وہ معاملات کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے شینا وترا کو سزا ضرور دلائیں مگر ساتھ ہی اُنھیں تھائی لینڈ سے باہر کسی ملک بھجوادیں ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ شینا وترا کے مخالفین اس صورت حال سے کس طرح ڈیل کرتے ہیں اور خود شینا وترا اپنا کیس کس طرح لے کر آگے بڑھتی ہیں۔ سیاسی راہ نماؤں کی زندگیوں میں قیدوبند کی صعوبتیں کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں، بس ارادہ اور عزم مضبوط ہو تو برسوں کی قید بھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑسکتی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ شینا وترا اقتدار کے ایوانوں میں خوب صورت اور پُرسکون شب و روز گزارنے کے بعد جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور عدالتی کٹہرے میں خود کو کس طرح سنبھالتی ہیں؟ اس کا انتظار سب کو ہے۔
Load Next Story