تحریک انصاف کا امن مارچ
وزیرستان پہنچنے میں ناکامی کے باوجود بڑے مقاصد حاصل کر لئے گئے
تحریک انصاف سیاسی پارٹی ہے اور ظاہر ہے کہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے وزیرستان تک جو امن مارچ کیا ہے اس کے مقاصد بھی سیاسی ہی ہیں کیونکہ اگر وہ حقیقی معنوں میں ڈرون حملوں کے خلاف مارچ کررہے ہوتے تو وہ جنوبی وزیرستان کی بجائے شمالی وزیرستان تک ہی اپنے پہلے اعلان کے مطابق مارچ کرتے لیکن شمالی وزیرستان تک مارچ کرنے کے اعلان کے باوجود انہوں نے اس میں تبدیلی کرتے ہوئے اس کا رخ جنوبی وزیرستان کی جانب موڑ دیا تاہم وہ جنوبی وزیرستان بھی نہیں گئے اور ان کے اس مارچ کا اختتام ٹانک پر ہوگیا۔ البتہ اس مارچ کا انھیں یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وہ ایک کامیاب شو کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اگر صوبائی حکومت ان کی راہ میں قبائلی علاقہ تک پہنچنے سے قبل ہی کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈالتی تو شاید یہ شومزید کامیاب ہوجاتا ،کیونکہ اس سے عمران خان یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوتے کہ وہ تو وزیرستان جانا چاہتے تھے لیکن صوبائی حکومت نے انھیں روک لیا، یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے مارچ کے ٹانک پہنچنے سے قبل ہی انتظامیہ کو مارچ کے شرکاء کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کی ہدایت کی اور اسی اعلان پر عمل درآمد بھی کیا گیا جس کے باعث مذکورہ امن مارچ قبائلی علاقوں تک پہنچنے میں تو کامیاب ہوگیا تاہم وزیرستان نہیں گیا ۔ شاید مذکورہ مارچ سے جن مقاصد کا حصول درکا رتھاوہ ایف آر ٹانک پہنچنے پر ہی حاصل ہوگئے جس کے باعث مزید آگے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔
ڈرون حملوں کے متاثرین سے یکجہتی کے لیے یہ کوئی پہلی ریلی نہیں اس سے قبل اے این پی اور جماعت اسلامی ایسی ریلیوں کا انعقاد کرچکی ہے۔ قارئین کی یادداشتوں میں یہ ریلیاں محفوظ ہوں گی اور یہ ریلیاں اس وقت نکالی گئی تھیں جب ڈرون حملوں کی تعداد سینکڑوں تک نہیں پہنچی تھی اور اب تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر یہ سلسلہ شروع کیا ہے جس کے بعد ہوسکتاہے کہ بعض مزید پارٹیاں بھی ان کی پیروی کریں تاہم جہاں تک عمران خان کے اس امن مارچ کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ عمران خان کی پارٹی سے لوگوں کا اخراج شروع ہوگیا تھا جس سے پارٹی کے ابھرتے ہوئے امیج کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔
اس لیے اس امیج کو برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کے لیے ایک کامیاب شو کی ضرورت تھی جو اس مارچ کے ذریعے عمران خان نے پوری کردی ہے تاہم ان تبصروں سے ہٹ کر قبائلی علاقوں میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے سے یہ ایک اچھی کوشش تھی ،ایسی ہی کوشش جمعیت علماء اسلام (ف)بھی اسی طریقہ سے کررہی ہے کہ قبائلی علاقہ جات کے مستقبل کے حوالے سے جو فیصلے کیے جانے ہیں ان کے حوالے سے سے اس نے اپنا تشکیل کردہ جرگہ قبائلی ایجنسیوں کے دورہ پر بھیجا ہوا ہے تاکہ وہ وہاں پر خود قبائلی عوام سے مل کر ان کی رائے جان سکے کہ وہ اپنا مستقبل کیسا چاہتے ہیں؟
قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں جمعیت علماء اسلام(ف) کا بڑا ووٹ بنک ہے اور حال ہی میں جے یو آئی (ف)میں کوہاٹ سے لے کر لکی مروت تک جو شخصیات شامل ہوئی ہیں ان کی بنیاد پر جے یو آئی مضبوط پوزیشن میں آگئی ہے ،گو کہ اے این پی نے بھی جنوبی اضلاع کی طرف خصوصی توجہ دی ہوئی ہے اور فنڈز کے اجراء اور سید مرید کاظم جیسی شخصیات کو اے این پی میں شامل کرنا جنوبی اضلاع میں اے این پی کی سیاست کو مضبوط کرنے کے حوالے ہی سے کیے جانے والے اقدامات ہیں۔
تاہم جو پوزیشن جے یوآئی (ف)کی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ ایک جانب تو جے یو آئی(ف)کی عمران خان کے اس امن مارچ کی طرف پوری توجہ تھی کہ وہ اس مارچ سے کیا حاصل کرتے ہیں ؟جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اپنے اس امن مارچ کے دوران خصوصی طور پر جے یو آئی(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو ہدف بنایا ہوا تھا اور وہ اپنے مارچ کے دوران ہر پڑائو پر مولانا فضل الرحمن پر تنقید کے تیر برساتے رہے تاکہ وہ ووٹ بنک جو مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہے اس کا رخ وہ تحریک انصاف کی جانب موڑ سکیں۔ تاہم ابھی عام انتخابات میں کافی وقت پڑا ہوا ہے اور عام انتخابات سے قبل صوبہ کے مختلف اضلاع اور قبائلی علاقہ جات میں جو سیاسی سرگرمیاں ہونی ہیں اس سے صورت حال کوئی سا بھی رخ اختیار کرسکتی ہے اور اس صورت حال سے کوئی سی بھی سیاسی پارٹی فائدہ اٹھا نے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے موجودہ حکومت کے دور میں چار سالوں کے دوران خیبرپختونخوا میں پارٹی کو چوتھا صدر دے دیا ہے ، انور سیف اللہ پارٹی صدارت سنبھال چکے ہیں اور اب وہ پارٹی کو مضبوط اور فعال کرنے کے لیے مختلف گروپوں اور دھڑوں کے ساتھ گفت وشنید کے مراحل طے کررہے ہیں کیونکہ ان سے پہلے تین سالوں کے دوران گزرنے والے تین صدور کے ادوار میں پارٹی کے اندر کئی گروپ اور دھڑے وجود میں آئے جن کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرنا اور تمام کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا ہی ان کے لیے اصل چیلنج ہے ، پی پی پی کی جانب سے صوبائی حکومت میں سینئر وزیر کا عہدہ رکھنے والے رحیم داد خان کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔
تاہم ایک وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ انہوں نے تین ٹوپیاں اپنے سر پر پہن رکھی ہیں اسی لیے ان سے صوبائی صدارت اور پارلیمانی لیڈر کی ٹوپیاں واپس لے لی گئیں اور پارٹی کمان سید ظاہر علی شاہ کے حوالے کردی گئی جنہوں نے پارٹی کو دوڑ دینے کی کوشش تو کی تاہم شاید وہ وزارت اور صدارت میں توازن نہیں رکھ سکے اور ان پر ایک بڑا الزام بھی یہی عائد کیا گیا جس کے باعث انھیں بھی پارٹی صدارت چھوڑنی پڑی اور اس امید پر پارٹی کی کمان پارٹی کے شریک چیئرمین کے قریبی ساتھی سینیٹر سردارعلی کے حوالے کی گئی کہ وہ پارٹی کو یکجا بھی کرلیں گے اور پارٹی ورکر اور ممبران، شریک چیئرمین کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے ڈسپلن میں بھی رہیں گے تاہم ایسا نہ ہوسکا اور اب بہت سے امیدیں انور سیف اللہ سے باندھ لی گئی ہیں ۔
انور سیف اللہ نے پیپلز پارٹی کے برسراقتدار گروپ کے ساتھ تو معاملات درست کرہی لیے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیرخزانہ ہمایوں خان ان کے ساتھ متوقع جنرل سیکرٹری ہیں جبکہ رحیم داد خان اور سپیکر کرامت اللہ چغرمٹی ان کی پہلی پریس کانفرنس میں موجود تھے جبکہ پارٹی کے نئے صدر پیپلز پارٹی کے سینئر اور پرانے کارکنوں کے ساتھ بھی رابطوں میں ہیں تاکہ معاملات کو کنٹرول کرتے ہوئے پارٹی کو اس پوزیشن میں لایاجاسکے کہ جس میں وہ اسے منظم اور موثر انداز میں الیکشن کے لیے میدان میں لے جاسکیں تاہم ان کے لیے اصل مسئلہ اس روش سے بچ کر چلنا ہوگا۔
جس پر ان کے پیش روسینیٹر سردارعلی خان گامزن تھے جن کا پشاور سے زیادہ وقت اسلام آباد میں گزرتا تھا اور انہوں نے پیپلز پارٹی کو پبی میں اپنی رہائش گاہ تک محدود کرلیا تھا ، انور سیف اللہ بھی پشاور سے زیادہ اسلام آباد میں مقیم ہوتے ہیں تاہم اگر وہ پیپلز پارٹی کو حقیقی معنوں میں جیالوں کی پارٹی بنانے کے خواہاں ہیں تو انھیں اسلام آباد سے پشاور منتقل ہونا ہی پڑے گا لیکن اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کچھ عرصہ بعد ایک نئے صدر کی تلاش میں نکل کھڑی ہو جو اسلام آباد میں نہیں پشاور میں بیٹھ کر پارٹی کو چلا سکے ۔
اگر صوبائی حکومت ان کی راہ میں قبائلی علاقہ تک پہنچنے سے قبل ہی کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈالتی تو شاید یہ شومزید کامیاب ہوجاتا ،کیونکہ اس سے عمران خان یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوتے کہ وہ تو وزیرستان جانا چاہتے تھے لیکن صوبائی حکومت نے انھیں روک لیا، یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے مارچ کے ٹانک پہنچنے سے قبل ہی انتظامیہ کو مارچ کے شرکاء کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کی ہدایت کی اور اسی اعلان پر عمل درآمد بھی کیا گیا جس کے باعث مذکورہ امن مارچ قبائلی علاقوں تک پہنچنے میں تو کامیاب ہوگیا تاہم وزیرستان نہیں گیا ۔ شاید مذکورہ مارچ سے جن مقاصد کا حصول درکا رتھاوہ ایف آر ٹانک پہنچنے پر ہی حاصل ہوگئے جس کے باعث مزید آگے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔
ڈرون حملوں کے متاثرین سے یکجہتی کے لیے یہ کوئی پہلی ریلی نہیں اس سے قبل اے این پی اور جماعت اسلامی ایسی ریلیوں کا انعقاد کرچکی ہے۔ قارئین کی یادداشتوں میں یہ ریلیاں محفوظ ہوں گی اور یہ ریلیاں اس وقت نکالی گئی تھیں جب ڈرون حملوں کی تعداد سینکڑوں تک نہیں پہنچی تھی اور اب تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر یہ سلسلہ شروع کیا ہے جس کے بعد ہوسکتاہے کہ بعض مزید پارٹیاں بھی ان کی پیروی کریں تاہم جہاں تک عمران خان کے اس امن مارچ کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ عمران خان کی پارٹی سے لوگوں کا اخراج شروع ہوگیا تھا جس سے پارٹی کے ابھرتے ہوئے امیج کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔
اس لیے اس امیج کو برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کے لیے ایک کامیاب شو کی ضرورت تھی جو اس مارچ کے ذریعے عمران خان نے پوری کردی ہے تاہم ان تبصروں سے ہٹ کر قبائلی علاقوں میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے سے یہ ایک اچھی کوشش تھی ،ایسی ہی کوشش جمعیت علماء اسلام (ف)بھی اسی طریقہ سے کررہی ہے کہ قبائلی علاقہ جات کے مستقبل کے حوالے سے جو فیصلے کیے جانے ہیں ان کے حوالے سے سے اس نے اپنا تشکیل کردہ جرگہ قبائلی ایجنسیوں کے دورہ پر بھیجا ہوا ہے تاکہ وہ وہاں پر خود قبائلی عوام سے مل کر ان کی رائے جان سکے کہ وہ اپنا مستقبل کیسا چاہتے ہیں؟
قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں جمعیت علماء اسلام(ف) کا بڑا ووٹ بنک ہے اور حال ہی میں جے یو آئی (ف)میں کوہاٹ سے لے کر لکی مروت تک جو شخصیات شامل ہوئی ہیں ان کی بنیاد پر جے یو آئی مضبوط پوزیشن میں آگئی ہے ،گو کہ اے این پی نے بھی جنوبی اضلاع کی طرف خصوصی توجہ دی ہوئی ہے اور فنڈز کے اجراء اور سید مرید کاظم جیسی شخصیات کو اے این پی میں شامل کرنا جنوبی اضلاع میں اے این پی کی سیاست کو مضبوط کرنے کے حوالے ہی سے کیے جانے والے اقدامات ہیں۔
تاہم جو پوزیشن جے یوآئی (ف)کی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ ایک جانب تو جے یو آئی(ف)کی عمران خان کے اس امن مارچ کی طرف پوری توجہ تھی کہ وہ اس مارچ سے کیا حاصل کرتے ہیں ؟جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اپنے اس امن مارچ کے دوران خصوصی طور پر جے یو آئی(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو ہدف بنایا ہوا تھا اور وہ اپنے مارچ کے دوران ہر پڑائو پر مولانا فضل الرحمن پر تنقید کے تیر برساتے رہے تاکہ وہ ووٹ بنک جو مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہے اس کا رخ وہ تحریک انصاف کی جانب موڑ سکیں۔ تاہم ابھی عام انتخابات میں کافی وقت پڑا ہوا ہے اور عام انتخابات سے قبل صوبہ کے مختلف اضلاع اور قبائلی علاقہ جات میں جو سیاسی سرگرمیاں ہونی ہیں اس سے صورت حال کوئی سا بھی رخ اختیار کرسکتی ہے اور اس صورت حال سے کوئی سی بھی سیاسی پارٹی فائدہ اٹھا نے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے موجودہ حکومت کے دور میں چار سالوں کے دوران خیبرپختونخوا میں پارٹی کو چوتھا صدر دے دیا ہے ، انور سیف اللہ پارٹی صدارت سنبھال چکے ہیں اور اب وہ پارٹی کو مضبوط اور فعال کرنے کے لیے مختلف گروپوں اور دھڑوں کے ساتھ گفت وشنید کے مراحل طے کررہے ہیں کیونکہ ان سے پہلے تین سالوں کے دوران گزرنے والے تین صدور کے ادوار میں پارٹی کے اندر کئی گروپ اور دھڑے وجود میں آئے جن کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرنا اور تمام کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا ہی ان کے لیے اصل چیلنج ہے ، پی پی پی کی جانب سے صوبائی حکومت میں سینئر وزیر کا عہدہ رکھنے والے رحیم داد خان کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔
تاہم ایک وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ انہوں نے تین ٹوپیاں اپنے سر پر پہن رکھی ہیں اسی لیے ان سے صوبائی صدارت اور پارلیمانی لیڈر کی ٹوپیاں واپس لے لی گئیں اور پارٹی کمان سید ظاہر علی شاہ کے حوالے کردی گئی جنہوں نے پارٹی کو دوڑ دینے کی کوشش تو کی تاہم شاید وہ وزارت اور صدارت میں توازن نہیں رکھ سکے اور ان پر ایک بڑا الزام بھی یہی عائد کیا گیا جس کے باعث انھیں بھی پارٹی صدارت چھوڑنی پڑی اور اس امید پر پارٹی کی کمان پارٹی کے شریک چیئرمین کے قریبی ساتھی سینیٹر سردارعلی کے حوالے کی گئی کہ وہ پارٹی کو یکجا بھی کرلیں گے اور پارٹی ورکر اور ممبران، شریک چیئرمین کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے ڈسپلن میں بھی رہیں گے تاہم ایسا نہ ہوسکا اور اب بہت سے امیدیں انور سیف اللہ سے باندھ لی گئی ہیں ۔
انور سیف اللہ نے پیپلز پارٹی کے برسراقتدار گروپ کے ساتھ تو معاملات درست کرہی لیے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیرخزانہ ہمایوں خان ان کے ساتھ متوقع جنرل سیکرٹری ہیں جبکہ رحیم داد خان اور سپیکر کرامت اللہ چغرمٹی ان کی پہلی پریس کانفرنس میں موجود تھے جبکہ پارٹی کے نئے صدر پیپلز پارٹی کے سینئر اور پرانے کارکنوں کے ساتھ بھی رابطوں میں ہیں تاکہ معاملات کو کنٹرول کرتے ہوئے پارٹی کو اس پوزیشن میں لایاجاسکے کہ جس میں وہ اسے منظم اور موثر انداز میں الیکشن کے لیے میدان میں لے جاسکیں تاہم ان کے لیے اصل مسئلہ اس روش سے بچ کر چلنا ہوگا۔
جس پر ان کے پیش روسینیٹر سردارعلی خان گامزن تھے جن کا پشاور سے زیادہ وقت اسلام آباد میں گزرتا تھا اور انہوں نے پیپلز پارٹی کو پبی میں اپنی رہائش گاہ تک محدود کرلیا تھا ، انور سیف اللہ بھی پشاور سے زیادہ اسلام آباد میں مقیم ہوتے ہیں تاہم اگر وہ پیپلز پارٹی کو حقیقی معنوں میں جیالوں کی پارٹی بنانے کے خواہاں ہیں تو انھیں اسلام آباد سے پشاور منتقل ہونا ہی پڑے گا لیکن اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کچھ عرصہ بعد ایک نئے صدر کی تلاش میں نکل کھڑی ہو جو اسلام آباد میں نہیں پشاور میں بیٹھ کر پارٹی کو چلا سکے ۔