یمن کا امن روڈ میپ ناگزیر
پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں یمن کی صورتحال پر متفقہ قرارداد کو سیاسی عمائدین اور امن پسند حلقوں نے سراہا ہے
پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں یمن کی صورتحال پر متفقہ قرارداد کو سیاسی عمائدین اور امن پسند حلقوں نے سراہا ہے جس میں غیر جانبدار رہنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا گیا ہے، اس میں یہ شق قابل غور ہے کہ مشکل کی کسی گھڑی میں پاکستان سعودی حکومت اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔ بلاشبہ ملکی پارلیمان نے یہ فیصلہ ایک عظیم قومی مفاد میں کیا جسے معاصر میڈیا قوم کے لیے باعث افتخار اور ملکی سیاسی و عسکری شریانوں میں دوڑتے تازہ سفارتی لہو سے تعبیر کر رہے ہیں، اسے موجودہ منتخب پارلیمنٹ کی قومی تاریخ کے اہم موڑ پر ایک اہم اور دلیرانہ پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض عالمی قوتوں کی منافقت، اسلام دشمنی، جنگ زرگری اور مشرق وسطیٰ میں سیاسی و قبائلی مخاصمت، مسلک و فرقہ واریت کی تقسیم نے سنگین بحران پیدا کیا ہے، تاہم دہشت گردی کی داخلی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان نے اب یمن تنازع میں اپنا امن پسندانہ کردار اور غیر جانبدار رہنے کا عندیہ متفقہ قرارداد کی شکل میں پیش کر کے اندیشوں، قیاس آرائیوں اور بے بنیاد و فرضی خدشات کے تمام در بند کر دیے ہیں۔ یہ قرارداد پارلیمنٹ کے ضمیر کی آواز ہے اور قومی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس سے پاکستان، ترکی اور دیگر برادر ممالک کے ساتھ مل کر خطے میں ''پیس بروکرنگ'' کا رول ادا کر سکتا ہے جب کہ یمن بحران کے تناظر میں سعودی عرب، یمن اور ایران سے بات چیت کر کے مسئلہ کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ صائب فیصلہ تمام پڑوسی ملکوں اور اس جنگ سے براہ راست متاثر ہونے والی معیشتوں کی بربادی کو روکنے کی پیش قدمی میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکے گا۔ پاکستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ یمن کی صورتحال کے تمام فریق اپنے مسائل پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اور اس خطرہ کا اظہار بھی کیا گیا کہ یمن کا بحران پورے خطے کو خانہ جنگی میں دھکیل سکتا ہے، اس لیے خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر اس خطرے کا سدباب کیا جائے۔
یمن کی صورتحال کے حل کے لیے دیگر مسلم سربراہان کے ساتھ رابطے بڑھائے جائیں اور سفارتی کوششیں تیز کی جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ حکومت نے مشترکہ اجلاس تمام ارکان کی اجتماعی دانش سے استفادے کے لیے طلب کیا جس سے حکومت مستقبل کا لائحہ عمل اور پالیسی تشکیل دے سکے گی۔
یمن بحران کی صحرائی گرد کے بگولے نئی شدت سے اٹھتے دکھائی دیتے ہیں، خطے کے ممالک کا اضطراب اور ان کی برہمی بڑھتی جا رہی ہے جب کہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک میں پاکستان کی امکانی شمولیت کے معاملے پر یمن، ایران اور سعودی عرب تکون کی کشمکش لمحہ فکریہ ہے، پاکستان کے لیے ایک آزمائش اور ملکی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے بعد صورتحال کے ادراک پر عالمی برادری کے لیے راست اقدام کی ڈیڈ لائن کہیں نظر نہیں آ رہی۔
پاکستان کی عسکری قیادت نے یمن میں سلامتی کی خراب صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تصادم اور لڑائی جاری رہنے سے علاقائی سلامتی کے لیے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 181 ویں کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد جمعہ کو بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں جی ایچ کیو میں ہوا۔ عسکری قیادت کے اجلاس میں یمن اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال سمیت پیشہ ورانہ امور، ملکی سلامتی کی صورتحال بھی زیر غور آئی۔
یہ یاد رہے کہ یمن بحران میں غیر جانبداری کے اعلان پر بعض دوستوں کا سخت ردعمل بھی سامنے آیا ہے، ابھی مزید سخت اور مشکل مراحل درپیش ہوں گے، سعودی عرب کے زیر قیادت اتحادی افواج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ پاکستان نے اتحاد میں شمولیت کے لیے سرکاری طور پر ابھی تک اپنی پوزیشن واضح نہیں کی، پاک فوج کی شمولیت سے جنگ کو مزید تقویت مل سکتی ہے تاہم عدم شرکت سے اتحادی کارروائیوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ جمعہ کو غیر ملکی میڈیا کے مطابق بریفنگ میں سعودی فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی موقف کا انتظار ہے۔
پاک فوج کے یمن آپریشن میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ سعودی عرب کے نائب وزیر کے مشیر عبدالعزیز العمار نے کہا ہے کہ پاکستان کو مشرق، مغرب، شمال، جنوب سے جانتے ہیں، سعودی عرب کو تکلیف پہنچی تو پاکستان سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچے گا۔ پاکستان کے دورے پر آئے سعودی ڈپٹی وزیر کے مشیر عبدالعزیز العمار نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب یک جان دو قالب ہیں۔ دریں اثنا متحدہ عرب امارات کے امور خارجہ کے مشیر ڈاکٹر انور محمود گورگاش کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے، بقول ان کے ، مبہم اور متضاد موقف کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی، جب کہ پاکستان کو خلیج کی 6 قومی عرب تعاون کونسل کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کا نیا جمہوری، پارلیمانی اور سیاسی کردار کئی ایک ملکوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے کیونکہ قومی مفاد کے تحفظ اور خطے میں امن کے لیے پاکستان کا فرسودہ روایتی کردار دفن ہو چکا، اور اب متفقہ سیاسی، تزویراتی و عسکری ڈاکٹرائن نئے عصری تقاضوں اور زمینی حقائق سے مشروط ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر برائے یمن جمال بن عمر سیکرٹری جنرل بان کی مون سے فوری امن روڈ میپ کا شیڈول لے کر مشرق وسطیٰ پہنچیں۔ وقت ان کی آمد کا منتظر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض عالمی قوتوں کی منافقت، اسلام دشمنی، جنگ زرگری اور مشرق وسطیٰ میں سیاسی و قبائلی مخاصمت، مسلک و فرقہ واریت کی تقسیم نے سنگین بحران پیدا کیا ہے، تاہم دہشت گردی کی داخلی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان نے اب یمن تنازع میں اپنا امن پسندانہ کردار اور غیر جانبدار رہنے کا عندیہ متفقہ قرارداد کی شکل میں پیش کر کے اندیشوں، قیاس آرائیوں اور بے بنیاد و فرضی خدشات کے تمام در بند کر دیے ہیں۔ یہ قرارداد پارلیمنٹ کے ضمیر کی آواز ہے اور قومی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس سے پاکستان، ترکی اور دیگر برادر ممالک کے ساتھ مل کر خطے میں ''پیس بروکرنگ'' کا رول ادا کر سکتا ہے جب کہ یمن بحران کے تناظر میں سعودی عرب، یمن اور ایران سے بات چیت کر کے مسئلہ کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ صائب فیصلہ تمام پڑوسی ملکوں اور اس جنگ سے براہ راست متاثر ہونے والی معیشتوں کی بربادی کو روکنے کی پیش قدمی میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکے گا۔ پاکستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ یمن کی صورتحال کے تمام فریق اپنے مسائل پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اور اس خطرہ کا اظہار بھی کیا گیا کہ یمن کا بحران پورے خطے کو خانہ جنگی میں دھکیل سکتا ہے، اس لیے خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر اس خطرے کا سدباب کیا جائے۔
یمن کی صورتحال کے حل کے لیے دیگر مسلم سربراہان کے ساتھ رابطے بڑھائے جائیں اور سفارتی کوششیں تیز کی جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ حکومت نے مشترکہ اجلاس تمام ارکان کی اجتماعی دانش سے استفادے کے لیے طلب کیا جس سے حکومت مستقبل کا لائحہ عمل اور پالیسی تشکیل دے سکے گی۔
یمن بحران کی صحرائی گرد کے بگولے نئی شدت سے اٹھتے دکھائی دیتے ہیں، خطے کے ممالک کا اضطراب اور ان کی برہمی بڑھتی جا رہی ہے جب کہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک میں پاکستان کی امکانی شمولیت کے معاملے پر یمن، ایران اور سعودی عرب تکون کی کشمکش لمحہ فکریہ ہے، پاکستان کے لیے ایک آزمائش اور ملکی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے بعد صورتحال کے ادراک پر عالمی برادری کے لیے راست اقدام کی ڈیڈ لائن کہیں نظر نہیں آ رہی۔
پاکستان کی عسکری قیادت نے یمن میں سلامتی کی خراب صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تصادم اور لڑائی جاری رہنے سے علاقائی سلامتی کے لیے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 181 ویں کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد جمعہ کو بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں جی ایچ کیو میں ہوا۔ عسکری قیادت کے اجلاس میں یمن اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال سمیت پیشہ ورانہ امور، ملکی سلامتی کی صورتحال بھی زیر غور آئی۔
یہ یاد رہے کہ یمن بحران میں غیر جانبداری کے اعلان پر بعض دوستوں کا سخت ردعمل بھی سامنے آیا ہے، ابھی مزید سخت اور مشکل مراحل درپیش ہوں گے، سعودی عرب کے زیر قیادت اتحادی افواج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ پاکستان نے اتحاد میں شمولیت کے لیے سرکاری طور پر ابھی تک اپنی پوزیشن واضح نہیں کی، پاک فوج کی شمولیت سے جنگ کو مزید تقویت مل سکتی ہے تاہم عدم شرکت سے اتحادی کارروائیوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ جمعہ کو غیر ملکی میڈیا کے مطابق بریفنگ میں سعودی فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی موقف کا انتظار ہے۔
پاک فوج کے یمن آپریشن میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ سعودی عرب کے نائب وزیر کے مشیر عبدالعزیز العمار نے کہا ہے کہ پاکستان کو مشرق، مغرب، شمال، جنوب سے جانتے ہیں، سعودی عرب کو تکلیف پہنچی تو پاکستان سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچے گا۔ پاکستان کے دورے پر آئے سعودی ڈپٹی وزیر کے مشیر عبدالعزیز العمار نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب یک جان دو قالب ہیں۔ دریں اثنا متحدہ عرب امارات کے امور خارجہ کے مشیر ڈاکٹر انور محمود گورگاش کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے، بقول ان کے ، مبہم اور متضاد موقف کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی، جب کہ پاکستان کو خلیج کی 6 قومی عرب تعاون کونسل کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کا نیا جمہوری، پارلیمانی اور سیاسی کردار کئی ایک ملکوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے کیونکہ قومی مفاد کے تحفظ اور خطے میں امن کے لیے پاکستان کا فرسودہ روایتی کردار دفن ہو چکا، اور اب متفقہ سیاسی، تزویراتی و عسکری ڈاکٹرائن نئے عصری تقاضوں اور زمینی حقائق سے مشروط ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر برائے یمن جمال بن عمر سیکرٹری جنرل بان کی مون سے فوری امن روڈ میپ کا شیڈول لے کر مشرق وسطیٰ پہنچیں۔ وقت ان کی آمد کا منتظر ہے۔