احتساب ایسے تو نہیں ہوتا
ہمیں ایکسپریس ایسے وقیع اخبار میں کالم لکھنے کا پہلی بار موقع مل رہا ہے۔
ہمیں ایکسپریس ایسے وقیع اخبار میں کالم لکھنے کا پہلی بار موقع مل رہا ہے۔ ہم خدا کے فضل و کرم اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدقے سے پہلے کی طرح قارئین کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
ہم ان شاء اللہ آئندہ بھی حکمرانوں' بیوروکریٹوں' سیاستدانوں اور اہم اداروں کے ذمے داران کو آئینہ دکھائیں گے اور اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ان کی بھرپور طریقے سے ''ایم ایس ون'' کرینگے اور جو افسر اعلیٰ کارکردگی دکھائیں گے، ان کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی جائیگی۔
کالم میں ایسی خبریںاور انکشافات بھی کرینگے جو یقینا قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا باعث ہونگے۔ ہم اپنے قارئین سے بھی استدعا کرینگے کہ وہ بھی ہماری رہنمائی فرمائیں۔ عوام، سرکاری افسر اور ملازمین بھی اپنے مسائل سے ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ ہمیں آگاہ کریں اور ایسی اطلاعات بھی فراہم کریں جوہنوز خفیہ ہیں۔
ہم کافی عرصے سے سوچ رہے تھے کہ پاکستان میں مروّجہ احتساب کے نظام پر غور و خوض کرنے کے بعد اس میں موجود خوبیوں اور خامیوں کا گہرائی سے جائزہ لیں۔
1980ء کی دہائی تک پاکستان میں وائٹ کالر کرائم اور کرپشن کی کثیر رقم کی بیرون ملک ترسیل اور بیجا ارتکاز عام نہ تھا، لیکن 1990ء کے بعد جوں جوں پاکستان کی حکومت بے دریغ غیر ملکی قرضہ جات لیتی گئی اور ساتھ ساتھ آئی ٹی اور بینکنگ سیکٹر ترقی کرتا گیا، توں توں اس ملک میں کرپشن کا کلچر اور ناجائز دولت کی بیرون ملک بے تحاشا ترسیل اور وہاں پر مصنوعی ناموں سے رکھے گئے اکاؤنٹس کا رواج بڑھتا گیا۔ ملک کے غریب عوام کے حصے کی دولت ملک سے فرار ہوتی رہی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دبئی کی ساری شان و شوکت ناجائز سرمائے کے بل بوتے پر ہی ہے۔ وہاں کی حکومت ہمارے ملک کی حکومت کو جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات مہیا بھی نہیں کرتی، کیونکہ وہ اگر ایسا کرنے لگ جائے تو وہاں سے ناجائز طور پر کما کر لگایا گیا سرمایہ وہاں سے بھاگ کر کسی اور ملک میں بسیرا کر لے گا، یہی حال سوئٹزر لینڈ اور دیگر ممالک کا ہے۔
ایک انتہائی مؤقر جریدے کی ریسرچ کے مطابق، جو کہ انھوں نے یو اے ای کی جائیدادوں سے متعلقہ محکمہ سے لیے گئے اعداد و شمار سے مرتب کی ہے، پاکستانیوں نے ایک سال میں چار سو ارب روپے کی جائیدادوں کی خرید کی ہے۔ اسی طرح سوئٹزر لینڈ میں پڑے ہوئے پاکستانیوں کے کھاتہ جات کی کل رقم 100 ارب ڈالر سے بھی زائد ہے۔
خدا کی پناہ یہ کہ یہ ساری ناجائز دولت صرف چند ہزار افسران اور سیاستدانوں کی ہے جو کہ انتہائی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ زندگی گزارنے کے لیے اگر خرچ بھی کریں تو اس ساری دولت کے پانچ فیصد سے زائد خرچ کر ہی نہیں سکتے۔ جتنی بھی مہنگی گاڑیاں خرید لیں، جتنے بھی عالیشان بنگلے بنا لیں، جتنی بھی زیادہ اشیائے خورد و نوش استعمال کر لیں۔
اس ناجائز دولت کا 95 فیصد استعمال سے قاصر رہیگا۔ جس کی بابت اگر اللہ تبارک و تعالیٰ غفور الرحیم کی بجائے واحد القہار ہو گئے تو یہ بیچارے ابدی طور پر جہنم میں جلتے رہیں گے اور واویلہ کرتے رہیں گے کہ اے کاش ہم مٹی میں ہی رہتے اور کاش اگر دوبارہ دنیا میں جائیں تو یہ ساری 95 فیصد دولت جو کہ غریب بے بس اور محروم لوگوں کی امانت تھی، اس کو صریحاً غبن نہ کرینگے۔ ظلم یہ ہے کہ کتنے ہی کرپٹ لوگ اس قسم کی دولت و جائیداد کو بیرون ملک ہی چھوڑ کر قبروں میں جا لیٹے۔ آپ اگر صرف میانی صاحب قبرستان میں جا کر دیکھیں تو وہاں نئی قبریں بنانے کی جگہ بھی نہیں ہے اور گورکن پرانی قبروں کو ہی دوبارہ کھود کر اندر پڑے ہوئے ڈھانچوں کو سائیڈ پر کر کے نئے مردے کی جگہ بنا دیتے ہیں۔
اگر آپ اسلام آباد سی ڈی اے کے قبرستان کے کتبے جا کر پڑھیں تو آپ کو چار سے زائد سی ڈی اے کے سابقہ سربراہان وہاں مدفون ملیں گے۔ آخر ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور جنرل ضیاء الحق جیسے کئی بلند مراتب پر فائز اشخاص بھی قبروں میں لیٹے ہوئے ملیں گے جو کہ خالی ہاتھ ہی صرف اپنے اعمال کے ساتھ وہاں چلے گئے، کیونکہ کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہاں سوئٹزر لینڈ کے بینک اکاؤنٹس کی چیک بکس یا دبئی میں واقع ناجائز کمائی سے خریدے گئے کسی ہوٹل یا پلازہ کے ملکیتی دستاویزات لے جائی جاتی ہیں۔
ہماری قوم کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہے کہ ہم یہ سب کیا کر رہے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا جسکا مفہوم ہے کہ تمہاری دولت صرف وہی ہے جو تم نے کھا لیا، پہن لیا یا استعمال کر لیا اور یہ کہ تم دنیا میں واقعی مسافر ہو۔ اے کاش کہ ہم سب کے والدین ہماری ایسی تربیت کرتے کہ ہم یہ سب سمجھ پاتے اور اگر خدانخواستہ کرپشن کرتے بھی تو ایک حد پر جا کر رک جاتے اور اگر ایسا کرتے تو ہمارا ضمیر ہمیں ملامت ضرور کرتا۔ اب تک نیب کا آگہی و تدارک کا شعبہ کرپٹ لوگوں کو یہ ساری باتیں سمجھانے سے قاصر ہے۔
ہمیں توقع تھی کہ انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل، محنتی، متحرک اور اچھی شہرت کے مالک ہمارے دیرینہ دوست چوہدری میجر قمر زمان ملک کے سب سے بڑے احتساب کے ادارے نیب کے سربراہ کی حیثیت سے اس ولولے اور جذبے کے ساتھ آئے تھے کہ وہ نیب کو ملک کا واقعی مثالی ادارہ بنا دینگے۔
ویسے تو وہ دن رات نیک نیتی سے اس ادارے کو مؤثر اور ثمرآور بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے ادارے کی بہتری کے لیے چند ابتدائی کام کیے بھی ہیں جیسا کہ نیب کے ہیومن ریسورس کے شعبہ میں مثالی اقدامات، تمام افسران کے بائیو ڈیٹا فارم کی کمپیوٹرائزیشن اور تقرر و تبادلے کے نظام کو انصاف پر مبنی کیا۔ جو افسران پانچ سال سے زائد کسی ایک اسٹیشن پر چمٹے ہوئے تھے۔
ان کو میرٹ کے مطابق تبدیل کیا۔ انتہائی بااثر افسران کے تبادلے کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کے کہنے پر بھی نہیں روکے۔ ہر اسٹیشن پر افسران کے اوپر ایک تجربہ کار اعلیٰ افسر کی نگرانی میں مانیٹرنگ کرنے کا نظام بھی وضع کیا لیکن ابھی یہ نظام صحیح طرح سے نافذ العمل نہیں ہو سکا۔ چیئرمین نیب اتنے زیادہ بااثر افسران کے قائم کردہ ''اسٹیٹس کو'' جو کہ بااثر اشخاص کی خوشنودی میں مصروف رہتے ہیں، کو توڑنے میں باوجود کوشش کے تاحال کامیاب نہیں ہو سکے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے آتے ہی سابق حکومت کے من پسند' نااہل اور ''مثالی شہرت'' کے حامل افسروں سے واسطہ پڑ گیا جو انھیں کامیاب کرانے کی بجائے ناکام بنانے پر لگ گئے۔
لگتا یہی ہے کہ جو افسر نیب میں پہلے سے موجود ہیں اور اپنی غربت مٹانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، وہ ابھی تک ایسے مہاکلاکار افسروں سے نیب کو پاک نہیں کر سکے، جو ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی بجائے ادارے کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں، اس قدر بے بس اور بے اختیار نظر آنے کی وجہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن اس سے یہ تاثر ضرور تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ اور سابق حکومتوں کے نیب میں التواء میں پڑے ریفرنسوں پر منوں کے حساب سے گرد پڑ چکی ہے۔
اب تک تو صرف لاوارث سرکاری افسران اور اہلکاران ہی نیب کی زَد میں آتے ہیں اور بڑے بڑے مگرمچھ، متذکرہ ''مثالی'' افسروں کی موجودگی کی وجہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب تک نیب میں موجودہ اور سابق حکمرانوں کی بدعنوانیوں کو سامنے لانے کے لیے انتہائی دیانتدار ججوں، پولیس اور ٹیکنیکل افسران پر مشتمل خصوصی اور بااختیار کمیشن نہیں بنایا جاتا جو ان کا کچاچٹھا عوام کے سامنے لائے اور ان پر خصوصی ٹربیونل میں مقررہ مدت میں فیصلہ کرے' اس وقت تک نیب جیسے معتبر ادارے کی ساکھ اور وقار بحال نہیں ہو سکتا۔
اگر حکمران چاہتے ہیں کہ نیب کا عوام پر اعتماد بحال ہو تو اس ادارے کو عوام کی اُمنگوں کے مطابق بنانا ہو گا۔ عوام سے رائے لے کر ٹھوس اور قابل عمل اصلاحات کرنا ہونگی جس سے نہ تو کسی کے ساتھ زیادتی نظر آئے اور نہ ہی ملک کو کنگال کرنیوالے بچ سکیں۔ ایسے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ایسا شکنجہ تیار کرنا ہو گا کہ کوئی بھی گنہگار کسی بھی طرح کی ملی بھگت کرنے کے باوجود قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔
اگر حکمران اور سیاسی جماعتیں اس میں دلچسپی نہیں رکھتیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے مخالفین کو ہی انتقام کا نشانہ بنانا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ عوام کو اربوں روپے میں پڑنے والے ایسے اداروں کو ختم ہی کر دینا چاہیے۔ نیب کے چیئرمین پر اگر اتنی بھاری اور غیرمعمولی ذمے داری سونپی گئی ہے تو انھیں ان کی خواہش کے مطابق آئیڈیل ٹیم بھی تو دی جانی چاہیے تھی' پھر ہی کوئی مثالی کام ہوتا ہوا نظر آتا، وگرنہ اتنی مشقت کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ قوم کے لٹیروں کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔
نیب میں دیانتدار، محنتی افسروں کا کال پڑا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ حکمران نیب میں بھی ایسے افسروں کی تعیناتی چاہتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں مشہور ہوں اور جو جان ہتھیلی پر رکھ کر دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں' ان کا گھیرا تنگ کر دیا جاتا ہے۔ نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر کامران فیصل اس کی زندہ مثال ہیں جنھوں نے انتہائی دیانتداری سے کام کیا تو انھیں عبرت کا نشانہ بنا دیا گیا۔ نیب میں اگر صرف اور صرف مسلمہ دیانتدار' محنتی اور مثبت سوچ کے حامل افسروں کو ہی تعینات کیا جائے تو 90 فیصد بدعنوانی یقینا ختم ہو سکتی ہے۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چیئرمین کو کسی بھی نیب ریجن نے اگر کوئی کہیں انکوائری لگوانے کے لیے بھیج دیا تھا تو چیئرمین نے کسی مرتبے یا گریڈ کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر اس پر آرڈر جاری کر دیے لیکن اکثر ریجنز میں رو رعایت اور پسند و ناپسند کو نظر میں رکھا جاتا رہا۔ اگر چیئرمین کے نوٹس میں آیا بھی تو انھوں نے غالباً سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے بعض افسران 350 کے قریب گریڈ 16، 17، 18 میں بھرتی شدہ افسران کو ان کی پروبیشن پیریڈ سے ڈرا کر اور کنفرم نہ ہونے دینے کی دھمکی دیکر غلط احکامات دیکر اپنے جاننے والے اربابِ بست و کشاد کی خوشنودی میں لگے رہے۔
وہ اپنے احکامات فائل پر لکھ کر دینے کی بجائے زبانی طور پر ہی ان تفتیشی افسران کے قلم سے اپنی مرضی کے نتائج لکھواتے ہوئے پائے گئے۔ گنہگار افسروں کو بے قصور لکھوانے اور کیسز کو عدم ثبوت کا لکھوا کر بند کرواتے رہے۔ یہ سارا کچھ ایک اے سی آر لکھنے کے اختیار کی بنیاد پر سالہا سال سے کیا جا رہا ہے۔ جناب چیئرمین! یہ پی ای آر (کارکردگی جانچنے کی رپورٹ) باقی محکموں میں تو ٹھیک ہے لیکن نیب جیسے ادارے میں اس کا نہ ہونا انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، کیونکہ نیب کے اندر تفتیشی افسروں کی کارکردگی کا ان کے دیے گئے رزلٹ سے صحیح صحیح طور پر تعین کیا جا سکتا ہے۔
اس میں یہ نظر آ جاتا ہے کہ ایک تفتیشی افسر نے ایک سال میں کتنی ریکوری کروائی، کتنے ملزم گرفتار کیے، کتنے چالان دائر کیے، کتنی رٹ عدالتوں میں نمٹائیں اور کتنے مجرموں کو کتنے مقدمات میں عدالت سے سزائیں دلوائیں۔ ہماری یہ مخلصانہ رائے ہے کہ اگر تفتیشی افسران کی کارکردگی رزلٹ سے جانچی جا سکتی ہے تو کارکردگی جانچ رپورٹ افسران سے لکھوانے کی چنداں ضرورت نہیں اور یہ کہ اے سی آر افسران سے لکھوانے کا نظام اگر ختم نہ کیا گیا تو نہ ہی تفتیشی افسران اپنے ضمیر کے مطابق آزادانہ طور پر کام کر سکیں گے اور نہ ہی ملزموں اور درخواست دہندگان کو انصاف مل سکے گا۔
چونکہ تفتیشی کے کام سے لوگوں کی زندگیاں، عزتیں اور کریکٹر وابستہ ہوتے ہیں، اس سے کارکردگی جانچ رپورٹس کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ یہ بھی نوٹس میں آیا ہے کہ جو تفتیشی افسر اپنے ضمیر کا سودا نہ کرے اور اپنے اعلیٰ افسر کی مرضی کی رپورٹ نہ لکھے، اس سے لوڈ مینجمنٹ کے نام پر کیس اپنی مرضی کے کسی اور تفتیشی کو دیدیا جاتا ہے یا پھر اس تفتیشی افسر کو کسی نہ کسی بہانے سے کسی اور شعبہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے' اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس سے بڑاانصاف کے ساتھ اور کیا مذاق ہو سکتا ہے۔
ازراہِ کرم یہ پالیسی نافذ کی جائے کہ اگر ایک ڈی جی کسی ایک افسر کوکوئی کیس سونپ دے تو اس کیس کے منطقی انجام تک وہی تفتیشی پہنچائے اور اگر متعلقہ افسران کیس ٹرانسفر کرناانصاف کے مطابق مناسب سمجھیں تو اس کی منظوری چیئرمین سے لیں، کیونکہ وہ قانون کے مطابق چیئرمین نیب کا ہی تفویض کیا اختیار استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ مناسب ہو گا کہ متعلقہ ڈی جی کوئی بھی کیس اپنی مرضی کے مطابق کسی تفتیشی کو دینے کا اختیار تو رکھے لیکن تبادلے کرنے کا اختیار ان کی بجائے صرف چیئرمین کے پاس ہو۔ اسی طرح کسی ایک ونگ سے دوسرے ونگ میں ٹرانسفر بھی چیئرمین کی منظوری سے ہی ہو' یہ نیب کی طرف سے کیے گئے انصاف کو یقینی بنائیگا۔ یہ بھی نوٹس میں آیا ہے کہ کسی نیب ریجن کا ایگزیکٹو بورڈ کے ممبران کسی کیس میں بحث کے بعد اپنی رائے تحریرکردیتے ہیں، بعد میں ڈی جی اپنا فیصلہ تحریر کر دیتاہے اور بعد میں کوئی سفارش آنے پر تفتیشی کو اس کے کیے گئے فیصلے کے برعکس رپورٹ میں تبدیل کرنے کا ناجائز حکم صادرکر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح بورڈ میں بحث کے برعکس میرٹ سے ہٹ کر اپنی مرضی کی رائے لکھ دی جاتی ہے، اس سے ہیرا پھیری کی گنجائش رہتی ہے، اسلیے ہماری رائے میں ہر بورڈ میٹنگ کی ریکارڈنگ ہو جو اسی دن نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے سینٹرل کمپیوٹر سرور پرمنتقل ہو کر محفوظ ہو جائے تا کہ شفافیت کافی حد تک یقینی بنائی جا سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری دی گئی ان قابل عمل اور ٹھوس تجاویز پر عمل کر کے چیئرمین نیب احتساب کے نظام کو مربوط اور مؤثر کر کے ملک پر احسان کر سکتے ہیں۔
ہم ان شاء اللہ آئندہ بھی حکمرانوں' بیوروکریٹوں' سیاستدانوں اور اہم اداروں کے ذمے داران کو آئینہ دکھائیں گے اور اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ان کی بھرپور طریقے سے ''ایم ایس ون'' کرینگے اور جو افسر اعلیٰ کارکردگی دکھائیں گے، ان کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی جائیگی۔
کالم میں ایسی خبریںاور انکشافات بھی کرینگے جو یقینا قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا باعث ہونگے۔ ہم اپنے قارئین سے بھی استدعا کرینگے کہ وہ بھی ہماری رہنمائی فرمائیں۔ عوام، سرکاری افسر اور ملازمین بھی اپنے مسائل سے ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ ہمیں آگاہ کریں اور ایسی اطلاعات بھی فراہم کریں جوہنوز خفیہ ہیں۔
ہم کافی عرصے سے سوچ رہے تھے کہ پاکستان میں مروّجہ احتساب کے نظام پر غور و خوض کرنے کے بعد اس میں موجود خوبیوں اور خامیوں کا گہرائی سے جائزہ لیں۔
1980ء کی دہائی تک پاکستان میں وائٹ کالر کرائم اور کرپشن کی کثیر رقم کی بیرون ملک ترسیل اور بیجا ارتکاز عام نہ تھا، لیکن 1990ء کے بعد جوں جوں پاکستان کی حکومت بے دریغ غیر ملکی قرضہ جات لیتی گئی اور ساتھ ساتھ آئی ٹی اور بینکنگ سیکٹر ترقی کرتا گیا، توں توں اس ملک میں کرپشن کا کلچر اور ناجائز دولت کی بیرون ملک بے تحاشا ترسیل اور وہاں پر مصنوعی ناموں سے رکھے گئے اکاؤنٹس کا رواج بڑھتا گیا۔ ملک کے غریب عوام کے حصے کی دولت ملک سے فرار ہوتی رہی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دبئی کی ساری شان و شوکت ناجائز سرمائے کے بل بوتے پر ہی ہے۔ وہاں کی حکومت ہمارے ملک کی حکومت کو جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات مہیا بھی نہیں کرتی، کیونکہ وہ اگر ایسا کرنے لگ جائے تو وہاں سے ناجائز طور پر کما کر لگایا گیا سرمایہ وہاں سے بھاگ کر کسی اور ملک میں بسیرا کر لے گا، یہی حال سوئٹزر لینڈ اور دیگر ممالک کا ہے۔
ایک انتہائی مؤقر جریدے کی ریسرچ کے مطابق، جو کہ انھوں نے یو اے ای کی جائیدادوں سے متعلقہ محکمہ سے لیے گئے اعداد و شمار سے مرتب کی ہے، پاکستانیوں نے ایک سال میں چار سو ارب روپے کی جائیدادوں کی خرید کی ہے۔ اسی طرح سوئٹزر لینڈ میں پڑے ہوئے پاکستانیوں کے کھاتہ جات کی کل رقم 100 ارب ڈالر سے بھی زائد ہے۔
خدا کی پناہ یہ کہ یہ ساری ناجائز دولت صرف چند ہزار افسران اور سیاستدانوں کی ہے جو کہ انتہائی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ زندگی گزارنے کے لیے اگر خرچ بھی کریں تو اس ساری دولت کے پانچ فیصد سے زائد خرچ کر ہی نہیں سکتے۔ جتنی بھی مہنگی گاڑیاں خرید لیں، جتنے بھی عالیشان بنگلے بنا لیں، جتنی بھی زیادہ اشیائے خورد و نوش استعمال کر لیں۔
اس ناجائز دولت کا 95 فیصد استعمال سے قاصر رہیگا۔ جس کی بابت اگر اللہ تبارک و تعالیٰ غفور الرحیم کی بجائے واحد القہار ہو گئے تو یہ بیچارے ابدی طور پر جہنم میں جلتے رہیں گے اور واویلہ کرتے رہیں گے کہ اے کاش ہم مٹی میں ہی رہتے اور کاش اگر دوبارہ دنیا میں جائیں تو یہ ساری 95 فیصد دولت جو کہ غریب بے بس اور محروم لوگوں کی امانت تھی، اس کو صریحاً غبن نہ کرینگے۔ ظلم یہ ہے کہ کتنے ہی کرپٹ لوگ اس قسم کی دولت و جائیداد کو بیرون ملک ہی چھوڑ کر قبروں میں جا لیٹے۔ آپ اگر صرف میانی صاحب قبرستان میں جا کر دیکھیں تو وہاں نئی قبریں بنانے کی جگہ بھی نہیں ہے اور گورکن پرانی قبروں کو ہی دوبارہ کھود کر اندر پڑے ہوئے ڈھانچوں کو سائیڈ پر کر کے نئے مردے کی جگہ بنا دیتے ہیں۔
اگر آپ اسلام آباد سی ڈی اے کے قبرستان کے کتبے جا کر پڑھیں تو آپ کو چار سے زائد سی ڈی اے کے سابقہ سربراہان وہاں مدفون ملیں گے۔ آخر ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور جنرل ضیاء الحق جیسے کئی بلند مراتب پر فائز اشخاص بھی قبروں میں لیٹے ہوئے ملیں گے جو کہ خالی ہاتھ ہی صرف اپنے اعمال کے ساتھ وہاں چلے گئے، کیونکہ کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہاں سوئٹزر لینڈ کے بینک اکاؤنٹس کی چیک بکس یا دبئی میں واقع ناجائز کمائی سے خریدے گئے کسی ہوٹل یا پلازہ کے ملکیتی دستاویزات لے جائی جاتی ہیں۔
ہماری قوم کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہے کہ ہم یہ سب کیا کر رہے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا جسکا مفہوم ہے کہ تمہاری دولت صرف وہی ہے جو تم نے کھا لیا، پہن لیا یا استعمال کر لیا اور یہ کہ تم دنیا میں واقعی مسافر ہو۔ اے کاش کہ ہم سب کے والدین ہماری ایسی تربیت کرتے کہ ہم یہ سب سمجھ پاتے اور اگر خدانخواستہ کرپشن کرتے بھی تو ایک حد پر جا کر رک جاتے اور اگر ایسا کرتے تو ہمارا ضمیر ہمیں ملامت ضرور کرتا۔ اب تک نیب کا آگہی و تدارک کا شعبہ کرپٹ لوگوں کو یہ ساری باتیں سمجھانے سے قاصر ہے۔
ہمیں توقع تھی کہ انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل، محنتی، متحرک اور اچھی شہرت کے مالک ہمارے دیرینہ دوست چوہدری میجر قمر زمان ملک کے سب سے بڑے احتساب کے ادارے نیب کے سربراہ کی حیثیت سے اس ولولے اور جذبے کے ساتھ آئے تھے کہ وہ نیب کو ملک کا واقعی مثالی ادارہ بنا دینگے۔
ویسے تو وہ دن رات نیک نیتی سے اس ادارے کو مؤثر اور ثمرآور بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے ادارے کی بہتری کے لیے چند ابتدائی کام کیے بھی ہیں جیسا کہ نیب کے ہیومن ریسورس کے شعبہ میں مثالی اقدامات، تمام افسران کے بائیو ڈیٹا فارم کی کمپیوٹرائزیشن اور تقرر و تبادلے کے نظام کو انصاف پر مبنی کیا۔ جو افسران پانچ سال سے زائد کسی ایک اسٹیشن پر چمٹے ہوئے تھے۔
ان کو میرٹ کے مطابق تبدیل کیا۔ انتہائی بااثر افسران کے تبادلے کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کے کہنے پر بھی نہیں روکے۔ ہر اسٹیشن پر افسران کے اوپر ایک تجربہ کار اعلیٰ افسر کی نگرانی میں مانیٹرنگ کرنے کا نظام بھی وضع کیا لیکن ابھی یہ نظام صحیح طرح سے نافذ العمل نہیں ہو سکا۔ چیئرمین نیب اتنے زیادہ بااثر افسران کے قائم کردہ ''اسٹیٹس کو'' جو کہ بااثر اشخاص کی خوشنودی میں مصروف رہتے ہیں، کو توڑنے میں باوجود کوشش کے تاحال کامیاب نہیں ہو سکے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے آتے ہی سابق حکومت کے من پسند' نااہل اور ''مثالی شہرت'' کے حامل افسروں سے واسطہ پڑ گیا جو انھیں کامیاب کرانے کی بجائے ناکام بنانے پر لگ گئے۔
لگتا یہی ہے کہ جو افسر نیب میں پہلے سے موجود ہیں اور اپنی غربت مٹانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، وہ ابھی تک ایسے مہاکلاکار افسروں سے نیب کو پاک نہیں کر سکے، جو ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی بجائے ادارے کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں، اس قدر بے بس اور بے اختیار نظر آنے کی وجہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن اس سے یہ تاثر ضرور تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ اور سابق حکومتوں کے نیب میں التواء میں پڑے ریفرنسوں پر منوں کے حساب سے گرد پڑ چکی ہے۔
اب تک تو صرف لاوارث سرکاری افسران اور اہلکاران ہی نیب کی زَد میں آتے ہیں اور بڑے بڑے مگرمچھ، متذکرہ ''مثالی'' افسروں کی موجودگی کی وجہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب تک نیب میں موجودہ اور سابق حکمرانوں کی بدعنوانیوں کو سامنے لانے کے لیے انتہائی دیانتدار ججوں، پولیس اور ٹیکنیکل افسران پر مشتمل خصوصی اور بااختیار کمیشن نہیں بنایا جاتا جو ان کا کچاچٹھا عوام کے سامنے لائے اور ان پر خصوصی ٹربیونل میں مقررہ مدت میں فیصلہ کرے' اس وقت تک نیب جیسے معتبر ادارے کی ساکھ اور وقار بحال نہیں ہو سکتا۔
اگر حکمران چاہتے ہیں کہ نیب کا عوام پر اعتماد بحال ہو تو اس ادارے کو عوام کی اُمنگوں کے مطابق بنانا ہو گا۔ عوام سے رائے لے کر ٹھوس اور قابل عمل اصلاحات کرنا ہونگی جس سے نہ تو کسی کے ساتھ زیادتی نظر آئے اور نہ ہی ملک کو کنگال کرنیوالے بچ سکیں۔ ایسے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ایسا شکنجہ تیار کرنا ہو گا کہ کوئی بھی گنہگار کسی بھی طرح کی ملی بھگت کرنے کے باوجود قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔
اگر حکمران اور سیاسی جماعتیں اس میں دلچسپی نہیں رکھتیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے مخالفین کو ہی انتقام کا نشانہ بنانا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ عوام کو اربوں روپے میں پڑنے والے ایسے اداروں کو ختم ہی کر دینا چاہیے۔ نیب کے چیئرمین پر اگر اتنی بھاری اور غیرمعمولی ذمے داری سونپی گئی ہے تو انھیں ان کی خواہش کے مطابق آئیڈیل ٹیم بھی تو دی جانی چاہیے تھی' پھر ہی کوئی مثالی کام ہوتا ہوا نظر آتا، وگرنہ اتنی مشقت کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ قوم کے لٹیروں کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔
نیب میں دیانتدار، محنتی افسروں کا کال پڑا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ حکمران نیب میں بھی ایسے افسروں کی تعیناتی چاہتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں مشہور ہوں اور جو جان ہتھیلی پر رکھ کر دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں' ان کا گھیرا تنگ کر دیا جاتا ہے۔ نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر کامران فیصل اس کی زندہ مثال ہیں جنھوں نے انتہائی دیانتداری سے کام کیا تو انھیں عبرت کا نشانہ بنا دیا گیا۔ نیب میں اگر صرف اور صرف مسلمہ دیانتدار' محنتی اور مثبت سوچ کے حامل افسروں کو ہی تعینات کیا جائے تو 90 فیصد بدعنوانی یقینا ختم ہو سکتی ہے۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چیئرمین کو کسی بھی نیب ریجن نے اگر کوئی کہیں انکوائری لگوانے کے لیے بھیج دیا تھا تو چیئرمین نے کسی مرتبے یا گریڈ کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر اس پر آرڈر جاری کر دیے لیکن اکثر ریجنز میں رو رعایت اور پسند و ناپسند کو نظر میں رکھا جاتا رہا۔ اگر چیئرمین کے نوٹس میں آیا بھی تو انھوں نے غالباً سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے بعض افسران 350 کے قریب گریڈ 16، 17، 18 میں بھرتی شدہ افسران کو ان کی پروبیشن پیریڈ سے ڈرا کر اور کنفرم نہ ہونے دینے کی دھمکی دیکر غلط احکامات دیکر اپنے جاننے والے اربابِ بست و کشاد کی خوشنودی میں لگے رہے۔
وہ اپنے احکامات فائل پر لکھ کر دینے کی بجائے زبانی طور پر ہی ان تفتیشی افسران کے قلم سے اپنی مرضی کے نتائج لکھواتے ہوئے پائے گئے۔ گنہگار افسروں کو بے قصور لکھوانے اور کیسز کو عدم ثبوت کا لکھوا کر بند کرواتے رہے۔ یہ سارا کچھ ایک اے سی آر لکھنے کے اختیار کی بنیاد پر سالہا سال سے کیا جا رہا ہے۔ جناب چیئرمین! یہ پی ای آر (کارکردگی جانچنے کی رپورٹ) باقی محکموں میں تو ٹھیک ہے لیکن نیب جیسے ادارے میں اس کا نہ ہونا انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، کیونکہ نیب کے اندر تفتیشی افسروں کی کارکردگی کا ان کے دیے گئے رزلٹ سے صحیح صحیح طور پر تعین کیا جا سکتا ہے۔
اس میں یہ نظر آ جاتا ہے کہ ایک تفتیشی افسر نے ایک سال میں کتنی ریکوری کروائی، کتنے ملزم گرفتار کیے، کتنے چالان دائر کیے، کتنی رٹ عدالتوں میں نمٹائیں اور کتنے مجرموں کو کتنے مقدمات میں عدالت سے سزائیں دلوائیں۔ ہماری یہ مخلصانہ رائے ہے کہ اگر تفتیشی افسران کی کارکردگی رزلٹ سے جانچی جا سکتی ہے تو کارکردگی جانچ رپورٹ افسران سے لکھوانے کی چنداں ضرورت نہیں اور یہ کہ اے سی آر افسران سے لکھوانے کا نظام اگر ختم نہ کیا گیا تو نہ ہی تفتیشی افسران اپنے ضمیر کے مطابق آزادانہ طور پر کام کر سکیں گے اور نہ ہی ملزموں اور درخواست دہندگان کو انصاف مل سکے گا۔
چونکہ تفتیشی کے کام سے لوگوں کی زندگیاں، عزتیں اور کریکٹر وابستہ ہوتے ہیں، اس سے کارکردگی جانچ رپورٹس کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ یہ بھی نوٹس میں آیا ہے کہ جو تفتیشی افسر اپنے ضمیر کا سودا نہ کرے اور اپنے اعلیٰ افسر کی مرضی کی رپورٹ نہ لکھے، اس سے لوڈ مینجمنٹ کے نام پر کیس اپنی مرضی کے کسی اور تفتیشی کو دیدیا جاتا ہے یا پھر اس تفتیشی افسر کو کسی نہ کسی بہانے سے کسی اور شعبہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے' اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس سے بڑاانصاف کے ساتھ اور کیا مذاق ہو سکتا ہے۔
ازراہِ کرم یہ پالیسی نافذ کی جائے کہ اگر ایک ڈی جی کسی ایک افسر کوکوئی کیس سونپ دے تو اس کیس کے منطقی انجام تک وہی تفتیشی پہنچائے اور اگر متعلقہ افسران کیس ٹرانسفر کرناانصاف کے مطابق مناسب سمجھیں تو اس کی منظوری چیئرمین سے لیں، کیونکہ وہ قانون کے مطابق چیئرمین نیب کا ہی تفویض کیا اختیار استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ مناسب ہو گا کہ متعلقہ ڈی جی کوئی بھی کیس اپنی مرضی کے مطابق کسی تفتیشی کو دینے کا اختیار تو رکھے لیکن تبادلے کرنے کا اختیار ان کی بجائے صرف چیئرمین کے پاس ہو۔ اسی طرح کسی ایک ونگ سے دوسرے ونگ میں ٹرانسفر بھی چیئرمین کی منظوری سے ہی ہو' یہ نیب کی طرف سے کیے گئے انصاف کو یقینی بنائیگا۔ یہ بھی نوٹس میں آیا ہے کہ کسی نیب ریجن کا ایگزیکٹو بورڈ کے ممبران کسی کیس میں بحث کے بعد اپنی رائے تحریرکردیتے ہیں، بعد میں ڈی جی اپنا فیصلہ تحریر کر دیتاہے اور بعد میں کوئی سفارش آنے پر تفتیشی کو اس کے کیے گئے فیصلے کے برعکس رپورٹ میں تبدیل کرنے کا ناجائز حکم صادرکر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح بورڈ میں بحث کے برعکس میرٹ سے ہٹ کر اپنی مرضی کی رائے لکھ دی جاتی ہے، اس سے ہیرا پھیری کی گنجائش رہتی ہے، اسلیے ہماری رائے میں ہر بورڈ میٹنگ کی ریکارڈنگ ہو جو اسی دن نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے سینٹرل کمپیوٹر سرور پرمنتقل ہو کر محفوظ ہو جائے تا کہ شفافیت کافی حد تک یقینی بنائی جا سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری دی گئی ان قابل عمل اور ٹھوس تجاویز پر عمل کر کے چیئرمین نیب احتساب کے نظام کو مربوط اور مؤثر کر کے ملک پر احسان کر سکتے ہیں۔