ایک شرارتی بچہ
یہاں عوام کے نام پر ڈھول بجانے والے کے ہاتھ کسی اور کی مرضی سے چلتے ہیں
یہاں آئینہ کے سامنے جس کسی کے چہرے ہیں وہ سارے جھو ٹے کھلاڑی ہیں اور آئینے کے پیچھے سے ان کی شکلوں کو بار بار ہمارے سامنے رکھنے والے سچے اور منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں ۔ یہاں جو کچھ سامنے ہو رہا ہے وہ سب کا سب ڈرامہ ہے اور اسٹیج کے پیچھے سے انگلیاں ہلا کر ان سب کو نچانے والا حقیقی فنکار ہے ۔
یہاں عوام کے نام پر ڈھول بجانے والے کے ہاتھ کسی اور کی مرضی سے چلتے ہیں ۔ ہر چیز دو نمبر ہے ۔ بڑے بڑے جلسوں ، دھرنوں اور ریلیوں میں چلانے والے صرف پیچھے چلنے والے میوزک پر اپنی زبان ہلانے کی اداکاری کرتے ہیں اور ہم جیسے بے بس تماشائی سارا ڈرامہ دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی اندھے اور بہرے بننے کی اداکاری کرتے رہتے ہیں ۔
ہمیں جو سر عام راگ سنائے جاتے ہیں بند کمروں میں اُس پر قہقہے لگائے جاتے ہیں ۔ حقوق دلانے کے دعویدار میز کے نیچے سے اپنا سارا حق لے لیتے ہیں ۔ یہاں کسی کو دولت چاہیے تو کسی کو شہرت کا جنون ہے ۔ کسی کے دل میں بھی ہم جیسے غریبوں کے لیے رحم نہیں ہے ۔ تماشے ہیں ۔ ایسے تماشے کے جس میں سب کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہے ۔اسٹیج پر ہماری داد وصول کرنے والے بس کٹ پتلی ہے ۔ بس پراکسی ہے ۔ سب کے سب ۔
یہاں ہر ایک کی زبان پر یہ بات عام ہے کہ ہمارے ہزاروں لوگوں نے ہاتھوں میں ہتھیار اور زبان پر حق کا نام لے کر جو سچے دل سے جہاد کیا وہ کسی اور کی پراکسی تھی۔ آج یمن تنازعہ پر ہم سب لبیک کہہ رہے ہیں اور سب ایک زبان ہو کر اس بات پر آمادہ ہے کہ یمن میں دو ملکوں کی پراکسی وار چل رہی ہے ۔ اور اگر ہم اس میں کود گئے تو ہم بھی اس کا حصہ بن جائینگے ۔
یہاں پر ان دونوں ملکوں کی پراکسی شروع ہو جائے گی ۔ ہم ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالیں گے ۔ یہاں خون کی ندیاں بہہ جائے گی ۔ ہم کتنے بھولے ہوشیار ہیں۔بھولے اس لیے کہ ہم ہمیں آج تک پراکسی سمجھ ہی نہیں آئی اور ہوشیار اس لیے کہ ہم سازشوں کو ہمیشہ سمجھ گئے ہیں اور بعد میں اپنی سمجھ پر ماتم کرتے رہے ہیں ۔
آئیے آپ کو ایک جمعہ کا قصہ سناتا ہوں ۔محلہ میں کسی کا کوئی بھی مسئلہ ہو جائے ہمیشہ جمعہ اُس کا ہیرو ہوتا ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہوتی کہ نہ تو کبھی جمعہ نے اُس مصیبت کے مارے کا مسئلہ سُنا ہوتا اور نہ ہی کبھی خود سے اُس کو حل کیا ہوتا لیکن کسی بھی طریقے سے مسئلہ کا کوئی بھی حل نکلتا ہمیشہ یہ ہی کہا جاتا کہ اس میں جو کچھ بھی اچھا ہوا ہے وہ جمعہ نے ہی کیا ہے ۔
جمعہ بھائی کو جس مسئلہ میں اپنا فائدہ نہ ملتا وہ ہمیشہ اُس کو اس خوبصورتی کے ساتھ ٹالتے کہ تمام لوگ واہ واہ کرنے لگ جاتے ۔ جمعہ بھائی نے اپنے محلے کے بزرگ لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی ہوئی تھی۔ جس میں سے اکثر لوگ اپنے گھروں اور عقل سے فارغ تھے ۔ دو وقت کا کھانا بھی جمعہ بھائی کے گھر پر کھاتے تھے ۔ لیکن ان لوگوں میں کمال یہ تھا کہ جب بھی کسی مسئلہ کا فیصلہ اُسے نہ کرنا ہو یا پھر ٹالنا ہو تو وہ اس کمیٹی کے پاس چلا جاتا تھا ۔
ایک بار جمعہ کے پاس دو دوستوں کا مسئلہ آیا ۔ یہ دونوںبھی جمعہ کے مشترکہ دوست تھے۔ جمعہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں اُس نے کسی ایک کے حق میں فیصلہ دے دیا تو دوستی خراب ہو جائے گی کیونکہ ایک کے گھر سے روز کی روٹی آتی ہے اور دوسرے کے گھر سے چاول ۔ اس لیے جمعہ نے دونوں کو یہ کہا کہ کیونکہ آپ دونوں میرے دوست ہو اس لیے بہتر ہے کہ اس کا فیصلہ ایسے لوگ کرے جن کا جھکاؤ کسی ایک طرف نہ ہو ۔ اور یہ معاملہ بزرگ کمیٹی کے پاس چلا گیا ۔
کمیٹی کے لوگ پہلے ہی ہوشیار تھے اس لیے فورا بھولے بن گئے اور فیصلہ یہ دیا کہ دوستی ایک انمول رشتہ ہے اور اس کے درمیان کبھی کسی کو نہیں آنا چاہیے اس لیے کمیٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دونوں کے درمیان نہ تو کمیٹی آئے اور نہ ہی جمعہ بھائی آئے اور دونوں دوست مل کر فیصلہ کر لے ۔ لیکن اس تنازعہ میں کسی بھی طور پر جمعہ کی روٹی اور چاول کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے کیونکہ اس نے کمیٹی کو فیصلہ کا حق دے کر حق دوستی نبھا دیا ہے ۔
آپ بالکل یہ مت سوچیں کہ میں نے جمعہ خان سے یہاں مراد کسی پاکستانی ادارے کو لیا ہے اور نہ ہی کوئی عقل مند یہ سمجھنے کی گستاخی کرے کہ یہ کمیٹی وہ ہی ہے جس نے مشترکہ طور پر کوئی قرارداد لائی ہے ۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ اس مثال کو کوئی یہاں استعمال کرے ۔ اس لیے ہم جمعہ کے کارناموں پر ہی روشنی ڈالتے ہیں ۔
جمعہ کی خواہش تھی کہ جب کبھی کوئی بھی بڑی دعوت ہو تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ حصہ اُسی کو ملے ۔ اس کا آسان طریقہ اُس نے ڈھونڈا ہوا تھا محلہ کے وہ نوجوان جو اپنی چرب زبانی کے لیے مشہور تھے انھیں ہمیشہ خوش رکھتا تھا ۔ جیسے ہی جمعہ کو اطلاع ملتی کہ دعوت کس کے گھر پر ہے تو اُن نوجوانوںکو خود ہی معلوم ہو جاتا کہ انھیں کیا کرنا ہے وہ اُس گھر کے باہر زور زور سے گانے گاتے اور ہر آنے جانے والے پر جملے کستے ۔ جب گھر والے تنگ آ جاتے تو ایک دن کوئی یہ مسئلہ لے کر جمعہ کے پاس آجاتا ۔
جمعہ اُن نوجوانوں کو ڈانٹتا اور وہ منہ جھکا کر چلے جاتے ۔ گھر کے باسی سمجھ جاتے اور اچھا خاصا حصہ جب جمعہ کے گھر پہنچتا تو سب سے پہلے دستر خوان پر وہ ہی نوجوان بیٹھے ہوتے اور پیٹ بھر کر کھانا ملنے پر جمعہ کی واہ واہ کرتے ۔ میں آپ کو بھٹکنے نہیں دونگا اس لیے بتا دوں کہ کوئی اس کا مطلب ڈی چوک کے نوجوان نہ لے۔ پلیز میری باتوں کو کوئی بھی غلط رنگ نہ دے ۔ میں صرف جمعہ صاحب کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جمعہ کے خلاف محلے کے کچھ لوگ اکٹھے ہوجاتے اور اپنی دیواروں کو بڑا کر کے اندر اندر بیٹھے خوب جمعہ کی کمیٹی اور نوجوانوں کو برا بھلا کہتے ۔ ایسے میں جمعہ خاموشی اختیار کر لیتا ۔ اور روز کی بنیاد پر ایک تحفہ ان لوگوں کو بھیجتا ۔ کبھی یہ تحفہ بکرے کا سر ہوتا تو کبھی آنکھوں کو جلانے والی پیاز ۔ اُس سے یہ تمام مخالف حیرت میں رہ جاتے کہ آخر اُن کی دکان یا اُن کے گھر سے نکل کر چیز کیسے جمعہ تک پہنچی اور پھر کیسے انھیں یہ ہی چیزیں تحفے میں مل گئی ۔
ہر روز کچھ چوری ہوتا اور شام کو انھیں تحفے کے طور پر واپس مل جاتا ۔ اور آخر میں تنگ آکر سب گھر والے سر جھکا کر جمعہ سے کہتے کہ ہمارے گھروں سے چوری روکوا دے ہمیں تحفہ نہیں چاہیے ۔ میں پھر درخواست کرونگا کہ اس سے مراد کسی طور پر بھی بار بار جماعتیں بدلنے والے نہیں ہیں کیونکہ یہ سادہ دل سیاسی لوگ تو عوام کے بھلے اور بہتری کے لیے اپنی جماعت اور قائد بدلتے ہیں اس لیے آپ سب لوگ اپنی سوچ کو جمعہ صاحب تک ہی محدود رکھیں ۔
کبھی کبھار کچھ شرارتی بچے گھر میں چھپ کر ہونے والی باتوں کو بھی سب کے سامنے کہنے لگ جاتے ہیں ۔ جس سے جمعہ کو پتہ چل جاتا کہ لوگ اُس سے کتنی محبت کرتے ہیں اس لیے جمعہ ہمیشہ بچوں کو خوش رکھتا ۔ تاکہ اُسے پتہ چلتا رہے کہ کون اُس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے ۔ ہر گھر کا بچہ اُس کا ایک مخبر تھا ۔
جس میں سے اکثر جب بڑے ہوگئے تو وہ جمعہ کے سامنے زبان چلانے لگ گئے تھے ۔ اس لیے جمعہ کو دکھ ہو رہا تھا کہ کیوں اُس نے ایسے بچے پالے تھے ۔ ان بچوں کا قد ضرور بڑا ہو گیا تھا لیکن تھے تو بچے۔ جمعہ نے بھی اُن کے ابا سے کہہ کر اُن کی زبانیں سی ڈالی ۔
کبھی کوئی شرارتی بچہ جمعہ کے ڈیرے سے کچھ چرا کر لے جاتا تو جمعہ اُس بچے کو کچھ کہنے کی بجائے دوسرے شرارتی بچے کو اُس کے گھر سے کچھ چرانے بھیج دیتا ۔ جس سے بچہ تو بچہ گھر والے بھی سمجھ جاتے کہ جمعہ سے دشمنی اچھی نہیں ۔ براہ مہربانی اچھا سوچا کرے میں سمجھ چکا ہوں اس لیے اس سے پہلے کہ آپ اپنی سوچ کو آگے بڑھائیں میرے لیے ضروری ہے کہ میں آپ کو واضح کر دوں کہ جمعہ صاحب نے کراچی کسی شرارتی بچے کو نہیں بھیجا ہے ۔جو یہاں کچھ چرانے آیا ہے ۔
یہاں عوام کے نام پر ڈھول بجانے والے کے ہاتھ کسی اور کی مرضی سے چلتے ہیں ۔ ہر چیز دو نمبر ہے ۔ بڑے بڑے جلسوں ، دھرنوں اور ریلیوں میں چلانے والے صرف پیچھے چلنے والے میوزک پر اپنی زبان ہلانے کی اداکاری کرتے ہیں اور ہم جیسے بے بس تماشائی سارا ڈرامہ دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی اندھے اور بہرے بننے کی اداکاری کرتے رہتے ہیں ۔
ہمیں جو سر عام راگ سنائے جاتے ہیں بند کمروں میں اُس پر قہقہے لگائے جاتے ہیں ۔ حقوق دلانے کے دعویدار میز کے نیچے سے اپنا سارا حق لے لیتے ہیں ۔ یہاں کسی کو دولت چاہیے تو کسی کو شہرت کا جنون ہے ۔ کسی کے دل میں بھی ہم جیسے غریبوں کے لیے رحم نہیں ہے ۔ تماشے ہیں ۔ ایسے تماشے کے جس میں سب کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہے ۔اسٹیج پر ہماری داد وصول کرنے والے بس کٹ پتلی ہے ۔ بس پراکسی ہے ۔ سب کے سب ۔
یہاں ہر ایک کی زبان پر یہ بات عام ہے کہ ہمارے ہزاروں لوگوں نے ہاتھوں میں ہتھیار اور زبان پر حق کا نام لے کر جو سچے دل سے جہاد کیا وہ کسی اور کی پراکسی تھی۔ آج یمن تنازعہ پر ہم سب لبیک کہہ رہے ہیں اور سب ایک زبان ہو کر اس بات پر آمادہ ہے کہ یمن میں دو ملکوں کی پراکسی وار چل رہی ہے ۔ اور اگر ہم اس میں کود گئے تو ہم بھی اس کا حصہ بن جائینگے ۔
یہاں پر ان دونوں ملکوں کی پراکسی شروع ہو جائے گی ۔ ہم ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالیں گے ۔ یہاں خون کی ندیاں بہہ جائے گی ۔ ہم کتنے بھولے ہوشیار ہیں۔بھولے اس لیے کہ ہم ہمیں آج تک پراکسی سمجھ ہی نہیں آئی اور ہوشیار اس لیے کہ ہم سازشوں کو ہمیشہ سمجھ گئے ہیں اور بعد میں اپنی سمجھ پر ماتم کرتے رہے ہیں ۔
آئیے آپ کو ایک جمعہ کا قصہ سناتا ہوں ۔محلہ میں کسی کا کوئی بھی مسئلہ ہو جائے ہمیشہ جمعہ اُس کا ہیرو ہوتا ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہوتی کہ نہ تو کبھی جمعہ نے اُس مصیبت کے مارے کا مسئلہ سُنا ہوتا اور نہ ہی کبھی خود سے اُس کو حل کیا ہوتا لیکن کسی بھی طریقے سے مسئلہ کا کوئی بھی حل نکلتا ہمیشہ یہ ہی کہا جاتا کہ اس میں جو کچھ بھی اچھا ہوا ہے وہ جمعہ نے ہی کیا ہے ۔
جمعہ بھائی کو جس مسئلہ میں اپنا فائدہ نہ ملتا وہ ہمیشہ اُس کو اس خوبصورتی کے ساتھ ٹالتے کہ تمام لوگ واہ واہ کرنے لگ جاتے ۔ جمعہ بھائی نے اپنے محلے کے بزرگ لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی ہوئی تھی۔ جس میں سے اکثر لوگ اپنے گھروں اور عقل سے فارغ تھے ۔ دو وقت کا کھانا بھی جمعہ بھائی کے گھر پر کھاتے تھے ۔ لیکن ان لوگوں میں کمال یہ تھا کہ جب بھی کسی مسئلہ کا فیصلہ اُسے نہ کرنا ہو یا پھر ٹالنا ہو تو وہ اس کمیٹی کے پاس چلا جاتا تھا ۔
ایک بار جمعہ کے پاس دو دوستوں کا مسئلہ آیا ۔ یہ دونوںبھی جمعہ کے مشترکہ دوست تھے۔ جمعہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں اُس نے کسی ایک کے حق میں فیصلہ دے دیا تو دوستی خراب ہو جائے گی کیونکہ ایک کے گھر سے روز کی روٹی آتی ہے اور دوسرے کے گھر سے چاول ۔ اس لیے جمعہ نے دونوں کو یہ کہا کہ کیونکہ آپ دونوں میرے دوست ہو اس لیے بہتر ہے کہ اس کا فیصلہ ایسے لوگ کرے جن کا جھکاؤ کسی ایک طرف نہ ہو ۔ اور یہ معاملہ بزرگ کمیٹی کے پاس چلا گیا ۔
کمیٹی کے لوگ پہلے ہی ہوشیار تھے اس لیے فورا بھولے بن گئے اور فیصلہ یہ دیا کہ دوستی ایک انمول رشتہ ہے اور اس کے درمیان کبھی کسی کو نہیں آنا چاہیے اس لیے کمیٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دونوں کے درمیان نہ تو کمیٹی آئے اور نہ ہی جمعہ بھائی آئے اور دونوں دوست مل کر فیصلہ کر لے ۔ لیکن اس تنازعہ میں کسی بھی طور پر جمعہ کی روٹی اور چاول کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے کیونکہ اس نے کمیٹی کو فیصلہ کا حق دے کر حق دوستی نبھا دیا ہے ۔
آپ بالکل یہ مت سوچیں کہ میں نے جمعہ خان سے یہاں مراد کسی پاکستانی ادارے کو لیا ہے اور نہ ہی کوئی عقل مند یہ سمجھنے کی گستاخی کرے کہ یہ کمیٹی وہ ہی ہے جس نے مشترکہ طور پر کوئی قرارداد لائی ہے ۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ اس مثال کو کوئی یہاں استعمال کرے ۔ اس لیے ہم جمعہ کے کارناموں پر ہی روشنی ڈالتے ہیں ۔
جمعہ کی خواہش تھی کہ جب کبھی کوئی بھی بڑی دعوت ہو تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ حصہ اُسی کو ملے ۔ اس کا آسان طریقہ اُس نے ڈھونڈا ہوا تھا محلہ کے وہ نوجوان جو اپنی چرب زبانی کے لیے مشہور تھے انھیں ہمیشہ خوش رکھتا تھا ۔ جیسے ہی جمعہ کو اطلاع ملتی کہ دعوت کس کے گھر پر ہے تو اُن نوجوانوںکو خود ہی معلوم ہو جاتا کہ انھیں کیا کرنا ہے وہ اُس گھر کے باہر زور زور سے گانے گاتے اور ہر آنے جانے والے پر جملے کستے ۔ جب گھر والے تنگ آ جاتے تو ایک دن کوئی یہ مسئلہ لے کر جمعہ کے پاس آجاتا ۔
جمعہ اُن نوجوانوں کو ڈانٹتا اور وہ منہ جھکا کر چلے جاتے ۔ گھر کے باسی سمجھ جاتے اور اچھا خاصا حصہ جب جمعہ کے گھر پہنچتا تو سب سے پہلے دستر خوان پر وہ ہی نوجوان بیٹھے ہوتے اور پیٹ بھر کر کھانا ملنے پر جمعہ کی واہ واہ کرتے ۔ میں آپ کو بھٹکنے نہیں دونگا اس لیے بتا دوں کہ کوئی اس کا مطلب ڈی چوک کے نوجوان نہ لے۔ پلیز میری باتوں کو کوئی بھی غلط رنگ نہ دے ۔ میں صرف جمعہ صاحب کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جمعہ کے خلاف محلے کے کچھ لوگ اکٹھے ہوجاتے اور اپنی دیواروں کو بڑا کر کے اندر اندر بیٹھے خوب جمعہ کی کمیٹی اور نوجوانوں کو برا بھلا کہتے ۔ ایسے میں جمعہ خاموشی اختیار کر لیتا ۔ اور روز کی بنیاد پر ایک تحفہ ان لوگوں کو بھیجتا ۔ کبھی یہ تحفہ بکرے کا سر ہوتا تو کبھی آنکھوں کو جلانے والی پیاز ۔ اُس سے یہ تمام مخالف حیرت میں رہ جاتے کہ آخر اُن کی دکان یا اُن کے گھر سے نکل کر چیز کیسے جمعہ تک پہنچی اور پھر کیسے انھیں یہ ہی چیزیں تحفے میں مل گئی ۔
ہر روز کچھ چوری ہوتا اور شام کو انھیں تحفے کے طور پر واپس مل جاتا ۔ اور آخر میں تنگ آکر سب گھر والے سر جھکا کر جمعہ سے کہتے کہ ہمارے گھروں سے چوری روکوا دے ہمیں تحفہ نہیں چاہیے ۔ میں پھر درخواست کرونگا کہ اس سے مراد کسی طور پر بھی بار بار جماعتیں بدلنے والے نہیں ہیں کیونکہ یہ سادہ دل سیاسی لوگ تو عوام کے بھلے اور بہتری کے لیے اپنی جماعت اور قائد بدلتے ہیں اس لیے آپ سب لوگ اپنی سوچ کو جمعہ صاحب تک ہی محدود رکھیں ۔
کبھی کبھار کچھ شرارتی بچے گھر میں چھپ کر ہونے والی باتوں کو بھی سب کے سامنے کہنے لگ جاتے ہیں ۔ جس سے جمعہ کو پتہ چل جاتا کہ لوگ اُس سے کتنی محبت کرتے ہیں اس لیے جمعہ ہمیشہ بچوں کو خوش رکھتا ۔ تاکہ اُسے پتہ چلتا رہے کہ کون اُس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے ۔ ہر گھر کا بچہ اُس کا ایک مخبر تھا ۔
جس میں سے اکثر جب بڑے ہوگئے تو وہ جمعہ کے سامنے زبان چلانے لگ گئے تھے ۔ اس لیے جمعہ کو دکھ ہو رہا تھا کہ کیوں اُس نے ایسے بچے پالے تھے ۔ ان بچوں کا قد ضرور بڑا ہو گیا تھا لیکن تھے تو بچے۔ جمعہ نے بھی اُن کے ابا سے کہہ کر اُن کی زبانیں سی ڈالی ۔
کبھی کوئی شرارتی بچہ جمعہ کے ڈیرے سے کچھ چرا کر لے جاتا تو جمعہ اُس بچے کو کچھ کہنے کی بجائے دوسرے شرارتی بچے کو اُس کے گھر سے کچھ چرانے بھیج دیتا ۔ جس سے بچہ تو بچہ گھر والے بھی سمجھ جاتے کہ جمعہ سے دشمنی اچھی نہیں ۔ براہ مہربانی اچھا سوچا کرے میں سمجھ چکا ہوں اس لیے اس سے پہلے کہ آپ اپنی سوچ کو آگے بڑھائیں میرے لیے ضروری ہے کہ میں آپ کو واضح کر دوں کہ جمعہ صاحب نے کراچی کسی شرارتی بچے کو نہیں بھیجا ہے ۔جو یہاں کچھ چرانے آیا ہے ۔