تحریک آزادی ہند میں مسلم کردار تلگو زبان کے مسلم مؤرخ کی شان دار تحقیق
آزادی ہند میں مسلمانوں کے کردار کے موضوع پر دس کتب پوری تحقیق کے بعد تحریروتالیف کیں
برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ میں آزادی کا باب ہنوز تشنۂ تحقیق ہے اور اس ضمن میں بہت کم مؤرخین غیرجانب داری سے کام لیتے ہیں۔ ایک اردو پر ہی کیا موقوف، ہندی اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی متعصب اہل قلم خصوصاً ہندوؤں نے تحریک آزادی میں مسلمانوں کے کردار کو یا تو گھٹاکر پیش کیا یا اکثر مقام پر سرے سے نظر انداز کردیا۔
تقسیم ہند کے بعد، جب پاکستان اور ہندوستان (سرکاری نام بھارت) نامی دو آزاد ملک معرض وجود میں آئے تو یہ سلسلہ اور بھی دراز ہوگیا۔ ایسے میں کسی مسلمان مؤرخ کا سرحد کے اُس پار رہتے ہوئے مکمل صداقت کا اظہار کرنا یقیناً نہایت دشوار کام تھا۔ سید نصیراحمد ایسے ہی حق گو اور حق جُو مؤرخ ہیں، جنہوں نے اپنی مادری زبان تلگو(Telugu)میں تحریک آزادی ہند میں مسلمانوں کے کردار کے موضوع پر دس کتب پوری تحقیق کے بعد تحریروتالیف کیں۔
22دسمبر1955ء کو پیدا ہونے والے سید نصیر احمد بھارتی صوبے آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور (Guntur)کے موضع وینو کونڈا میں مقیم ہیں، جسے اس صوبے کا لکھنؤ بھی کہا جاتا ہے۔ تلگو زبان کے ممتاز شاعر گرم جاشوا کا تعلق بھی اسی موضع سے تھا۔ ویسے سید نصیر احمد کا آبائی تعلق ضلع نیلور کے گاؤں پورینی(Purini) نرساراؤ پیٹ سے ہے، وہی ان کی جائے پیدائش بھی ہے۔ ان کے والد کا نام سید میراں محی الدین اور والد ہ کا نام سیدہ بی بی جان ہے۔
انہوں نے ساتویں جماعت ہی سے اپنے تحریری مشاغل کی ابتدا کی تھی، باقاعدہ نثرنگاری انٹرمیڈیٹ کے بعد شروع کی۔ وہ بی کام، ایم کام اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر وکالت شروع کی، پھر صحافت اپنائی اور ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد ، اپنی صحافیانہ ملازمت چھوڑ کر سیاحت برائے تحقیق و تصنیف کو اپنا مستقل مشغلہ بنالیا۔ انہوں نے حب الوطنی کے اظہار میں اپنی مادری زبان میں ایک رسالہ بعنوان 'سارے جہاں سے اچھا انڈیا' بھی جاری کیا ہے۔
علاوہ ازیں وہ متعدد تلگو جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ معذوروں کی فلاح و بہبود کے ضمن میں کافی فعال ہیں۔ تاریخ کے علاوہ انہیں معاشیات اور عُمرانیات سے لگاؤ ہے اور علاقائی، ملکی وعالمی سطح پر کئی کانفرنسوں میں بطور مقرر شرکت کرچکے ہیں۔ان کے دیگر مشاغل میں تصویرکشی اور کارٹون کشی شامل ہیں۔سید نصیر احمد ہندوستانی ٹیلی وژن کے دس چینلز بشمول ای ٹی وی اردو کو انٹرویو دے چکے ہیں۔
اُن کی کتب کے نام یہ ہیں:
1۔ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا حصہ]تین بار اشاعت[
2۔شیر میسور ٹیپو سلطان]تین بار اشاعت[
3۔شہید اعظم اشفاق اﷲ خان۔ (اردو زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے)]تین بار اشاعت[
4۔جنگ آزاد ی میں مسلمان خواتین کا حصہ]تین بار اشاعت[
5۔جنگ آزاد ی میں آندھرا پردیش کے مسلمانوں کا حصہ]تین بار اشاعت[
6۔بھارت کی جنگ آزاد ی میں عام مسلمانانِ ہند کا حصہ]دو بار اشاعت[
7۔ہندوستان کی جنگ آزاد ی میں مسلمانوں کا حصہ
8۔یادگار مسلم شخصیات
'The Immortals' (1757-1947):نواب سراج الدولہ تا شعیب اﷲ،ہندوستان کے مسلم حریت پسند زعماء کے حالات مع تصاویر (تین سو باون صفحات پر مشتمل مرقع۔ قیمت ایک ہزار ہندوستانی روپے): یہ کتاب اب انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو ، تلگو اور کناڈا زبان میں شائع ہوگی۔
9۔تحریک آزادی ہند اور مسلمان
10۔تین سو تینتیس(۳۳۳)تلگو مسلم مصنفین کا جائزہ
سید نصیر احمد کی یہ کتب ابھی غیر مطبوعہ ہیں:
1۔داداامیر حیدرخان۔ جنوبی ہند میں کمیونسٹ تحریک کے سَرخَیل (زیرتکمیل)
2۔آزاد ہند فوج: مسلم ہیروز
اول الذکر کتاب کے موضوع پر کچھ گفتگو ہوجائے۔ اشتمالی یعنی کمیونسٹ (روسی تلفظ: کمونست) تحریک کے عَلَم بردارداداامیر حیدرخان سن 1900ء میں راولپنڈی کے ایک دورافتادہ گاؤںسیالیاں عمرخان( Siahlian Umar Khan) میں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم کسی مدرسے میں حاصل کی اور پھر 1914ء میں، بمبئی جاکر برطانوی مرچنٹ نیوی میں شامل ہوگئے، بعدازاں ان کا تبادلہ امریکی مرچنٹ نیوی میں کردیا گیا۔ اس دور میں ان کی ملاقات آئرش قوم پرست جوزف ملکین (Joseph Mulkane)سے ہوئی، جس نے انہیں انگریز مخالف سیاسی نظریات سے روشناس کرایا۔
1920ء میں دادا امیر حیدر نے 'غدرپارٹی' کے اراکین سے نیویارک میں ملاقات کی اور ان کے ترجمان 'غدر کی گونج' کی سمندرپار ہندوستانیوں میں تقسیم کا کام سنبھالا۔ جنگ عظیم اول کے بعد ہونے والی ہڑتال کے نتیجے میں انہیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے اور پھر انہیں سیاست کے میدان خارزار میں Anti-Imperialist League اور Workers (Communist) Party of the USA کے ذریعے قدم جمانے کا موقع ملا۔
اس جماعت نے انہیں تحریکی تعلیم کے حصول کے لیے سوویت یونین روانہ کیا، جہاں انہوں نے University of the Toilers of the East (ماسکو) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1928ء میں بمبئی کا رخ کیا، جہاں ان کے بزرگ کمیونسٹ راہ نماؤں سے مراسم قائم ہوگئے۔
اگلے سال مارچ میں دادا کو میرٹھ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا، مگر وہ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے اور پھر انہوں نے ماسکو جاکر بین الاقوامی کمیونسٹ تنظیم (Comintern)کو ہندوستان کی سیاسی صورت حال سے آگاہ کرکے اس سے راہ نمائی طلب کی۔ ہندوستان واپسی کے بعد گرفتاری سے بچانے کے لیے انہیں مدراس (اب چنئی) بھیجا گیا جہاں سے انہوں نے اپنی نظریاتی تحریک کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور فرضی ہندو نام شنکر اختیار کیا۔ جنوبی ہند میں کام کرتے ہوئے انہوں نے Young Workers Leagueبھی قائم کی۔
1932ء میں داداامیر حیدر کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی تعریف میں پمفلٹ جاری کرنے کے جرم میں گرفتار کرکے مظفرگڑھ جیل بھیجا گیا ۔1938ء میں رہائی کے بعد انہوں نے بمبئی سے سیاسی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کیا ۔
اس موقع پر انڈین نیشنل کانگریس کے کمیونسٹ دھڑے نے انہیں صوبائی کمیٹی کا رکن منتخب کیا جب کہ وہ رام گڑھ، بہار کے سالانہ اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔ 1939ء میں جنگ عظیم دوم کے آغاز پر انہیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے ناسک جیل میں اپنی یادداشتیں قلم بند کرنا شروع کیں۔ 1942ء میں سب سے آخر میں رہا ہونے والے کمیونسٹ بھی وہی تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ، حکومت وقت سے چھپتے چھپاتے امیر حیدر نے لاہور میں حسین بخش ملنگ کے گھر پناہ لی اور فسادات میں کئی ہندو گھرانوں کی بحفاظت واپسی میں مدد کی۔ 1949ء میں ایک مرتبہ پھر اسیری ان کا مقدر بنی اور پھر اگلے ڈیڑھ برس وہ جیل میں قید رہے۔ رہائی کے بعد، انہیں کمیونسٹ راہ نماؤں حسن ناصر اور علی امام کی قانونی امداد کی کوشش کی پاداش میں راول پنڈی کچہری کے سامنے سے گرفتار کیا گیا۔
راول پنڈی سازش کیس میں شامل تفتیش کرنے کے لیے انہیں لاہور کے شاہی قلعے میں قید کیا گیا۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز اور امروز کی تحریک کے نتیجے میں انہیں رہا کردیا گیا ۔1958ء میں داداامیر حیدر کو ایک بار پھر جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ انہیں دیگر ساتھیوں کے ساتھ راول پنڈی جیل میں رکھا گیا۔ بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا۔ عمر کے آخری بیس سال انہوں نے اسی شہر میں بسر کیے، مگر جب کبھی فرصت ملتی اپنے دیرینہ دوست حسین بخش ملنگ سے ملنے لاہور چلے جاتے تھے۔
انہوں نے اپنے گاؤں میں واقع اپنی زمین اور اپنے ہاتھوں تعمیر کیا ہوا بوائز اسکول عوام کے لیے وقف کردیا۔ پھر ایک گرلز اسکول بھی قائم کیا، جس میں سائنسی تجربہ گاہ بھی بنوائی۔ یہ اسکول بعد ازاں سرکاری تحویل میں لے لیے گئے۔
دادا امیر حیدر کا انتقال 26دسمبر 1989ء کو راول پنڈی میں ہوا۔
سید نصیر احمد کی کتاب ''آزاد ہند فوج: مسلم ہیروز'' کے حوالے سے یہ یاددہانی ضروری ہے کہ آزاد ہند فوج کے متعلق پاکستان میں نام ور صحافی امداد صابری مرحوم کی کتاب شائع ہوچکی ہے، جس کا نام تھا: تاریخ آزاد ہند فوج، جب کہ راقم کے نجی کتب خانے میں اس کتاب کے علاوہ ایک اور نہایت نایاب کتاب اس فوج کے سربراہ سُبھاش چندر بوس کے نجی سراغ رساں، کے۔آر۔پلٹا(K.R. Palta)کی لکھی ہوئی موجود ہے، جس کا نام ہے:My Adventures with the I.N.A
راقم کی دلی خواہش ہے کہ کوئی ناشر اس کے اردو ترجمے کے لیے اس سے رابطہ کرے تو یہ اہم کتاب بھی ہماری زبان کے سرمائے میں شامل ہوجائے۔ سید نصیر احمد اس ضمن میں میرے ہم نوا ہیں۔سید نصیر احمد نے انکشاف کیا کہ انہوں نے محض آزاد ہند فوج کے موضوع پر بیس سال تحقیق کی اور مختلف کتابی مواد جمع کرنے کے علاوہ اس منفرد تنظیم سے منسلک ، زندہ افراد یا ان کے لواحقین سے بھی ملاقات یا رابطہ کیا ہے۔
ان کے کتب خانے میں اس فوج سے وابستہ میجرجنرل کیانی، شاہنواز خان اورمیاں اکبرشاہ کی کتب موجود ہیں۔ مؤخر الذکر مصنف 1889ء میں گاؤں بدرشاہی، ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔اگست میں ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر ہونے والی تقاریب میں کڑپہ اسلامی بہبود سوسائٹی، کویت نے سید نصیر احمد کو بطور خاص کویت مدعو کیا اور انہوں نے بطور مہمان خصوصی ایک گھنٹے سے زاید خطاب کیا۔
ہرچند کہ سید نصیر احمد تلگو اور انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں اور اردو ٹوٹی پھوٹی بول سکتے ہیں، مگر ان کی تحریر و تقریر جان دار ہے اور وہ دیگر زبانوں سے اشتراک کے حامی ہیں۔ سید نصیر احمد کا پیغام یہ ہے کہ خوبیاں، خامیاں، اچھائیاں، برائیاں ہر قوم میں ہوتی ہیں۔ مسلمانوں، خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کو نہ تو برا گردانا جائے نہ ہی وطن دشمن۔ وہ انسان دوستی کے حامی ہیں۔
انہوں نے راقم سے آن لائن گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتب کے حقوق بلامعاوضہ دیگر زبانوں کے ناشرین کو دے دیے ہیں اور مزید دیں گے، کیوں کہ ان کے نزدیک ان کا علمی کام ان کے وطن کی ملکیت ہے، ان کی نہیں۔ علاوہ ازیں وہ مندرجہ ذیل ویب سائٹ کو بھی یہ حقوق مفت فراہم کرچکے ہیں:
WIKIPEDIA ACCESS TO KNOWLEDGE
سید نصیر احمدکی زیر تشکیل ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
https://indianmuslimfreedomfighters.in
جب کہ ان سے فیس بک پر بھی رابطہ ممکن ہے:
https://www.facebook.com/syed.n.ahamed
ان کا ای میل پتا ہے: naseerahamedsyed@gmail.com
ان کی کتب کے مفت ڈاؤن لوڈ کے لیے: www.vikasdhartri.org.
تقسیم ہند کے بعد، جب پاکستان اور ہندوستان (سرکاری نام بھارت) نامی دو آزاد ملک معرض وجود میں آئے تو یہ سلسلہ اور بھی دراز ہوگیا۔ ایسے میں کسی مسلمان مؤرخ کا سرحد کے اُس پار رہتے ہوئے مکمل صداقت کا اظہار کرنا یقیناً نہایت دشوار کام تھا۔ سید نصیراحمد ایسے ہی حق گو اور حق جُو مؤرخ ہیں، جنہوں نے اپنی مادری زبان تلگو(Telugu)میں تحریک آزادی ہند میں مسلمانوں کے کردار کے موضوع پر دس کتب پوری تحقیق کے بعد تحریروتالیف کیں۔
22دسمبر1955ء کو پیدا ہونے والے سید نصیر احمد بھارتی صوبے آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور (Guntur)کے موضع وینو کونڈا میں مقیم ہیں، جسے اس صوبے کا لکھنؤ بھی کہا جاتا ہے۔ تلگو زبان کے ممتاز شاعر گرم جاشوا کا تعلق بھی اسی موضع سے تھا۔ ویسے سید نصیر احمد کا آبائی تعلق ضلع نیلور کے گاؤں پورینی(Purini) نرساراؤ پیٹ سے ہے، وہی ان کی جائے پیدائش بھی ہے۔ ان کے والد کا نام سید میراں محی الدین اور والد ہ کا نام سیدہ بی بی جان ہے۔
انہوں نے ساتویں جماعت ہی سے اپنے تحریری مشاغل کی ابتدا کی تھی، باقاعدہ نثرنگاری انٹرمیڈیٹ کے بعد شروع کی۔ وہ بی کام، ایم کام اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر وکالت شروع کی، پھر صحافت اپنائی اور ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد ، اپنی صحافیانہ ملازمت چھوڑ کر سیاحت برائے تحقیق و تصنیف کو اپنا مستقل مشغلہ بنالیا۔ انہوں نے حب الوطنی کے اظہار میں اپنی مادری زبان میں ایک رسالہ بعنوان 'سارے جہاں سے اچھا انڈیا' بھی جاری کیا ہے۔
علاوہ ازیں وہ متعدد تلگو جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ معذوروں کی فلاح و بہبود کے ضمن میں کافی فعال ہیں۔ تاریخ کے علاوہ انہیں معاشیات اور عُمرانیات سے لگاؤ ہے اور علاقائی، ملکی وعالمی سطح پر کئی کانفرنسوں میں بطور مقرر شرکت کرچکے ہیں۔ان کے دیگر مشاغل میں تصویرکشی اور کارٹون کشی شامل ہیں۔سید نصیر احمد ہندوستانی ٹیلی وژن کے دس چینلز بشمول ای ٹی وی اردو کو انٹرویو دے چکے ہیں۔
اُن کی کتب کے نام یہ ہیں:
1۔ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا حصہ]تین بار اشاعت[
2۔شیر میسور ٹیپو سلطان]تین بار اشاعت[
3۔شہید اعظم اشفاق اﷲ خان۔ (اردو زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے)]تین بار اشاعت[
4۔جنگ آزاد ی میں مسلمان خواتین کا حصہ]تین بار اشاعت[
5۔جنگ آزاد ی میں آندھرا پردیش کے مسلمانوں کا حصہ]تین بار اشاعت[
6۔بھارت کی جنگ آزاد ی میں عام مسلمانانِ ہند کا حصہ]دو بار اشاعت[
7۔ہندوستان کی جنگ آزاد ی میں مسلمانوں کا حصہ
8۔یادگار مسلم شخصیات
'The Immortals' (1757-1947):نواب سراج الدولہ تا شعیب اﷲ،ہندوستان کے مسلم حریت پسند زعماء کے حالات مع تصاویر (تین سو باون صفحات پر مشتمل مرقع۔ قیمت ایک ہزار ہندوستانی روپے): یہ کتاب اب انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو ، تلگو اور کناڈا زبان میں شائع ہوگی۔
9۔تحریک آزادی ہند اور مسلمان
10۔تین سو تینتیس(۳۳۳)تلگو مسلم مصنفین کا جائزہ
سید نصیر احمد کی یہ کتب ابھی غیر مطبوعہ ہیں:
1۔داداامیر حیدرخان۔ جنوبی ہند میں کمیونسٹ تحریک کے سَرخَیل (زیرتکمیل)
2۔آزاد ہند فوج: مسلم ہیروز
اول الذکر کتاب کے موضوع پر کچھ گفتگو ہوجائے۔ اشتمالی یعنی کمیونسٹ (روسی تلفظ: کمونست) تحریک کے عَلَم بردارداداامیر حیدرخان سن 1900ء میں راولپنڈی کے ایک دورافتادہ گاؤںسیالیاں عمرخان( Siahlian Umar Khan) میں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم کسی مدرسے میں حاصل کی اور پھر 1914ء میں، بمبئی جاکر برطانوی مرچنٹ نیوی میں شامل ہوگئے، بعدازاں ان کا تبادلہ امریکی مرچنٹ نیوی میں کردیا گیا۔ اس دور میں ان کی ملاقات آئرش قوم پرست جوزف ملکین (Joseph Mulkane)سے ہوئی، جس نے انہیں انگریز مخالف سیاسی نظریات سے روشناس کرایا۔
1920ء میں دادا امیر حیدر نے 'غدرپارٹی' کے اراکین سے نیویارک میں ملاقات کی اور ان کے ترجمان 'غدر کی گونج' کی سمندرپار ہندوستانیوں میں تقسیم کا کام سنبھالا۔ جنگ عظیم اول کے بعد ہونے والی ہڑتال کے نتیجے میں انہیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے اور پھر انہیں سیاست کے میدان خارزار میں Anti-Imperialist League اور Workers (Communist) Party of the USA کے ذریعے قدم جمانے کا موقع ملا۔
اس جماعت نے انہیں تحریکی تعلیم کے حصول کے لیے سوویت یونین روانہ کیا، جہاں انہوں نے University of the Toilers of the East (ماسکو) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1928ء میں بمبئی کا رخ کیا، جہاں ان کے بزرگ کمیونسٹ راہ نماؤں سے مراسم قائم ہوگئے۔
اگلے سال مارچ میں دادا کو میرٹھ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا، مگر وہ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے اور پھر انہوں نے ماسکو جاکر بین الاقوامی کمیونسٹ تنظیم (Comintern)کو ہندوستان کی سیاسی صورت حال سے آگاہ کرکے اس سے راہ نمائی طلب کی۔ ہندوستان واپسی کے بعد گرفتاری سے بچانے کے لیے انہیں مدراس (اب چنئی) بھیجا گیا جہاں سے انہوں نے اپنی نظریاتی تحریک کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور فرضی ہندو نام شنکر اختیار کیا۔ جنوبی ہند میں کام کرتے ہوئے انہوں نے Young Workers Leagueبھی قائم کی۔
1932ء میں داداامیر حیدر کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی تعریف میں پمفلٹ جاری کرنے کے جرم میں گرفتار کرکے مظفرگڑھ جیل بھیجا گیا ۔1938ء میں رہائی کے بعد انہوں نے بمبئی سے سیاسی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کیا ۔
اس موقع پر انڈین نیشنل کانگریس کے کمیونسٹ دھڑے نے انہیں صوبائی کمیٹی کا رکن منتخب کیا جب کہ وہ رام گڑھ، بہار کے سالانہ اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔ 1939ء میں جنگ عظیم دوم کے آغاز پر انہیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے ناسک جیل میں اپنی یادداشتیں قلم بند کرنا شروع کیں۔ 1942ء میں سب سے آخر میں رہا ہونے والے کمیونسٹ بھی وہی تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ، حکومت وقت سے چھپتے چھپاتے امیر حیدر نے لاہور میں حسین بخش ملنگ کے گھر پناہ لی اور فسادات میں کئی ہندو گھرانوں کی بحفاظت واپسی میں مدد کی۔ 1949ء میں ایک مرتبہ پھر اسیری ان کا مقدر بنی اور پھر اگلے ڈیڑھ برس وہ جیل میں قید رہے۔ رہائی کے بعد، انہیں کمیونسٹ راہ نماؤں حسن ناصر اور علی امام کی قانونی امداد کی کوشش کی پاداش میں راول پنڈی کچہری کے سامنے سے گرفتار کیا گیا۔
راول پنڈی سازش کیس میں شامل تفتیش کرنے کے لیے انہیں لاہور کے شاہی قلعے میں قید کیا گیا۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز اور امروز کی تحریک کے نتیجے میں انہیں رہا کردیا گیا ۔1958ء میں داداامیر حیدر کو ایک بار پھر جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ انہیں دیگر ساتھیوں کے ساتھ راول پنڈی جیل میں رکھا گیا۔ بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا۔ عمر کے آخری بیس سال انہوں نے اسی شہر میں بسر کیے، مگر جب کبھی فرصت ملتی اپنے دیرینہ دوست حسین بخش ملنگ سے ملنے لاہور چلے جاتے تھے۔
انہوں نے اپنے گاؤں میں واقع اپنی زمین اور اپنے ہاتھوں تعمیر کیا ہوا بوائز اسکول عوام کے لیے وقف کردیا۔ پھر ایک گرلز اسکول بھی قائم کیا، جس میں سائنسی تجربہ گاہ بھی بنوائی۔ یہ اسکول بعد ازاں سرکاری تحویل میں لے لیے گئے۔
دادا امیر حیدر کا انتقال 26دسمبر 1989ء کو راول پنڈی میں ہوا۔
سید نصیر احمد کی کتاب ''آزاد ہند فوج: مسلم ہیروز'' کے حوالے سے یہ یاددہانی ضروری ہے کہ آزاد ہند فوج کے متعلق پاکستان میں نام ور صحافی امداد صابری مرحوم کی کتاب شائع ہوچکی ہے، جس کا نام تھا: تاریخ آزاد ہند فوج، جب کہ راقم کے نجی کتب خانے میں اس کتاب کے علاوہ ایک اور نہایت نایاب کتاب اس فوج کے سربراہ سُبھاش چندر بوس کے نجی سراغ رساں، کے۔آر۔پلٹا(K.R. Palta)کی لکھی ہوئی موجود ہے، جس کا نام ہے:My Adventures with the I.N.A
راقم کی دلی خواہش ہے کہ کوئی ناشر اس کے اردو ترجمے کے لیے اس سے رابطہ کرے تو یہ اہم کتاب بھی ہماری زبان کے سرمائے میں شامل ہوجائے۔ سید نصیر احمد اس ضمن میں میرے ہم نوا ہیں۔سید نصیر احمد نے انکشاف کیا کہ انہوں نے محض آزاد ہند فوج کے موضوع پر بیس سال تحقیق کی اور مختلف کتابی مواد جمع کرنے کے علاوہ اس منفرد تنظیم سے منسلک ، زندہ افراد یا ان کے لواحقین سے بھی ملاقات یا رابطہ کیا ہے۔
ان کے کتب خانے میں اس فوج سے وابستہ میجرجنرل کیانی، شاہنواز خان اورمیاں اکبرشاہ کی کتب موجود ہیں۔ مؤخر الذکر مصنف 1889ء میں گاؤں بدرشاہی، ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔اگست میں ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر ہونے والی تقاریب میں کڑپہ اسلامی بہبود سوسائٹی، کویت نے سید نصیر احمد کو بطور خاص کویت مدعو کیا اور انہوں نے بطور مہمان خصوصی ایک گھنٹے سے زاید خطاب کیا۔
ہرچند کہ سید نصیر احمد تلگو اور انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں اور اردو ٹوٹی پھوٹی بول سکتے ہیں، مگر ان کی تحریر و تقریر جان دار ہے اور وہ دیگر زبانوں سے اشتراک کے حامی ہیں۔ سید نصیر احمد کا پیغام یہ ہے کہ خوبیاں، خامیاں، اچھائیاں، برائیاں ہر قوم میں ہوتی ہیں۔ مسلمانوں، خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کو نہ تو برا گردانا جائے نہ ہی وطن دشمن۔ وہ انسان دوستی کے حامی ہیں۔
انہوں نے راقم سے آن لائن گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتب کے حقوق بلامعاوضہ دیگر زبانوں کے ناشرین کو دے دیے ہیں اور مزید دیں گے، کیوں کہ ان کے نزدیک ان کا علمی کام ان کے وطن کی ملکیت ہے، ان کی نہیں۔ علاوہ ازیں وہ مندرجہ ذیل ویب سائٹ کو بھی یہ حقوق مفت فراہم کرچکے ہیں:
WIKIPEDIA ACCESS TO KNOWLEDGE
سید نصیر احمدکی زیر تشکیل ویب سائٹ کا پتا یہ ہے:
https://indianmuslimfreedomfighters.in
جب کہ ان سے فیس بک پر بھی رابطہ ممکن ہے:
https://www.facebook.com/syed.n.ahamed
ان کا ای میل پتا ہے: naseerahamedsyed@gmail.com
ان کی کتب کے مفت ڈاؤن لوڈ کے لیے: www.vikasdhartri.org.