ایک فلم ایک میچ

زندگی یہی تو ہے کہ تمام چیزیں باہم ملی ہوئی ہوتی ہیں اور موت ان کا منتشر ہو جانا ہے

03332257239@hotmail.com

اداکار محمد علی، زیبا اور لہری کی یہ فلم تھی۔ یہ وہ دن تھا جب پاکستان ایک کرکٹ میچ ہارگیا تھا۔

یہ غم غلط کرنے کا بہانہ تھا کہ انگلیاں فلمی چینل تک پہنچ گئیں۔ ہیرو اورکامیڈین بے روزگار تھے۔ فلم کی ہیروئن گونگی بن کر ان کے گھر تک پہنچ جاتی ہے۔ لہری ایک اخبار لاتے ہیں اور محمد علی کو بتاتے ہیں کہ یہ لڑکی بہت امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بھاگی ہوئی ہے اور اسے واپس لانے والے کو پندرہ ہزار روپے کا انعام ملے گا۔اخبار میں اس وقت کے صدر یحییٰ خان کی تصویر بھی نظر آرہی تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ فلم سن ستر کی ہے۔ اس دور کے پندرہ ہزار آج کے پندرہ لاکھ ہوئے۔

یوں بھی آج کے دور میں بھی بے روزگاروں کے لیے یہ رقم بڑی کہلائے گی۔زیبا یہ باتیں سن لیتی ہے اور کہتی ہے کہ تم اگر مجھے ظالموں کے حوالے کرنا چاہو تو کردو۔ دونوں حیران ہوجاتے ہیں کہ یہ گونگی کیسے بول رہی ہے۔ زیبا اپنے خاندان کے مظالم کے قصّے سنا کر ان سے مدد کی طالب ہوئی۔ ''انصاف اور قانون'' نامی فلم اس دور کے مشہور ہدایت کار شباب کیرانوی کی فنی صلاحیتوں کا شاہکار تھی۔ اب نہ فلمیں رہیں اور نہ سنیما۔ چالیس برس قبل کی کامیاب فلم اور سری لنکا کے مقابل ٹی 20 میں ناکامی میں ہمارے لیے کیا کیا سبق پوشیدہ ہیں۔

چالیس میں اگر چالیس جمع کریں تو یہ اسّی بنتے ہیں، جو اداکار اس دور میں ادھیڑ عمر کے تھے، اب وہ انتقال کر گئے ہیں یا بوڑھے ہوچکے ہیں۔ زندگی یہی تو ہے کہ تمام چیزیں باہم ملی ہوئی ہوتی ہیں اور موت ان کا منتشر ہو جانا ہے، جو خوبصورت تھے، دولت مند تھے، ہینڈسم تھے، کامیاب تھے وہ اب کہاں ہیں؟چچا غالب کہتے ہیں کہ

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

آج کل کے ٹی وی چینلز کی بدولت نوجوان نسل کے چند فیصد لوگ انھیں پہچانتے ہیں۔ دس بیس برس اور گزر جائیں تو یہ سب کچھ بھی یاد نہیں رہے گا۔ ان کی فلمیں دیکھنے والے، سنیماؤں کی ٹکٹ کے لیے ڈنڈے کھانے والے بھی بزرگ ہوجائیں گے یا موت کی وادی میں داخل ہوجائیں گے۔


وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے اور ایک دو نسلوں کے بعد لوگ اپنے سے پہلے گزرے ہوئوں کو بھول جاتے ہیں پھر آج کے مصروف دور میں جب ہر کوئی صرف اپنی ہی ذات کے بارے میں سوچتا ہے پرانی نسل کو یاد کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتا،وہ اسے وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔

لہری حال ہی میں اور محمد علی چند برسوں قبل رخصت ہوچکے ہیں۔ شبنم یہاں آکر کچھ یادوں کو تازہ کرچکی ہیں۔ یہ ہے زندگی۔ اسی کے لیے ہم لڑتے جھگڑتے ہیں، دوسروں کا حق مارتے ہیں۔ شہرت اور دولت کے لیے ہر حربہ اختیار کرتے ہیں۔صرف دولت کی خاطر اپنوں کو چھوڑ دیتے ہیں،ایک امیر بھائی اپنے سگے غریب بھائی سے ملنے میں اپنی توہین سمجھتا ہے۔ سب یہیں کا یہیں رہ جائے گا۔ یہ پہلا سبق ملا اس فلم سے۔

یحییٰ خان کی تصویر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اقتدار کتنا وقتی ہوتا ہے۔ شاید آج کی نئی نسل وحید مراد اور محمد علی کو جان جائے، وہ لہری اور رنگیلا کو پہچان جائے لیکن اگر ان کے سامنے ایوب خان اور یحییٰ خان کی تصویر رکھی جائیں تو وہ نہیں بتاسکیں گے کہ یہ کون ہیں۔ یہی صورتِ حال شہنشاہِ ایران کے بارے میں ہو۔ اگر تہران اور اصفہان کے کسی کالج کے طالب علموں سے پوچھا جائے تو ان کی اکثریت رضا شاہ کو پہچاننے سے انکار کردے۔ یہ ہے اقتدار کی حیثیت۔

''انصاف اور قانون'' نامی فلم یحییٰ خان کے دور میں بنی تھی۔ اس سے قبل بھی ان ہی ہدایت کار کی ایک فلم عدالتی معاملات سے بھرپور تھی۔ اس قدر انصاف کی محبت اور قانون سے الفت کے باوجود لوگ خاموش تھے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک چلا کر وہ تھک گئے تھے۔ وہ بھول گئے تھے کہ یحییٰ خان نے آئین توڑ کر ملک میں مارشل لا لگادیا ہے۔ کوئی شہری، کوئی وکیل، کوئی ریٹائر جج عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹا سکا۔ جب ملک ٹوٹ گیا تو کسی اور مقدمے کو بنیاد بنا کر یحییٰ کے مارشل لا پر بحث کی گئی اور انھیں غاصب قرار دیا گیا۔ فوجی جنرل کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد، ضیاء اور مشرف کے مارشل لاز کو جائز قرار دیا گیا۔

اب سوال ہے کہ میڈیا کی آزادی، عوام کے شعور اور عدالتوں کے جرأت مندانہ فیصلوں کے بعد کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم سن ستر سے آگے بڑھ گئے ہیں؟ اب کسی طالع آزما کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں فوجی حکومتوں کا زمانہ گزر گیا ہے؟ ہے نا یہ بھی ایک پوشیدہ سبق۔

کرکٹ کے مقابلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب جیت ہار تو ہوتی رہے گی۔ پہلے صرف ٹیسٹ میچ ہوا کرتے تھے وہ بھی سال بھر میں چند ایک۔ صرف ریڈیو پر کمنٹری ہوتی تھی۔ پھر ون ڈے اور اب ٹی 20۔ چینلز ہر میچ کو دِکھاتے ہیں۔ پہلے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے مقابلے ایک آدھ گھنٹے دِکھائے جاتے تھے کہ مہنگے پڑتے تھے۔ سات آٹھ بڑی ٹیموں میں نصف ہی سیمی فائنل کھیلیں گی۔ ہم کبھی سپر ایٹ سے آگے نہیں بڑھیں گے تو کبھی فائنل کھیل لیں گے۔ کبھی کپ لائیں گے تو کبھی ''دوچار ہاتھ جب کہ لبِ نام رہ گیا'' والی کیفیت ہوگی۔

کبھی کوئی کھلاڑی نہیں کھیل سکے گا تو کبھی فیلڈنگ خراب ہوگی۔ کبھی بالر زیادہ رنز دے گا تو کبھی کپتانی سے شکایت ہوگی۔ یہ تو ہوگا۔ اسے ہم نہیں روک سکیں گے۔ جو چیز ہم کرسکتے ہیں وہ ہمیں کرنی چاہییں۔ اگر ہم ایک کام کرلیں تو پھر ہماری شکایات صرف کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر ہوں گی۔ یوں کہ دوسری ٹیم بھی اپنے ملک کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ بھی جیتنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ ہمیں ہر دفعہ جیتنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ہارنے کا خوف بھی ہونا چاہیے۔ ایک معاملے پر کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ بہترین ٹیم۔

بہترین ٹیم ہم نے میدان میں اتاری؟ ہم آفریدی اور عمران نذیر کے بجائے رزاق اور اسد شفیق کو کھلاتے تو نتیجہ کچھ بھی ہوتا ہم اسے اپنی بہترین فارم پر مشتمل کھلاڑیوں کی ٹیم کہہ سکتے تھے۔ کپتان عمران خان نے اپنے سگے خالہ زاد بھائی اور آئیڈیل ماجد خان کو باہر بٹھادیا کہ وہ فارم میں نہ تھے۔ گہرے دوست عبدالقادر کو نہ کھلایا کہ گیارہ میں ان کی جگہ نہیں بنتی تھی۔ آج کے سپراسٹارز کو کل کوئی نہیں پہچانے گا کیونکہ ہم بھی ماضی کے ہیروز سے واقف نہیں۔ سب بے ایمانیاں سب بدمعاشیاں یہیں کی یہیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ صرف انصاف ہونا چاہیے کہ یہی سبق ہے ایک فلم اور ایک میچ کا۔
Load Next Story