انقلاب و شرائط
منزل دور ہی سہی لیکن راستہ متعین ہو تو مل جاتی ہے
دینی مدارس سے سالانہ 20 لاکھ علمائے کرام فارغ ہو کر جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہورہے ہیں۔
یہ فرمایا مولانا فضل الرحمن نے۔ بے شک مولانا منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، غلط فہمی اور غلط بیانی کا ان کے ہاں گزر نہیں۔ مدارس صدیوں سے آباد ہیں اور آباد رہیں گے۔ برصغیر پاک و ہند تو گویا طالبان علم کا مسکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی گئی جس سے جمعیت علمائے اسلام بنی۔ مفتی شبیر عثمانی کے بعد اس کے تین دھڑے ہوئے لیکن تمام ہی کا خمیر علما کرام ہی ہیں۔ زیادہ پھلی پھولی تو مولانا فضل الرحمن کی پارٹی۔ دیگر دو بھی لیکن اس جیسی نہیں۔ سیاست سے زیادہ قربت بھی اسی کو حاصل ہوئی۔ وجہ اگر ہے تو صرف مفتی محمود اور بعد ازاں ان کے ہونہار صاحبزادے کی سیاسی بصیرت۔ مولانا فضل الرحمن سیاسی درجۂ حرارت شناسی میں طاق ہیں۔ دور اندیشی گویا ان ہی کا خاصا ہے۔ ہر حکومت میں اپنی ہی شرائط پربغیر کسی دھونس دھاندلی کے ایڈجسٹ ہونا ان کا طرۂ امتیاز۔
اب اگر وہ چترال میں سیکڑوں نہیں، ہزاروں کے اجتماع میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان کے قافلے میں سالانہ بیس لاکھ علمائے کرام شامل ہورہے ہیں تو یقیناً انھوں نے دو تین سال کی شرح آمد کو دیکھتے ہوئے فرمایا ہوگا۔ اس طرح تین سال میں ان کی پارٹی کی قوت میں 60 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ عرض کیا جاچکا ہے کہ مدارس آباد ہیں اور آباد رہیں گے۔ بس مہمان اور میزبان بدلتے رہتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل افراد یقیناً کسی دینی جماعت سے وابستہ ہوں گے، سیکولر جماعت میں جانے سے تو وہ رہے۔ وہ آٹھ سال میں سبق پڑھتے ہیں صداقت کا، امانت کا۔ سلیقہ سیکھتے ہیں دنیا کی امامت کا۔ حق و باطل میں امتیاز کرنے اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے کا۔ قرآنی آیات کو دنیاوی فوائد کے لیے فروخت نہ کرنے کا۔ دینی علوم کے آٹھ درجات عبور کرنے کے بعد بیشتر طالبان حق عمر کی اٹھارہ بہاریں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔
بس یہاں سے نکلے اور حق رائے دہی کے اہل ٹھہرے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اکلوتی جمعیت علمائے اسلام علما کرام پر مشتمل تھی۔ تین دھڑے ہوئے تب بھی۔ ساٹھ ستر لاکھ پر مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ ہے تو چند لاکھ دیگر دو دھڑوں سے وابستہ ہیں۔ لیکن ووٹ کا اختیار صرف ان ہی کو حاصل نہیں، دیگر شہری بھی آئین سازوں کا انتخاب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کیا یہ 60 لاکھ کے لگ بھگ علما کرام میں سے ہر ایک سال بھرمیں صرف دو عام افراد کو اپنے طرز عمل سے متاثر کرسکتے ہیں کہ وہ کہہ اٹھے کہ مولانا بتائیں ووٹ کس کو دینا ہے؟ نماز کے فرائض کے ساتھ ساتھ بہ حیثیت شہری ہمارے کیا فرائض ہیں؟ کون سی قدغنوں کے زیر بار ہیں؟ حکمرانوں نے ہمارے کون سے حقوق غصب کر رکھے ہیں؟ بس یہی طرز عمل درکار ہے، ایک بابرکت اسلامی انقلاب کے لیے۔ 60 لاکھ کو تین سے ضرب دینے کے لیے اﷲ پر بھروسہ اور خلوصِ نیت شرطِ اوّل ہے۔
مصائب ہی سے پالا تو یقیناً پڑتا ہے لیکن مصائب جھیلنے کا حوصلہ صرف حوصلہ مندوں کو راس آتا ہے۔ منزلِ مقصود پانے کے لیے صبر جمیل شرط دوم ہے۔ منزل دور ہی سہی لیکن راستہ متعین ہو تو مل جاتی ہے۔ مشرق کو دو قدم چلے، شمال کو مڑے، تین ہی قدم اٹھائے اور پھر راستے میں تبدیلی، یہ شیوہ منزل سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا ہے، کامرانوں کا نہیں۔ منزل تک پہنچنے کے لیے مستقل مزاجی تیسری شرط ہے۔ خلوصِ نیت، صبر، مستقل مزاجی گر آجائے فرد میں تو وہ منزل کو ضرور بہ ضرور پالیتا ہے لیکن تنظیموں کے لیے دو شرائط مزید ہیں، اتحاد اور اطاعت۔ کیا کبھی سوچا ہے کہ اسلامی تنظیمیں ایک اسلامی سرزمین پر ناکام کیوں ہیں؟ نہیں۔ تو اب سوچیں۔ شرائط سامنے ہیں۔
پورے اتریں اور منزل کو پائیں۔ مارچ 1940 سے پہلے بھی تو مسلمانانِ برصغیر طوق غلامی سے نجات کے لیے کوشاں تھے لیکن کامیابی تب ملی جب راستہ متعین ہوا، قائد ملا، اتحاد نصیب ہوا۔ صرف سات سال ہی میں دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی نظریاتی ملک وجود میں آیا۔ مقصد کیا تھا، سب جانتے ہیں، اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام۔ لاکھوں زندگیاں اس لیے نچھاور نہیں کی گئیں کہ ایک سیکولر ملک بنانا ہے۔ سیکولر ازم کی بنیاد کلمہ طیبہ نہیں۔ بنا ملک اسلام کے نفاذ کے لیے لیکن قابض غیر ہوئے، قانون فرنگی جاری رہا۔
اگر تبدیلی ہوئی تو صرف برائے نام۔ اسلامی دفعات شامل ہوئیں لیکن عمل ناپید۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کون ذمے دار ہیں؟ اپنی ناکامیوں کو غیروں کی مہارتوں کا ذکر کرکے پوشیدہ رکھنا زندہ قوموں کی نشانیاں نہیں۔ کمزوریاں انسانوں ہی کا خاصہ ہیں، قابو پانا بھی ان کی ذمے داری۔ منزل پا کر بھٹکتے ہوئے کبھی سوچا ہے کہ اصل منزل کا حصول کس طرح ممکن ہوگا۔ جمہوریت گر قبول ہے تو جمہوری انداز اپنانا ہوگا۔ جمہوریت میں عالم اور جاہل برابر ہے، بس قائل کرنا اور اپنی طرف مائل کرنا۔ شرائط کامرانی واضح ہیں تو مولانا فضل الرحمن سے عرض کرتا چلوں۔
نام اگرچہ ان کی پارٹی کا علمائے کرام کی نمایندگی کی عکاسی کرتا ہے، تاہم جمہوریت کا دعویٰ اگر سچ ہے تو عام شہریوں کو بھی شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پارٹی میں شامل علمائے کرام سے حلف لیں، منبر و محراب پر بیٹھ کر عوام کو ہم نوا بنانے کا۔ مسجد کمیٹی نہیں، اﷲ کو جواب دہی کا۔ مقتدیوں کا امام بننے کا، زرخرید غلامی قبول نہ کرنے کا۔ لیکن بدقسمتی اور صرف بدقسمتی کہ بیشتر مملکتِ خداداد میں انقلاب کی بات تو درکنار ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں بھی وعظ و نصیحت کرتے ہوئے احتیاط برتتے ہیں کہ کوئی ناراض نہ ہوجائے۔ یہ سوچ اگر ہو تو ساٹھ لاکھ کو تین سے نہیں دس سے بھی ضرب دیا جائے تو بے سود۔
یہ فرمایا مولانا فضل الرحمن نے۔ بے شک مولانا منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، غلط فہمی اور غلط بیانی کا ان کے ہاں گزر نہیں۔ مدارس صدیوں سے آباد ہیں اور آباد رہیں گے۔ برصغیر پاک و ہند تو گویا طالبان علم کا مسکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی گئی جس سے جمعیت علمائے اسلام بنی۔ مفتی شبیر عثمانی کے بعد اس کے تین دھڑے ہوئے لیکن تمام ہی کا خمیر علما کرام ہی ہیں۔ زیادہ پھلی پھولی تو مولانا فضل الرحمن کی پارٹی۔ دیگر دو بھی لیکن اس جیسی نہیں۔ سیاست سے زیادہ قربت بھی اسی کو حاصل ہوئی۔ وجہ اگر ہے تو صرف مفتی محمود اور بعد ازاں ان کے ہونہار صاحبزادے کی سیاسی بصیرت۔ مولانا فضل الرحمن سیاسی درجۂ حرارت شناسی میں طاق ہیں۔ دور اندیشی گویا ان ہی کا خاصا ہے۔ ہر حکومت میں اپنی ہی شرائط پربغیر کسی دھونس دھاندلی کے ایڈجسٹ ہونا ان کا طرۂ امتیاز۔
اب اگر وہ چترال میں سیکڑوں نہیں، ہزاروں کے اجتماع میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان کے قافلے میں سالانہ بیس لاکھ علمائے کرام شامل ہورہے ہیں تو یقیناً انھوں نے دو تین سال کی شرح آمد کو دیکھتے ہوئے فرمایا ہوگا۔ اس طرح تین سال میں ان کی پارٹی کی قوت میں 60 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ عرض کیا جاچکا ہے کہ مدارس آباد ہیں اور آباد رہیں گے۔ بس مہمان اور میزبان بدلتے رہتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل افراد یقیناً کسی دینی جماعت سے وابستہ ہوں گے، سیکولر جماعت میں جانے سے تو وہ رہے۔ وہ آٹھ سال میں سبق پڑھتے ہیں صداقت کا، امانت کا۔ سلیقہ سیکھتے ہیں دنیا کی امامت کا۔ حق و باطل میں امتیاز کرنے اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے کا۔ قرآنی آیات کو دنیاوی فوائد کے لیے فروخت نہ کرنے کا۔ دینی علوم کے آٹھ درجات عبور کرنے کے بعد بیشتر طالبان حق عمر کی اٹھارہ بہاریں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔
بس یہاں سے نکلے اور حق رائے دہی کے اہل ٹھہرے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اکلوتی جمعیت علمائے اسلام علما کرام پر مشتمل تھی۔ تین دھڑے ہوئے تب بھی۔ ساٹھ ستر لاکھ پر مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ ہے تو چند لاکھ دیگر دو دھڑوں سے وابستہ ہیں۔ لیکن ووٹ کا اختیار صرف ان ہی کو حاصل نہیں، دیگر شہری بھی آئین سازوں کا انتخاب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کیا یہ 60 لاکھ کے لگ بھگ علما کرام میں سے ہر ایک سال بھرمیں صرف دو عام افراد کو اپنے طرز عمل سے متاثر کرسکتے ہیں کہ وہ کہہ اٹھے کہ مولانا بتائیں ووٹ کس کو دینا ہے؟ نماز کے فرائض کے ساتھ ساتھ بہ حیثیت شہری ہمارے کیا فرائض ہیں؟ کون سی قدغنوں کے زیر بار ہیں؟ حکمرانوں نے ہمارے کون سے حقوق غصب کر رکھے ہیں؟ بس یہی طرز عمل درکار ہے، ایک بابرکت اسلامی انقلاب کے لیے۔ 60 لاکھ کو تین سے ضرب دینے کے لیے اﷲ پر بھروسہ اور خلوصِ نیت شرطِ اوّل ہے۔
مصائب ہی سے پالا تو یقیناً پڑتا ہے لیکن مصائب جھیلنے کا حوصلہ صرف حوصلہ مندوں کو راس آتا ہے۔ منزلِ مقصود پانے کے لیے صبر جمیل شرط دوم ہے۔ منزل دور ہی سہی لیکن راستہ متعین ہو تو مل جاتی ہے۔ مشرق کو دو قدم چلے، شمال کو مڑے، تین ہی قدم اٹھائے اور پھر راستے میں تبدیلی، یہ شیوہ منزل سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا ہے، کامرانوں کا نہیں۔ منزل تک پہنچنے کے لیے مستقل مزاجی تیسری شرط ہے۔ خلوصِ نیت، صبر، مستقل مزاجی گر آجائے فرد میں تو وہ منزل کو ضرور بہ ضرور پالیتا ہے لیکن تنظیموں کے لیے دو شرائط مزید ہیں، اتحاد اور اطاعت۔ کیا کبھی سوچا ہے کہ اسلامی تنظیمیں ایک اسلامی سرزمین پر ناکام کیوں ہیں؟ نہیں۔ تو اب سوچیں۔ شرائط سامنے ہیں۔
پورے اتریں اور منزل کو پائیں۔ مارچ 1940 سے پہلے بھی تو مسلمانانِ برصغیر طوق غلامی سے نجات کے لیے کوشاں تھے لیکن کامیابی تب ملی جب راستہ متعین ہوا، قائد ملا، اتحاد نصیب ہوا۔ صرف سات سال ہی میں دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی نظریاتی ملک وجود میں آیا۔ مقصد کیا تھا، سب جانتے ہیں، اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام۔ لاکھوں زندگیاں اس لیے نچھاور نہیں کی گئیں کہ ایک سیکولر ملک بنانا ہے۔ سیکولر ازم کی بنیاد کلمہ طیبہ نہیں۔ بنا ملک اسلام کے نفاذ کے لیے لیکن قابض غیر ہوئے، قانون فرنگی جاری رہا۔
اگر تبدیلی ہوئی تو صرف برائے نام۔ اسلامی دفعات شامل ہوئیں لیکن عمل ناپید۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کون ذمے دار ہیں؟ اپنی ناکامیوں کو غیروں کی مہارتوں کا ذکر کرکے پوشیدہ رکھنا زندہ قوموں کی نشانیاں نہیں۔ کمزوریاں انسانوں ہی کا خاصہ ہیں، قابو پانا بھی ان کی ذمے داری۔ منزل پا کر بھٹکتے ہوئے کبھی سوچا ہے کہ اصل منزل کا حصول کس طرح ممکن ہوگا۔ جمہوریت گر قبول ہے تو جمہوری انداز اپنانا ہوگا۔ جمہوریت میں عالم اور جاہل برابر ہے، بس قائل کرنا اور اپنی طرف مائل کرنا۔ شرائط کامرانی واضح ہیں تو مولانا فضل الرحمن سے عرض کرتا چلوں۔
نام اگرچہ ان کی پارٹی کا علمائے کرام کی نمایندگی کی عکاسی کرتا ہے، تاہم جمہوریت کا دعویٰ اگر سچ ہے تو عام شہریوں کو بھی شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پارٹی میں شامل علمائے کرام سے حلف لیں، منبر و محراب پر بیٹھ کر عوام کو ہم نوا بنانے کا۔ مسجد کمیٹی نہیں، اﷲ کو جواب دہی کا۔ مقتدیوں کا امام بننے کا، زرخرید غلامی قبول نہ کرنے کا۔ لیکن بدقسمتی اور صرف بدقسمتی کہ بیشتر مملکتِ خداداد میں انقلاب کی بات تو درکنار ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں بھی وعظ و نصیحت کرتے ہوئے احتیاط برتتے ہیں کہ کوئی ناراض نہ ہوجائے۔ یہ سوچ اگر ہو تو ساٹھ لاکھ کو تین سے نہیں دس سے بھی ضرب دیا جائے تو بے سود۔