یمن خراب حقیقت کیا ہے
ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ اگر ایران سے تعلقات خراب ہوئے تو ردعمل بلوچستان میں آئے گا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کے مسئلے پر مقررین کی اکثریت کا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان کو اس معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے، کوئی ایسا اقدام نہیں لینا چاہیے کہ جس سے حالات خراب ہوں کیونکہ اگر جنگ کا جائرہ کار پھیلا تو فائدہ صرف اور صرف امریکا اور اسرائیل کو ہوگا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان مسئلے کا حصہ بننے کے بجائے صلح کار کا کردار ادا کرے۔ یمن کا مسئلہ گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ میر حاصل بزنجو کا موقف تھا کہ عرب میں ایک انقلاب آچکا ہے۔ ہم اسے نہیں روک سکتے۔ نہ ہی یہ ہماری ذمے داری ہے۔ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ اگر ایران سے تعلقات خراب ہوئے تو ردعمل بلوچستان میں آئے گا۔
دوسرے ارکان نے کہا کہ یمن میں مسلک کی جنگ نہیں، خانہ جنگی ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی، فرقہ واریت اور اقتصادی مسائل پاکستان کے تین بڑے مسئلے ہیں۔ اگر ہم کسی نئے مسئلے میں الجھ گئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ اصل کام رہ جائے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا حصہ بننے کے بجائے یمن کی صورت حال کو سلجھانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرے۔ پاکستان اور ترکی مل کر اسلام آباد یا استنبول میں سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کریں۔ اگر سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی کو خطرہ ہو تو پاکستان کو مدد کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
یمن کے مسئلہ پر سعودی و ایرانی سفیروں نے بھی امیر جماعت اسلامی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ سعودی سفیر نے مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی حمایت کی جب کہ ایرانی سفیر نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ مسئلہ کا حل مذاکرات ہی ہیں اور یہ یمن کے اندر ہی ہوں تو بہتر ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی کہا ہے کہ یمن جنگ کے معاملہ پر حکومت اور عسکری قیادت کا مؤقف یکساں ہے کہ موجودہ حالات میں ثالث کے طور پر کردار ادا کرنے اور سفارتی سطح پر کوششیں پاکستان کی پہلی ترجیح ہے۔ دوسری ترجیح میں سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور کسی بھی خطرے کی صورت میں پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ مسلمانوں کے دشمن نئے فارمولے کے تحت اپنی مرضی کا مڈل ایسٹ بنانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کو روکنا ہوگا۔
یمن میں سعودی عرب کی زیر قیادت فضائی حملوں میں حوثی باغیوں کی ہلاکت کے ساتھ سویلین ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 6 سو کے قریب لوگ ہلاک اور دو ہزار کے قریب زخمی ہیں جن میں بیشتر عام شہری ہیں۔ دوسری طرف امریکا نے ریاض حکومت کے لیے اسلحے کی سپلائی میں اضافہ کردیا ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی کی تصدیق ریاض میں امریکی نائب وزیر خارجہ نے اتحادیوں سے ملاقات میں کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگی اور خفیہ معلومات یمن کے حوالے سے سعودی اتحادیوں سے شیئر کی جائیں گی۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے خلیج کی سلامتی کے لیے سربراہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر اوباما کے خصوصی مشیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک خلیجی ریاستوں کو درپیش کسی بھی خطرے سے نمٹنے میں مدد کرے گا۔ اس حوالے سے جلد ہی کیمپ ڈیوڈ میں ایک سربراہ کانفرنس منعقد ہوگی جس میں خلیجی ملکوںکی قیادت سے بھی صلاح مشورہ کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے یمن کے بحران کے حل کے لیے ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایران کا دورہ کیا۔ ملاقات کے بعد ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یمن بحران کا سیاسی سفارتی حل نکالنا چاہیے اور فوری جنگ بندی ہونی چاہیے۔ اس موقع پر ترک صدر نے کہا کہ میں فرقوں پر یقین نہیں رکھتا۔ کوئی شیعہ سنی نہیں، سب مسلمان ہیں۔ اس سے پہلے وزیراعظم نواز شریف بھی یمن بحران حل کے لیے برادر اسلامی ملک ترکی کا دورہ کرچکے ہیں۔یمن کے مسئلے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس تنازعے میں غیر جانبدار رہے اور وہاں فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اپنا کردار ادا کرے۔
یمن کا تنازعہ ایک بہت بڑا جال ہے جس کے ذریعے عرب بادشاہتوں اور پاکستان کو شکار کیا جائے گا۔ اس مسئلے کا جلد حل نہ ہونا خطے میں طوفان لائے گا جس کی لپیٹ سے کوئی نہ بچ پائے گا۔ جس طرح اس تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش کی جارہی ہے۔ وقتی طور پر تو اس پر قابو پالیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک؟ شمالی یمن جہاں حوثی زیدی قبائل کی اکثریت ہے۔ اس کی سرحد سعودی عرب سے لگتی ہے جہاں پر سعودی عرب کا مشرقی علاقہ ہے جہاں شیعوں کی اکثریت ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں سعودی عرب کے بیشتر تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔
یمنی حوثی زیدی قبائل پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے سیاسی حقوق و جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی اس جدوجہد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سعودی عرب کے مشرقی شیعہ اکثریتی علاقے یمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے سیاسی جمہوری حقوق مانگیں گے۔ جس کے نتیجے میں عرب بادشاہتوں کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ میں سوائے بادشاہتوں اور آمریتوں کے کچھ نہیں۔ دنیا بدل گئی ہے لیکن مشرق وسطیٰ اب تک نہیں بدلا یا زیادہ سچ یہ ہے کہ اسے بدلنے نہیں دیا گیا۔ سیاسی اور انسانی حقوق کا مطالبہ عرب بادشاہتوں سے، ان کی نظر میں بغاوت اور غداری کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی اصل مسئلہ حقوق کا ہے جس کو ایک سازش کے تحت شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دیا جارہا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے۔
زیدی حوثی قبائل کی حقیقت یہ ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی فقہ پر عمل کرتے ہیں اور سنی یمن امام شافعی کے فقہ پر عمل کرتے ہیں۔ یہ دونوں قبائل مل کر اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں جس کی پاداش میں یہ باغی قرار پاگئے۔
...مئی جون یمن تنازعے کے حوالے سے احتیاط طلب وقت ہے جس کا آغاز اپریل کے آخر میں ہوجائے گا۔
دوسرے ارکان نے کہا کہ یمن میں مسلک کی جنگ نہیں، خانہ جنگی ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی، فرقہ واریت اور اقتصادی مسائل پاکستان کے تین بڑے مسئلے ہیں۔ اگر ہم کسی نئے مسئلے میں الجھ گئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ اصل کام رہ جائے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا حصہ بننے کے بجائے یمن کی صورت حال کو سلجھانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرے۔ پاکستان اور ترکی مل کر اسلام آباد یا استنبول میں سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کریں۔ اگر سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی کو خطرہ ہو تو پاکستان کو مدد کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
یمن کے مسئلہ پر سعودی و ایرانی سفیروں نے بھی امیر جماعت اسلامی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ سعودی سفیر نے مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی حمایت کی جب کہ ایرانی سفیر نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ مسئلہ کا حل مذاکرات ہی ہیں اور یہ یمن کے اندر ہی ہوں تو بہتر ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی کہا ہے کہ یمن جنگ کے معاملہ پر حکومت اور عسکری قیادت کا مؤقف یکساں ہے کہ موجودہ حالات میں ثالث کے طور پر کردار ادا کرنے اور سفارتی سطح پر کوششیں پاکستان کی پہلی ترجیح ہے۔ دوسری ترجیح میں سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور کسی بھی خطرے کی صورت میں پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ مسلمانوں کے دشمن نئے فارمولے کے تحت اپنی مرضی کا مڈل ایسٹ بنانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کو روکنا ہوگا۔
یمن میں سعودی عرب کی زیر قیادت فضائی حملوں میں حوثی باغیوں کی ہلاکت کے ساتھ سویلین ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 6 سو کے قریب لوگ ہلاک اور دو ہزار کے قریب زخمی ہیں جن میں بیشتر عام شہری ہیں۔ دوسری طرف امریکا نے ریاض حکومت کے لیے اسلحے کی سپلائی میں اضافہ کردیا ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی کی تصدیق ریاض میں امریکی نائب وزیر خارجہ نے اتحادیوں سے ملاقات میں کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگی اور خفیہ معلومات یمن کے حوالے سے سعودی اتحادیوں سے شیئر کی جائیں گی۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے خلیج کی سلامتی کے لیے سربراہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر اوباما کے خصوصی مشیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک خلیجی ریاستوں کو درپیش کسی بھی خطرے سے نمٹنے میں مدد کرے گا۔ اس حوالے سے جلد ہی کیمپ ڈیوڈ میں ایک سربراہ کانفرنس منعقد ہوگی جس میں خلیجی ملکوںکی قیادت سے بھی صلاح مشورہ کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے یمن کے بحران کے حل کے لیے ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایران کا دورہ کیا۔ ملاقات کے بعد ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یمن بحران کا سیاسی سفارتی حل نکالنا چاہیے اور فوری جنگ بندی ہونی چاہیے۔ اس موقع پر ترک صدر نے کہا کہ میں فرقوں پر یقین نہیں رکھتا۔ کوئی شیعہ سنی نہیں، سب مسلمان ہیں۔ اس سے پہلے وزیراعظم نواز شریف بھی یمن بحران حل کے لیے برادر اسلامی ملک ترکی کا دورہ کرچکے ہیں۔یمن کے مسئلے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس تنازعے میں غیر جانبدار رہے اور وہاں فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اپنا کردار ادا کرے۔
یمن کا تنازعہ ایک بہت بڑا جال ہے جس کے ذریعے عرب بادشاہتوں اور پاکستان کو شکار کیا جائے گا۔ اس مسئلے کا جلد حل نہ ہونا خطے میں طوفان لائے گا جس کی لپیٹ سے کوئی نہ بچ پائے گا۔ جس طرح اس تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش کی جارہی ہے۔ وقتی طور پر تو اس پر قابو پالیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک؟ شمالی یمن جہاں حوثی زیدی قبائل کی اکثریت ہے۔ اس کی سرحد سعودی عرب سے لگتی ہے جہاں پر سعودی عرب کا مشرقی علاقہ ہے جہاں شیعوں کی اکثریت ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں سعودی عرب کے بیشتر تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔
یمنی حوثی زیدی قبائل پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے سیاسی حقوق و جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی اس جدوجہد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سعودی عرب کے مشرقی شیعہ اکثریتی علاقے یمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے سیاسی جمہوری حقوق مانگیں گے۔ جس کے نتیجے میں عرب بادشاہتوں کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ میں سوائے بادشاہتوں اور آمریتوں کے کچھ نہیں۔ دنیا بدل گئی ہے لیکن مشرق وسطیٰ اب تک نہیں بدلا یا زیادہ سچ یہ ہے کہ اسے بدلنے نہیں دیا گیا۔ سیاسی اور انسانی حقوق کا مطالبہ عرب بادشاہتوں سے، ان کی نظر میں بغاوت اور غداری کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی اصل مسئلہ حقوق کا ہے جس کو ایک سازش کے تحت شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دیا جارہا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے۔
زیدی حوثی قبائل کی حقیقت یہ ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی فقہ پر عمل کرتے ہیں اور سنی یمن امام شافعی کے فقہ پر عمل کرتے ہیں۔ یہ دونوں قبائل مل کر اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں جس کی پاداش میں یہ باغی قرار پاگئے۔
...مئی جون یمن تنازعے کے حوالے سے احتیاط طلب وقت ہے جس کا آغاز اپریل کے آخر میں ہوجائے گا۔