کراچی میں خانہ بدوش گداگر خواتین نے بھیک مانگنے کا نیٹ ورک بنا لیا

اندرون ملک سے روزگار کیلیے آتی ہیں،خانہ بدوش مضافاتی علاقوں میں قبیلوں کی صورت میں رہتے ہیں، ایکسپریس سروے

گداگر خواتین اسٹریٹ کرائم اورچوریوں میں ملوث ہوگئیں، دہشت گردوں کے لیے بطور مخبر بھی فرائض انجام دیتی ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

KARACHI:
مضافاتی علاقوں سے غربت کے باعث بیشتر خانہ بدوش خواتین کی بڑی تعداد نے شہر بھر میں بھیک مانگنے کا پیشہ اپناکر منظم نیٹ ورک بنالیا ہے، خواتین بھیک مانگنے کی آڑ میں مبینہ طور پر منفی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔

ایکسپریس سروے کے مطابق غربت، مہنگائی، ناخواندگی اور بیروزگاری کے باعث اندرون ملک کے کئی علاقوں سے بھوک و افلاس سے تنگ افراد روزگار کی تلاش کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں ان میں خاص طور پر باگڑی خانہ بدوش کراچی کے مختلف مضافاتی علاقوں میںجھونپڑیوں اور کچے پکے مکانوں میںقبیلوں کی صورت میں رہتے ہیں، پاکستان میں گداگری کا پیشہ قدیم ہے، ملک کی مساجد، مزارات، چرچز اور مندروں کے گرد بھکاریوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے جس میں اکثریت خواتین، بچوں اوربوڑھوں کی ہوتی ہے، خانہ بدوش خاندان شاہ رسول کالونی، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، اورنگی ٹاؤن،اتحاد ٹاؤن، چینیسر گوٹھ، کالاپل، نیلم کالونی، مچھر کالونی، بلاول گوٹھ، سہراب گوٹھ، سرجانی ٹاؤن اور ضیاالحق ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں، بھیک مانگنے والی گداگر خواتین اسٹریٹ کرائم اورگھروں میں چوریاں کرنے میں بھی ملوث ہوگئی ہیں۔

گداگر خواتین منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ بھی کرتی ہیں، جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے لیے بطور مخبر بھی فرائض سرانجام دیتی ہیں، ڈیفنس ،گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں ہونے والی وارداتیں گداگروں کی مخبری کا نتیجہ ہوتی ہیں جبکہ گداگر عورتیں مسافر بسوں اور رش کے مقامات پر جیب کاٹنے میں خصوصی مہارت رکھتی ہیں جیب تراش خواتین ٹولیوں کی صورت میں مختلف بسوں اور کوچز میں چڑھتی ہیں،تیز دھار بلیڈ کے استعمال سے مردوں کی جیب اور خواتین کے پرس کاٹ لیتی ہیں، گلستان جوہر میں بھکاری خواتین کو وارداتوں میں استعمال کرنے میں ایک مافیا سرگرم ہے جو گھروں میں ان کے ذریعے مستحکم مالی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے گھریلوملازماؤں کی روپ میں ملازمت کراتے ہیں اور زیادہ تر گھر کے بچوں کو اغوا کرانے کے بعد والدین سے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

شہر میں بھکاریوں کی بحالی کے سلسلے میں سیکریٹری محکمہ سماجی بہبود شارق احمد نے کہا ہے کہ سندھ میں بھکاریوں کی بڑھتی شرح کو کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پرسالانہ ترقیاتی پروگرام کی طرز پر پالیسی منظور کی جاچکی ہے، صوبے میں پہلے مرکزی سطح پر 3 ڈویژنوں کراچی،حیدرآباد اور سکھر میں بھکاری ہومز قائم کیے جائیں گے، جہاں گداگروں کو خوراک، لباس اور فنی تربیت کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

ایدھی سینٹر کے سیکریٹری انور کاظمی نے بتایا کہ حکومتی سطح پر بھکاری ہومز قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بھکاریوں نے بھیک مانگنے کو پیشہ بنالیا ہے، جو بھکاری 1500 روپے روز بذریعہ بھیک کماتا ہے وہ محنت کرکے کمانے کی زحمت آخر کیوں کرے گا، رمضان میں اندرون سندھ اور سرائیکی بیلٹ سے 30 ہزارخاندان بھیک مانگنے کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں، جنھیں گرفتار کرکے پولیس ایدھی سینٹر میں چھوڑ جاتے ہیں جو بھیک نہ مانگنے کا وعدہ کرکے بھاگ جاتے ہیں، شہری گداگری کی لعنت سے شہر کو پاک کرنے کے لیے بھکاریوں کو بھیک دینا ترک کردیں، سابق صدر ضیاالحق کے دور میں بھی بھکاری ہومز قائم کیے گئے جہاں انھیں مفت کھانا اور لباس فراہم کیا جاتا تھا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔


بھکاری خواتین بھیک مانگنے کے دوران شہریوںکو متاثر کرنے کیلیے دل پر چوٹ لگانیوالے نفسیاتی حربے استعمال کرتی ہیں، کاروباری مراکز میں گداگر اپنے اور بچوں کے پھٹے پرانے کپڑے اور ننگے پاؤں ظاہر کرکے اور ترقی کی دعائیں دے کر بھیک وصول کرتی ہیں، شہر میں گداگر خواتین بھیک مانگنے کے علاوہ جسم فروشی جیسے گھناؤنے کام میں ملوث ہوکر معاشرے میں جنسی بیماریاں پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں جن میں گنوریہ،سفلس،ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس شامل ہیں، 70 فیصد گداگر خواتین کو مرد جنسی زیادتی کا نشانہ بنادیتے ہیں سنسان شاہراہوں، پلوں پر پینا فلیکس کی آڑ اور رات کی تاریکی میں اوباش مرد گداگر خواتین کی عصمت دری کردیتے ہیں، 30فیصد خواتین گداگر پیسے کمانے کی غرض سے جنسی تعلقات کے لیے رضامند ہوتی ہیں۔

سٹی کورٹ کے باہر بھکاری خواتین شہریوں کو عدالتی مسائل سے چھٹکارے اور عزیزوں کو ضمانت پر رہائی کی دعائیں دے کر بھیک وصول کرتی ہیں شہر میں اکثر بھکاری خواتین مختلف اشیا فروخت کرنے کی آڑ میں بھیک مانگتی ہیں، اکثر پیشہ ور گداگر خواتین ہیئر پن، زاربن، ٹشو پیپرز ،پین ، اسٹیشنری، قرآنی آیات ،ڈرائنگ بک، کھلونے، گاڑیاں، ونڈ اسکرین اور بالوں کے کلپ وغیرہ فروخت کرتے ہوئے بھیک وصول کرتی ہیں اس کے علاوہ سگنل پر رکی گاڑیوں کے مسافروں کو پھول اور گجرے بھی فروخت کرتی ہیں، بیشتر خانہ بدوش خواتین گداگری اور منفی سرگرمیوں سے رقم کماکر برادری میں کمیٹیاں ڈال کر رقم جمع کرکے سونے کے زیورات بنوانا پسند کرتی ہیں۔

خانہ بدوش بستیوں میں گداگر خواتین رات کے وقت جوا کھیلتی ہیں اور چرس اور شراب بھی پیتی ہیں، سرکاری اسپتالوں کے باہرخواتین گداگر ہاتھوں میں دواؤں کے نسخے اٹھائے والدین کو ان کے بیمار بچوں کا واسطہ دینے اور شفایاب ہونے کی دعا دینے کے بعد دوائیں خریدنے کیلیے پیسے مانگتی ہیں، شہری ان کی درد مند صداؤں سے متاثر ہوکر انھیں دوائیں خرید کر دیدیتے ہیں جنھیں بعد میں گداگر خواتین میڈیکل اسٹورز پر واپس کرنے کے بعد پیسے وصول کرلیتی ہیں۔

کراچی میں موسم، مذہبی تہواراور قدرتی آفات کے تناظر میں بھکاریوں کی تعداد بڑھتی گھٹتی رہتی ہے، سرد موسم، رمضان المبارک ،عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ پر خانہ بدوش گداگر شہر کا رخ کرتے ہیں، اس کے علاوہ قدرتی آفات،زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ افراد بھی شہر میں بھیک مانگنے کا پیشہ اپنالیتے ہیں، حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں بھکاری خواتین کی بحالی کے لیے کوئی موثر اقدامات کرنے سے قاصر ہیں، شہر میں موجود بھکاریوں سے متعلق اب تک کوئی تحقیق نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی مربوط سروے کیا گیا ہے۔

بے گھر بچوں کو اغوا کرکے انھیںمعذور کرکے بھیک منگوانے کے رجحان میںاضافہ ہوگیا، معصوم بچے پہلے ہی بے آسرا ہوتے ہیں جب وہ معذور ہوجاتے ہیں تووہ بھکاریوں کے چنگل سے نکل کر کہیں نہیں جاسکتے اور پھر بھکاری خواتین ان بچوں کو گاڑیوں میں بٹھاکر شہر بھر میں بھیک مانگنے کا کام کرتی ہیں اس مقصد کیلیے بھکاری خواتین شہر میں بے گھر بچوں کومزارات اور دیگر مقامات پر مشروب میں نشہ آوراور گولیاں پیس کر پلانے کی کوشش کرتی ہیں جس کے پینے سے بچے بے ہوش ہوجاتے ہیںاور انھیں اغوا کرلیا جاتا ہے پھر ان بچوں کو اپنے ڈیرے میں لے جاکر ہڈیاں توڑ کر انھیں معذور کردیا جاتا ہے تاکہ معذور بچوں کو دکھاکر شہریوں سے بھیک زیادہ حاصل کی جائے۔
Load Next Story