مدد

شیعہ، ایران کی اورسُنّی سعودی عرب کی خوشنودی حاصل کرنا اپنے ایمان کا حصّہ سمجھنےلگیں گے توپاکستان کے مفاد کی پاسبانی..

چند روز قبل چوہدری صاحب پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس سے ایک دن کی رخصت لے کر گھر لوٹے تو قریب ترین معتمد ڈیرے پر ملنے کے لیے پہنچ گئے۔

شیخ نذر حسین نے اجلاس کا احوال پوچھا تو چوہدری صاحب نے بتایا کہ ''عرب میں جو جنگ لگی ہوئی ہے ( سعودیہ اور یمن میں) اسی کے بارے میں اجلاس تھا۔ وزیر دفاع نے ہمیں کہا ہے کہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے ہماری رہنمائی کریں''۔ علمدار شاہ نے خوش ہوکر دوسروں کی طرف دیکھا اور کہا ''بڑی بات ہے وزیرِدفاع نے چوہدری صاحب سے رہنمائی مانگی ہے''۔

چوہدری صاحب نے مزید رُوداد سناتے ہوئے کہا کہ'' اجلاس میں وزیر اعظم صاحب بھی آئے تھے انھوں نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے خود کہا کہ آپ ہماری مدد کریں''۔ رانا یٰسین اچھل پڑا چوہدری صاحب مدد آپ سے ہی مانگی ہے نا''ہاں ہاں وزیرِ اعظم صاحب نے تقریر کرتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو ان کی نظریں مجھ پر ہی تھیں۔

انھوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے ہی کہا کہ ''ہمیں آپکی مدد چاہیے '' رانا یٰسین اب جوش اور مسّرت سے بآوازِ بلند بولنے لگا'' یہ سب اوپر والے کا کرم ہے کہ حکومت نے ہمارے چوہدری صاحب سے مدد مانگ لی ہے۔۔۔۔ بلّے بلّے کیا مقام ملا ہے چوہدری صاحب کو!۔۔۔۔ وزیرِ اعظم سے ہمیشہ لوگ مدد مانگتے ہیں مگر آج خود وزیرِ اعظم صاحب نے ہمارے چوہدری صاحب سے مدد مانگی ہے۔۔۔۔ چوہدری صاحب بڑا اُونچا مقام دیا ہے اﷲ نے آپ کو ۔۔۔۔ کرموں بولا''چوہدری صاحب بڑا خاص موقع ہے کچھ دیگیں پکا کر بانٹ دی جائیں؟''چوہدری صاحب نے منع کرتے ہوئے کہا ''دیگیں رہنے دو۔۔۔ مٹھائی سے کام چلا لوـ''۔

علمدار شاہ نے کہا ''چوہدری صاحب وہ جو چَٹّی لینے پر ڈپٹی معطل ہوگیا تھا، اس بیچارے کو جب آپ نے بحال کرایا تو اس کے گھر والوں نے بڑی دعائیں دی تھیں۔ بس اس کے بچّوں کی دعا لگی ہے جو آپ کو یہ اعلیٰ مقام ملا ہے کہ ملک کے وزیرِ اعظم نے آپ سے مدّد اور رہنمائی مانگی ہے''۔ ''ڈپٹی صاحب اچھے آدمی تھے ہم سے ہمیشہ تعاون کرتے تھے۔

ہمارے فون پر فوراً بندہ چھوڑ دیتے تھے۔ کیا کرتے ہیں ڈپٹی صاحب کے لڑکے؟ـ''چوہدری صاحب نے پوچھا ۔ اس پر علمدار ذرا سا جھینپ کر بولا''جی اس وقت تو دونوں جیل میںہیں۔ ایک پر اغواء کا کیس ہے اور دوسرا شادی پر فائرنگ میں اندر ہوا ہے مگر دعا تو جیل سے بھی کی جاسکتی ہے جناب''

شیخ نذر نے مسئلے پر رائے زنی کرتے ہوئے کہا ''چوہدری صاحب سعودیہ میں ہمارا مکّہ مدینہ ہے وہ تو ہمیں جان سے پیارا ہے اس کی حفاظت کے لیے تو ہمارا سب کچھ قربان ہے۔ ''چوہدری صاحب نے گردن ہلاتے ہوئے کہا ''ہاں بالکل ٹھیک ہے''۔ علمدار شاہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ''مگر یمن تو دوسرا ملک ہے، سعودیہ پر حملہ ہو تو اور بات ہے۔ یمن میں جاکر لڑائی میں حصّہ لینے کی کیا ضرورت ہے اس سے ایران بھی ناراض ہوگا''۔ چوہدری صاحب نے پھر سرہلاتے ہوئے کہا ''ہاں بالکل صحیح ہے''۔

رانا یٰسین نے بھی بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا ''چوہدری صاحب سارے ملک اپنا اپنامفاد دیکھتے ہیں، ہمیں بھی اپنے ملک کا مفاد ہی دیکھنا چاہیے''۔ چوہدری صاحب نے اس پر سرہلاتے ہوئے کہا ہاں تم بھی ٹھیک کہتے ہو۔ دینو مراثی اب تک خاموش بیٹھاتھا اس نے اس اہم اور حساّس مسئلے پر contributeنہ کرنا اپنی توہین خیال کیا اور اپنے روایتی لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ''یقیناًحکومت نے ایسے ہی مدد نہیں مانگی اس نے چوہدری صاحب کا ریکارڈ دیکھ لیا ہوگا۔''


چوہدری صاحب چونک پڑے اور پریشان ہوکر پوچھنے لگے'' اوئے کونسا ریکارڈ دیکھ لیا ہے حکومت نے''؟۔ ''چوہدری صاحب! فتّو چوری میں پکڑا گیا تواس کے والد نے آپ سے مدد مانگی تھی ۔۔۔ آپ نے اسے صاف چھڑالیا۔ علی آبادکے لڑکے چرس میں پکڑے گئے تھے۔ ۔۔ ان کے وارثوں نے بھی آپ سے مدد مانگی تھی جس کے نتیجے میں لڑکے دوسرے ہفتے جیل سے نکل آئے تھے۔ ہمارے چوہدری صاحب نے جب بھی کسی کی مدد کرنے کی حامی بھری ہے، پھر ہتھکڑیاں اور حوالاتیں اپنے آپ کھل جاتی رہی ہیں۔ آخر ریکارڈ دیکھ کر ہی حکومتیں مدد مانگتی ہیں ! ''

میاں کرم الٰہی نے جو کہ ایک سنجیدہ اور سمجھدار قسم کا شخص ہے، چوہدری صاحب سے رازدارانہ لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا ''چوہدری صاحب یہ عربوں کی جنگ اور ہم سے مدد !!۔۔۔۔ یہ مسئلہ کچھ ہم سے بڑا لگتا ہے ؟۔ اس جنگ میں امریکا اور دوسرے بڑے ملک بھی کود پڑیں گے۔۔۔ اب کہاں امریکا، سعودیہ، ایران۔۔ اور کہاں چوہدری صاحب کی مدد ۔۔۔۔۔ چوہدری صاحب یہ بھاری پتھر ہمارے والا نہیں ہے۔بڑے لوگ خود ہی سوچیں اور فیصلہ کریں'' چوہدری صاحب نے میاں کرم الٰہی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا '' ہاں کرم الٰہی بات عقل کی کرتا ہے''۔ رانا یٰسین نے اتفاق کرتے ہوئے کہاـ''چوہدری صاحب کرم الٰہی دان شُور قسم کا آدمی ہے رات کوٹیلیوژن دیکھتا ہے اور سارے اینکروں کو سلا کر پھر سوتا ہے۔"

میاں کرم الٰہی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ''چوہدری صاحب مجھے تو وہ واقعہ یاد آرہاہے جب ملکہ برطانیہ نے ہٹلر کے خلاف مدد مانگی تھی، میں تو کہتا ہوں حکومت کو ہمار ا جواب مہر فضل حیات والا ہی ہونا چاہیے''۔ چوہدری صاحب نے پوچھا۔''کرم الٰہی! کیا باتیں کررہے ہو! اوپر سے گندم پکنے والی ہے اور تمہیں ہٹلر یادآرہا ہے !اور پھرملکہ نے تم سے کب مدد مانگی تھی''؟۔''نہیں چوہدری صاحب مجھ سے نہیں مہر فضل حیات سے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ بڑی جنگ میں انگریزوں نے پورے ہندوستان سے بھرتی شروع کردی۔ ایک انگریز میجر تحصیلدار کو ساتھ لے کر سرگودھا کے کسی گاؤں پہنچا اور لوگوں کو اکٹھا کیا۔ تحصیلدار نے بھرتی کی بات کی تو لوگوں نے کہا، مہر صاحب ہمارے بڑے (راہنما، بزرگ) ہیں وہی فیصلہ کریں گے''۔ مہر صاحب کو بلوایا گیا، مہر فضل حیات نے کرتا اتار کر کندھے پر رکھاہوا تھا اورہاتھ میں بھینسیں چرانے والی لاٹھی تھی، پہلے میجر نے مختصر بات کی۔ تحصیلدار نے اس کاترجمہ کرتے ہوئے کہا

مہرَ صاحب! ملکہ ء معظّمہ کی طرف سے میجر صاحب پیغام لے کر آئے ہیں کہ ہٹلر ایک بڑا ظالم شخص اور انسانیت کا دشمن ہے اس لیے اسے شکست دینا بہت ضروری ہے۔ پھر کچھ توقف کے بعد کہا جنگ جیتنے کے لیے ملکہ معظّمہ نے آپ سے مددمانگی ہے۔ ''مہر فضل دین نے جو سرجھکا کر بات سن رہا تھا، سراٹھایا، لاٹھی زمین پر ٹیک کر جواب میں بولا''۔ صاحب بہادر جے جنگ دی فتح ساڈے تے ای آپئی اے تے ملکہ ہوراں نوں آکھو ہٹلر نال صلح ای کرلیَن۔ (حضوروالا اگر اس جنگ میں فتح کا دارومدارہم جیسوں پر ہی ہے تو ملکہ معظّمہ سے کہیں کہ ہٹلر سے صلح کرلیں)۔ لوگ ہنس پڑے اور چوہدری صاحب کا قہقہہ بھی دوسرے قہقہوں میں شامل ہوگیا۔

رانا ادریس نے اس موقع پر پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا چوہدری صاحب وزیرِ اعظم نے آپ سے مدد مانگی ہے اب اس کے بدلے میں تھوڑی سی مدد آپ بھی مانگ لیں۔۔۔۔ ''وہ کیسی''؟ رانے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا چوہدری صاحب ! آپ کے بھتیجے کی نوکری اور کچھ اسلحہ لائسنسوں کی درخواستیں بڑی دیر سے پڑی ہوئی ہیں!۔ مدد کے بدلے مدد! اسی اجلاس میں ہی وزیرِ اعظم صاحب سے گھگھی مروالیں۔ درخواستیں لے کر جائیں تو انھیں کہہ دیں کہ حضوروالا! ہم آپ کے جیالے ہیں۔ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہے۔ ہمارے بندے اور چنَدے سب آپکی مدد کے لیے حاضر ہیں۔

اب تھوڑی سی مدد آپ کیجیے اور ان درخواستوں پر دستخط فرمادیجیے!!۔''رانا! درخواست اسی بیٹے کی ہے جس پر وہ کیس بن گیا تھا؟'' چوہدری صاحب کے سوال پر ادریس نے کہا''جی چوہدری صاحب وہی بیٹا ہے ۔ بس ذرا بندہ بٹھا کے امتحان دلانے پر اس وقت مسئلہ بن گیاتھا، امتحان کا نگران کوئی بڑا ہی ضدی تھا نہیں مانا۔ بعد میں اﷲ کے فضل اور آپکی مدد سے کیس بھی ٹھیک ہوگیااور ڈگری بھی مل گئی تھی''۔چوہدری صاحب نے اطمینان کا اظہار کیا اوربحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ ''ہاں بھئی مدد کرنی چاہیے۔ ہمیں حکومت کی اور حکومت کو ہماری۔ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے تو ملک کے مسائل کیسے حل ہونگے!''۔

نوٹ:پارلیمنٹ پوری قوم کی نمائیندگی کرتی ہے، اس لیے اس سے رجوع کرنا ہی مناسب تھا اس کی قراردادکا احترام سب پر واجب ہے، جدید دور میں مہذب قوموں کا یہی چلن ہے۔ مگریمن کے بحران سے بہت لوگ بے نقاب ہورہے ہیں۔ خاص طور پر وہ جن کی وفاداریاں وطنِ عزیز کے بجائے دوسرے ملکوں کے ساتھ ہیں۔

ہمارے ملک کے شیعہ، ایران کی، اور سُنّی سعودی عرب کی خوشنودی حاصل کرنا اپنے ایمان کا حصّہ سمجھنے لگیں گے تو پاکستان کے مفاد کی پاسبانی کون کریگا؟۔ یہ ٹھیک ہے کہ سعودی عرب کے پاکستان پر بہت احسانات ہیں، ایران سے کہیں زیادہ۔۔۔ اس کے احسانات ، اس سے گہرے تعلق اوراس سے بڑھ کر مقاماتِ مقدّسہ کے باعث سعودی عرب کا تحفّظ ہم پر فرض ہے مگر سعودی حکومت کے ہر کام کی کیسے حمایت کی جاسکتی ہے۔ بادشاہ سلامت تو ہزاروں بے گناہ مصری نوجوانوں کے قاتل سِیسی کو بھی ہر قسم کی مدد فراہم کررہے ہیں۔ اگر کل کو وہ کہیں کہ سیسی کی مدد کے لیے پاکستانی فوج درکار ہے تو؟
Load Next Story