پاک بھارت بینکاری روابط مارچ میں قائم نان ٹیرف رکاوٹیں ہٹانے کیلئے معاہدوں کا اطلاق دسمبرمیں ہوجائیگا
کسٹمز، کوالٹی کنٹرول اورتجارتی تنازعات کے تصفیوں کے معاہدے شامل، 2 پاکستانی اور3 بھارتی بینک کھولنے کا۔۔۔، نعیم انور
پاکستان کے 2 اور بھارت کے 3 بینکوں کی شاخیں دونوں ممالک میں مارچ 2013 تک آپریشنل ہوجائیں گی۔
دونوں ممالک کے بینکوں کی انتظامیہ جن میں پاکستان سے یونائیٹڈ بینک اور نیشنل بینک جبکہ بھارت کی جانب سے سینٹرل بینک آف انڈیا، بینک آف انڈیا اور نیشنل بینک آف پنجاب شامل ہیں برانچوں کے قیام سے متعلق دستاویزی کام30 نومبر2012 تک مکمل کر لیں گے۔ یہ بات بھارت میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات ٹریڈ منسٹر نعیم انور نے منگل کو کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجر و صنعتکاروں سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2012 تک پاکستان کی جانب سے بھی اشیا کی منفی فہرست ختم کر دی جائے گی۔
جبکہ گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان نان ٹیرف بیریئرز کے خاتمے کے لیے ہونے والے 3 معاہدے بھی موثربہ عمل ہوجائیں گے، ان معاہدوں میں کسٹمز کی سطح پر باہمی تعاون، کوالٹی کنٹرول اور تجارتی تنازعات کے تصفیوں کے معاہدے شامل ہیں، ان معاہدوں کے تحت دونوں ممالک کے کسٹمز ڈپارٹمنٹس باہمی معلومات کے تبادلے اور تعاون کریں گے، کوالٹی کنٹرول کے تحت پاکستانی لیبارٹری سے کلیئر ہونے والی اشیا کو بھارت میں تسلیم کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی نوعیت کے تنازعات کے ترجیحی بنیادوں پر تصفیے کیے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کھوکھرا پار مونائو سرحد کے ذریعے دونوں ممالک میں اگرچہ آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے لیکن پاکستان کی جانب سے مطلوبہ سرحدی انفرااسٹرکچر کے فقدان کے باعث اس راستے سے تجارت نہیں ہورہی، اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے لہٰذا کراچی چیمبر ایسی اشیا کی فہرست مرتب کرکے کمیٹی کو ارسال کرے جن کی کھوکھرا پار سرحد کے ذریعے سستی لاگت پر بھارت کو برآمدات ممکن ہوں اور ساتھ ہی پاکستان کی سرحدی حدود میںانفراسٹرکچرل ڈیولپمنٹ کی فزیبلیٹی رپورٹ بھی مرتب کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کیلیے بھارتی قومی ایئرلائن کی پروازوں کی بحالی کیلیے بھی مذاکرات کے مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔
کیونکہ سال 2008 سے بھارتی قومی ایئرلائن نے پاکستان کے لیے اپنا آپریشن بند کردیا تھا، پاکستان اور بھارت کے درمیان جب ویزوں سے متعلق تمام مسائل حل ہو جائیں گے تو دوطرفہ بنیادوں پر مسافروں کی تعداد میں ازخود اضافے کا رحجان غالب ہوجائے گا اور دونوں ممالک کی نجی ایئرلائنز کو بھی اپنی کمرشل فلائٹس کی تعداد بڑھانا پڑے گی۔ نعیم انور نے کہا کہ بھارت پاکستانی تاجروں کے لیے ایک بڑی منڈی ہے لیکن اس منڈی میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے پاکستانیوں کو انڈسٹریل مینوفیکچرنگ پر زیادہ توجہ دینی پڑے گی جس کے لیے بھارت میں منظم اور جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنی پڑے گی۔
دوطرفہ ویزہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پالیسی کے تحت پاکستانی تاجروں کے لیے ویزوں کی 2 کیٹیگریز متعارف کرائی گئی ہیں، پہلی کیٹیگری کے تحت سالانہ 5 لاکھ تا30 لاکھ روپے کے خالص منافع کے حامل تاجروں کو ایک سال کا ملٹی پل ویزا جاری کیا جائیگا جبکہ دوسری کیٹیگری کے تحت سالانہ 30 لاکھ روپے سے زائد کے خالص منافع کے حامل تاجروں کوایک سال کے ملٹی پل ویزے کے ساتھ بھارت کے 10 شہروں میں تجارتی رسائی کی سہولت دی جائے گی۔
قبل ازیں کراچی چیمبر کے صدر ہارون اگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت تجارتی سرگرمیوں کے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے دوطرفہ بنیادوں پر نان ٹیرف بیرئرز کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے بھارت اگرچہ ایک بڑی منڈی ہے لیکن بیشتر صنعتی شعبوں کو پاک بھارت آزاد تجارتی سرگرمیوں کے آغاز کے حوالے سے تحفظات ہیں اور ان شعبوں کو اپنی بقا کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اور متعلقہ ذمے دار ادارے باہمی تجارتی معاہدوں میں مقامی صنعتوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دیں۔
دونوں ممالک کے بینکوں کی انتظامیہ جن میں پاکستان سے یونائیٹڈ بینک اور نیشنل بینک جبکہ بھارت کی جانب سے سینٹرل بینک آف انڈیا، بینک آف انڈیا اور نیشنل بینک آف پنجاب شامل ہیں برانچوں کے قیام سے متعلق دستاویزی کام30 نومبر2012 تک مکمل کر لیں گے۔ یہ بات بھارت میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات ٹریڈ منسٹر نعیم انور نے منگل کو کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجر و صنعتکاروں سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2012 تک پاکستان کی جانب سے بھی اشیا کی منفی فہرست ختم کر دی جائے گی۔
جبکہ گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان نان ٹیرف بیریئرز کے خاتمے کے لیے ہونے والے 3 معاہدے بھی موثربہ عمل ہوجائیں گے، ان معاہدوں میں کسٹمز کی سطح پر باہمی تعاون، کوالٹی کنٹرول اور تجارتی تنازعات کے تصفیوں کے معاہدے شامل ہیں، ان معاہدوں کے تحت دونوں ممالک کے کسٹمز ڈپارٹمنٹس باہمی معلومات کے تبادلے اور تعاون کریں گے، کوالٹی کنٹرول کے تحت پاکستانی لیبارٹری سے کلیئر ہونے والی اشیا کو بھارت میں تسلیم کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی نوعیت کے تنازعات کے ترجیحی بنیادوں پر تصفیے کیے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کھوکھرا پار مونائو سرحد کے ذریعے دونوں ممالک میں اگرچہ آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے لیکن پاکستان کی جانب سے مطلوبہ سرحدی انفرااسٹرکچر کے فقدان کے باعث اس راستے سے تجارت نہیں ہورہی، اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے لہٰذا کراچی چیمبر ایسی اشیا کی فہرست مرتب کرکے کمیٹی کو ارسال کرے جن کی کھوکھرا پار سرحد کے ذریعے سستی لاگت پر بھارت کو برآمدات ممکن ہوں اور ساتھ ہی پاکستان کی سرحدی حدود میںانفراسٹرکچرل ڈیولپمنٹ کی فزیبلیٹی رپورٹ بھی مرتب کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کیلیے بھارتی قومی ایئرلائن کی پروازوں کی بحالی کیلیے بھی مذاکرات کے مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔
کیونکہ سال 2008 سے بھارتی قومی ایئرلائن نے پاکستان کے لیے اپنا آپریشن بند کردیا تھا، پاکستان اور بھارت کے درمیان جب ویزوں سے متعلق تمام مسائل حل ہو جائیں گے تو دوطرفہ بنیادوں پر مسافروں کی تعداد میں ازخود اضافے کا رحجان غالب ہوجائے گا اور دونوں ممالک کی نجی ایئرلائنز کو بھی اپنی کمرشل فلائٹس کی تعداد بڑھانا پڑے گی۔ نعیم انور نے کہا کہ بھارت پاکستانی تاجروں کے لیے ایک بڑی منڈی ہے لیکن اس منڈی میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے پاکستانیوں کو انڈسٹریل مینوفیکچرنگ پر زیادہ توجہ دینی پڑے گی جس کے لیے بھارت میں منظم اور جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنی پڑے گی۔
دوطرفہ ویزہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پالیسی کے تحت پاکستانی تاجروں کے لیے ویزوں کی 2 کیٹیگریز متعارف کرائی گئی ہیں، پہلی کیٹیگری کے تحت سالانہ 5 لاکھ تا30 لاکھ روپے کے خالص منافع کے حامل تاجروں کو ایک سال کا ملٹی پل ویزا جاری کیا جائیگا جبکہ دوسری کیٹیگری کے تحت سالانہ 30 لاکھ روپے سے زائد کے خالص منافع کے حامل تاجروں کوایک سال کے ملٹی پل ویزے کے ساتھ بھارت کے 10 شہروں میں تجارتی رسائی کی سہولت دی جائے گی۔
قبل ازیں کراچی چیمبر کے صدر ہارون اگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت تجارتی سرگرمیوں کے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے دوطرفہ بنیادوں پر نان ٹیرف بیرئرز کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے بھارت اگرچہ ایک بڑی منڈی ہے لیکن بیشتر صنعتی شعبوں کو پاک بھارت آزاد تجارتی سرگرمیوں کے آغاز کے حوالے سے تحفظات ہیں اور ان شعبوں کو اپنی بقا کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اور متعلقہ ذمے دار ادارے باہمی تجارتی معاہدوں میں مقامی صنعتوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دیں۔