خدا اس طرح بھی راضی ہوسکتا ہے
میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کے ساس سسر بھی تو ضعیف العمر ہیں، اکیلے ہیں اور بیمار بھی یقیناً پڑتے ہوں گے۔
فزیو تھراپی سینٹر میں دو عمر رسیدہ خواتین سروس لینے کے بعد انتظار میں بیٹھی تھیں کہ پہلی خاتون نے دوسری سے پوچھا ''آپ کوکون لینے آئے گا؟'' انھوں نے فخر سے کہا ''اللہ رکھے میری بیٹی اور داماد''۔۔۔۔ ''میری بھی بیٹی ہی لینے آئے گی۔۔۔۔اپنے بچوں کو اسکول سے لیتی ہوئی'' پہلی خاتون نے جواباً کہا۔ تیسری خاتون جوگردن کا مساج کروا رہی تھیں وہ بھی چپ نہ رہ سکیں اور بول اٹھیں۔ ''واقعی بیٹیاں ہی دکھ درد میں کام آتی ہیں۔ میری بھی کوئی بیٹی ہوتی تو یہاں مجھے یوں اکیلے نہ آنا پڑتا۔''
''کیوں کیا آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے؟'' پہلی خاتون نے پوچھا۔''نہیں، نہیں خدا میرے بیٹوں کو زندگی، صحت و تندرستی عطا فرمائے، انھیں ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ دونوں ملک سے باہر ہیں۔'' افسردہ خاتون نے جواب دیا۔ فزیو تھراپی کرنے والی خاتون نے اچانک پوچھا ''آپ کے بیٹے شادی شدہ ہیں؟''
''ہاں ماشا اللہ دونوں صاحب اولاد ہیں۔'' پہلی والی خاتون نے بڑے فخر سے کہا۔ ''وہ آپ کے پاس ہوتے بھی توکیا ان کی بیویاں اس طرح آپ کا خیال رکھ پاتیں، جیسے بیٹیاں رکھتی ہیں۔'' ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھیں کہ ایک ماڈرن خاتون اپنی والدہ کو لینے آگئیں۔ خدا جانے کیوں سروس دینے والی خاتون نے ان سے پوچھا۔ ''آپ کے ساس سسر ہیں؟'' وہ بولیں۔ ''جی ہیں نارتھ ناظم آباد میں رہتے ہیں۔''
''آپ ان کے ساتھ نہیں رہتیں؟'' سوال کیا گیا۔ ان کے بجائے والدہ محترمہ بولیں۔ ''نہیں یہ میرے ساتھ اوپر کی منزل میں رہتی ہے۔ کیونکہ ہم دونوں میاں بیوی اکیلے ہیں۔ بیٹا ہمیں بھول گیا وہ صرف بیوی اور اس کی ماں کی سنتا ہے، دور رہتے ہوئے بھی رویوں سے جو تکلیف دیتا ہے وہ کسی کو بتائی نہیں جاسکتی۔اگر میری بیٹی نہ ہوتی تو شاید ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔ سوچ کر لرزہ آتا ہے۔'' انھوں نے آبدیدہ ہوکرکہا۔ تب وہی فزیو تھراپی والی خاتون بولیں۔''آپ دس دن سے یہاں آرہی ہیں۔
اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ، جو آپ کو لاتے اور لے جاتے ہیں۔ لیکن آج آپ نے بتایا کہ آپ کا بیٹا اور بہو بھی ہے۔آپ ہمیشہ کہتی ہیں کہ آپ کے داماد جیسا فرمانبردار داماد خدا ہر بیٹی کے ماں باپ کو دے۔ لیکن آپ یہ بتانا پسند کریں گی کہ آپ اپنی بہوکو تو برا بھلا کہہ رہی ہیں کہ اس نے کان بھر کے آپ کے سگے بیٹے کو آپ کے خلاف کردیا۔ لیکن آپ نے بھی وہی کیا۔ '' ابھی صفیہ یہی کہہ پائی تھیں کہ بیٹی نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ''کیا مطلب ہے آپ کا؟'' وہ پرس ایک طرف رکھ کر ایک طرف بیٹھ گئی۔
صفیہ نے مساج کرتے کرتے اپنے ہاتھ روکے اور نرم لہجے میں بولی۔ ''میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کے ساس سسر بھی تو ضعیف العمر ہیں، اکیلے ہیں اور بیمار بھی یقیناً پڑتے ہوں گے۔ لیکن آپ نے ان کے متعلق کبھی نہیں سوچا۔ آپ کے شوہر بھی آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے والدین کو اپنا سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ کی والدہ نے کبھی آپ کو یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے شوہر کے والدین کے ساتھ رہیں، اگر کسی مجبوری یا آزادی کی خاطر آپ الگ رہنا چاہتی ہیں تو کبھی کبھی ان کی خبر گیری بھی کرلیا کریں۔ بھاوج اور بہوکو تو الزام دے لیا کہ اس نے آپ کے والدین کو اکیلا چھوڑ دیا۔
لیکن یہی رویہ آپ نے اپنایا تو نہ آپ کی والدہ کو احساس ہوا نہ والد کو نہ آپ کو۔ رہ گئے شوہر وہ آپ کے آگے بھلا کیا بولیں گے۔ تصورکیجیے اس وقت کا جب آپ کے ساس سسر بند کمرے میں مردہ پائے جائیں۔'' صفیہ کی بات ختم ہونے سے پہلے دونوں ماں بیٹیاں بڑبڑاتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔ البتہ بیٹی کی آواز اندر تک سنائی دی۔ ''دماغ خراب ہوگیا ہے، صفیہ کا۔ امی بس کل سے آپ کو کسی دوسرے فزیو تھراپی سینٹر لے کر جاؤں گی۔''
مجھے فزیو تھراپی سینٹر میں آتے ہوئے تیسرا دن تھا۔ لیکن میں صفیہ سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی کہ اس نے اتنی گہری اور کھری بات کیونکر کی۔ تب اس نے بتایا کہ صفیہ کے بھائی اور بھاوج کا رویہ اس کی بیوہ ماں کے ساتھ بہت خراب اور ہتک آمیز تھا۔ والدہ نے زندگی ہی میں دونوں بہن بھائیوں کے درمیان آدھی آدھی جائیداد برابر تقسیم کردی تھی اور خود لاچار اور بے بس ہوگئی تھیں۔ لیکن انھوں نے کبھی کسی قریبی رشتے دار تک سے بیٹے اور بہو کے اذیت ناک رویے کا ذکر نہ کیا۔
انھوں نے گھر کی بات کبھی باہر نہ جانے دی کہ اس سے میرا بھائی ہی بدنام ہوتا جو انھیں بے حد پیارا تھا۔ بس انھوں نے مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا شادی کے وقت کہ میں اپنے شوہر کے والدین سے کبھی برا سلوک نہ کروں گی، ان سے بدزبانی اور بدکلامی نہ کروں گی۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ مجھے دودھ نہیں بخشیں گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کبھی میں نے اپنے شوہر سے ان کے والدین کے خلاف کوئی جھوٹی شکایت کی یا انھیں بدظن کرنے کی گندی کوشش کی تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گی۔''
''کیا واقعی۔ انھوں نے ایسا کہا؟'' دوسری خاتون نے جن کی بیٹی ابھی تک انھیں لینے نہیں آئی تھی تعجب سے سوال کیا۔ ''جی ہاں۔ اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنی ساس سے بدسلوکی کرتے وقت میرا حشر یاد کرلینا۔'' صفیہ آبدیدہ ہوگئی۔
تب مجھے اچانک ایک ماہ پہلے کی وہ خبر یاد آگئی جس کے مطابق کراچی میں فیڈرل بی ایریا بلاک 14 میں ایک خاتون اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں، معذور شوہر نے وہیل چیئر پہ جاکر دروازہ کھول کر پڑوسیوں کو خبر کرنے کی کوشش کی، لیکن صدمے سے خود بھی بے ہوش ہوگئے اور گر پڑے۔ تین دن کے بعد فلیٹ سے بدبو اٹھنے پر پڑوسیوں نے پولیس کو بلوا کر دروازہ کھولا تو شوہر کی سانسیں باقی تھیں۔ ان کے لیے تو تمام لوگ افسردہ تھے اور کہہ رہے تھے کہ بے چارے لاولد تھے، بیمار تھے، کوئی اولاد ہوتی تو یوں بے بسی کی موت نہ ہوتی۔ یہ تو صحیح ہے۔ لیکن ان کے بارے میں کوئی کیوں نہیں سوچتا جو اولاد کے ہوتے ہوئے دشت تنہائی میں زندہ ہیں، آہستہ آہستہ موت کی دستک سن رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ایک دن محلے والے ہی سفر آخرت پہ روانہ کریں گے۔
اکثر و بیشتر قارئین نے ای میل اور ذاتی تعلقات کی بنا پر درخواست کی ہے کہ انھیں ایسے لوگوں کا پتہ درکار ہے جو مختلف مقامات پر گھر کا بنا ہوا ٹفن سپلائی کرتے ہیں۔ خاص طور پر فیڈرل بی ایریا میں رہائش پذیر ایک فیملی کو ایسے لوگوں کا پتا درکار ہے جو ماہانہ، ہفتہ وار یا روزانہ کی بنیادوں پر گھر کا پکا ہوا کھانا فراہم کرسکیں۔
یا پھر کوئی ایسی خاتون یا صاحب جو ہفتے میں دو بار آکر تین ڈشز بنادیں۔ معقول معاوضے پر۔ یہ ایک ایسی فیملی ہے جس کے لیے بوجۂ بیماری روزانہ پکانا خاصا تکلیف دہ ہے۔ ای میل ایڈریس دے رہی ہوں۔ ان سے ملاقات آرٹس کونسل میں ہوئی تھی۔ ای میل ایڈریس یہ ہے۔ قارئین کوشش کریں کہ یہ کام کسی طرح ہوجائے۔ baseerashah@gmail.com
دوسری فیملی کے لیے متعلقہ خواتین و حضرات میرے ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
انڈیا میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ وہاں مختلف شہروں میں بے شمار لوگ اسی طرح روزی بھی کما رہے ہیں اور دعائیں بھی لے رہے ہیں۔ ادھر ادھر سے اطلاعات بھی ملی ہیں کہ کراچی میں بھی یہ سروس موجود ہے۔ البتہ مطلوبہ لوگوں کا پتا چونکہ نہ مل سکا۔ اس لیے دونوں خاندانوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ تقریباً دو سال قبل بھی گلستان جوہر میں ایک ضعیف العمر میاں بیوی کے لیے ایک صاحب نے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ معاوضہ بھی بہت مناسب تھا لیکن چند ماہ قبل وہ صاحب فیصل آباد چلے گئے۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں لوگ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔
وہاں دکھ اور سکھ سب سانجھے ہوتے ہیں۔ کوئی اکیلا نہیں ہوتا، محبت اور خلوص کی یہاں کوئی کمی نہیں۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ دشمنیاں بھی یہاں بڑی زبردست ہوتی ہیں۔ بہرحال کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا یہ المیہ ہے کہ یہاں انسان بہت اکیلا ہے۔ جب لوگ ہم کالم نگاروں سے کسی معاملے میں مدد مانگتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کے مسائل حل کردیے جائیں۔ لیکن بعض معاملات میں صرف قارئین ہی مدد کرسکتے ہیں۔ میری آپ سے یہ استدعا ہے کہ اگر آپ لوگوں کے علم میں ایسے لوگ ہوں جو دونوں خاندانوں کی مدد معاوضہ لے کر کرسکیں تو ضرور خبر دیجیے۔ خدا آپ سے راضی ہوگا۔
''کیوں کیا آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے؟'' پہلی خاتون نے پوچھا۔''نہیں، نہیں خدا میرے بیٹوں کو زندگی، صحت و تندرستی عطا فرمائے، انھیں ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ دونوں ملک سے باہر ہیں۔'' افسردہ خاتون نے جواب دیا۔ فزیو تھراپی کرنے والی خاتون نے اچانک پوچھا ''آپ کے بیٹے شادی شدہ ہیں؟''
''ہاں ماشا اللہ دونوں صاحب اولاد ہیں۔'' پہلی والی خاتون نے بڑے فخر سے کہا۔ ''وہ آپ کے پاس ہوتے بھی توکیا ان کی بیویاں اس طرح آپ کا خیال رکھ پاتیں، جیسے بیٹیاں رکھتی ہیں۔'' ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھیں کہ ایک ماڈرن خاتون اپنی والدہ کو لینے آگئیں۔ خدا جانے کیوں سروس دینے والی خاتون نے ان سے پوچھا۔ ''آپ کے ساس سسر ہیں؟'' وہ بولیں۔ ''جی ہیں نارتھ ناظم آباد میں رہتے ہیں۔''
''آپ ان کے ساتھ نہیں رہتیں؟'' سوال کیا گیا۔ ان کے بجائے والدہ محترمہ بولیں۔ ''نہیں یہ میرے ساتھ اوپر کی منزل میں رہتی ہے۔ کیونکہ ہم دونوں میاں بیوی اکیلے ہیں۔ بیٹا ہمیں بھول گیا وہ صرف بیوی اور اس کی ماں کی سنتا ہے، دور رہتے ہوئے بھی رویوں سے جو تکلیف دیتا ہے وہ کسی کو بتائی نہیں جاسکتی۔اگر میری بیٹی نہ ہوتی تو شاید ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔ سوچ کر لرزہ آتا ہے۔'' انھوں نے آبدیدہ ہوکرکہا۔ تب وہی فزیو تھراپی والی خاتون بولیں۔''آپ دس دن سے یہاں آرہی ہیں۔
اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ، جو آپ کو لاتے اور لے جاتے ہیں۔ لیکن آج آپ نے بتایا کہ آپ کا بیٹا اور بہو بھی ہے۔آپ ہمیشہ کہتی ہیں کہ آپ کے داماد جیسا فرمانبردار داماد خدا ہر بیٹی کے ماں باپ کو دے۔ لیکن آپ یہ بتانا پسند کریں گی کہ آپ اپنی بہوکو تو برا بھلا کہہ رہی ہیں کہ اس نے کان بھر کے آپ کے سگے بیٹے کو آپ کے خلاف کردیا۔ لیکن آپ نے بھی وہی کیا۔ '' ابھی صفیہ یہی کہہ پائی تھیں کہ بیٹی نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ''کیا مطلب ہے آپ کا؟'' وہ پرس ایک طرف رکھ کر ایک طرف بیٹھ گئی۔
صفیہ نے مساج کرتے کرتے اپنے ہاتھ روکے اور نرم لہجے میں بولی۔ ''میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کے ساس سسر بھی تو ضعیف العمر ہیں، اکیلے ہیں اور بیمار بھی یقیناً پڑتے ہوں گے۔ لیکن آپ نے ان کے متعلق کبھی نہیں سوچا۔ آپ کے شوہر بھی آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے والدین کو اپنا سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ کی والدہ نے کبھی آپ کو یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے شوہر کے والدین کے ساتھ رہیں، اگر کسی مجبوری یا آزادی کی خاطر آپ الگ رہنا چاہتی ہیں تو کبھی کبھی ان کی خبر گیری بھی کرلیا کریں۔ بھاوج اور بہوکو تو الزام دے لیا کہ اس نے آپ کے والدین کو اکیلا چھوڑ دیا۔
لیکن یہی رویہ آپ نے اپنایا تو نہ آپ کی والدہ کو احساس ہوا نہ والد کو نہ آپ کو۔ رہ گئے شوہر وہ آپ کے آگے بھلا کیا بولیں گے۔ تصورکیجیے اس وقت کا جب آپ کے ساس سسر بند کمرے میں مردہ پائے جائیں۔'' صفیہ کی بات ختم ہونے سے پہلے دونوں ماں بیٹیاں بڑبڑاتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔ البتہ بیٹی کی آواز اندر تک سنائی دی۔ ''دماغ خراب ہوگیا ہے، صفیہ کا۔ امی بس کل سے آپ کو کسی دوسرے فزیو تھراپی سینٹر لے کر جاؤں گی۔''
مجھے فزیو تھراپی سینٹر میں آتے ہوئے تیسرا دن تھا۔ لیکن میں صفیہ سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی کہ اس نے اتنی گہری اور کھری بات کیونکر کی۔ تب اس نے بتایا کہ صفیہ کے بھائی اور بھاوج کا رویہ اس کی بیوہ ماں کے ساتھ بہت خراب اور ہتک آمیز تھا۔ والدہ نے زندگی ہی میں دونوں بہن بھائیوں کے درمیان آدھی آدھی جائیداد برابر تقسیم کردی تھی اور خود لاچار اور بے بس ہوگئی تھیں۔ لیکن انھوں نے کبھی کسی قریبی رشتے دار تک سے بیٹے اور بہو کے اذیت ناک رویے کا ذکر نہ کیا۔
انھوں نے گھر کی بات کبھی باہر نہ جانے دی کہ اس سے میرا بھائی ہی بدنام ہوتا جو انھیں بے حد پیارا تھا۔ بس انھوں نے مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا شادی کے وقت کہ میں اپنے شوہر کے والدین سے کبھی برا سلوک نہ کروں گی، ان سے بدزبانی اور بدکلامی نہ کروں گی۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ مجھے دودھ نہیں بخشیں گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کبھی میں نے اپنے شوہر سے ان کے والدین کے خلاف کوئی جھوٹی شکایت کی یا انھیں بدظن کرنے کی گندی کوشش کی تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گی۔''
''کیا واقعی۔ انھوں نے ایسا کہا؟'' دوسری خاتون نے جن کی بیٹی ابھی تک انھیں لینے نہیں آئی تھی تعجب سے سوال کیا۔ ''جی ہاں۔ اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنی ساس سے بدسلوکی کرتے وقت میرا حشر یاد کرلینا۔'' صفیہ آبدیدہ ہوگئی۔
تب مجھے اچانک ایک ماہ پہلے کی وہ خبر یاد آگئی جس کے مطابق کراچی میں فیڈرل بی ایریا بلاک 14 میں ایک خاتون اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں، معذور شوہر نے وہیل چیئر پہ جاکر دروازہ کھول کر پڑوسیوں کو خبر کرنے کی کوشش کی، لیکن صدمے سے خود بھی بے ہوش ہوگئے اور گر پڑے۔ تین دن کے بعد فلیٹ سے بدبو اٹھنے پر پڑوسیوں نے پولیس کو بلوا کر دروازہ کھولا تو شوہر کی سانسیں باقی تھیں۔ ان کے لیے تو تمام لوگ افسردہ تھے اور کہہ رہے تھے کہ بے چارے لاولد تھے، بیمار تھے، کوئی اولاد ہوتی تو یوں بے بسی کی موت نہ ہوتی۔ یہ تو صحیح ہے۔ لیکن ان کے بارے میں کوئی کیوں نہیں سوچتا جو اولاد کے ہوتے ہوئے دشت تنہائی میں زندہ ہیں، آہستہ آہستہ موت کی دستک سن رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ایک دن محلے والے ہی سفر آخرت پہ روانہ کریں گے۔
اکثر و بیشتر قارئین نے ای میل اور ذاتی تعلقات کی بنا پر درخواست کی ہے کہ انھیں ایسے لوگوں کا پتہ درکار ہے جو مختلف مقامات پر گھر کا بنا ہوا ٹفن سپلائی کرتے ہیں۔ خاص طور پر فیڈرل بی ایریا میں رہائش پذیر ایک فیملی کو ایسے لوگوں کا پتا درکار ہے جو ماہانہ، ہفتہ وار یا روزانہ کی بنیادوں پر گھر کا پکا ہوا کھانا فراہم کرسکیں۔
یا پھر کوئی ایسی خاتون یا صاحب جو ہفتے میں دو بار آکر تین ڈشز بنادیں۔ معقول معاوضے پر۔ یہ ایک ایسی فیملی ہے جس کے لیے بوجۂ بیماری روزانہ پکانا خاصا تکلیف دہ ہے۔ ای میل ایڈریس دے رہی ہوں۔ ان سے ملاقات آرٹس کونسل میں ہوئی تھی۔ ای میل ایڈریس یہ ہے۔ قارئین کوشش کریں کہ یہ کام کسی طرح ہوجائے۔ baseerashah@gmail.com
دوسری فیملی کے لیے متعلقہ خواتین و حضرات میرے ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
انڈیا میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ وہاں مختلف شہروں میں بے شمار لوگ اسی طرح روزی بھی کما رہے ہیں اور دعائیں بھی لے رہے ہیں۔ ادھر ادھر سے اطلاعات بھی ملی ہیں کہ کراچی میں بھی یہ سروس موجود ہے۔ البتہ مطلوبہ لوگوں کا پتا چونکہ نہ مل سکا۔ اس لیے دونوں خاندانوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ تقریباً دو سال قبل بھی گلستان جوہر میں ایک ضعیف العمر میاں بیوی کے لیے ایک صاحب نے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ معاوضہ بھی بہت مناسب تھا لیکن چند ماہ قبل وہ صاحب فیصل آباد چلے گئے۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں لوگ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔
وہاں دکھ اور سکھ سب سانجھے ہوتے ہیں۔ کوئی اکیلا نہیں ہوتا، محبت اور خلوص کی یہاں کوئی کمی نہیں۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ دشمنیاں بھی یہاں بڑی زبردست ہوتی ہیں۔ بہرحال کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا یہ المیہ ہے کہ یہاں انسان بہت اکیلا ہے۔ جب لوگ ہم کالم نگاروں سے کسی معاملے میں مدد مانگتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کے مسائل حل کردیے جائیں۔ لیکن بعض معاملات میں صرف قارئین ہی مدد کرسکتے ہیں۔ میری آپ سے یہ استدعا ہے کہ اگر آپ لوگوں کے علم میں ایسے لوگ ہوں جو دونوں خاندانوں کی مدد معاوضہ لے کر کرسکیں تو ضرور خبر دیجیے۔ خدا آپ سے راضی ہوگا۔