’میں‘ کی گردان

پاکستان میں کرکٹ ایک جنون ہے۔ ہمارا قومی کھیل تو ’’قومی‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔

دنیا میں جہاں بھی Heroes پیدا ہوئے Hero worship خودبخود پیدا ہوئی اور لوگوں نے اپنے ہیروز کو اپنا آئیڈیل بنا لیا۔ Tatoos بازوؤں پر یا جسم پر کھدوائے یا گدوائے گئے اور یاد گاریں بھی تعمیر ہوئیں۔

لوگوں نے ان یادگاروں کو بھی یاد رکھا اور داعش اور طالبان کی طرح ان کو برباد نہیں کیا۔ دراصل تاریخ کو برباد کرنا چاہے وہ کسی قوم کی ہو ایک نفرت انگیز عمل ہے لہٰذا اس میں جنھوں نے ''ناموری'' حاصل کر لی ہے اور جن کا نام تاریخ میں سیاہ حرفوں سے لکھ دیا گیا ہے اور کبھی ختم نہیں ہو گا ان کا نام ایسے ذکر میں آنا لازمی ہے اور کل کا مورخ اور طالب علم اس نام کو بلکہ ان ناموں کو ہمیشہ quot کرے گا اور یہ رسوائی ختم نہیں ہو گی۔

خیر تو ہم بات کر رہے تھے ہیروز کی جس طرح مختلف میدانوں میں ہیروز مشہور ہیں جن میں فلم انڈسٹری کے ہیروز بھی شامل ہیں یورپ اور امریکا، برطانیہ، بھارت، پاکستان، سری لنکا میں لوگ وہ جو ہیروز تھے ممبر پارلیمنٹ بنے، وزیر بنے، کوئی دہلی شہر کا میئر بنا۔ امریکا کا ایک صدر اور ایک گورنر فلمی ہیروز تھے۔ بھارت میں امیتابھ اور دوسرے کئی اداکار وہاں کی پارلیمنٹ کے ممبر بنے اور ہیں۔

پاکستان میں محمد علی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ آگے بڑھتے زندگی نے مہلت نہیں دی کہ وہ اور کچھ کرتے جو انھوں نے کیا۔ ورنہ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔ مصطفیٰ قریشی کا یا تو انٹرسٹ اس میدان میں نہیں رہا اور ''روزگار'' پر ہی توجہ رکھی اور ہے یا پھر کسی پارٹی نے کوئی پرکشش پیش کش نہیں کی۔

پاکستان میں کرکٹ ایک جنون ہے۔ ہمارا قومی کھیل تو ''قومی'' ہو کر رہ گیا ہے۔ رسوائی کی بات یہ ہے کہ بھارت نے پیش کش کی ہے کہ وہ پاکستان کے قومی کھیل کو دوبارہ ''قومی کھیل'' بنانے میں مدد کرنے کو تیار ہے جس پر اچانک حکومت پاکستان نیند سے جاگی۔ اسپورٹس بورڈ خواب غفلت سے بیدار ہوا اور کہا گیا کہ ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے ہم اس کھیل کو خود بڑھائیں گے ترقی دیں گے۔

جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے وہ پکڑا جاتا ہے جوتوں سمیت قوم کی آنکھوں میں داخل ہونا ہمارے لیڈروں کی پرانی عادت ہے اور اس میں بھارت پاکستان ''بھائی وار'' ہیں۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں یا ''بھائی'' یا ''وار''۔ خیر! پاکستان نے یمن سے بھارتیوں کو بھی رہائی دلوائی تو شکریہ ادا کرتے کرتے یہ بھی کہہ دیا کہ خدمت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور یہ کہ ہم نے بھی زلزلے اور سیلاب میں پاکستان کی مدد کی تھی۔

ارے بھائی! آپ کا شکریہ تو اسی وقت ادا کر دیا گیا ہو گا نا؟ اب اس کا کیا ذکر کون سا پاکستان آپ سے احسان ماننے کو کہہ رہا ہے ہمارے تو حکمرانوں کے گھٹنے آپ کے سامنے کام نہیں کرتے ان دنوں! ماضی کی بات اور ہے! تو دیکھیں گے ہاکی کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اختر اور شہناز (علامتی طور پر استعمال کیے گئے نام) کیا کرتے ہیں۔


پاکستان کے جنونی کھیل کرکٹ سے دو تین شخصیات نے ہر طرح کا فائدہ حاصل کیا اسے آپ اپنے حساب سے سمجھ لیں ''ہم نیک و بد حضور کو سمجھاتے جاتے ہیں'' حنیف محمد Legend۔ جاوید میانداد اور عمران خان۔ حنیف محمد اور جاوید میانداد نے مشکل کرکٹ کھیلی اور کچھ عرصے عمران خان نے بھی لیکن جو آسانیاں عمران خان نے کرکٹ سے حاصل کیں وہ ان دو حضرات کو حاصل نہیں ہوئیں وہ تو ان دو حضرات کا شاید نام سننا بھی پسند نہیں کرتے اگر ان کا بس چلے تو وہ سب سے اوپر اپنا نام لکھ دیں مگر ایسا ہو نہیں سکتا ابھی مزید ایک سو سال لگیں گے لوگوں کو حنیف محمد اور جاوید میانداد کو بھلانے میں شاید۔

ورلڈ کپ جیتتے ہی جو لفظ منہ سے نکلے تھے ''میں یہ چاہتا تھا، میری یہ خواہش تھی اور یہ آج تک برقرار ہے''۔ ''میں یہ چاہتا ہوں، میری یہ خواہش ہے'' جیت بارہ کھلاڑیوں کی تھی اگر جاوید میانداد نے اچھا نہ کھیلا ہوتا۔

اگر رمیز راجا نے وہ آخری کیچ ڈراپ کر دیا ہوتا تو ''ورلڈ کپ'' بھی ''ڈراپ'' ہو جاتا اور حسب سابق کھلاڑیوں کو گالیاں بکتے ہی رہ جاتے اور نہ آپ ہوتے نہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال۔ میں تاریخ کا شاہد بھی ہوں ورلڈکپ کے فوراً بعد عمران خان نے اس شہرت کو جو صرف ان اکیلے کی نہیں تھی پاکستان ٹیم کی تھی اپنے حق میں دنیا بھر میں Cash کیا پاکستان میں بھی۔ حیدر آباد بھی آ کے ہم نے بہت شایان شان استقبال کا بندوبست کیا ریڈیو پر بہت ناگواری سے ہار ہاتھ میں لیا پہنا نہیں۔

دو چار پتیاں اس کوشش میں کپڑوں پر گر گئیں انھیں بھی بہت نفرت سے جھاڑا اور اسٹوڈیو میں جو انٹرویو Panel تھا اسے میں Head کر رہا تھا۔ ورلڈ کپ سے متعلق ایک دو سوال کے بعد کہنے لگے چھوڑیں ورلڈ کپ کو، اسپتال کی بات کریں۔ ہم سب کو بہت افسوس ہوا تھا کہ ہم نے کس ارمان سے ورلڈ کپ کی فتح کو Celebrate کرنا تھا اور کیا کچھ نشر کرنا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس وقت اندازہ ہوا کہ لوگوں کو اپنی ذات کس قدر عزیز ہوتی ہے اور ملک و قوم کس قدر پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔

مائیں تو سب کی ہی شوکت خانم جیسی معزز ہوتی ہیں کیونکہ ''ماں'' کا تقدس مشروط نہیں ہے مگر ملک و قوم وہ ہے جس پر مائیں اپنے لخت جگر قربان کر دیتی ہیں۔ پشاور اسکول کی ہیڈ مسٹریس یا پرنسپل اس کی ایک روشن مثال ہیں میری نظر میں وہ شوکت خانم سے زیادہ بلند مقام کی مالک ہیں ۔ شاید یہ کسی کو برا لگے مگر حقیقت یہی ہے۔ اب بھی جو کچھ عمران خان کر رہے ہیں وہ اپنے مستقبل کے لیے ہی کر رہے ہیں۔ مار تو وہاں بھی غریبوں کو ہی پڑ رہی ہے۔ Container پر خاندان کو کھڑا کرنے سے وہ ماحول کہاں ہے جو غریبوں کے بیٹوں نے جان کی قربانی دے کر بنایا اور مار کھاتے رہے وہ کہاں ہیں اس پارٹی میں کہیں نہیں۔ ہر جگہ سے نکالے گئے، یا خود فائدے کی خاطر پارٹیوں کو چھوڑ کر آنے والے زیادہ تر اردگرد ہیں۔

مگر عمران خان کی فطرت یہ قبول نہیں کرے گی کہ کوئی ان سے آگے نکل جائے جس طرح بارہ کھلاڑیوں کے کھیل کا سارا کریڈٹ ورلڈ کپ کی صورت خود لے لیا اور اس سے اسپتال، یونیورسٹی اور اب سیاست میں ''دھماکے دار'' آمد سے سب کچھ حاصل کرنے کا عزم ایک ریکٹ کی طرح ہے اور اس تمام کھیل کا اسکرپٹ بہت سوچا سمجھا ہے اور اس کا مقصد ملک کی وزارت عظمیٰ پر قبضہ ہے۔ پاکستان میں سب ممکن ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی جائے مگر اب تک کے ریکارڈز اور ملک کے ''زیرک خاندانی سیاست'' کے وڈیروں، چوہدریوں کی موجودگی میں لگتا مشکل ہے۔ اگر وہ اس میں شریک بھی ہوتے تو ''جلد گرانے'' کو ہوں گے بہت مجبوری کی حالت میں ورنہ عمران خان تو چالیسویں سے پہلے شادی رچانے کے عادی ہیں تو ممکن لگتا نہیں ہے ان کا مزاج سیاست کے لیے ناموزوں ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاست دانوں نے ملک کو کچھ نہیں دیا مگر عمران خان نے بھی سیاست کے میدان میں سیاست دانوں کو وہی گالیاں سکھائی ہیں جو وہ کرکٹ کے میدان میں کھلاڑیوں کو دیا کرتے تھے۔ وہ ''ہم'' قبول نہیں کر سکتے۔ یہ قوم ''میں'' پرست نہیں ہے معاملہ خاصا دشوار ہے۔ خان صاحب کو باتیں تو ہماری بری لگیں گی مگر سچ ہے سچ کس کو بہت اچھا لگتا ہے۔

قوم میں تبدیلی لانے سے پہلے اپنے مزاج میں ''تبدیلی'' ضروری ہے۔ دعا ہے کہ آپ کی یہ شادی کامیاب رہے۔ اور شاید یہ آپ کے مزاج میں ''تبدیلی'' پیدا کرنے کے لیے قائم اور کامیاب رہے۔ بصورت دیگر یہ بھی آپ کی ہی قوم ہے اس نے بڑے بڑے سورماؤں کو ''اکھاڑ'' کر پھینک دیا، اس کا بھی مزاج بہت سخت ہے بظاہر نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر آپ کے خلاف بھی اٹھ کھڑی ہوئی تو تبدیلی آ نہیں جائے گی ''تبدیلی ہو جائے گی۔'' کیونکہ خان صاحب اب تک سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستان کے سیاستدان وہ ''سیاسی مگرمچھ'' ہیں جو بندے کو بلے سمیت نگل لیتے ہیں۔
Load Next Story