بھارت میں جعلی پولیس مقابلے
ریاست جموں کشمیر میں ایک اور پولیس مقابلہ ہوا ہے اس سے پہلے کتنے مقابلے ہو چکے ہیں
KARACHI:
ریاست جموں کشمیر میں ایک اور پولیس مقابلہ ہوا ہے اس سے پہلے کتنے مقابلے ہو چکے ہیں مجھے تو ان کی تعداد بھی یاد نہیں رہی۔ جو بات پریشان کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ حقوق انسانی کے تحفظ کے دعویدار بھی بطور خاص چپ سادھے ہوئے ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ریاست میں جا کر زمینی حقائق کا پتہ چلانے کی کوشش کرے حالانکہ ماضی قریب تک ایسا کیا جاتا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایک تو اس طرف عمومی توجہ کی کمی واقع ہوئی ہے اور دوسرا یہ مرکزی حکومت ایک حکمت عملی کے تحت سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں سے صرف نظر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مفتی محمد سعید، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ قابل احتساب حکمرانی قائم کریں گے، وہ اپنی بات پر پورے نہیں اتر رہے۔
اس کشیدہ فضا میں کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی کا معاملہ اور زیادہ غیر یقینی ہو گیا ہے جنھیں وادی میں اپنے گھروں سے جبراً نکال دیا گیا تھا۔ وہ لوگ جو اس ملی جلی ثقافت کی عدم موجودگی پر ٹسوے بہا رہے ہیں، کہ جب پنڈت یہاں تھے تو ثقافت کی کیسی رنگا رنگی تھی، وہ انھیں واپس اپنے گھروں میں لانے کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ بنیاد پرست سید گیلانی نے چند برس پہلے میرے سوال کے جواب میں دیانتداری سے کہا تھا کہ پنڈتوں کی واپسی کا انحصار مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے۔
گویا اس کا مطلب ہے کہ ابد تک انتظار کرتے رہو۔ سخت کوش لوگ جیسے کہ یاسین ملک ہیں وہ بھی ثقافتی رنگا رنگی محسوس تو کرتے ہیں مگر لگتا ہے گویا انھوں نے بھی حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے کشادہ دلی سے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ1993ء میں جب پنڈتوں کو نکالا جا رہا تھا تو کسی نے بھی سنجیدگی سے انھیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔
مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں سے بھی ایک آواز نہ اٹھی جو پنڈتوں سے کہتی ہو کہ نہ جاؤ۔ بعض انتہا پسندوں نے پنڈتوں کی واپسی کی مخالفت اس بنا پر کی ہے کہ اس سے آبادی کا توازن خراب ہو جائے گا حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وادی میں مسلمانوں کا تناسب 98 فیصد ہے اور پنڈت آ جاتے ہیں تب مسلمانوں کا تناسب کم سے کم 96 فیصد پر آ جائے گا جس پر تین فیصد کا کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آخری بات بنیاد پرستوں کی ہوتی ہے اور اسی بات کو لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں تسلیم کرنے لگے ہیں۔
اور یہ اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات ہے کہ ایسا کشمیر میں ہو رہا ہے جو تقسیم ہند کے موقع پر بھی مکمل پرامن رہا تھا مگر بدقسمتی سے وہاں اب ایسا ہو رہا ہے جو کہ حقیقت حال ہے۔ پنڈتوں کی واپسی کی جنگ وادی کے اندر ہی ناکام ہو گئی ہے۔ اگر آبادی خود ہی اس پر اصرار نہ کرے تو باہر سے ایسا کرنے والا کوئی نہیں۔ مخلوط ثقافت کو پسند کرنے والوں کا عزم کمزور ہو رہا ہے۔
مذہب کو بالادستی حاصل ہو گئی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور پنجابی ہندوؤں کا کوئی مستقبل نہیں۔ وادی پر مسلمانوں کا دعویٰ ہے اور پنجاب سکھوں کاہے۔ انتہا پسندوں نے مشترکہ راستوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں زعفرانی لبادوں کی جو ہوا چل رہی ہے اس کا وادی میں بہت برا اثر ہو رہا ہے آزاد خیال لوگ اب سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں کہ ان کی بات کبھی نہیں مانی جائے گی۔یہ بات بھی افسوس کی ہے کہ عام آدمی پارٹی (عاپ) چھوٹے چھوٹے اختلافات کا شکار نظر آ رہی ہے۔
جب لوگوں کا ایک گروپ اپنی آواز سنانے کے لیے ایک علیحدہ کنونشن منعقد کر لے تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ پارٹی کے اندر کا ماحول خاصا گھٹن آمیز ہے۔ البتہ اس کے اراکین میں اختلاف بدقسمتی ہے۔ اس پارٹی میں پڑنے والی دراڑ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی تحریکیں جب سیاسی میدان میں اترتی ہیں تو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ سرگرم سیاسی کارکن میدھا پنکار کا کہنا ہے کہ سماجی تحریکیں سیاست کے رنگ کو تبدیل کر دیں گی۔ کاش کہ ایسا ہو سکے۔
لیکن اختیارات ان کو بھی کرپٹ کر دیتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی اخلاقیات کا پرچار کرتے بسر کی ہو۔پولیس مقابلے مشرقی پنجاب میں بھی معمول بن گئے تھے جب پولیس چیف کے پی ایس گل پر الزام عاید کیا گیا کہ وہ عسکریت پسندوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیتے ہیں کیونکہ عدالت میں ان کو گناہ گار ثابت کرنے کے لیے بہت طویل اور پیچیدہ قانونی قواعد و ضوابط سے گزرنا پڑتا ہے۔
اگرچہ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارا قانونی نظام اس قدر ناقص ہے کہ کسی مقدمے کو فیصلے تک پہنچانے کے لیے کئی عشرے بیت جاتے ہیں قتل' مجرمانہ حملے اور اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم میں گرفتار ملزم کی عدالت ضمانت لے لیتی ہے جس کے بعد وہ جیل سے نکل کر پہلے سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ آندھرا پردیش میں اس ماہ کے شروع میں پولیس نے جن 20 مزدوروں کو ہلاک کر دیا تھا اس کا ملک میں کوئی شور نہیں اٹھا حالانکہ اتنے سنگین واقعے پر بہت کچھ ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بے چارے سارے مزدور تھے اور قانون سازی کرنیوالے لوگوں کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ گزشتہ پیر کی سہ پہر تامل ناڈو میں 8مزدوروں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا۔
پہلے انھیں آندھرا کی سرحد کے قریب تیروتانی لے جایا گیا پھر انھیں بس میں بٹھا کر آندھرا پردیش کے شہر رینی گنٹا لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں انھیں پولیس والوں نے اتار لیا اور انھیں جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا اور ان کی لاشیں جنگل میں پھینک دیں۔ ان میں سے ایک مزدور کی جان بچ گئی۔ وہ بس میں اپنے 7 ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا تھا جب آندھرا پولیس نے انھیں بس سے اتار لیا۔ اس کو اس وجہ سے چھوڑ دیا گیا کہ اس کے ساتھ ایک عورت بیٹھی تھی اور پولیس نے سمجھا کہ شاید وہ اس کا شوہر ہے۔
اس قسم کے ہولناک واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے وہی ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کر دیے ہیں جو وہ برطانوی حکومت کے دور میں کرتی رہی ہے۔ ان میں ویسی ہی خونخواری ہے اور ویسا ہی تساہل ہے کہ کون معاملے کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ پولیس کس قسم کے ظالمانہ حربے اختیار کرتی ہے بس انھیں اپنے احکامات کی تعمیل درکار ہے۔ آزادی کو 68 سال گزر چکے ہیں اب تو یہ منظر نامہ تبدیل ہو جانا چاہیے تھا۔
تاہم ظاہر ہے کہ پولیس کا ہدف اس قدر آسان ہوتا ہے کہ وہ جیسے بھی اسے حاصل کرنا چاہیں ان پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔کشمیری پنڈت بہت مالدار ہیں اور وہ بطور کمیونٹی بہت بااثر ہیں۔ اگر حکومت ان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے تو اس میں کامیابی ہو سکتی ہے۔
اگر قوم بھی اس معاملے میں اپنی آواز اٹھائے تو پنڈتوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا مداوا ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک کسی جمہوری معاشرے کا تعلق ہے تو اس میں جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے کی جانیوالی ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے آندھرا پولیس مقابلے میں زندہ بچ جانیوالوں کو طلب کر کے ان کا موقف ریکارڈ کیا ہے چنانچہ اب مناسب وقت میں فیصلہ بھی آ جانا چاہیے کہ آیا یہ کمیشن پولیس والوں کا احتساب کرتا ہے یا انھیں ہلکی پھلکی سرزنش کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی عوام کی یادداشت سے محو ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے بصورت دیگر اسی قسم کے واقعات دیگر جگہوں پر بھی رونما ہونگے اور پولیس اسے بھی مقابلوں کا نام دیکر بچ جائے گی۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
ریاست جموں کشمیر میں ایک اور پولیس مقابلہ ہوا ہے اس سے پہلے کتنے مقابلے ہو چکے ہیں مجھے تو ان کی تعداد بھی یاد نہیں رہی۔ جو بات پریشان کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ حقوق انسانی کے تحفظ کے دعویدار بھی بطور خاص چپ سادھے ہوئے ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ریاست میں جا کر زمینی حقائق کا پتہ چلانے کی کوشش کرے حالانکہ ماضی قریب تک ایسا کیا جاتا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایک تو اس طرف عمومی توجہ کی کمی واقع ہوئی ہے اور دوسرا یہ مرکزی حکومت ایک حکمت عملی کے تحت سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں سے صرف نظر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مفتی محمد سعید، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ قابل احتساب حکمرانی قائم کریں گے، وہ اپنی بات پر پورے نہیں اتر رہے۔
اس کشیدہ فضا میں کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی کا معاملہ اور زیادہ غیر یقینی ہو گیا ہے جنھیں وادی میں اپنے گھروں سے جبراً نکال دیا گیا تھا۔ وہ لوگ جو اس ملی جلی ثقافت کی عدم موجودگی پر ٹسوے بہا رہے ہیں، کہ جب پنڈت یہاں تھے تو ثقافت کی کیسی رنگا رنگی تھی، وہ انھیں واپس اپنے گھروں میں لانے کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ بنیاد پرست سید گیلانی نے چند برس پہلے میرے سوال کے جواب میں دیانتداری سے کہا تھا کہ پنڈتوں کی واپسی کا انحصار مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے۔
گویا اس کا مطلب ہے کہ ابد تک انتظار کرتے رہو۔ سخت کوش لوگ جیسے کہ یاسین ملک ہیں وہ بھی ثقافتی رنگا رنگی محسوس تو کرتے ہیں مگر لگتا ہے گویا انھوں نے بھی حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے کشادہ دلی سے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ1993ء میں جب پنڈتوں کو نکالا جا رہا تھا تو کسی نے بھی سنجیدگی سے انھیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔
مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں سے بھی ایک آواز نہ اٹھی جو پنڈتوں سے کہتی ہو کہ نہ جاؤ۔ بعض انتہا پسندوں نے پنڈتوں کی واپسی کی مخالفت اس بنا پر کی ہے کہ اس سے آبادی کا توازن خراب ہو جائے گا حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وادی میں مسلمانوں کا تناسب 98 فیصد ہے اور پنڈت آ جاتے ہیں تب مسلمانوں کا تناسب کم سے کم 96 فیصد پر آ جائے گا جس پر تین فیصد کا کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آخری بات بنیاد پرستوں کی ہوتی ہے اور اسی بات کو لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں تسلیم کرنے لگے ہیں۔
اور یہ اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات ہے کہ ایسا کشمیر میں ہو رہا ہے جو تقسیم ہند کے موقع پر بھی مکمل پرامن رہا تھا مگر بدقسمتی سے وہاں اب ایسا ہو رہا ہے جو کہ حقیقت حال ہے۔ پنڈتوں کی واپسی کی جنگ وادی کے اندر ہی ناکام ہو گئی ہے۔ اگر آبادی خود ہی اس پر اصرار نہ کرے تو باہر سے ایسا کرنے والا کوئی نہیں۔ مخلوط ثقافت کو پسند کرنے والوں کا عزم کمزور ہو رہا ہے۔
مذہب کو بالادستی حاصل ہو گئی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور پنجابی ہندوؤں کا کوئی مستقبل نہیں۔ وادی پر مسلمانوں کا دعویٰ ہے اور پنجاب سکھوں کاہے۔ انتہا پسندوں نے مشترکہ راستوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں زعفرانی لبادوں کی جو ہوا چل رہی ہے اس کا وادی میں بہت برا اثر ہو رہا ہے آزاد خیال لوگ اب سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں کہ ان کی بات کبھی نہیں مانی جائے گی۔یہ بات بھی افسوس کی ہے کہ عام آدمی پارٹی (عاپ) چھوٹے چھوٹے اختلافات کا شکار نظر آ رہی ہے۔
جب لوگوں کا ایک گروپ اپنی آواز سنانے کے لیے ایک علیحدہ کنونشن منعقد کر لے تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ پارٹی کے اندر کا ماحول خاصا گھٹن آمیز ہے۔ البتہ اس کے اراکین میں اختلاف بدقسمتی ہے۔ اس پارٹی میں پڑنے والی دراڑ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی تحریکیں جب سیاسی میدان میں اترتی ہیں تو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ سرگرم سیاسی کارکن میدھا پنکار کا کہنا ہے کہ سماجی تحریکیں سیاست کے رنگ کو تبدیل کر دیں گی۔ کاش کہ ایسا ہو سکے۔
لیکن اختیارات ان کو بھی کرپٹ کر دیتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی اخلاقیات کا پرچار کرتے بسر کی ہو۔پولیس مقابلے مشرقی پنجاب میں بھی معمول بن گئے تھے جب پولیس چیف کے پی ایس گل پر الزام عاید کیا گیا کہ وہ عسکریت پسندوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیتے ہیں کیونکہ عدالت میں ان کو گناہ گار ثابت کرنے کے لیے بہت طویل اور پیچیدہ قانونی قواعد و ضوابط سے گزرنا پڑتا ہے۔
اگرچہ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارا قانونی نظام اس قدر ناقص ہے کہ کسی مقدمے کو فیصلے تک پہنچانے کے لیے کئی عشرے بیت جاتے ہیں قتل' مجرمانہ حملے اور اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم میں گرفتار ملزم کی عدالت ضمانت لے لیتی ہے جس کے بعد وہ جیل سے نکل کر پہلے سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ آندھرا پردیش میں اس ماہ کے شروع میں پولیس نے جن 20 مزدوروں کو ہلاک کر دیا تھا اس کا ملک میں کوئی شور نہیں اٹھا حالانکہ اتنے سنگین واقعے پر بہت کچھ ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بے چارے سارے مزدور تھے اور قانون سازی کرنیوالے لوگوں کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ گزشتہ پیر کی سہ پہر تامل ناڈو میں 8مزدوروں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا۔
پہلے انھیں آندھرا کی سرحد کے قریب تیروتانی لے جایا گیا پھر انھیں بس میں بٹھا کر آندھرا پردیش کے شہر رینی گنٹا لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں انھیں پولیس والوں نے اتار لیا اور انھیں جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا اور ان کی لاشیں جنگل میں پھینک دیں۔ ان میں سے ایک مزدور کی جان بچ گئی۔ وہ بس میں اپنے 7 ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا تھا جب آندھرا پولیس نے انھیں بس سے اتار لیا۔ اس کو اس وجہ سے چھوڑ دیا گیا کہ اس کے ساتھ ایک عورت بیٹھی تھی اور پولیس نے سمجھا کہ شاید وہ اس کا شوہر ہے۔
اس قسم کے ہولناک واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے وہی ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کر دیے ہیں جو وہ برطانوی حکومت کے دور میں کرتی رہی ہے۔ ان میں ویسی ہی خونخواری ہے اور ویسا ہی تساہل ہے کہ کون معاملے کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ پولیس کس قسم کے ظالمانہ حربے اختیار کرتی ہے بس انھیں اپنے احکامات کی تعمیل درکار ہے۔ آزادی کو 68 سال گزر چکے ہیں اب تو یہ منظر نامہ تبدیل ہو جانا چاہیے تھا۔
تاہم ظاہر ہے کہ پولیس کا ہدف اس قدر آسان ہوتا ہے کہ وہ جیسے بھی اسے حاصل کرنا چاہیں ان پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔کشمیری پنڈت بہت مالدار ہیں اور وہ بطور کمیونٹی بہت بااثر ہیں۔ اگر حکومت ان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے تو اس میں کامیابی ہو سکتی ہے۔
اگر قوم بھی اس معاملے میں اپنی آواز اٹھائے تو پنڈتوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا مداوا ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک کسی جمہوری معاشرے کا تعلق ہے تو اس میں جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے کی جانیوالی ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے آندھرا پولیس مقابلے میں زندہ بچ جانیوالوں کو طلب کر کے ان کا موقف ریکارڈ کیا ہے چنانچہ اب مناسب وقت میں فیصلہ بھی آ جانا چاہیے کہ آیا یہ کمیشن پولیس والوں کا احتساب کرتا ہے یا انھیں ہلکی پھلکی سرزنش کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی عوام کی یادداشت سے محو ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے بصورت دیگر اسی قسم کے واقعات دیگر جگہوں پر بھی رونما ہونگے اور پولیس اسے بھی مقابلوں کا نام دیکر بچ جائے گی۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)