ممنون حسین کا شہر
اسلام آبادکے متعلق ہرطرح کے لوگ،مختلف طرزکی متضادباتیں کرتے ہیں۔کوئی اسے سازشوں کا شہرگردانتا ہے
اسلام آبادکے متعلق ہرطرح کے لوگ،مختلف طرزکی متضادباتیں کرتے ہیں۔کوئی اسے سازشوں کا شہرگردانتا ہے، جہاں ہرحکومت کے خلاف چندلوگ مستقل سازش میں مصروف کار رہتے ہیں۔
کوئی اسے فرشتوں کا شہر بتاتا ہے۔ جہاں ہروقت نظرنہ آنے والے سفید سائے تمام اہم لوگوں کے پرکاٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔چند،اسے بابوؤں کا مخصوص قصبہ گردانتے ہیں جہاں دن رات لوگ صرف اور صرف فائلیں دیکھتے ہیں اوران میں تجوریوں کی کنجیاں تلاش کرتے ہیں۔پتہ نہیں یہ تمام رویے درست ہیں یاغلط؟میری دانست میں یہ شہرہمارے ملکی نظام کا دماغ ہے جہاں سے پوری مملکت پرحکومت کیجاتی ہے۔
اس کااثرملک کے ہرقصبے اورقریہ تک ہوتاہے۔دنیاکے تمام دارالحکومت اپنے ملک سے جزوی طورپر مختلف ہوتے ہیں۔خوبصورت،روشنیوں سے منورمگرزندگی کی کئی لہروں سے بہت دور!اسلام آبادمیں پانچ دن گزارنے کے بعدمجھے ایسے محسوس ہوتاہے کہ اب اس میں زندگی کی بھرپور رمق موجود ہے!ہرطرح سے زندہ شہر!
پانچ دن بعدلاہور واپس آیاہوں۔طویل میٹنگزاورختم نہ ہونے والے پانچ سرکاری دن۔مگرمیں نے کچھ عرصے سے ناکارہ سی ناکارہ سرکاری نشست میں بھی مصروفیت کاایک دلچسپ پہلو نکال لیاہے۔جب میں طویل پاورپوائنٹ پریزنٹیشن(Power Point Presentation)سے اکتا جاتاہوں،تواپنے اردگردلوگوں کے چہرے پڑھنے شروع کردیتاہوں۔ان کے چہرے پرلکھی ہوئی تحریرکوپڑھ کرسمجھنے کی کوشش کرتاہوں۔اس میں سے حیرت انگیزنتائج برآمدہوتے ہیں۔
سرکاری نشست میں انتہائی مستعدنظرآنے والے افسران کو کھلی آنکھوں سے گہری نیندسوتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ کچھ لوگوں کو مسلسل جاگتے ہوئے محسوس کرتاہوں۔عجیب بات یہ ہے کہ اکثرانتہائی ذہین نظرآنے والے لوگ جوہر میٹنگ میںسرہلاکرتاثردیتے ہیں کہ انھیں سب کچھ سمجھ آرہا ہے،اکثریت نے اپنے دماغ کابلب آف کیاہوتا ہے۔ لہذا گردن ہلانے سے سمجھاجاتاہے کہ وہ مجلس میں مکمل طورپر موجود ہیں۔مگرصورتحال اس سے اکثرمختلف ہوتی ہے۔
ذہن کہیں اور،آنکھیں کہیں اور،جسم کہیں اور،واقعہ کہیں اور! بہرحال سرکارکی دنیابھی ایک عجیب جادونگری ہے۔ صاحبان! میرے لیے توحیرت کدہ ہے!طلسم نگر!جاویدچوہدری سے میری پہلی ملاقات ٹھیک پانچ دن پہلے ہوئی ہے۔وہ ایک حیرت انگیزشخص ہے۔مطالعہ اورمشاہدہ کاایک انوکھا امتزاج۔ اس سے قبل میں نے اسے صرف ٹی وی چینل پردیکھاتھا یا اخبارکے کالم کی بے جان سی تصویرکے اندرقید !میں اپنی سرکاری زندگی میں ہرطرح کے لوگوں سے ملتا ہوں۔وزراء اعظم،وزیر،مشیر،سرکاری افسر،لکھنے والے اورکچھ نہ لکھنے والے بھی!مگرمیں ایمانداری سے سمجھتاہوں کہ چوہدری کے ساتھ گزارے ہوئے دوگھنٹے دنیاوی طورپراہم نظرآنے والی کئی شخصیات سے بہت بہترتھے۔
اس کی باتیں انتہائی سادہ اورکسی تکلف کے بغیرہیں۔ہمارے ملک میں کسی ہم عصرکی تعریف کرناکافی مشکل ہے مگرمیں سمجھتاہوں کہ اس جیسے صاحب رائے لوگ ہمارے قیمتی ترین لوگ ہیں۔وہ کس طرح لکھتا ہے۔یہ عقدہ بھی میرے اوپرمکمل طورپرکھل گیا۔ مطالعہ، سفراورفلمیں اسکااوڑھنابچھوناہیں۔اسے سفر سے عشق ہے۔ میرے گمان میں تو وہ ساکت بیٹھے ہوئے بھی حالت سفرمیں رہتاہے۔اصل میں یہ تینوں محرکات ایک ہی نتیجہ ہے۔زندگی کابھرپورشعور!جاویدمیں زندگی کا شعوراورمشاہدہ دونوں موجود ہیں۔وہ ایساکیوں ہے،مجھے نہیں معلوم،بلکہ میں معلوم کرنابھی نہیں چاہتا۔جن اچھے الفاظ میں اس نے لطیف چوہدری اور ایازخان کاذکرِخیرکیا،وہ اپنی جگہ ایک انتہائی متوازن رویہ تھا۔ وہ ایک ہفتہ میں چارکالم لکھتاہے۔ٹی وی پرچارپروگرام کرتا ہے۔
انتہائی مصروف آدمی ہے مگراس نے ایک بہت مشکل بات سیکھ لی ہے کہ وہ بالکل مصروف نظرنہیں آتا! ہرحکومت اپنے اندازمیں کام کرتی ہے۔ہروزیراعظم اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرتاہے مگرہر وزیراعظم کے کام کرنے کے اندازمیں بے انتہافرق ہوتا ہے۔میرے مشورہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگرکہنے میں کوئی حرج نہیں۔سرکاری افسروں کو کام کاہدف دیکرایک خاص مدت کے لیے بالکل آزادچھوڑدیناچاہیے ۔جوکام نہ کرسکے،اسے مضبوط سفارش کی موجودگی میں بھی بازپُرس کے لیے تیاررہنا چاہیے۔اس کلیے سے دباؤکے بغیرافسرخودبخود محنت کرنے پرمجبور ہوجائینگے۔
کیونکہ وہ نتائج دینے پرمجبورہونگیں۔ایک اوراہم بات، جو اب تکلیف دہ حدتک ثابت ہوچکی ہے،وہ فیصلے نہ کرنے کی مصمم عادت ہے!لوگوں میں قوت فیصلہ موجود ہے،مگروہ معمولی سے معمولی فیصلہ کرنے سے بھی خوفزدہ نظر آتے ہیں۔کوئی بھی ذمے داری لینے کے لیے تیارنہیں۔اب ہو یہ رہا ہے کہ سرکاری ملازم فائل پرتجزیے کی بنیادپرکچھ بھی لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ہرفائل دائروں میںگھومتی رہتی ہے۔ ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل پر۔اس طرح مہینوں گزرجاتے ہیں۔مجھے کئی اہم لوگوں سے ملنے کااتفاق ہوا۔میں صرف دوکا ذکرکرونگا۔
رضاربانی چیئرمین سینیٹ اوردوسرے ایازصادق، اسپیکرقومی اسمبلی۔رضاربانی بنیادی طورپرایک باغی انسان ہے۔اسے اب تک یقین نہیں آیاکہ وہ حکومت کاحصہ ہے۔ ایک انتہائی سنجیدہ بات جو چیئرمین سینیٹ نے بارہادہرائی وہ سرکاری ملازمین کاگرتاہوا معیارِکارکردگی تھا۔ شکوہ سوچتا رہا۔ صاحبان! پستی ہرشعبہ میں آئی ہے۔ کیا سرکاری ملازم اورکیاسیاست دان، کیاتاجر اور کیا اہل فن! حقیقت میں ہرشعبہ اب زوال میں مبتلاہے مگر شکوہ جائز ہے۔ ایازصادق ایک خوش لباس شخص ہے۔وہ کافی کچھ کرنا چاہتاہے اورشایدکرنے کی کوشش بھی کررہا ہے۔ بہرحال آج بھی وہ بھنورکی آنکھ میں زندہ ہے۔
بطوراسپیکر، جن اصلاحات کاذکرکیا،وہ قابل قدرہیں۔مگراس نے بھی سرکاری ملازمین کی ناقص کارکردگی کاذکرکیا۔میں بالخصوص ایک رسمی اورسرکاری نشست کاذکر ضرور کرونگا۔یہ صدرمملکت ممنون حسین صاحب کے ساتھ تھی۔ قصرصدارت میں اَن گنت بارجانے کااتفاق ہوا۔بلکہ ایک دورمیں تودل اتنااُچاٹ ہوگیاکہ وہاں جانابالکل ترک کردیا۔
اس دورمیں، وہاں مشکوک اہلیت کے بے نام تاجراورنیلے ہاتھ رکھنے والے شرفاء کا آناجانااتنابڑھ چکاتھا،کہ اس مہیب عمارت میں دم گھٹتاتھا۔خیر،موجودہ نشست بالکل مختلف طرز کی تھی۔محل کے وہی عالی شان کمرے،وہی دوچوب دارجوکسی بھی صدرکے آگے آگے باادب چلتے ہیں۔وہی مجسمے اوروہی بڑی بڑی تصاویرجنکی جانب وہاں کے مکین بالکل نہیں دیکھتے۔ مگراس بارماحول یکسرمختلف نظرآیا۔شائستگی اورسادگی سے مزین!سرکاری تقریبات کااکثرذکرنہیں کرتاکیونکہ ان میں درحقیقت ذکرکرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس تقریب میں مجھے ایسے لگاکہ ایک ایساشخص ہم لوگوں سے مخاطب ہے جودل سے بولنے کی ہمت رکھتاہے۔ایک شریف آدمی، جو اپنی شائستہ باتوں سے آپکوگھیرے میں لینے کافن جانتا ہے۔اس شخص کوحالات کامکمل ادراک تھااوروہ شکایت کرنے کے بجائے ان معاملات کوحل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ خاموشی اورلگن کے ساتھ۔بغیرکسی رعب اوردبدبے کی آڑلیے،دل کی بات کہنے والا!حقیقت میں مجھے خوشی ہوئی۔میں چاہتاہوں کہ ہمارے سیاستدانوں میں بہت سادگی آئے۔وہ ڈیزائنر کپڑوں سے گریزکریں۔معمولی کپڑے پہن کرغیرمعمولی باتیں کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔میری دانست میں صدر اس باریک نکتہ کوپاچکے ہیں۔
میں کچھ سوال وجواب کاذکرکرناایک امانت سمجھتا ہوں۔ چینی سرمایہ کاری اوراس سے پیداہونے والے معاشی انقلاب کاصدرکوبھرپور ادراک تھا۔ان کی باتوں میں بھی وضاحت سے یہی محسوس ہورہاتھا۔مگریہ شعورابھی تک عام سطح پرنہیں پہنچ پایا۔اس کی کیا وجوہات ہیں میں ان میں نہیں جاناچاہتا۔یہ ضرورعرض کرونگاکہ ہرچیزسیاست نہیں ہوتی۔ ملکی مفادکی اہمیت ہرسیاسی فائدہ سے بالاترہے اورہونی چاہیے۔چین سے ہمارے معاشی تعلقات اس وقت انتہائی اہم ہیں۔یہ ہماری Survival کامسئلہ ہے۔چین کی چالیس بلین ڈالرکی سرمایہ کاری سے ہماراملک یکسربدل جائیگا۔اس نکتہ پر یکسوئی کے ساتھ عمل ہوتانظرآرہا ہے۔
دوسری اہم بات جس کاذکرکرناضروری سمجھتاہوں کہ ملک کی بلندترین سطح پر دہشت گردی کے خلاف ایک بھرپورعزم موجود ہے۔ ضرب عضب ہو یا کراچی آپریشن۔بلاتفریق طبقہ اور سیاست سے بالاتر،ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کا ارادہ موجود نظرآیا۔یہ بات اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں کسی بھی فریق سے زیادتی کے بغیرآپریشن کاجذبہ موجودتھا۔میری خواہش ہے کہ جس طرح ہم دہشت گردی کی بلاسے لڑرہے ہیں،بالکل اس طرح مالی کرپشن کے خلاف بھی جہادکاآغاز کرنا چاہیے۔ مالی کرپشن بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔
بالکل صاحبان!اس پرتوجہ مرکوزہونی ضروری ہے،مگرمجھے یہ توجہ اب تک نظرنہیں آئی۔صدرنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ بتدریج بہتری کی جانب ان کی خاص توجہ بھی محسوس ہوئی۔نشست کے اختتام پرایسے محسوس ہوا کہ میں ایک ایسے شخص سے مل کرآرہا ہوں جو ہماری پرانی نایاب قدروں کاامین ہے۔ایک سادہ ساشریف شخص،جس نے زندگی کی مشکلات کوعام آدمی کی حیثیت سے بہت قریب سے دیکھاہے۔جودراصل آج بھی ایک عام آدمی کی طرح زندہ رہ رہاہے۔قصرصدارت، اس کی سادگی اور متانت کوقطعاًکوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔
اسلام آبادسے واپسی پر سوچ رہاتھاکہ کس شہرسے واپس آرہاہوں۔گرمیوں میں سوٹ پہننے والے بابوؤں کا! نظرنہ آنے والے فرشتوں کا!سازش کرنے میں یکتادرباریوں کا یا صدرجیسے چند دردِدل رکھنے والے لوگوں کا!میرا خیال ہے کہ اسلام آباد سے نہیں بلکہ ممنون حسین کے شہرسے واپس آیاہوں!
کوئی اسے فرشتوں کا شہر بتاتا ہے۔ جہاں ہروقت نظرنہ آنے والے سفید سائے تمام اہم لوگوں کے پرکاٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔چند،اسے بابوؤں کا مخصوص قصبہ گردانتے ہیں جہاں دن رات لوگ صرف اور صرف فائلیں دیکھتے ہیں اوران میں تجوریوں کی کنجیاں تلاش کرتے ہیں۔پتہ نہیں یہ تمام رویے درست ہیں یاغلط؟میری دانست میں یہ شہرہمارے ملکی نظام کا دماغ ہے جہاں سے پوری مملکت پرحکومت کیجاتی ہے۔
اس کااثرملک کے ہرقصبے اورقریہ تک ہوتاہے۔دنیاکے تمام دارالحکومت اپنے ملک سے جزوی طورپر مختلف ہوتے ہیں۔خوبصورت،روشنیوں سے منورمگرزندگی کی کئی لہروں سے بہت دور!اسلام آبادمیں پانچ دن گزارنے کے بعدمجھے ایسے محسوس ہوتاہے کہ اب اس میں زندگی کی بھرپور رمق موجود ہے!ہرطرح سے زندہ شہر!
پانچ دن بعدلاہور واپس آیاہوں۔طویل میٹنگزاورختم نہ ہونے والے پانچ سرکاری دن۔مگرمیں نے کچھ عرصے سے ناکارہ سی ناکارہ سرکاری نشست میں بھی مصروفیت کاایک دلچسپ پہلو نکال لیاہے۔جب میں طویل پاورپوائنٹ پریزنٹیشن(Power Point Presentation)سے اکتا جاتاہوں،تواپنے اردگردلوگوں کے چہرے پڑھنے شروع کردیتاہوں۔ان کے چہرے پرلکھی ہوئی تحریرکوپڑھ کرسمجھنے کی کوشش کرتاہوں۔اس میں سے حیرت انگیزنتائج برآمدہوتے ہیں۔
سرکاری نشست میں انتہائی مستعدنظرآنے والے افسران کو کھلی آنکھوں سے گہری نیندسوتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ کچھ لوگوں کو مسلسل جاگتے ہوئے محسوس کرتاہوں۔عجیب بات یہ ہے کہ اکثرانتہائی ذہین نظرآنے والے لوگ جوہر میٹنگ میںسرہلاکرتاثردیتے ہیں کہ انھیں سب کچھ سمجھ آرہا ہے،اکثریت نے اپنے دماغ کابلب آف کیاہوتا ہے۔ لہذا گردن ہلانے سے سمجھاجاتاہے کہ وہ مجلس میں مکمل طورپر موجود ہیں۔مگرصورتحال اس سے اکثرمختلف ہوتی ہے۔
ذہن کہیں اور،آنکھیں کہیں اور،جسم کہیں اور،واقعہ کہیں اور! بہرحال سرکارکی دنیابھی ایک عجیب جادونگری ہے۔ صاحبان! میرے لیے توحیرت کدہ ہے!طلسم نگر!جاویدچوہدری سے میری پہلی ملاقات ٹھیک پانچ دن پہلے ہوئی ہے۔وہ ایک حیرت انگیزشخص ہے۔مطالعہ اورمشاہدہ کاایک انوکھا امتزاج۔ اس سے قبل میں نے اسے صرف ٹی وی چینل پردیکھاتھا یا اخبارکے کالم کی بے جان سی تصویرکے اندرقید !میں اپنی سرکاری زندگی میں ہرطرح کے لوگوں سے ملتا ہوں۔وزراء اعظم،وزیر،مشیر،سرکاری افسر،لکھنے والے اورکچھ نہ لکھنے والے بھی!مگرمیں ایمانداری سے سمجھتاہوں کہ چوہدری کے ساتھ گزارے ہوئے دوگھنٹے دنیاوی طورپراہم نظرآنے والی کئی شخصیات سے بہت بہترتھے۔
اس کی باتیں انتہائی سادہ اورکسی تکلف کے بغیرہیں۔ہمارے ملک میں کسی ہم عصرکی تعریف کرناکافی مشکل ہے مگرمیں سمجھتاہوں کہ اس جیسے صاحب رائے لوگ ہمارے قیمتی ترین لوگ ہیں۔وہ کس طرح لکھتا ہے۔یہ عقدہ بھی میرے اوپرمکمل طورپرکھل گیا۔ مطالعہ، سفراورفلمیں اسکااوڑھنابچھوناہیں۔اسے سفر سے عشق ہے۔ میرے گمان میں تو وہ ساکت بیٹھے ہوئے بھی حالت سفرمیں رہتاہے۔اصل میں یہ تینوں محرکات ایک ہی نتیجہ ہے۔زندگی کابھرپورشعور!جاویدمیں زندگی کا شعوراورمشاہدہ دونوں موجود ہیں۔وہ ایساکیوں ہے،مجھے نہیں معلوم،بلکہ میں معلوم کرنابھی نہیں چاہتا۔جن اچھے الفاظ میں اس نے لطیف چوہدری اور ایازخان کاذکرِخیرکیا،وہ اپنی جگہ ایک انتہائی متوازن رویہ تھا۔ وہ ایک ہفتہ میں چارکالم لکھتاہے۔ٹی وی پرچارپروگرام کرتا ہے۔
انتہائی مصروف آدمی ہے مگراس نے ایک بہت مشکل بات سیکھ لی ہے کہ وہ بالکل مصروف نظرنہیں آتا! ہرحکومت اپنے اندازمیں کام کرتی ہے۔ہروزیراعظم اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرتاہے مگرہر وزیراعظم کے کام کرنے کے اندازمیں بے انتہافرق ہوتا ہے۔میرے مشورہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگرکہنے میں کوئی حرج نہیں۔سرکاری افسروں کو کام کاہدف دیکرایک خاص مدت کے لیے بالکل آزادچھوڑدیناچاہیے ۔جوکام نہ کرسکے،اسے مضبوط سفارش کی موجودگی میں بھی بازپُرس کے لیے تیاررہنا چاہیے۔اس کلیے سے دباؤکے بغیرافسرخودبخود محنت کرنے پرمجبور ہوجائینگے۔
کیونکہ وہ نتائج دینے پرمجبورہونگیں۔ایک اوراہم بات، جو اب تکلیف دہ حدتک ثابت ہوچکی ہے،وہ فیصلے نہ کرنے کی مصمم عادت ہے!لوگوں میں قوت فیصلہ موجود ہے،مگروہ معمولی سے معمولی فیصلہ کرنے سے بھی خوفزدہ نظر آتے ہیں۔کوئی بھی ذمے داری لینے کے لیے تیارنہیں۔اب ہو یہ رہا ہے کہ سرکاری ملازم فائل پرتجزیے کی بنیادپرکچھ بھی لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ہرفائل دائروں میںگھومتی رہتی ہے۔ ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل پر۔اس طرح مہینوں گزرجاتے ہیں۔مجھے کئی اہم لوگوں سے ملنے کااتفاق ہوا۔میں صرف دوکا ذکرکرونگا۔
رضاربانی چیئرمین سینیٹ اوردوسرے ایازصادق، اسپیکرقومی اسمبلی۔رضاربانی بنیادی طورپرایک باغی انسان ہے۔اسے اب تک یقین نہیں آیاکہ وہ حکومت کاحصہ ہے۔ ایک انتہائی سنجیدہ بات جو چیئرمین سینیٹ نے بارہادہرائی وہ سرکاری ملازمین کاگرتاہوا معیارِکارکردگی تھا۔ شکوہ سوچتا رہا۔ صاحبان! پستی ہرشعبہ میں آئی ہے۔ کیا سرکاری ملازم اورکیاسیاست دان، کیاتاجر اور کیا اہل فن! حقیقت میں ہرشعبہ اب زوال میں مبتلاہے مگر شکوہ جائز ہے۔ ایازصادق ایک خوش لباس شخص ہے۔وہ کافی کچھ کرنا چاہتاہے اورشایدکرنے کی کوشش بھی کررہا ہے۔ بہرحال آج بھی وہ بھنورکی آنکھ میں زندہ ہے۔
بطوراسپیکر، جن اصلاحات کاذکرکیا،وہ قابل قدرہیں۔مگراس نے بھی سرکاری ملازمین کی ناقص کارکردگی کاذکرکیا۔میں بالخصوص ایک رسمی اورسرکاری نشست کاذکر ضرور کرونگا۔یہ صدرمملکت ممنون حسین صاحب کے ساتھ تھی۔ قصرصدارت میں اَن گنت بارجانے کااتفاق ہوا۔بلکہ ایک دورمیں تودل اتنااُچاٹ ہوگیاکہ وہاں جانابالکل ترک کردیا۔
اس دورمیں، وہاں مشکوک اہلیت کے بے نام تاجراورنیلے ہاتھ رکھنے والے شرفاء کا آناجانااتنابڑھ چکاتھا،کہ اس مہیب عمارت میں دم گھٹتاتھا۔خیر،موجودہ نشست بالکل مختلف طرز کی تھی۔محل کے وہی عالی شان کمرے،وہی دوچوب دارجوکسی بھی صدرکے آگے آگے باادب چلتے ہیں۔وہی مجسمے اوروہی بڑی بڑی تصاویرجنکی جانب وہاں کے مکین بالکل نہیں دیکھتے۔ مگراس بارماحول یکسرمختلف نظرآیا۔شائستگی اورسادگی سے مزین!سرکاری تقریبات کااکثرذکرنہیں کرتاکیونکہ ان میں درحقیقت ذکرکرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس تقریب میں مجھے ایسے لگاکہ ایک ایساشخص ہم لوگوں سے مخاطب ہے جودل سے بولنے کی ہمت رکھتاہے۔ایک شریف آدمی، جو اپنی شائستہ باتوں سے آپکوگھیرے میں لینے کافن جانتا ہے۔اس شخص کوحالات کامکمل ادراک تھااوروہ شکایت کرنے کے بجائے ان معاملات کوحل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ خاموشی اورلگن کے ساتھ۔بغیرکسی رعب اوردبدبے کی آڑلیے،دل کی بات کہنے والا!حقیقت میں مجھے خوشی ہوئی۔میں چاہتاہوں کہ ہمارے سیاستدانوں میں بہت سادگی آئے۔وہ ڈیزائنر کپڑوں سے گریزکریں۔معمولی کپڑے پہن کرغیرمعمولی باتیں کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔میری دانست میں صدر اس باریک نکتہ کوپاچکے ہیں۔
میں کچھ سوال وجواب کاذکرکرناایک امانت سمجھتا ہوں۔ چینی سرمایہ کاری اوراس سے پیداہونے والے معاشی انقلاب کاصدرکوبھرپور ادراک تھا۔ان کی باتوں میں بھی وضاحت سے یہی محسوس ہورہاتھا۔مگریہ شعورابھی تک عام سطح پرنہیں پہنچ پایا۔اس کی کیا وجوہات ہیں میں ان میں نہیں جاناچاہتا۔یہ ضرورعرض کرونگاکہ ہرچیزسیاست نہیں ہوتی۔ ملکی مفادکی اہمیت ہرسیاسی فائدہ سے بالاترہے اورہونی چاہیے۔چین سے ہمارے معاشی تعلقات اس وقت انتہائی اہم ہیں۔یہ ہماری Survival کامسئلہ ہے۔چین کی چالیس بلین ڈالرکی سرمایہ کاری سے ہماراملک یکسربدل جائیگا۔اس نکتہ پر یکسوئی کے ساتھ عمل ہوتانظرآرہا ہے۔
دوسری اہم بات جس کاذکرکرناضروری سمجھتاہوں کہ ملک کی بلندترین سطح پر دہشت گردی کے خلاف ایک بھرپورعزم موجود ہے۔ ضرب عضب ہو یا کراچی آپریشن۔بلاتفریق طبقہ اور سیاست سے بالاتر،ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کا ارادہ موجود نظرآیا۔یہ بات اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں کسی بھی فریق سے زیادتی کے بغیرآپریشن کاجذبہ موجودتھا۔میری خواہش ہے کہ جس طرح ہم دہشت گردی کی بلاسے لڑرہے ہیں،بالکل اس طرح مالی کرپشن کے خلاف بھی جہادکاآغاز کرنا چاہیے۔ مالی کرپشن بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔
بالکل صاحبان!اس پرتوجہ مرکوزہونی ضروری ہے،مگرمجھے یہ توجہ اب تک نظرنہیں آئی۔صدرنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ بتدریج بہتری کی جانب ان کی خاص توجہ بھی محسوس ہوئی۔نشست کے اختتام پرایسے محسوس ہوا کہ میں ایک ایسے شخص سے مل کرآرہا ہوں جو ہماری پرانی نایاب قدروں کاامین ہے۔ایک سادہ ساشریف شخص،جس نے زندگی کی مشکلات کوعام آدمی کی حیثیت سے بہت قریب سے دیکھاہے۔جودراصل آج بھی ایک عام آدمی کی طرح زندہ رہ رہاہے۔قصرصدارت، اس کی سادگی اور متانت کوقطعاًکوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔
اسلام آبادسے واپسی پر سوچ رہاتھاکہ کس شہرسے واپس آرہاہوں۔گرمیوں میں سوٹ پہننے والے بابوؤں کا! نظرنہ آنے والے فرشتوں کا!سازش کرنے میں یکتادرباریوں کا یا صدرجیسے چند دردِدل رکھنے والے لوگوں کا!میرا خیال ہے کہ اسلام آباد سے نہیں بلکہ ممنون حسین کے شہرسے واپس آیاہوں!