کار مینوفیکچررزنے بجٹ تجاویز وزارت خزانہ کو ارسال کردیں
ہائبرڈکاروں کی تیاری کیلیے پرزہ جات اور سی کے ڈی پرڈیوٹی چھوٹ کامطالبہ
پاکستان میں کار مینوفیکچررز نے وفاقی بجٹ کیلیے تجاویز وزارت خزانہ کو ارسال کردی ہیں جن میں ہائبرڈ گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری کو فروغ دینے کیلیے ہائی برڈ گاڑیوں کے پرزہ جات اور سی کے ڈی پر ڈیوٹی کی چھوٹ، استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ایس آر او 577کے ذریعے دی جانے والی چھوٹ سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے تدارک کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشی (پاما) کی بجٹ تجاویز کے مطابق پرانی گاڑیوں کے درآمدکنندگان کو غیرمنصفانہ چھوٹ سے نہ صرف مقامی انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ قومی خزانہ بھی آمدنی سے محروم ہورہا ہے۔ بجٹ تجاویز میں کہا گیاکہ ایس آر او577(I)/2005 کے تحت ڈیوٹی اور ٹیکس امریکی ڈالر میں متعین کیے گئے تھے اور صرف 2008 کے علاوہ ان پر کوئی نظرثانی نہیں کی گئی جبکہ اس دوران پرانی گاڑیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
ایس آر او 577 کے تحت طے کردہ ڈیوٹی عام ٹیکس ڈیوٹی کی نسبت بہت کم ہے، اس خامی کو دور کرنے کیلیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، اگر ایس آر او کو ختم نہیں کیا جاسکتا تو اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اور موجودہ وقت کے مطابق ڈھال کر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کو موجودہ شرح کے مطابق تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بجٹ تجاویز میں کہا گیا کہ انڈسٹری کی مشاورت سے ٹیکسز پر نظرثانی کی جائے، ایس آر او 499(1)/2013کے تحت ہائبرڈ گاڑیاں ٹیکسز اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ کی رعایت کے ساتھ درآمد کی جاسکتی ہیں تاہم یہ مکمل طور پر سی بی یو یونٹ کی شکل میں ہوں۔
پاما نے کہا کہ یہ چھوٹ سی کے ڈی اور پرزہ جات کیلیے بھی دینی چاہیے تاکہ مقامی سطح پر ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری ممکن ہوسکے، اس سہولت سے مقامی کارساز اداروں کو پاکستان میں ہائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے میں مدد ملے گی، مقامی طور پر تیاری سے حکومت کا ہائبرڈ گاڑیوں پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بھی بچ سکے گا ، اسی طرح ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کے پرزہ جات کی تیاری اور مقامی سطح پر گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سے ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
12جون2013 کے ایس آر او 499(1) کے تحت کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی چھوٹ ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی ہے، مقامی طور پر ان گاڑیوں کی رجسٹرڈ افراد کے ذریعے فروخت پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے، یہ فرق رجسٹرڈ آٹو کمپنیوں کے ساتھ امتیاز کا باعث ہے کیونکہ جو فرد رجسٹرڈ نہیں ہے۔
وہ بغیر سیلز ٹیکس کے گاڑی درآمد کرسکتا ہے اور اسے گاڑی رجسٹرڈ کمپنی کے مقابلے میں سستی پڑے گی جبکہ مقامی رجسٹرڈ کارساز کمپنیوں کی جانب سے ان کی درآمد اور فروخت پر سیلز ٹیکس عائد ہے اور یہ ٹیکس امپورٹ اور فروخت دونوں مرحلوں پر دینا ہوتا ہے، اس طرح غیر رجسٹرڈ فرد کو گاڑی سستی پڑتی ہے، اس لیے ایس آر او 499(1) میں تبدیلی کی جائے، سیلز ٹیکس کے ضمن میں امپورٹ اور فروخت کے مرحلوں میں ریلیف دیا جائے۔
پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشی (پاما) کی بجٹ تجاویز کے مطابق پرانی گاڑیوں کے درآمدکنندگان کو غیرمنصفانہ چھوٹ سے نہ صرف مقامی انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ قومی خزانہ بھی آمدنی سے محروم ہورہا ہے۔ بجٹ تجاویز میں کہا گیاکہ ایس آر او577(I)/2005 کے تحت ڈیوٹی اور ٹیکس امریکی ڈالر میں متعین کیے گئے تھے اور صرف 2008 کے علاوہ ان پر کوئی نظرثانی نہیں کی گئی جبکہ اس دوران پرانی گاڑیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
ایس آر او 577 کے تحت طے کردہ ڈیوٹی عام ٹیکس ڈیوٹی کی نسبت بہت کم ہے، اس خامی کو دور کرنے کیلیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، اگر ایس آر او کو ختم نہیں کیا جاسکتا تو اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اور موجودہ وقت کے مطابق ڈھال کر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کو موجودہ شرح کے مطابق تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بجٹ تجاویز میں کہا گیا کہ انڈسٹری کی مشاورت سے ٹیکسز پر نظرثانی کی جائے، ایس آر او 499(1)/2013کے تحت ہائبرڈ گاڑیاں ٹیکسز اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ کی رعایت کے ساتھ درآمد کی جاسکتی ہیں تاہم یہ مکمل طور پر سی بی یو یونٹ کی شکل میں ہوں۔
پاما نے کہا کہ یہ چھوٹ سی کے ڈی اور پرزہ جات کیلیے بھی دینی چاہیے تاکہ مقامی سطح پر ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری ممکن ہوسکے، اس سہولت سے مقامی کارساز اداروں کو پاکستان میں ہائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے میں مدد ملے گی، مقامی طور پر تیاری سے حکومت کا ہائبرڈ گاڑیوں پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بھی بچ سکے گا ، اسی طرح ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کے پرزہ جات کی تیاری اور مقامی سطح پر گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سے ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
12جون2013 کے ایس آر او 499(1) کے تحت کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی چھوٹ ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی ہے، مقامی طور پر ان گاڑیوں کی رجسٹرڈ افراد کے ذریعے فروخت پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے، یہ فرق رجسٹرڈ آٹو کمپنیوں کے ساتھ امتیاز کا باعث ہے کیونکہ جو فرد رجسٹرڈ نہیں ہے۔
وہ بغیر سیلز ٹیکس کے گاڑی درآمد کرسکتا ہے اور اسے گاڑی رجسٹرڈ کمپنی کے مقابلے میں سستی پڑے گی جبکہ مقامی رجسٹرڈ کارساز کمپنیوں کی جانب سے ان کی درآمد اور فروخت پر سیلز ٹیکس عائد ہے اور یہ ٹیکس امپورٹ اور فروخت دونوں مرحلوں پر دینا ہوتا ہے، اس طرح غیر رجسٹرڈ فرد کو گاڑی سستی پڑتی ہے، اس لیے ایس آر او 499(1) میں تبدیلی کی جائے، سیلز ٹیکس کے ضمن میں امپورٹ اور فروخت کے مرحلوں میں ریلیف دیا جائے۔