سنگ مرمر کے بے جان کتبے جو پہچان دیتے ہیں

جدت کے باوجود کتبے لکھنے اور بنانے کا فن ابھی تک زندہ ہے۔

کتبے سے فخر اور چاہت جیسے ملے جلے جذبات جڑے ہوئے ہیں جو اس کے نصب کئے گئے مقام کے ساتھ بدلتے ہیں ۔فوٹو : فائل

کتبہ انسانوں کو پہچان دیتا ہے، عجب بات یہ ہے کہ لکڑی ، پلاسٹک یا سنگ مرمر سے بنا یہ کتبہ زندوں یا مردوں دونوں کی پہچان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، زندہ شخص تو خود اپنا نام لکھا دیکھ کر فخر محسوس کرتا ہے جبکہ قبر پر لگے کتبے کو مرنے والے کے عزیز، رشتہ دار چاہت سے دیکھتے ہیں۔

گویا کتبے سے فخر اور چاہت جیسے ملے جلے جذبات جڑے ہوئے ہیں جو اس کے نصب کئے گئے مقام کے ساتھ بدلتے ہیں ۔ ممتاز افسانہ نگار غلام عباس کا افسانہ '' کتبہ'' ایک ایسے ہی کردار شریف حسین کے گرد گھومتا ہے جو ایک سرکاری دفتر میں کلرک ہے۔

ایک کباڑیے کے پاس پتھر کا ایک ٹکڑا پڑا دیکھ کر اسے خیال آتا ہے کہ کیوں ناں اسے خرید کر اس پر اپنا نام لکھوا کر گھر کے دروازے کے باہر لگایا جائے، بڑے شوق اور فخر سے سنگ تراش سے اس پر اپنا نام کندہ کرانے کے بعد جب وہ گھر پہنچتا ہے تو تب اسے خیال آتا ہے کہ اس کے چھوٹے سے گھر کے باہر تو ایسی کوئی جگہ ہی نہیں جہاں اسے نصب کیا جا سکے، تب اسے احساس ہوا کہ کتبہ لگانے کے لئے گھر کا بڑا سا گیٹ ضروری ہے، وہ اس خواب کو آنکھوں میں سجائے دن رات محنت کرتا رہا مگر ۔



ریٹائر ہونے کے بعد بھی اپنا بڑا گھر نہ بنا سکا ، اور وہ کتبہ یونہی اس کے گھر میں پڑا رہتا ہے، جو اس کا بیٹا اٹھا کر سٹور میں ڈال دیتا ہے، شریف حسین بالآخر بڑھاپے میں بیمار ہو کر اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔

اس کے مرنے کے بعد ایک دن سٹور کی صفائی کرتے ہوئے جب اس کے بیٹے کی نظر اس کتبے پر پڑتی ہے تو تھوڑی سی تبدیلی کے بعد وہ بڑی چاہت سے اسے اپنے باپ کی قبر پر نصب کرا دیتا ہے، یوں کتبہ شریف حسین کو زندگی میں تو پہچان نہ دے سکا مگر مرنے کے بعد اس کی ابدی آرام گاہ پر نصب ہو کر پہچان کا باعث بنا۔

کتبے سے ہمارے یہاں عام طور پر قبروں یا مزاروں پر لکھی تحریر لی جاتی ہے جبکہ کتبہ کی اصطلاح بہت وسیع ہے، اردو لغت میں اس سے مراد وہ عبارت ہے جو لوح قبر یا مسجد پر کندہ کی جاتی ہے یا پھر وہ نظم یا نثر جو کسی کی تعریف میں بطور تاریخ پیش طاق پر لکھتے ہیں۔

اسی طرح گھر کے باہر لگائی گئی نام کی تختی سنگ میل، چھاؤنی میں ہدایات کی سلیٹ، کسی افتتاحی منصوبے کی سلیٹ یا پھر کسی کو خوش آمدید کہنے کے لئے کندہ کی گئی تحریر کتبے کی مختلف اقسام میں شمار کی جاتی ہیں ۔ کسی زمانے میں تو صرف پتھر پر ہی کتبے لکھے جاتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لکڑی، سٹیل، پیتل اور پلاسٹک کے کتبے بھی لکھے جا رہے ہیں۔



کتبے کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے یونانیوں اور رومنوں نے کتبوں کا باقاعدہ استعمال شروع کیا، جبکہ اس سے قبل پتھر کے دور کے لوگ بھی پتھروں پر پیغامات کندہ کرتے تھے، گویا یہ قصہ ہے ہزاروں سال قبل کا۔ ایسا ہی ایک پتھر روزیٹا سٹون برٹش میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے جو 196قبل مسیح کا ہے اس کا تعلق مصر کے بادشاہ پٹو ملی فائیو سے ہے۔

کتبوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کو اس سے انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ مرتب کرنے میں مدد ملتی ہے۔ قبر بنانے اور پتھر لگانے کا جو قدیم ترین ثبوت میسر ہے وہ ایتھوپیا کے ایک قدیم قبرستان سے ملا ہے جو ایک بچے کی قبر ہے۔

فوسل سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ 3.3ملین سال پرانا ہے۔ اسی طرح آئر لینڈ میں گرینگ قبرستان ہزاروں سال قدیم ہے مگر اس میں محفوظ کتبہ 1630ء کا ہے، یہ قبر رابرٹ گرینگ نامی شخص کی ہے ، اس سے قبل کی قبروں کے کتبے امتداد زمانہ کی دست برد سے محفوظ نہیں رہے۔ برصغیر میں سلاطین اور مغلوں کے دور میں بنائے گئے محلات ، مساجد، قلعوں، مزارات اور مقبروں میں نصب کئے گئے کتبے اس فن کی بہترین مثال ہیں ۔



خاص طور پر بادشاہوں اور ان کی بیگمات کے مقبرے تو فن تعمیر کے نادر نمونے ہیں اور ان میں نصب کئے گئے کتبے ان کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں، مغلیہ دور کے فن تعمیر کی سب سے مقبول اور شاندار مثال تاج محل ہے جسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ اب بھی آتے ہیں۔


یوں برصغیر میں امراء کی تقلید کرتے ہوئے عام لوگوں نے بھی اپنی پہچان کے لئے کتبوں کا استعمال شروع کر دیا، مغلیہ فن تعمیر میں چونکہ سنگ تراشی اور کندہ کاری کا بہت زیادہ استعمال تھا اس لئے اس دور میں کتبے لکھنے اور بنانے کے فن کو کافی عروج حاصل ہو ا ، اس دور میں اس فن سے وابستہ افراد کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، چھوٹے بڑے ہر قسم اور مختلف ڈیزائنوں کے کتبے بنوانے کے رواج کی وجہ سے اس پیشے سے وابستہ افراد کو کافی آمدن ہوتی تھی اور وہ خوشحال زندگی بسر کرتے تھے ۔ کاتب اور سنگ تراش کتبے کے سائز اور ڈیزائن کے مطابق معاوضہ لیتے تھے۔

اگر کتبہ ساز کو کسی محل ، مسجد یا مقبرے میں کام مل جاتا تو اسے بہت زیادہ فائدہ ہوتا تھا کیونکہ ایسا کام مہینوں تک چلتا تھا جس کا مطلب ہوتا تھا کہ کتبہ ساز کے خاندان کی کئی مہینوں کی روٹیوں کا بندوبست ہو گیا ۔



وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ کتبے لگانے کی روایت کمزور ہوتی چلی گئی ہے، کیونکہ نہ تو اب محل بنائے جاتے ہیں اور نہ مقبرے بنانے کا رواج رہا ہے، مکانوں کے باہر پتھر کا کتبہ نصب کروانے میں بھی کافی کمی ہو گئی ہے کیونکہ اب اس کے متبادل ذرائع اختیار کر لئے گئے ہیں جیسے اب گیٹ کے باہر پلاسٹک کی تختی پر نام لکھوا کر لگانے کا رواج عام ہو گیا ہے ، پیتل یا سٹیل کی پلیٹ بھی اس کام کے لئے استعمال کی جانے لگی ہے، ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تخیاں بھی سٹیل کی لگائی جانے لگی ہیں تاہم یہ کافی مہنگی پڑتی ہیں جبکہ سنگ مرمر کی بنی ہوئی پلیٹ کی قیمت اس کے مقابلے میں کم ہے اس لئے عام طور پر پتھر کا کتبہ ہی لگایا جاتا ہے۔

کتبے لکھوانے کے رواج میں کمی کی ایک وجہ موجودہ دور کی مادیت پرستی اور وقت کی کمی بھی ہے، اب لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے عزیز کی قبر بنوانے کے بعد کتبہ لگانے کا اہتمام کریں، جنھیں مرنے والے سے بہت زیادہ چاہت ہوتی ہے وہ تو اپنے قیمتی وقت سے کچھ حصہ اس کام کے لئے دے دیتے ہیں جبکہ ایسے افراد جنھیں چاہت کم اور نام نمود کی زیادہ فکر ہوتی ہے وہ کتبہ ساز کو فوری کتبہ تیارکرنے کا حکم دیتے ہیں، اگر کتبہ ساز کے وقت ہو تو ان کے کہنے پر مختصر سا کتبہ فوری تیار کر دیتا ہے ورنہ قبر بغیر کتبے کے ہی بنا دی جاتی ہے۔



کتبوں کی تحریروں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتبوں کی تحریریں بھی بہت مختصر ہو گئی ہیں، اب لوگ کتبے پر صرف مرنے والے کا نام ، ولدیت ، تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات لکھتے ہیں، ورنہ پرانے کتبوں پر وفات پانے والے کے حالات زندگی ، محبت میں چند اشعار اور کتبہ لکھوانے والے کا نام بھی کندہ کئے جاتے تھے ۔

یوں کتبہ مرنے والے کے حالات زندگی اور عزیز و اقارب کی محبت کے اظہار کا بھی ذریعہ تھا ۔ مہنگائی کے اس زمانے میں بہت سے لوگ تو اپنے پیاروں کی کچی قبر بھی مشکل سے بنا پاتے ہیں اس کے لئے بھی بعض اوقات انھیں کسی عزیز سے مدد لینا پڑتی ہے، تاہم تمام تر جدت اور مسائل کے باوجود کتبے کی روایت ابھی زندہ ہے۔

مسلمان کاتب جو یہودیوں کی قبروں کے کتبے لکھتا ہے
یہودیوں کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہ اپنے مذہب کے حوالے سے بڑے حساس ہوتے ہیں ، اسی لئے یہ بہت کم ہو ا ہے کہ یہودی کسی دوسرے مذہب کی طرف تبدیل ہوئے ہوں، ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق قبروں کے کتبے عبرانی زبان میں لکھے جاتے ہیں جو ظاہر ہے کہ وہ یہودی کاتب سے ہی لکھواتے ہیں ، تاہم بھارت کے شہر ممبئی اور گرد و نواح میں آباد یہودیوں کو قبروں کے کتبے ایک مسلمان کاتب سے لکھوانا پڑتے ہیں کیونکہ وہاں کوئی یہودی کاتب یا سنگ تراش موجود نہیں ہے۔

اس لئے اس کام کو محمد یاسین سرانجام دیتے ہیں ۔ محمد یاسین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے یہ کام کر رہے ہیں، جب وہ ممبئی آئے تو انھیں سنگ تراشی تو آتی تھی مگر عبرانی زبان میں کتبے لکھنے کا کام انھوں نے سنگ تراش سولومن سے سیکھا ، اب وہ اپنے بیٹے کو بھی کتبہ سازی کا کام سکھانا چاہتے ہیں ۔ محمد یاسین کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو ان سے کتبے لکھوانے پرکبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا ۔

جدت کے باوجود کتبے لکھنے کا فن ابھی زندہ ہے، مشتاق کتبہ ساز
میں گزشتہ 22سال سے کتبے بنانے کے پیشہ سے وابستہ ہوں، اٹھارہ سال سرکلر روڈ پر گزارے اور چار سال سے میانی صاحب قبرستان میں موجود ہوں۔کتبہ سازی کا فن میں نے اپنے ماما استادغلام رسول سے سیکھا۔

لاہور میں بہت سے قبرستانوں کے باہر کتبے بنانے والے موجود ہوتے ہیں مگر اس کی بڑی مارکیٹ فیروز پور روڈ اچھرہ یا پھر میانی صاحب قبرستان ہے ۔ میں اس دکان میں ایک ہزار روپے روزانہ اجرت پر کام کرتا ہوں، البتہ جس دن چھٹی ہو یا میں کام پر نہ آئوں تو اس دن کا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔کتبہ تیار کرنے کا عمل پتھر کی سلیٹ سے شروع ہوتا ہے جو پتھر مارکیٹ سے خریدی جاتی ہے، سب سے پہلے سلیٹ کی مشین سے رگڑائی کی جاتی ہے تاکہ اس کی سطح ہموار ہو جائے۔

اس کے بعد کاتب سے سلیٹ پر کچی لکھائی کروائی جاتی ہے، اگر کتابت زیادہ لمبی چوڑی نہ ہو تو میں خود بھی کر لیتا ہوں جیسے صرف نام کی تختی لکھوانا، اس کے بعد ہمارا اصل کام شروع ہوتا ہے، ہم ہتھوڑی اور چھینی سے تحریر کوتراشتے ہیں، اس کے بعد گاہک کی ہدایت کے مطابق اس میں رنگ لگاتے ہیں، عموماً دو یا تین رنگ لگائے جاتے ہیں تاکہ کتبہ جاذب نظر ہو۔ سنگ مرمر اور دیگر پتھروں کے علاوہ چینی ٹائل پر بھی کتبے لکھوائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ گھروں کے باہر پلاسٹک کی پلیٹ لگاتے ہیں جوکاتب سے لکھوانا ہی کافی ہے۔

تاہم پتھر کے کتبے کے لئے اسے ہمارے پاس ہی آنا ہو گا، گاہک کی جو ڈیمانڈ ہوتی ہے ہم اس کے مطابق کام کرتے ہیں، آج کل کتبے کی قیمت 250 روپے فی مربع فٹ لی جا رہی ہے، ہمارے پاس لوگ قبروں ، گھروں اور ترقیاتی سکیموں کے افتتاح وغیرہ کے لئے کتبے لکھوانے کے لئے آتے ہیں ، اسی لئے جدت کے باوجود کتبے لکھنے اور بنانے کا فن ابھی تک زندہ ہے۔
Load Next Story