ایکسپریس ٹریبیون کی پانچویں سالگرہ

پاکستان میں انگریزی اخبار نکلتے رہے ہیں اور بن کھلے غنچوں کی طرح کملاتے رہے ہیں۔

zahedahina@gmail.com

روزنامہ ''ایکسپریس اردو'' کے خاندان میں پہلا اضافہ انگریزی کے ''ایکسپریس ٹریبیون'' کا ہوا، اس کے بعد ''سندھ ایکسپریس'' بھی اس میں آن ملا۔ ان میں سے ''ایکسپریس ٹریبیون'' اس مہینے 5 برس کا ہو گیا ہے۔

پاکستان میں انگریزی اخبار نکلتے رہے ہیں اور بن کھلے غنچوں کی طرح کملاتے رہے ہیں۔ اسی لیے جب ''ایکسپریس ٹریبیون'' کی اشاعت کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس کا انجام بھی ان انگریزی اخباروں کا سا ہو گا جو بند ہو گئے یا اگر نکل بھی رہے ہیں تو ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں، کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

کم عمری سے ہی روزنامہ ''ڈان'' کو دیکھنے اور پھر اسے پڑھنے کی عادت رہی، اسی لیے نئے نکلے والے انگریزی اخباروں سے دلچسپی ایک عام سی بات تھی۔ ''ایکسپریس ٹریبیون'' سے اس لیے بہ طور خاص دلچسپی تھی کہ وہ روزنامہ ''ایکسپریس'' کے خاندان کا تھا، یہی وجہ ہے کہ جس دن سے وہ شایع ہو رہا ہے اس وقت سے آج تک میں اس کی خریدار رہی ہوں۔ اندازہ بھی نہیں ہوا کہ اسے پڑھتے ہوئے کتنے دن گزر گئے ہیں۔

ایسا نہیں تھا کہ ہمارے برصغیر میں اخبار نہیں نکلتے تھے، فارسی، اردو، ہندی اور جنوب کے علاقوں کی زبانوں میں اخباروں نے اپنی حیثیت منوائی ہوئی تھی لیکن یہ کام ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برٹش راج نے کیا کہ چائے اور اخبار کو پڑھے لکھے ہندوستانیوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنا دیا۔ اس زمانے کے ناول اور افسانے پڑھ جائیے، ہیرو، ہیروئن اور ان کے والدین منہ اندھیرے چائے پیتے اور اخبار پڑھتے نظر آئیں گے۔

اشرافیہ انگریزی اخبار پڑھتی اور ان کے وسیلے سے اپنی سیاسی رائے بناتی تھی۔ اردو والے ''پیسہ اخبار''، ''الہلال'' اور 'اردوئے معلیٰ'' جیسے اخباروں سے ملکی معاملات اور مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ انگریزی اخبار کو جاری کرنے کی ضرورت آل انڈیا مسلم لیگ اور جناح صاحب نے محسوس کی اور اسی لیے ''ڈان'' جاری کیا گیا۔

اس وقت سے آج تک انگریزی اخبار ہماری سماجی، سیاسی اور تہذیبی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے ''ایکسپریس ٹریبیون'' کے نکلنے کی بہت خوشی ہوئی تھی۔ اپنی صحافتی زندگی میں روز اوّل سے آج تک میں اردو میں لکھتی ہوں، انگریزی اخبارات پڑھتی ہوں اور جانتی ہوں کہ اردو اور انگریزی اخبارات کے قارئین کے ذہنی روّیوں میں کس قدر فرق ہے۔ وہ بات جو انگریزی میں بہ سہولت لکھ دی جاتی اور پڑھ لی جاتی ہے، اس کے لیے اردو میں گنجائش قدرے کم ہے۔

اگر ہم پاکستان میں انگریزی صحافت کا جائزہ لیں تو ابتداء میں یہ بہت کمزور تھی۔ لیکن اس کی تفصیل میں جانے کی بجائے ہمیں انگریزی صحافت کی ابتدا کا جائزہ لینا چاہیے۔ انگریزی اخبارات کا آغاز برطانیہ سے ہوا۔ 1665ء میں لندن گزٹ کی اشاعت ہوئی جسے اس وقت آکسفورڈ گزٹ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ اخبار انگریزی کا پہلا باضابطہ اخبار تھا۔

یہ ہفتے میں 2 دن شایع ہوا کرتا تھا۔ امریکا کا پہلا انگریزی اخبار بوسٹن سے 1690ء میں شایع ہوا، اس کا صرف ایک ایڈیشن شایع ہو سکا۔ نوآبادیاتی حاکموں نے اسے ضبط کر لیا۔ ہندوستان میں پہلا انگریزی اخبار ایک برطانوی ولیم بولٹس نے کلکتہ سے جاری کیا جس میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تنقید کا نشانہ بنایا، لہٰذا بولٹس کو واپس برطانیہ روانہ کر دیا گیا۔ 1780ء میں جیمز ہکی نے بنگال گزٹ شایع کیا۔ یہ اخبار ایک فٹ لمبا اور آٹھ انچ چوڑا تھا۔ اس کے صفحات کی تعداد 4 ہوا کرتی تھی۔

ہکی بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کی بدعنوانیوں کے خلاف تھا جسے بالآخر بند کرا دیا گیا۔ 1781ء میں برطانوی حکومت کے حامی اخبار انڈیا گزٹ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ سند ھ میں انگریزی صحافت کی طرف نظر کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ پر جب برطانیہ نے 1834ء میں قبضہ کیا اور جنرل سر چارلس نیپیئر کو 1842ء میں سندھ روانہ کیا گیا تو ء1845میں سندھ کا پہلا انگریزی اخبار کراچی ایڈورٹائزر شایع ہوا جسے سر چارلس نیپیئر کی مدد اور آشیرواد حاصل تھی۔ یہ اخبار صرف 5 سال تک جاری رہ سکا۔

اس تاریخی پس منظر کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ہم ایک بار پھر حال میں آ جاتے ہیں اور ''ایکسپریس ٹریبیون'' کے 5 برس مکمل ہونے پر خوش ہوتے ہیں۔


''ایکسپریس ٹریبیون'' نے اپنے پڑھنے والوں کی ذہنی تربیت کا پہلے دن سے کام کیا۔ دلکش طرز پیشکش، سادہ جگہ چھوڑ کر آنکھوں کو آرام دینے کا رویہ اور اس سے کہیں بڑھ کر دنیا کے ''عالمی گاؤں'' ہو جانے کی بناء پر عالمی سیاست اور مقامی حالات اور واقعات کو وسیع النظری سے دیکھنے اور بیان کرنے کا رجحان ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں پہلے دن سے نظر آتا تھا۔ وہ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے جنھیں صحافت کی دنیا میں 30،40 برس سے جمے جمائے نام بہت مشفقانہ انداز میں دیکھتے تھے اور جن کا خیال تھا کہ ابھی ان ''بچوں'' کے دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے، یہ بھلا اخبار کیا نکالیں گے اور کیا چلائیں گے۔

پھر ان ہی بزرگوں نے دیکھا کہ نئے خیالات اور نئی روش سے متّصف ان لڑکوں اور لڑکیوں نے پاکستان کی انگریزی صحافت میں بہت تیزی سے اپنی جگہ بنائی۔ وہ لوگ جن کے خیال میں پاکستان صرف سبز رنگ سے رنگا ہوا تھا، انھیں صحافیوں کی اس نئی کھیپ کی یہ کوشش بہت ناگوار گزری کہ یہ ملک دھنک کے سات رنگوں سے وجود میں آیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند اور عسکریت پسند گروہوں نے ایک بار نہیں بار بار کراچی اور دوسرے شہروں میں ''ایکسپریس اردو'' اور ''ایکسپریس ٹریبیون'' کے دفتروں پر نہایت خطرناک حملے کیے، دھمکیاں دیں، خبردار کیا کہ اگر اس میں کام کرنے والوں، اس میں لکھنے والوں اور اس سے متعلق لوگوں نے اپنا ''قبلہ'' درست نہ کیا تو ایسے حملے بار بار ہوں گے اور مالک سے ملازم تک سب کا دماغ درست کر دیا جائے گا۔

دھمکی اور دھونس کا یہ رویہ اس میں کام کرنے والوں، اس کے لکھنے والوں کی استقامت میں اضافے کا سبب بنا۔ آپ صرف غلاموں کو احکامات دے سکتے ہیں، آزاد روح اور آزاد مزاج افراد کے ساتھ یہ روش اختیار کی جائے تو ان کی حمیت اسے گوارا نہیں کرتی۔

اخبار ہماری ذہنی تربیت کرتے ہیں۔ بہ طور خاص ادارتی صفحوں پر شایع ہونے والے کالموں کے ذریعے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ وہ ہمیں ملکی، علاقائی اور عالمی سیاست کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر سے آگاہ کریں۔ ملکی اور غیر ملکی الیکٹرانک چینل جو ہمیں تازہ ترین خبروں اور ان پر تبصروں اور ان کے تجزیوں سے آگاہ کرتے ہیں، ان کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے یہاں ایسے اخبار موجود ہوں جو پڑھنے والوں کو ان معاملات کا پس منظر فراہم کریں۔

الیکٹرانک چینل شاید وہ گہرا اور افقی زاویہ نظر پیش نہیں کرتے جو قاری کو اخبار فراہم کرتا ہے، کاروبار دنیا کے مسائل سے نمٹ کر شام یا رات کی تنہائی میں اخبار کے ہر صفحے کو سکون سے پلٹنا، اپنی پسند کی خبر یا نقطۂ نظر کو پڑھنا اور پھر اس پر غور کرنا۔ اخبار سے قاری کا یہ رشتہ بہت گہرا اور معنی خیز ہوتا ہے۔

''ایکسپریس ٹریبیون'' نے اپنے پڑھنے والوں سے یہ رشتہ قائم کر لیا ہے اور اس کے دامن سے بندھے ہوئے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون نے پڑھنے والوں کے لیے دنیا کے دروازے افق تا افق وا کر دیے ہیں۔ وہ عالمی خبریں اور تجزیے جن سے ہم واقف ہونا چاہتے ہیں۔ بالی ووڈ سے ہالی ووڈ تک کی گوسپ، پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی اندر کی کہانیاں، بنی گالہ اور جاتی امرا میں کیا ہو رہا ہے۔

اسامہ بن لادن تک امریکیوں کے پہنچنے کا قصہ، دھرنا سیاست کی ہنگامہ خیزیوں کے دوران ذمے دارانہ صحافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ یوں سمجھئے کہ ''ایکسپریس ٹریبیون'' نے دیانت اور دلچسپی دونوں کے درمیان توازن قائم رکھا اور اسی لیے آج یہ ملک کے اہم ترین اخباروں میں سے ایک ہے۔

برٹش راج سے آزادی حاصل کرنے کی جو لڑائی ہندوستان کے انگریزی، اردو، بنگلہ اور ہندی اخباروں نے لڑی، ان اخباروں سے وابستہ صحافیوں نے جو ستم اٹھائے، جتنی سختیاں سہیں، اسی کے نتیجے میں ہم آزاد ہوئے لیکن یہ وہ آزادی نہ تھی جس کے خواب دیکھے گئے تھے۔ گزشتہ 68 برسوں میں اردو اور انگریزی صحافت نے بہت سخت وقت گزارا ہے۔

کل یہ لڑائی ہماری پرانی نسل لڑ رہی تھی، اب صحافت کی رگوں میں نیا خون دوڑ رہا ہے۔ ''ایکسپریس ٹریبیون'' سے وابستہ نوجوان صحافی گزرے ہوئے 5 برسوں میں آزادیٔ صحافت کی اس لڑائی میں بہت مشکل اور جان لیوا مرحلوں سے گزرے ہیں۔ انھوں نے جو شہرت اور حیثیت کمائی ہے، وہ ان کا حق ہے۔ پہلے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ضیاء الدین صاحب کی رہنمائی میں بلال لاکھانی، اعجاز الحق، کمال صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے بہت کم مدت میں واقعی کمال کر دکھایا ہے۔
Load Next Story