یہ بھی سب حرام ہے
ہم نے آپ بزرگوں سے ہی سنا ہے کہ بزرگوں کی کسی خطا پر حرف گیری بذات خود ایک خطا ہے
ہم نے آپ بزرگوں سے ہی سنا ہے کہ بزرگوں کی کسی خطا پر حرف گیری بذات خود ایک خطا ہے لیکن بعض اوقات بزرگوں کی باتیں حرف گیری پر مجبور کر دیتی ہیں۔ آپ ان دنوں گدھوں اور کووّں کے حلال و حرام ہونے کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں یا الجھا دیے گئے ہیں اور خود ہی بتاتے ہیں کہ ایسی باتیں کس قدر لایعنی اور بے سود بھی ہوا کرتی ہیں۔
میں اپنے بزرگوں کی توجہ ایک ایسے حلال حرام کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو ایک دردناک کھلی حقیقت ہے اور پوری قوم اس پر دل ہی دل میں رو پیٹ رہی ہے، دل ہی دل میں اس لیے کہ مال حرام کھانے والوں کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی عام آدمی اس پر ذرا اونچی آواز میں بول بھی نہیں سکتا۔
ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ کئی لوگ جو کل تک صرف قدرے خوشحال لوگوں میں شمار ہوتے تھے آج وہ ارب پتی بن گئے ہیں اور یہ سرمایہ اور دولت ان کی نہیں اس قوم کی ذاتی ہے جس کو لوٹنے کا ان کو کسی وجہ سے موقع مل گیا ہے اور کمال ہے کہ مختصر ترین وقت میں یہ سب کچھ ہو گیا۔
اب وہ خود حیرت زدہ ہیں کہ مال و دولت کی یہ ریل پیل اچانک کہاں سے آ گئی کہ آج وہ ارب پتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی سیاسی زندگی میں جب کسی طرح جیل چلے گئے تو علاقے کے بعض لوگ ان کے گھر کا خرچ چلانے کے لیے ماہانہ مدد کرتے رہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ککھ پتی سے لکھ پتی کیسے بن گئے۔ ان لوگوں نے قوم کا مال لوٹا کیونکہ حالات نے انھیں کسی ایسے منصب تک پہنچا دیا کہ وہاں ان کو قومی دولت کو لوٹنے کے اسباب فراہم ہو گئے۔
ان میں کچھ تو وہ تھے جو پہلے ہی کسی بڑے کاروبار میں تھے اور اقتدار نے اس میں برکت پیدا کر دی، چار چاند لگا دیے۔ ان کی دولت مندی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اکثر ایسے ہیں کہ ان کی دولت کی کوئی وجہ اور سبب سامنے نہیں آتا سوائے کسی سرکاری یعنی سیاسی لوٹ مار کے۔
دولت مندی اچانک آئی یا اس میں اضافہ ہوا یہ الگ بات ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی لوٹی ہوئی یہ دولت ملک سے باہر کیوں ہے اور یہی بات اس دولت کو حرام کر دیتی ہے۔
اسلامی اخلاقیات اور قانون کو تو فی الحال رہنے دیجیے۔ یہ تو کسی صاحب اقتدار کے لیے اس ملک کے ایک عام شہری سے زیادہ کی تنخواہ تک کی اجازت نہیں دیتا۔ آج کی شائستہ دنیا کے معمول اور عام اخلاقی روایت کے مطابق بھی کسی حکمران اور عوام کے درمیان توازن رکھا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے ان کی آمدن کو ایک حد کے اندر رکھا جاتا ہے کیونکہ قومی خزانہ کسی کی ملکیت نہیں ہوا کرتا یہ پوری قوم کا ہوتا ہے اور اس کے استعمال کے پیمانے اور قانون قاعدے مقرر ہیں مگر ہمارے پاکستان میں نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی قاعدہ جس کا جتنا زور چلے وہی قانون بن جاتا ہے اور وہی حق ہے۔
شرعی اعتبار سے دیکھیں یا قومی اعتبار سے کسی پاکستانی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی دولت ملک سے باہر رکھ سکے۔ جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ نہ صرف ملکی قانون بلکہ قومی اخلاق اور روایت کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے، عدم مساوات کا مجرم بھی بنتا ہے۔ ہمارے جتنے بڑے بھی ہیں شاید ہی کوئی اس گناہ سے بچا ہوا ہو جس نے اپنی دولت ملک سے باہر نہیں رکھی ہوئی۔
ان لوگوں نے بڑی ڈھٹائی سے غیر ملکوں میں ایسی مشہور قسم کی جائیدادیں خریدیں ہیں جو چھپائی نہیں جا سکیں اور ان کی خرید و فروخت اور مالیت بھی سامنے آتی رہی ہے جیسے سرے محل مگر کسی کو اس پر شرم یا جھجھک نہیں ہوئی۔ یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ قوم کے مشہور چوروں کی دولت اور اس کے مالکوں کا ذکر کیا جا سکے لیکن اب تو یہ بات اس قدر کھل چکی ہے کہ اس کو بیان کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی اور یہ کاغذ اور وقت کو ضایع کرنے والی بات ہے۔
تو خواتین و حضرات، اصل حلال و حرام یہ ہے کہ کسی کی دولت ملک سے باہر ہے جو حرام ہے، جو ملک کے اندر ہے اسے حلال ہونے کی کچھ رعایت دی جا سکتی ہے۔ یہ کوّے اور گدھے والا معاملہ نہیں ہے۔
ہمارے قومی دولت سے مالا مال ہونے والوں کی اکثریت ملک سے باہر مقیم ہے بلکہ کسی غیر ملک کی شہری بھی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے لیڈروں کے بیٹے بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں۔ مولوی محمد اقبال نے کہا تھا کہ؎
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لاالہ الا للہ
ہمارے قومی شاعر نے معلوم نہیں وہ کس قوم کا شاعر تھا بڑی حقارت کے ساتھ مال و دولت کا ذکر کیا ہے اور نصیحت کی ہے کہ یہ سب حقیقت نہیں محض وہم و گمان اور فریب ہے مگر ہم اس وہم و گمان کے اسیر ہو چکے ہیں اور ہماری آمدنی دگنی حرام ہے۔ یعنی ایک تو وہ حرام طریقوں سے کمائی گئی ہے دوسرے حرام طریقوں سے باہر کی دنیا میں رکھ دی گئی ہے۔ یعنی دگنے حرام طریقے سے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے، کوّا اور گدھا حلال ہوں حرام لیکن یہ دولت اور مال تو یقینا حرام ہے اور کوئی بھی عالم دین اس کی حلّت کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر کبھی اسلام آیا کبھی جمہوریت آئی اور کبھی یہ پاکستان بن گیا تو پھر جو حساب کتاب ہو گا وہ دنیا دیکھے گی کہ پولیس کے سپاہی سے لے کر افسران بالا تک کا کیا حال رہا ہے اور پاکستان کے عوام کی اپنوں نے کیا درگت بنائی ہے۔ ہمارے نیک اور پرہیزگار قائد نے ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔
اس کا جغرافیہ مقرر کر دیا اور ہمیں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اس دنیا میں آباد کرایا لیکن ہم نہ اس کا جغرافیہ سلامت رکھ سکے اور نہ اس کا نظریہ اور قیام کا باعث سلامت رہا۔ چور اچکے باقی رہ گئے جو اب تک اس پر قابض ہیں۔ اور یہ سب حرام کھاتے ہیں اور ان کی کمائی حرام ہے جس کی حرمت کا فتویٰ دیا جا چکا ہے۔
میں اپنے بزرگوں کی توجہ ایک ایسے حلال حرام کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو ایک دردناک کھلی حقیقت ہے اور پوری قوم اس پر دل ہی دل میں رو پیٹ رہی ہے، دل ہی دل میں اس لیے کہ مال حرام کھانے والوں کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی عام آدمی اس پر ذرا اونچی آواز میں بول بھی نہیں سکتا۔
ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ کئی لوگ جو کل تک صرف قدرے خوشحال لوگوں میں شمار ہوتے تھے آج وہ ارب پتی بن گئے ہیں اور یہ سرمایہ اور دولت ان کی نہیں اس قوم کی ذاتی ہے جس کو لوٹنے کا ان کو کسی وجہ سے موقع مل گیا ہے اور کمال ہے کہ مختصر ترین وقت میں یہ سب کچھ ہو گیا۔
اب وہ خود حیرت زدہ ہیں کہ مال و دولت کی یہ ریل پیل اچانک کہاں سے آ گئی کہ آج وہ ارب پتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی سیاسی زندگی میں جب کسی طرح جیل چلے گئے تو علاقے کے بعض لوگ ان کے گھر کا خرچ چلانے کے لیے ماہانہ مدد کرتے رہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ککھ پتی سے لکھ پتی کیسے بن گئے۔ ان لوگوں نے قوم کا مال لوٹا کیونکہ حالات نے انھیں کسی ایسے منصب تک پہنچا دیا کہ وہاں ان کو قومی دولت کو لوٹنے کے اسباب فراہم ہو گئے۔
ان میں کچھ تو وہ تھے جو پہلے ہی کسی بڑے کاروبار میں تھے اور اقتدار نے اس میں برکت پیدا کر دی، چار چاند لگا دیے۔ ان کی دولت مندی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اکثر ایسے ہیں کہ ان کی دولت کی کوئی وجہ اور سبب سامنے نہیں آتا سوائے کسی سرکاری یعنی سیاسی لوٹ مار کے۔
دولت مندی اچانک آئی یا اس میں اضافہ ہوا یہ الگ بات ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی لوٹی ہوئی یہ دولت ملک سے باہر کیوں ہے اور یہی بات اس دولت کو حرام کر دیتی ہے۔
اسلامی اخلاقیات اور قانون کو تو فی الحال رہنے دیجیے۔ یہ تو کسی صاحب اقتدار کے لیے اس ملک کے ایک عام شہری سے زیادہ کی تنخواہ تک کی اجازت نہیں دیتا۔ آج کی شائستہ دنیا کے معمول اور عام اخلاقی روایت کے مطابق بھی کسی حکمران اور عوام کے درمیان توازن رکھا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے ان کی آمدن کو ایک حد کے اندر رکھا جاتا ہے کیونکہ قومی خزانہ کسی کی ملکیت نہیں ہوا کرتا یہ پوری قوم کا ہوتا ہے اور اس کے استعمال کے پیمانے اور قانون قاعدے مقرر ہیں مگر ہمارے پاکستان میں نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی قاعدہ جس کا جتنا زور چلے وہی قانون بن جاتا ہے اور وہی حق ہے۔
شرعی اعتبار سے دیکھیں یا قومی اعتبار سے کسی پاکستانی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی دولت ملک سے باہر رکھ سکے۔ جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ نہ صرف ملکی قانون بلکہ قومی اخلاق اور روایت کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے، عدم مساوات کا مجرم بھی بنتا ہے۔ ہمارے جتنے بڑے بھی ہیں شاید ہی کوئی اس گناہ سے بچا ہوا ہو جس نے اپنی دولت ملک سے باہر نہیں رکھی ہوئی۔
ان لوگوں نے بڑی ڈھٹائی سے غیر ملکوں میں ایسی مشہور قسم کی جائیدادیں خریدیں ہیں جو چھپائی نہیں جا سکیں اور ان کی خرید و فروخت اور مالیت بھی سامنے آتی رہی ہے جیسے سرے محل مگر کسی کو اس پر شرم یا جھجھک نہیں ہوئی۔ یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ قوم کے مشہور چوروں کی دولت اور اس کے مالکوں کا ذکر کیا جا سکے لیکن اب تو یہ بات اس قدر کھل چکی ہے کہ اس کو بیان کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی اور یہ کاغذ اور وقت کو ضایع کرنے والی بات ہے۔
تو خواتین و حضرات، اصل حلال و حرام یہ ہے کہ کسی کی دولت ملک سے باہر ہے جو حرام ہے، جو ملک کے اندر ہے اسے حلال ہونے کی کچھ رعایت دی جا سکتی ہے۔ یہ کوّے اور گدھے والا معاملہ نہیں ہے۔
ہمارے قومی دولت سے مالا مال ہونے والوں کی اکثریت ملک سے باہر مقیم ہے بلکہ کسی غیر ملک کی شہری بھی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے لیڈروں کے بیٹے بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں۔ مولوی محمد اقبال نے کہا تھا کہ؎
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لاالہ الا للہ
ہمارے قومی شاعر نے معلوم نہیں وہ کس قوم کا شاعر تھا بڑی حقارت کے ساتھ مال و دولت کا ذکر کیا ہے اور نصیحت کی ہے کہ یہ سب حقیقت نہیں محض وہم و گمان اور فریب ہے مگر ہم اس وہم و گمان کے اسیر ہو چکے ہیں اور ہماری آمدنی دگنی حرام ہے۔ یعنی ایک تو وہ حرام طریقوں سے کمائی گئی ہے دوسرے حرام طریقوں سے باہر کی دنیا میں رکھ دی گئی ہے۔ یعنی دگنے حرام طریقے سے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے، کوّا اور گدھا حلال ہوں حرام لیکن یہ دولت اور مال تو یقینا حرام ہے اور کوئی بھی عالم دین اس کی حلّت کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر کبھی اسلام آیا کبھی جمہوریت آئی اور کبھی یہ پاکستان بن گیا تو پھر جو حساب کتاب ہو گا وہ دنیا دیکھے گی کہ پولیس کے سپاہی سے لے کر افسران بالا تک کا کیا حال رہا ہے اور پاکستان کے عوام کی اپنوں نے کیا درگت بنائی ہے۔ ہمارے نیک اور پرہیزگار قائد نے ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔
اس کا جغرافیہ مقرر کر دیا اور ہمیں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اس دنیا میں آباد کرایا لیکن ہم نہ اس کا جغرافیہ سلامت رکھ سکے اور نہ اس کا نظریہ اور قیام کا باعث سلامت رہا۔ چور اچکے باقی رہ گئے جو اب تک اس پر قابض ہیں۔ اور یہ سب حرام کھاتے ہیں اور ان کی کمائی حرام ہے جس کی حرمت کا فتویٰ دیا جا چکا ہے۔