وی وی آئی پیز کے لیے ٹریفک نہ روکنے کی تجویز

درحقیقت یہ مذکورہ شخصیت وہ ہیں جن کی انگلیاں عوام کی نبض پر ہیں جن کو عوام کی اس تکلیف اور پریشانی کا احساس ہے

sajid.ali@express.com.pk

جیساکہ ایک باخبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے ہمارے ملک کی ایک مقتدر شخصیت نے جو وزیراعظم کی بھی ہوسکتی ہے اور وزیراعلیٰ کی بھی، اپنے متعلقہ حکام کو جو ان کے شاہراہوں سے گزرتے ہوئے ٹریفک کنٹرول کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں یہ ہدایت کی ہے کہ خاص طور پر رش کے اوقات میں ان کے لیے کسی بھی بڑے شہرکا ٹریفک نہ روکا جائے۔

درحقیقت یہ مذکورہ شخصیت وہ ہیں جن کی انگلیاں عوام کی نبض پر ہیں جن کو عوام کی اس تکلیف اور پریشانی کا احساس ہے جس کا سامنا انھیں کسی وی وی آئی پی کی شخصیت کے گزرنے کے دوران سخت دھوپ اورگرمی کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ حکام بالا اپنے ماتحتوں کو ٹریفک روکنے کی ہدایت منتقل کرتے ہوئے جس وقت ٹریفک روکا جانا ہے اس کی ڈیڈ لائن بڑھاتے بھی جاتے ہیں اس طرح اوپر سے جو ہدایت دس منٹ ٹریفک روکنے کے لیے چلتی ہے نیچے آتے آتے اس کا دورانیہ کم از کم ایک گھنٹے تک پہنچ جاتا ہے۔

پھر اس ٹریفک جام میں پھنسنے والے مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان میں وہ خاص لوگ ہوتے ہیں جن کی گاڑیاں ایئرکنڈیشنڈ ہیں اور جن کو ان کے ڈرائیور چلارہے ہیں، ایسے لوگ کسی نہ کسی طرح یہ وقت جھیل جاتے ہیں مگر ایسی گاڑیاں بھی ہیں جو اتنی آرام دہ نہیں ہیں گرمی اور دھوپ میں تپنے لگتی ہیں سب سے زیادہ خراب حشرکھچا کھچ بھری بسوں میں ٹھنسے ہوئے مسافروں کا ہوتا ہے، موٹرسائیکلوں اور رکشاؤں میں سوار افراد کی پریشانیاں تو ناقابل بیان ہیں۔

پھر وہ افسوسناک واقعات بھی اپنی جگہ ہیں جو ایمبولینسوں کے ٹریفک میں پھنس جانے کے باعث پیش آتے رہے ہیں، ایمبولینس سائرن بجاتی رہ گئیں اور ان میں بیٹھے جاں بلب مریض اﷲ کو پیارے ہوگئے۔

زیادہ تر لوگوں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جیسی شخصیتوں کے اس فیصلے پر خوشگوار حیرت ظاہر کی اور اس کا خیر مقدم بھی کیا۔

ان میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جن کو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ایسے رکے ہوئے ٹریفک کا ناخوشگوار حصہ بننا پڑا ہے، لوگوں کو اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ یوں تو ہمارے حکمران ہر بات میں مغربی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں لیکن یہ بات بالکل بھول جاتے ہیں کہ مغربی حکمرانوں کی زندگی کتنی سادہ ہے، کوئی اللے تللے نہیں ہیں وہاں وزیراعظم تک سائیکل پر سفر کرلیتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیںکہ وہ ذاتی اخراجات اپنے پلے سے کریں۔

ایک سابق بھارتی صدر کا انٹرویو بی بی سی سے آیا تھا جس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ مہمانوں کو جو بسکٹ کھلاتے اور چائے پلاتے ہیں اس کا خرچہ بھی جیب خاص سے کرتے ہیں اور اپنے پرسنل کاموں کے لیے ذاتی گاڑی استعمال کرتے ہیں اب پتہ نہیں ویسے صدر بھی اب بھارت کو میسر ہیں یا نہیں۔تو بات وی وی آئی پی کے لیے ٹریفک روکنے کی ہورہی تھی۔


جس طرح ٹریفک کا نظام کسی بھی شہر کے رہنے والوں کے رویوں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ ڈسپلن اور قانون کے کس حد تک پابند ہیں ایک دوسرے سے ان کا سلوک کیسا ہے ان میں قوت برداشت اور ایک دوسرے کے لیے قربانی کا جذبہ کتنا ہے۔ اسی طرح حکمراں اس وقت جب وہ کسی راستے سے گزررہے ہوتے ہیں اور ان کے لیے ٹریفک روکی جاتی ہے تو وہ ایک لمحے کے لیے سہی لوگوں کے چہروں پر ایک نظر ڈال کر اور یہ چہرے پڑھ کر یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ عام لوگ ان کے بارے میں کیا جذبات رکھتے ہیں۔

اگر آپ نے عوام کے لیے اچھے کام کیے ہوں گے تو وہ دیدہ ودل فرش راہ کردیں گے اورگھنٹہ بھر بھی آپ کا انتظار کرلیں گے ورنہ دوسری صورت میں ایک منٹ کا انتظار بھی ان سے برداشت نہیں ہوگا۔ اس طرح یہ ٹھہرا ہوا ٹریفک آپ کے لیے عوام کے سچے جذبات سے آگاہ ہونے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔اس کام کے لیے آپ میڈیا کو بھی اپنے ''کان اور آنکھ'' کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، جہاں کہیں چلچلاتی دھوپ میں آپ کے لیے ٹریفک رکا ہوا ہو وہاں میڈیا کے نمائندے حکام بالا کی اجازت سے جائیں اور یہ پوچھیں کہ بھائی آپ کو اپنے محبوب صدر، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا انتظار کرتے ہوئے کیسا لگ رہا ہے۔

اس سوال کے جواب کا انحصار بھی موسم سے ہے اگر خوشگوار موسم ہو اور ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہو اتنی گرمی نہ ہو یا پھر سردی کا موسم ہو تو ٹی وی اینکر یا میزبان کو کوئی اچھا جواب سننے کو مل سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں لوگ اسے مارنے کے لیے بھی دوڑسکتے ہیں۔بہت سے ممالک میں (جن میں ہمارا ملک شامل نہیں ہے) عوام کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے کہ یہ لوگ اسی قابل ہیں انھیں ٹریفک میں گھنٹوں انتظار کرایاجاتا ہے کہ ان کی اوقات یہی ہے انھیں تو احسان مند ہونا چاہیے کہ ہم انھیں روک کر اپنا چہرہ کرارہے ہیں۔

یہ بھی سنا ہے کہ ہماری مقتدر شخصیتوں نے جن میں صدر، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ شامل ہیں اپنے اسٹاف کو ہدایت کی ہے کہ خاص طور پر بڑے شہروں کی معروف شاہراہوں سے ان کے گزرنے کو کچھ اس طرح شیڈول کیاجائے کہ وہ RUSH HOURS میں ٹریفک میں خلل نہ ڈالیں اور انھیں ایک ایسے وقت گزارا جائے جب ٹریفک کا طوفان پہلے سے گزر چکا ہو یا ابھی نہ آیا ہو۔ یہاں ہم ایک تجویز محض تفنن طبع کے لیے پیش کررہے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں خطرہ ہے کہ اسے پڑھ کر لوگ ہماری ذہنی کیفیت پر شک کرنے لگیں گے۔

کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جب لوگ حکمرانوں کے لیے سخت دھوپ اور گرمی کے ناقابل برداشت ماحول میں پھنسے ہوئے ہوں اور اپنی قسمتوں کو کوس رہے ہوں ، اس وقت ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان میں ایک ٹکی پیک بسکٹ ایک ٹھنڈے دودھ یا شربت کا گلاس تقسیم کردیا جائے، شروع میں ضرورکھپ مچے گی اور بے صبرے لوگوں میں انتشار برپا ہوگا مگر آہستہ آہستہ لوگ کنڈیشنڈ اور تمیز دار ہوتے جائیں گے اور اپنی اپنی بسوں، گاڑیوں، کاروں، ویگنوں، موٹر رکشاؤں اور موٹر سائیکلوں میں بیٹھے بیٹھے والنٹیئرز کا انتظار کریں گے اگر ایسا ہونے لگے تو عوام کو ''مابدولت'' کا انتظار کرنے پرکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اس کام کے لیے ایسی شاہراہوں پر جہاں سے وی وی آئی پیزکا گزر ہوتا ہے عارضی یا مستقل سبیلیں بھی لگائی جاسکتی ہیں۔ اگر منظم انداز میں این جی اوز کے ذریعے یہ کام کیاجائے تو اس تجویز کو قابل عمل بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم اپنے محترم عوام پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ابھی اس تجویز پر محض غور ہورہاہے عمل نہیں ہورہا۔

ایسا نہ ہو کہ وہ ہماری ''بے پرکی'' پر یقین کرکے ایسے کسی ٹریفک جام میں ٹکی پیک اور شربت کے گلاس کا انتظار شروع کردیں اور جب نہ ملے تو ہمیں کوسنے لگیں۔ بہر حال ہم نے خود کو ''مینٹل کیس'' کہلوانے کے رسک پر عام لوگوں کے لیے ایک گلاس دودھ اور بسکٹوں کا بندوبست کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے اور اس مقصد سے اپنی ریپوٹیشن کو بھی داؤ پر لگادیا ہے۔
Load Next Story