ہراچھا شعرمیر کا طلعت حسین سے باتیں ادب کی

طلعت صاحب کے مطابق ماڈرن فکشن غصب کا ہے۔ ایک سے ایک لکھنے والا سامنے آرہا ہے

اگر کوئی خالص شاعری کا متلاشی ہے، تو میر کی سمت دیکھے۔طلعت حسین ۔فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
ہمارے ہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسی شخصیات کی کمی نہیں جو شعروادب سے گہرا شغف رکھتی ہیں۔ ''میں اور ادب'' کے زیرعنوان اس سلسلے میں ایسی ہی شخصیات سے شعروادب کے موضوع پر ہونے والا مکالمہ شامل کیا جائے گا جو نثراور سخن سے کے شعبے سے متعلق نہیں، مگر یہ ان کی زندگی کی ایک اہم مشغولیت ہے

انفرادیت کے حامل اِس فن کار نے کتنے ہی یادگار کردار نبھائے۔ اپنی آواز، مخصوص انداز سے ہزاروں کو گرویدہ بنایا۔ آج اداکاری کا علم نئی نسل میں منتقل کرنے میں جتے ہیں۔ سوچتا ہوں؛ اگر یہ صاحب نہ ہوتے، تو پاکستانی ڈراما شاید ادھورا رہ جاتا!

یہ فقط اداکاری کا میدان نہیں، جہاں طلعت حسین اوج پر دِکھائی دیے، ملکی و عالمی ادب پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ علمیت ایسی کہ وہ باتیں کریں، اور باتوں سے خوش بو آئے۔ اگر لٹریچر کے موضوع پر گفت گو کر رہے ہوں، تو سامع کو خوب چوکس رہنا چاہیے کہ یہ فلسفیانہ مکالمہ ہے۔ ادھر گہرائی بھی ہے، وسعت بھی۔

کتابوں سے ان کا پرانا ناتا ہے۔ کراچی کے چند کتب فروش اپنے اس مستقبل گاہک کو خوب پہچانتے ہیں۔ اگر کبھی ان کی جیب خالی ہو، اور کوئی کتاب پسند آجائے، تو کہہ دیتے ہیں،''پیسے گھر بھول آیا!'' اُدھر سے کہا جاتا ہے،''ارے لے جائیے، پیسے بعد میں دے دیجیے گا!''

پہلے نثر پر بھی بات ہوئی۔ وہ قرۃ العین حیدر کو اردو کی نمایندہ فکشن نگار ٹھیراتے ہیں۔ شوکت صدیقی کا بھی ذکر آیا۔ ان کے بہ قول؛ گو وہ کمیونسٹ تھے، مگر انھوں نے فکشن کو انقلابی نعرہ نہیں بنایا، حالات کو، سماجی برائیوں کو بڑی چابک دستی کے ساتھ موضوع کیا۔

بین الاقوامی ادب پر بھی گہری نظر۔ ہیمنگ وے پسندیدہ امریکی ادیب۔ روسی ادب بھی مطالعہ میں رہا۔ چیخوف اور گورکی پر بات ہوئی۔ ان کے مطابق میخائل خولوشوف روسی ادب کے درخشاں سلسلے کا آخری ناول نگار تھا۔ ''اور ڈان بہتا رہا'' کے بعد اس نوع کا کوئی بڑا ناول سامنے نہیں آیا۔

اگر مطالعہ اتنا وسیع ہو، قاری تخلیقی مزاج رکھتا ہو، تو اندرون قلم تھامنے کی تحریک دیتا ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ افسانہ نگاری کی صنف کا چناؤ کیا۔ چھے افسانے لکھے ہیں، جو جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ دس بارہ افسانے ہوجائیں، تو کتابی شکل دے دیں گے۔

اس خیال سے متفق نہیں کہ کتابیں خریدی نہیں جاتیں۔ سوال کرتے ہیں کہ اگر کتابیں بکتی نہیں، تو ناشر حضرات کتابیں چھاپ کیوں رہے ہیں؟ کیوں دکانیں سجا رکھی ہیں؟ کس طرح گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں؟ کیسے درجنوں ملازم رکھے ہوئے ہیں؟


ہاں، یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اردو کتابیں اب کم پڑھی جارہی ہیں۔ انگریزی کا زیادہ چلن ہے۔ اور ادھر بھی پاپولر لٹریچر تو بِک رہا ہے، مگر سنجیدہ ادب ذرا کم پڑھا جاتا ہے۔

اب ذکر کچھ شاعری کا۔ کلاسیکی شعرا میں وہ میر کے مداح۔ اس خیال سے متفق کہ ہر اچھا شعر، میر کا شعر۔ کہتے ہیں؛ اگر کوئی خالص شاعری کا متلاشی ہے، تو میر کی سمت دیکھے۔

موجودہ عہد کے شعرا پر بھی بات ہوئی۔ اُن کے مطابق فیض احمد فیض کا ترقی پسند تحریک سے گہرا سمبندھ رہا، اس کارن شاعری کے جو نازک تصورات ہوتے ہیں، ان کے ہاں وہ سوشلسٹ محبوب سے جاملے۔ بنیادی طور پر وہ جدید شاعر تھے۔ معروف معنوں میں رومانوی شاعر۔ ساحر کا بھی سوشل ازم کے حوالے سے بڑا چرچا رہا۔ جالب، ان کے مطابق پکے انقلابی تھے، ان کے ہاں نعرے بازی تھی۔

طلعت حسین کے مطابق ہماری شاعری کی بنیاد فارسی اور عربی شاعری پر ہے۔ یہ محبوب سے جدائی کی شاعری ہے۔ اور محبوب خدا کو سمجھا یا کہا جاتا ہے۔ ایک معنوں میں یہ احساس زیاں کی شاعری ہے۔ یہ احساس ہے کہ ہماری جنت کھو گئی ہے۔ حافظ ہوں یا خیام، ہمیں ان کے ہاں ایک چبھن، زیاں کا احساس ملتا ہے۔

عصر حاضر کے شعرا میں کراچی سے تعلق رکھنے والے شوکت عابد کا نام لیا۔ امید ہے کہ ان کے مجموعے کی اشاعت قارئین کو چونکا دے گی۔ جدید شاعری کے روح رواں، قمر جمیل مرحوم کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔ طلعت حسین خود بھی اس تحریک کا حصہ رہے۔ کہتے ہیں،''قمر صاحب کی غیرمطبوعہ نثری نظموں کا مجموعہ آنے والا ہے۔ اشاعت کا اہتمام ان کے بیٹے نے کیا ہے۔ وہ لوگوں کے لیے حیران کن شاعری ہوگی۔ میں نے وہ کتاب پڑھی ہے۔ واقعی متاثر کن شاعری ہے۔''

اُن کا ایک شعر بھی سنایا:
آج ستارے آنگن میں ہیں، ان کو رخصت مت کرنا
شام سے میں بھی الجھن میں ہوں، تم بھی غفلت مت کرنا

طلعت صاحب کے مطابق ماڈرن فکشن غصب کا ہے۔ ایک سے ایک لکھنے والا سامنے آرہا ہے۔ ہاں، شاعری کا معاملہ دیگر ہے۔ شعرا کو نوبیل پرائز تو مل رہے ہیں، پزیرائی ہورہی ہے، مگر حقیقی معنوں میں کوئی بڑا شاعر سامنے نہیں آرہا، یا آیا ہے، تو شاید ہمیں اِس کی خبر نہیں۔
Load Next Story