پاکستان میں جمہوریت
سیاسی جماعتوں کی جمہوریت نوازی کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں چند اصولوں پر ان جماعتوں کو پرکھنا ہو گا۔
LONDON:
بظاہر ملک میں ایک منتخب حکومت قائم ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار پرامن طریقہ سے ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا۔ جو واقعی ایک تاریخ ساز واقعہ تھا، جس پر سول سوسائٹی سمیت ملک کے متوشش حلقوں نے اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جو اقدامات کیے اور جس طرح مختلف قومی امور پر پسپائی اختیار کی، اس عمل نے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے بارے میں کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ان سوالات پر غور ہی یہ نتیجہ اخذ کرنے میں معاون ثابت ہو گا کہ آیا ملک میں واقعی جمہوریت ہے اور جمہوری عمل مستحکم ہو رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) بڑے دعوؤں کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آئی تھی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو منتخب حکومت کے تابع کام کرنے پر مجبور کرے گی۔ جمہوری اداروں کو مضبوط بنائے گی۔ بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ سب وعدے، وہ سب دعوے جلد ہی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کے دھرنے کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنے کا خواب بھی بکھر گیا۔ لہٰذا لوگ پوچھتے ہیں کہ آیا کسی جماعت کا منتخب ہو کر اقتدار میں آ جانا، جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے کافی ہوتا ہے؟ وہ جماعت جو ملک میں فوجی عدالتیں قائم کرے اور پالیسی سازی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر دے، کیا جمہوری کہلانے کی حقدار ہے؟ کیا اس طرز حکمرانی کو جمہوریت کہا جا سکتا ہے۔
بارہا اس بات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ کسی معاشرے میں سیاسی و سماجی تبدیلی اس معاشرے کے ذرائع پیداوار میں تبدیلی سے مشروط ہوتی ہے۔ جب بھی پیداواری نظام تبدیل ہوتا ہے، نظام حکمرانی بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک طویل تاریخی معاملہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں پیداواری نظام تبدیل ہوا ہے یا ہونے جا رہا ہے؟ تو اس سوال کا جواب نفی میں آئے گا۔ پاکستان میں 1950ء اور 1960ء کے عشرے میں تبدیلی کی لہر آنا شروع ہوئی تھی، جب ملک کے جنوبی حصے میں صنعتکاری شروع ہوئی۔ مگر پیداواری نظام میں تبدیلی کے ذریعے سیاسی عمل میں تبدیلی کو سب سے پہلے ایوب خان کے مارشل لاء نے روک دیا۔ پھر سقوط ڈھاکہ کے بعد صنعتوں کے قومیائے جانے کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی کا عمل مکمل طور پر رک گیا۔
پنجاب میں جنرل ضیاء کے دور میں صنعتکاری کا عمل تیز رفتاری سے ضرور شروع ہوا، مگر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے برادریوں کو مزید مضبوط کر دیا۔ یوں وسطی پنجاب میں اربنائزیشن ضرور شروع ہوئی، مگر سیاسی و سماجی ڈھانچے پر برادریوں کی گرفت بھی مزید مضبوط ہوئی۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ بلکہ اس نے صرف پیپلز پارٹی کی جگہ مسلم لیگ (ن) کو اپنا نمائندہ منتخب کرلیا۔ مسلم لیگ (ن) بے شک اربن بنیاد رکھتی ہے، مگر سیاسی طور پر برادریوں کی مضبوط بندشوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس میں سیاسی فکری بالیدگی' دور اندیشی اور ماملہ فہمی کا فقدان ہے۔
پیپلزپارٹی پر بجا طور پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ فیوڈلز کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن عام آدمی کے ساتھ اس نے اپنا رابطہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) ایسا کوئی مظاہرہ کرنے میں ہنوز ناکام ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں برادری نظام کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ وہ حکومت سازی میں بھی اس تعلق سے جان نہیں چھڑا پاتی۔ بلکہ وزارتیں تقسیم کرتے وقت وزارت کے لیے مخصوص اہلیت کے بجائے کسی مخصوص برادری سے تعلق اور پارٹی سربراہ کی ذاتی پسند کو اہمیت دی جاتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ مگر وفاق اور صوبے کی اہم وزارتیںوزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں، جب کہ دیگر وزارتیں اپنی جماعت کے اہل اراکین کے بجائے منظور نظر افراد پر تقسیم کی ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ملک میں کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے۔ حالانکہ خطے کی حساس صورتحال ایک باصلاحیت وزیر خارجہ کی متقاضی ہے۔ صرف وزارت خارجہ ہی پر کیا موقوف، دیگر وزارتوں کا بھی یہی حال ہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کابینہ مختلف قومی امور پر متفقہ نقطہ نظر نہیں رکھتی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر داخلہ اپنی وزارت کے معاملات احسن طریقے سے چلانے کے بجائے کبھی خارجہ امور پر اظہار خیال کرتے ہیں اور کبھی وزارت خزانہ کے معاملات پر گفتگو کر کے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ حکومت نے لندن میں قتل ہونے والے عمران فاروق کے مبینہ قاتل یا ان کے سہولت کار گرفتار کیے ہیں لیکن بینظیر کے قاتلوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔
مسلم لیگ (ن) کا یہ تیسرا دور حکومت ہے۔ اس کا ہر دور حکومت غلط اور آمرانہ فیصلوں سے عبارت ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ اس کے ہر دور میں کراچی کے حالات خراب ہوئے اور یہاں آپریشن کیا گیا۔ سندھ میں اپنی جماعت کو فعال بنانے کے بجائے سندھ اور سندھیوں کو بھلا دیا گیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اپنے دوسرے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) نے پندرھویں ترمیم کے ذریعے ملک پر بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی۔ اگر 1998ء کے اخبارات کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو میاں نواز شریف کا یہ بیان باآسانی مل جائے گا جس میں انھوں نے سوات میں تقریر کرتے ہوئے عوام سے کہا تھا کہ جو سینیٹر پندرھویں ترمیم کے خلاف ووٹ دیں، ان کا گھیراؤ کیا جائے۔ اگر ان تمام بیانات کو یہاں پیش کیا جائے جو اپنے دور اقتدار میں مسلم لیگ (ن) نے دیے، تو اس اظہاریے کی کئی اقساط بن جائیں گی۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن جرائم پیشہ افراد کے بجائے صرف ایک سیاسی جماعت کو زچ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، جس کا حصول مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی خواہشات کا مظہر ہے۔ اسی لیے ان دونوں میں مختلف امور پر شدید اختلافات کے باوجود اتحاد قائم ہے۔ دوسری طرف حکومت اور سرکار کے ہمنوا صحافی جو کراچی میں ہونے والے آپریشن کی کامیابیوں پر بغلیں بجا رہے تھے، 15 اپریل کو ان کے جذبات پر اوس پڑ گئی، جب ایک ہی روز میں دو افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، جن میں سے ایک پریڈی تھانے کا SHO تھا، جو اس حملے میں جاں بحق ہوا، جب کہ دوسرا نشانہ نجی میڈیکل کالج کی وائس پرنسپل تھی، جو زخمی ہوئیں۔ چنانچہ اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ کراچی میں کیے جانے والے متنازع آپریشن کئی خامیوں سے دوچار ہے اور اس کی ڈائریکشن درست نہیں۔
سیاسی جماعتوں کی جمہوریت نوازی کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں چند اصولوں پر ان جماعتوں کو پرکھنا ہو گا۔ اول، زیر مطالعہ جماعت صنفی اور عقیدے کے امتیازات سے کس حد تک دور ہے؟ کیا اس کی تنظیم کے اعلیٰ عہدوں پر خواتین اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے منتخب ہونے پر کسی قسم کی کوئی پابندی تو نہیں ہے؟ دوئم، خواتین کو ہر سطح پر کم از کم 33 فیصد نمائندگی حاصل ہے اور انھیں مخصوص کے علاوہ عام نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کا کس حد تک اختیار حاصل ہے؟ سوئم، کیا اس جماعت میں تسلسل کے ساتھ ہر سطح پر انتخابات ہوتے ہیں؟ اور میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کے ذریعے پارٹی قائد اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی مخصوص مدت کے لیے تقرری کی جاتی ہے؟ لہٰذا صرف وہی جماعت جمہوری کہلانے کی حقدار ہے جو درج بالا اصولوں پر پوری اترتی ہو۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ جس کا بنیادی سبب مسلم لیگ (ن) کی پالیسیاں ہیں، جو جمہوریت اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا باعث ہیں۔
بظاہر ملک میں ایک منتخب حکومت قائم ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار پرامن طریقہ سے ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا۔ جو واقعی ایک تاریخ ساز واقعہ تھا، جس پر سول سوسائٹی سمیت ملک کے متوشش حلقوں نے اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جو اقدامات کیے اور جس طرح مختلف قومی امور پر پسپائی اختیار کی، اس عمل نے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے بارے میں کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ان سوالات پر غور ہی یہ نتیجہ اخذ کرنے میں معاون ثابت ہو گا کہ آیا ملک میں واقعی جمہوریت ہے اور جمہوری عمل مستحکم ہو رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) بڑے دعوؤں کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آئی تھی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو منتخب حکومت کے تابع کام کرنے پر مجبور کرے گی۔ جمہوری اداروں کو مضبوط بنائے گی۔ بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ سب وعدے، وہ سب دعوے جلد ہی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کے دھرنے کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنے کا خواب بھی بکھر گیا۔ لہٰذا لوگ پوچھتے ہیں کہ آیا کسی جماعت کا منتخب ہو کر اقتدار میں آ جانا، جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے کافی ہوتا ہے؟ وہ جماعت جو ملک میں فوجی عدالتیں قائم کرے اور پالیسی سازی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر دے، کیا جمہوری کہلانے کی حقدار ہے؟ کیا اس طرز حکمرانی کو جمہوریت کہا جا سکتا ہے۔
بارہا اس بات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ کسی معاشرے میں سیاسی و سماجی تبدیلی اس معاشرے کے ذرائع پیداوار میں تبدیلی سے مشروط ہوتی ہے۔ جب بھی پیداواری نظام تبدیل ہوتا ہے، نظام حکمرانی بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک طویل تاریخی معاملہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں پیداواری نظام تبدیل ہوا ہے یا ہونے جا رہا ہے؟ تو اس سوال کا جواب نفی میں آئے گا۔ پاکستان میں 1950ء اور 1960ء کے عشرے میں تبدیلی کی لہر آنا شروع ہوئی تھی، جب ملک کے جنوبی حصے میں صنعتکاری شروع ہوئی۔ مگر پیداواری نظام میں تبدیلی کے ذریعے سیاسی عمل میں تبدیلی کو سب سے پہلے ایوب خان کے مارشل لاء نے روک دیا۔ پھر سقوط ڈھاکہ کے بعد صنعتوں کے قومیائے جانے کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی کا عمل مکمل طور پر رک گیا۔
پنجاب میں جنرل ضیاء کے دور میں صنعتکاری کا عمل تیز رفتاری سے ضرور شروع ہوا، مگر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے برادریوں کو مزید مضبوط کر دیا۔ یوں وسطی پنجاب میں اربنائزیشن ضرور شروع ہوئی، مگر سیاسی و سماجی ڈھانچے پر برادریوں کی گرفت بھی مزید مضبوط ہوئی۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ بلکہ اس نے صرف پیپلز پارٹی کی جگہ مسلم لیگ (ن) کو اپنا نمائندہ منتخب کرلیا۔ مسلم لیگ (ن) بے شک اربن بنیاد رکھتی ہے، مگر سیاسی طور پر برادریوں کی مضبوط بندشوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس میں سیاسی فکری بالیدگی' دور اندیشی اور ماملہ فہمی کا فقدان ہے۔
پیپلزپارٹی پر بجا طور پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ فیوڈلز کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن عام آدمی کے ساتھ اس نے اپنا رابطہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) ایسا کوئی مظاہرہ کرنے میں ہنوز ناکام ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں برادری نظام کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ وہ حکومت سازی میں بھی اس تعلق سے جان نہیں چھڑا پاتی۔ بلکہ وزارتیں تقسیم کرتے وقت وزارت کے لیے مخصوص اہلیت کے بجائے کسی مخصوص برادری سے تعلق اور پارٹی سربراہ کی ذاتی پسند کو اہمیت دی جاتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ مگر وفاق اور صوبے کی اہم وزارتیںوزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں، جب کہ دیگر وزارتیں اپنی جماعت کے اہل اراکین کے بجائے منظور نظر افراد پر تقسیم کی ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ملک میں کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے۔ حالانکہ خطے کی حساس صورتحال ایک باصلاحیت وزیر خارجہ کی متقاضی ہے۔ صرف وزارت خارجہ ہی پر کیا موقوف، دیگر وزارتوں کا بھی یہی حال ہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کابینہ مختلف قومی امور پر متفقہ نقطہ نظر نہیں رکھتی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر داخلہ اپنی وزارت کے معاملات احسن طریقے سے چلانے کے بجائے کبھی خارجہ امور پر اظہار خیال کرتے ہیں اور کبھی وزارت خزانہ کے معاملات پر گفتگو کر کے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ حکومت نے لندن میں قتل ہونے والے عمران فاروق کے مبینہ قاتل یا ان کے سہولت کار گرفتار کیے ہیں لیکن بینظیر کے قاتلوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔
مسلم لیگ (ن) کا یہ تیسرا دور حکومت ہے۔ اس کا ہر دور حکومت غلط اور آمرانہ فیصلوں سے عبارت ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ اس کے ہر دور میں کراچی کے حالات خراب ہوئے اور یہاں آپریشن کیا گیا۔ سندھ میں اپنی جماعت کو فعال بنانے کے بجائے سندھ اور سندھیوں کو بھلا دیا گیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اپنے دوسرے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) نے پندرھویں ترمیم کے ذریعے ملک پر بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی۔ اگر 1998ء کے اخبارات کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو میاں نواز شریف کا یہ بیان باآسانی مل جائے گا جس میں انھوں نے سوات میں تقریر کرتے ہوئے عوام سے کہا تھا کہ جو سینیٹر پندرھویں ترمیم کے خلاف ووٹ دیں، ان کا گھیراؤ کیا جائے۔ اگر ان تمام بیانات کو یہاں پیش کیا جائے جو اپنے دور اقتدار میں مسلم لیگ (ن) نے دیے، تو اس اظہاریے کی کئی اقساط بن جائیں گی۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن جرائم پیشہ افراد کے بجائے صرف ایک سیاسی جماعت کو زچ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، جس کا حصول مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی خواہشات کا مظہر ہے۔ اسی لیے ان دونوں میں مختلف امور پر شدید اختلافات کے باوجود اتحاد قائم ہے۔ دوسری طرف حکومت اور سرکار کے ہمنوا صحافی جو کراچی میں ہونے والے آپریشن کی کامیابیوں پر بغلیں بجا رہے تھے، 15 اپریل کو ان کے جذبات پر اوس پڑ گئی، جب ایک ہی روز میں دو افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، جن میں سے ایک پریڈی تھانے کا SHO تھا، جو اس حملے میں جاں بحق ہوا، جب کہ دوسرا نشانہ نجی میڈیکل کالج کی وائس پرنسپل تھی، جو زخمی ہوئیں۔ چنانچہ اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ کراچی میں کیے جانے والے متنازع آپریشن کئی خامیوں سے دوچار ہے اور اس کی ڈائریکشن درست نہیں۔
سیاسی جماعتوں کی جمہوریت نوازی کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں چند اصولوں پر ان جماعتوں کو پرکھنا ہو گا۔ اول، زیر مطالعہ جماعت صنفی اور عقیدے کے امتیازات سے کس حد تک دور ہے؟ کیا اس کی تنظیم کے اعلیٰ عہدوں پر خواتین اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے منتخب ہونے پر کسی قسم کی کوئی پابندی تو نہیں ہے؟ دوئم، خواتین کو ہر سطح پر کم از کم 33 فیصد نمائندگی حاصل ہے اور انھیں مخصوص کے علاوہ عام نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کا کس حد تک اختیار حاصل ہے؟ سوئم، کیا اس جماعت میں تسلسل کے ساتھ ہر سطح پر انتخابات ہوتے ہیں؟ اور میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کے ذریعے پارٹی قائد اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی مخصوص مدت کے لیے تقرری کی جاتی ہے؟ لہٰذا صرف وہی جماعت جمہوری کہلانے کی حقدار ہے جو درج بالا اصولوں پر پوری اترتی ہو۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ جس کا بنیادی سبب مسلم لیگ (ن) کی پالیسیاں ہیں، جو جمہوریت اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا باعث ہیں۔