تحریک انصاف کی قیادت کو سوچنا ہوگا

کراچی میں پی ٹی آئی کا جلسہ ماضی میں تمام مسائل کے منظرِعام پر آنے کے باوجود ایک بار پھر مسائل کا شکار ہوگیا۔

تحریک انصاف اپنے جلسے کے انتظامات کو کنٹرول نہیں کر سکتی تو کیا وہ حقیقی نمائندے کے طور پر اہل علاقے کا بوجھ سنبھال پائے گی؟

پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہوگیا۔ ہاتھ کرنے والے کون تھے یہ معمہ ابھی حل ہونا باقی ہے۔

قومی اسمبلی کے حلقہ 246 کے ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں تمام امیدوار اور پارٹیاں اپنے اپنے طور پر جلسے جلوسوں کا اہتمام کر رہی ہیں۔ گزشتہ روز تحریک انصاف نے بھی ایک بڑا پنڈال سجایا۔ جلسے کا مقصد حلقے میں ووٹروں کواپنی پارٹی کے حق میں مہریں لگوانے پر آمادہ کرنا تھا۔



جلسے میں تا حد نگاہ لائٹس اور سائونڈ سسٹم کا اہتمام کیا گیا تھا۔ لیکن اچانک دورانِ جلسہ بجلی چلی گئی اور پھر اسٹینڈ بائی کے طور پر رکھے جنریٹرز کی تاریں بھی کٹ گئیں۔ عام شہریوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ جس کا الزام تحریک انصاف نے شہری حکومت اور انتظامیہ پر عائد کیا۔ قیادت نے اِن سب واقعات کو جلسے کو ناکام بنانے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس کا ملبہ بھی متحدہ قومی موومنٹ پر ڈال دیا۔



لائٹس کا انتظام عموماً جلسہ گاہ کی تیاریوں کا اہم جزوسمجھا جاتا ہے، جبکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے متبادل لائٹس یا بجلی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ تاریخی پس منظر میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں ہمیشہ کہیں نہ کہیں کمی و کوتاہی کا عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ برس ملتان میں جلسے کے دوران بھگدڑ مچنے اور لائٹس بند ہونے کی وجہ سے جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ کھانے کے انتظامات پر جھگڑا، پارٹی کے آپس میں اختلافات اور کارکنان کی ہاتھاپائی جیسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں۔ جس سے پی ٹی آئی قیادت با خوبی واقف ہے۔




کراچی میں پی ٹی آئی کا جلسہ ماضی میں تمام مسائل کے منظرِعام پر آنے کے باوجود ایک بار پھر مسائل کا شکار ہوگیا۔ لیکن تحریک انصاف، انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی غلطیوں سے آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔ اگر یہ بات درست بھی ہو کہ انتظامیہ کی غفلت کے باعث لائٹس کا انتظامات دھرم بھرم ہوا تو اتنے بڑے جلسے میں منظم اور متبادل بجلی کا انتظام کی ذمہ داری شہری حکومت پر نہیں بلکہ جلسہ انتظامیہ پر عائد ہوتی تھی۔ تحریک انصاف کی ترجمان شریں مزاری کی جانب سے جنریٹرز کے تار کاٹنے کی بھی بات سامنے آئی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ آیا وہ تار باہر سے لوگ آکر کاٹ گئے یا پھر خود پی ٹی آئی کے کارکنان نے کاٹے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ جلسے میں کسی بھی ہنگامی صورتحال، کشیدگی اور بیرونی سازشوں سے نمٹنے کے لئے 34 اعلیٰ افسران کی زیر نگرانی 3500 پولیس اہلکار علاوہ رینجرز اہلکاروں تعینات تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے سیکورٹی انتظامیہ سے معاملے کی سنجیدگی کے بارے میں کس حد تک تعاون کیا؟ خود تحریک انصاف کی اپنی انتظامیہ کہاں تھی جو اس پورے جلسے کو دیکھ رہی تھی۔



حلقہ این اے 246 اس وقت نہ صرف کراچی کے بلکہ پورے پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہوچکا ہے۔ اس حلقے کی اہمیت سے پارٹیوں کی قیادت بھی لاعلم نہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام پارٹیوں کی مرکزی قیادت کے زیر اہتمام جلسے منعقد ہورہے ہیں۔ جن میں پارٹیاں اپنے اپنے طور پر ووٹرز کو ضمنی انتخابات کی طرف مدعو کر رہے ہیں۔ ایسے میں علاقے کے نمائندے کے طور پر لڑنے والوں میں تحریک انصاف اپنے جلسے کے انتظامات کو کنٹرول نہیں کر سکتی تو کیا وہ حقیقی نمائندے کے طور پر اہل علاقے کا بوجھ سنبھال پائے گی؟ بات صرف اس ایک جلسے کی نہیں ہے گزشتہ جلسوں اور ریلیوں کو مد نظر رکھتے تحریک انصاف کی مجموعی صورتحال شاید ان کے ووٹرز کو اعتماد میں نہیں لے پائے۔



قومی اسمبلی کے حلقہ 246 سے متحدہ قومی موومنٹ کے کنور نوید، پاکستان تحریک انصاف سے عمران اسماعیل اور جماعت اسلامی سے راشد نسیم اور کچھ چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار ضمنی انتخابات میں مد مقابل ہوں گے۔ اس معرکے کو سر کرنے کے لئے تحریک انصاف کو اپنی حقیقی نمائندگی کا ثبوت دینا ہوگا۔ اگر یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا کہ تحریک انصاف ہوا کے مخلوق کے طور پر آئے جلسہ کرے اور پھر چلی جائے تو ایسے میں عوام کبھی بھی انہیں اپنا حقیقی نمائندہ تسلیم نہیں کرسکے گی، اِس لیے اب بھی تحریک انصاف کی قیادت کے پاس سوچنے کا وقت ہے۔

[poll id="368"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story