زیادہ توجہ کا مستحق صوبہ بلوچستان
دہشت گردی کےان واقعات سے خوف زدہ ہوکر نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں نے بلوچستان میں سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے
KARACHI:
پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان جو مدت دراز سے چیستان بنا ہوا ہے، آج کل پورے ملک کی توجہ کا مرکز نگاہ ہے۔ اس صوبے سے اچھی خبریں کم اور بری خبریں زیادہ موصول ہورہی ہیں، نہتے اور سوئے ہوئے مزدوروں کو فائرنگ کرکے موت کی نیند سلادینے کے المناک سانحے نے ملک بھر میں صف ماتم بچھاکر رکھ دی تھی، یہ اور اس طرح کے دیگر تمام واقعات کے پس پشت وہ ملک دشمن عناصر کار فرما ہیں جنھیں بیرونی آقاؤں کا آشیرواد حاصل ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ان واقعات اور حالات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان میں بغاوت کے شعلے بھڑکانے والے بیرونی عناصر اور اس گھناؤنی سازش میں ملوث بیرونی حکومتوں کو سخت ترین وارننگ دی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کی محب وطن اور بہادر افواج پاکستان کے دشمنوں کی ناپاک سازشوں اور چالوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
جنرل راحیل شریف نے یہ وارننگ اپنے حالیہ دورہ بلوچستان کے دوران واشگاف الفاظ میں جاری کی۔ جنرل راحیل نے یہ دورہ تربت کے نزدیک ایک لیبر کیمپ پر ملک دشمن عناصر کی فائرنگ سے شہید ہونے والے 20 مزدوروں کی شہادت پر اظہار تعزیت و ہمدردی کے سلسلے میں کیا تھا، لیبرکیمپ کے اس انسانیت سوز واقعے کی مذمت کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہاتھا کہ بھارت کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' بلوچستان کے باغی عناصر کی پشت پناہی اور مالی امداد کررہی ہے۔
بیش قیمت اور نایاب معدنیات کے زیر زمین خزانوں سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں گزشتہ چند برسوں سے مقامی اور غیر مقامی کی تفریق کے شعلوں کو بھڑکانے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے حالانکہ مدت دراز سے یہ تمام لوگ آپس میں بھائی چارے اور نسل در نسل محبت اور اخوت کے اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔
گزشتہ 10 اور 11 اپریل کی نصف تربت کے پولیس تھانے کی حدود میں پل کا تعمیراتی کام کر کے گہری نیند سونے والے جن محنت کشوں کو مسلح دہشت گردوں نے ابدی نیند سلادیا، ان کا تعلق سندھ کے علاقوں تھر پارکر اور تلہار اور پنجاب کے علاقے رحیم یار خان سے بتایاجاتا ہے۔ اجتماعی ہلاکتوں کا یہ واقعہ بلوچستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی بلوچستان کے کئی شہروں میں بہت سی زندگیوں کے چراغ بجھائے جا چکے ہیں جن میں صرف عام آدمی ہی نہیں سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں۔ البتہ نئے واقعات کے سلسلے کا آغاز رواں سال کے پہلے مہینے جنوری میں ضلع سبی سے ہوا تھا جہاں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب چار اہلکار ایک بم دھماکے میں زخمی ہوگئے تھے جن میں سے ایک اہلکار شدید زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا تھا اس ماہ کی 7 تاریخ کو ضلع آواران میں لیویزکے قافلے پر حملے میں 7 افراد خون میں نہا گئے جن میں سے 2 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کرلیا۔
اس کے دو ہی روز بعد گوادر میں ایف سی کے ایک قافلے کو نشانہ بنایاگیا جس کے نتیجے میں 3 اہلکار جاں بحق اور 4 زخمی ہوگئے اس کے بعد اسی ماہ کے آخری روز 31 جنوری کو ڈی پی او خضدار اصغر علی کے قافلے پر بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے قریب حملہ کیا گیا جس میں 2 اہلکار شہید ہوگئے۔
اس کے علاوہ ڈیرہ بگٹی میں گیس کی پائپ لائنوں کو اڑانے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں جب کہ ضلع نصیر آباد میں بجلی کی ہائی پاور ٹینشن لائن کے کھمبوں کو اڑانے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں حب کے نواح میں رحیم یار خان اور صادق آباد سے تعلق رکھنے والے 8 محنت کشوں کو بندوق کی نوک پر اغوا کر کے پہاڑی علاقوں میں لے جایا گیا اور اس کے بعد قتل کر دیا گیا گوادر کی تعمیر اور ترقی کے کاموں میں حصہ لینے والے محنت کشوں کو بربریت کا نشانہ بنانا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔
دہشت گردی کے ان واقعات سے خوف زدہ ہوکر نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں نے بلوچستان میں سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے بلکہ یہاں عرصہ دراز سے آباد غیر مقامی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور جفاکش لوگوں نے بڑی تعداد میں نقل مکانی کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے کیوں کہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان ہر انسان کو ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔
اس گمبھیر صورت حال کے منفی اثرات اب نمایاں طور پر دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں معاشی اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے بلوچستان کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کا پسماندہ ترین صوبہ زیادہ عرصے تک اس پریشان کن صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ بات قابل غور اور قابل ذکر ہے کہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور بے پناہ معدنی وسائل کی وجہ سے صوبہ بلوچستان مدت دراز سے بیرونی قوتوں کی انتہائی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے بقول شاعر:
اے روشن طبع تو برمن بلا شدی
یہ حقیقت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ''را'' کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 16 جولائی 2009 کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ غیر جانب دار ممالک کی سربراہی کانفرنس کے موقعے پر پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم سردار منموہن سنگھ سے ملاقات کے دوران بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے ثبوت بھی پیش کردیے تھے۔
بھارت کے علاوہ دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی بلوچستان کے حالات کی خرابی میں ملوث بتائی جاتی ہیں۔ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس تازہ ترین انتباہ نے کہ بیرونی ممالک اور ان کے خفیہ ادارے بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مذموم کوششوں سے باز آجائیں۔
اس حقیقت پر مہر ثبوت ثبت کردی ہے کہ بلوچستان کے واقعات کے پس پشت بیرونی قوتوں کا ہی ہاتھ ہے ان قوتوں میں دیگر کے علاوہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی NDS بھی ملوث بتائی گئی ہے جنرل راحیل شریف نے حکومت بلوچستان کو اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے میں بھرپور حمایت اور مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دریں اثنا بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا یہ عزم لائق تحسین ہے کہ وہ بلوچستان کے زرعی ترقی پر خصوصی توجہ دیں گے اور مویشی بانی کے فروغ کے لیے بھی مقدور بھر کوششیں کریں گے۔زراعت بلوچستان کے GDPکا 52 فیصد ہے اور اسے صوبے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، صوبے کی آبادی کی غالب اکثریت کا انحصار زراعت ہی پر ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے کسان مالی مشکلات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
جس کی وجہ سے وہ اپنے کھیتوں سے خاطر خواہ پیداوار حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ ZTBL جیسے بینک انھیں زرعی قرضوں کی سہولت فراہم کرتے ہیں لیکن ان کی شرائط بڑی سخت ہیں اور چھوٹے کسانوں کے استحصال کے مترادف ہیں۔ جب تک ان کسانوں کو بلا سود زرعی قرضے نہیں دیے جائیں گے اس وقت تک یہ مالی زبوں حالی کی دلدل سے باہر آنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔
چھوٹے کسانوں کی زبوں حالی کا دوسرا سبب ان کی پیداوار کی مناسب قیمت کی عدم دستیابی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ تیسرا سبب ایگریکلچر اور کوآپریٹیو ڈپارٹمنٹ کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ محکمہ زراعت کی شاہ خرچیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، جب تک اس کلیدی محکمے کا قبلہ درست نہیں ہوگا۔ بلوچستان کے کسان اس وقت تک پسماندگی اور غربت و افلاس کی چکی میں بری طرح پستے رہیں گے۔ بلاشبہ بلوچستان سب سے زیادہ توجہ کا مستحق صوبہ ہے۔
پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان جو مدت دراز سے چیستان بنا ہوا ہے، آج کل پورے ملک کی توجہ کا مرکز نگاہ ہے۔ اس صوبے سے اچھی خبریں کم اور بری خبریں زیادہ موصول ہورہی ہیں، نہتے اور سوئے ہوئے مزدوروں کو فائرنگ کرکے موت کی نیند سلادینے کے المناک سانحے نے ملک بھر میں صف ماتم بچھاکر رکھ دی تھی، یہ اور اس طرح کے دیگر تمام واقعات کے پس پشت وہ ملک دشمن عناصر کار فرما ہیں جنھیں بیرونی آقاؤں کا آشیرواد حاصل ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ان واقعات اور حالات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان میں بغاوت کے شعلے بھڑکانے والے بیرونی عناصر اور اس گھناؤنی سازش میں ملوث بیرونی حکومتوں کو سخت ترین وارننگ دی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کی محب وطن اور بہادر افواج پاکستان کے دشمنوں کی ناپاک سازشوں اور چالوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
جنرل راحیل شریف نے یہ وارننگ اپنے حالیہ دورہ بلوچستان کے دوران واشگاف الفاظ میں جاری کی۔ جنرل راحیل نے یہ دورہ تربت کے نزدیک ایک لیبر کیمپ پر ملک دشمن عناصر کی فائرنگ سے شہید ہونے والے 20 مزدوروں کی شہادت پر اظہار تعزیت و ہمدردی کے سلسلے میں کیا تھا، لیبرکیمپ کے اس انسانیت سوز واقعے کی مذمت کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہاتھا کہ بھارت کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' بلوچستان کے باغی عناصر کی پشت پناہی اور مالی امداد کررہی ہے۔
بیش قیمت اور نایاب معدنیات کے زیر زمین خزانوں سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں گزشتہ چند برسوں سے مقامی اور غیر مقامی کی تفریق کے شعلوں کو بھڑکانے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے حالانکہ مدت دراز سے یہ تمام لوگ آپس میں بھائی چارے اور نسل در نسل محبت اور اخوت کے اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔
گزشتہ 10 اور 11 اپریل کی نصف تربت کے پولیس تھانے کی حدود میں پل کا تعمیراتی کام کر کے گہری نیند سونے والے جن محنت کشوں کو مسلح دہشت گردوں نے ابدی نیند سلادیا، ان کا تعلق سندھ کے علاقوں تھر پارکر اور تلہار اور پنجاب کے علاقے رحیم یار خان سے بتایاجاتا ہے۔ اجتماعی ہلاکتوں کا یہ واقعہ بلوچستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی بلوچستان کے کئی شہروں میں بہت سی زندگیوں کے چراغ بجھائے جا چکے ہیں جن میں صرف عام آدمی ہی نہیں سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں۔ البتہ نئے واقعات کے سلسلے کا آغاز رواں سال کے پہلے مہینے جنوری میں ضلع سبی سے ہوا تھا جہاں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب چار اہلکار ایک بم دھماکے میں زخمی ہوگئے تھے جن میں سے ایک اہلکار شدید زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا تھا اس ماہ کی 7 تاریخ کو ضلع آواران میں لیویزکے قافلے پر حملے میں 7 افراد خون میں نہا گئے جن میں سے 2 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کرلیا۔
اس کے دو ہی روز بعد گوادر میں ایف سی کے ایک قافلے کو نشانہ بنایاگیا جس کے نتیجے میں 3 اہلکار جاں بحق اور 4 زخمی ہوگئے اس کے بعد اسی ماہ کے آخری روز 31 جنوری کو ڈی پی او خضدار اصغر علی کے قافلے پر بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے قریب حملہ کیا گیا جس میں 2 اہلکار شہید ہوگئے۔
اس کے علاوہ ڈیرہ بگٹی میں گیس کی پائپ لائنوں کو اڑانے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں جب کہ ضلع نصیر آباد میں بجلی کی ہائی پاور ٹینشن لائن کے کھمبوں کو اڑانے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں حب کے نواح میں رحیم یار خان اور صادق آباد سے تعلق رکھنے والے 8 محنت کشوں کو بندوق کی نوک پر اغوا کر کے پہاڑی علاقوں میں لے جایا گیا اور اس کے بعد قتل کر دیا گیا گوادر کی تعمیر اور ترقی کے کاموں میں حصہ لینے والے محنت کشوں کو بربریت کا نشانہ بنانا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔
دہشت گردی کے ان واقعات سے خوف زدہ ہوکر نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں نے بلوچستان میں سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے بلکہ یہاں عرصہ دراز سے آباد غیر مقامی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور جفاکش لوگوں نے بڑی تعداد میں نقل مکانی کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے کیوں کہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان ہر انسان کو ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔
اس گمبھیر صورت حال کے منفی اثرات اب نمایاں طور پر دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں معاشی اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے بلوچستان کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کا پسماندہ ترین صوبہ زیادہ عرصے تک اس پریشان کن صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ بات قابل غور اور قابل ذکر ہے کہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور بے پناہ معدنی وسائل کی وجہ سے صوبہ بلوچستان مدت دراز سے بیرونی قوتوں کی انتہائی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے بقول شاعر:
اے روشن طبع تو برمن بلا شدی
یہ حقیقت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ''را'' کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 16 جولائی 2009 کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ غیر جانب دار ممالک کی سربراہی کانفرنس کے موقعے پر پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم سردار منموہن سنگھ سے ملاقات کے دوران بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے ثبوت بھی پیش کردیے تھے۔
بھارت کے علاوہ دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی بلوچستان کے حالات کی خرابی میں ملوث بتائی جاتی ہیں۔ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس تازہ ترین انتباہ نے کہ بیرونی ممالک اور ان کے خفیہ ادارے بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مذموم کوششوں سے باز آجائیں۔
اس حقیقت پر مہر ثبوت ثبت کردی ہے کہ بلوچستان کے واقعات کے پس پشت بیرونی قوتوں کا ہی ہاتھ ہے ان قوتوں میں دیگر کے علاوہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی NDS بھی ملوث بتائی گئی ہے جنرل راحیل شریف نے حکومت بلوچستان کو اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے میں بھرپور حمایت اور مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دریں اثنا بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا یہ عزم لائق تحسین ہے کہ وہ بلوچستان کے زرعی ترقی پر خصوصی توجہ دیں گے اور مویشی بانی کے فروغ کے لیے بھی مقدور بھر کوششیں کریں گے۔زراعت بلوچستان کے GDPکا 52 فیصد ہے اور اسے صوبے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، صوبے کی آبادی کی غالب اکثریت کا انحصار زراعت ہی پر ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے کسان مالی مشکلات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
جس کی وجہ سے وہ اپنے کھیتوں سے خاطر خواہ پیداوار حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ ZTBL جیسے بینک انھیں زرعی قرضوں کی سہولت فراہم کرتے ہیں لیکن ان کی شرائط بڑی سخت ہیں اور چھوٹے کسانوں کے استحصال کے مترادف ہیں۔ جب تک ان کسانوں کو بلا سود زرعی قرضے نہیں دیے جائیں گے اس وقت تک یہ مالی زبوں حالی کی دلدل سے باہر آنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔
چھوٹے کسانوں کی زبوں حالی کا دوسرا سبب ان کی پیداوار کی مناسب قیمت کی عدم دستیابی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ تیسرا سبب ایگریکلچر اور کوآپریٹیو ڈپارٹمنٹ کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ محکمہ زراعت کی شاہ خرچیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، جب تک اس کلیدی محکمے کا قبلہ درست نہیں ہوگا۔ بلوچستان کے کسان اس وقت تک پسماندگی اور غربت و افلاس کی چکی میں بری طرح پستے رہیں گے۔ بلاشبہ بلوچستان سب سے زیادہ توجہ کا مستحق صوبہ ہے۔