جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
اقبال کے نظامِ افکار میں عالم نو کی تشکیلِ جدید بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ تغیر اور انقلاب کا ترانہ کلامِ اقبال کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اقبال کی ساری شاعری نئی دنیا کے تصورات کی تکمیل کے خوابوں کے گرد گھومتی ہے۔ اقبال ایک ایسی قوت کے خواہاں ہیں جو امت مسلمہ کے وجود کو نیا زمانہ اور نئے صبح و شام عطا کرسکے۔ اقبال کا فلسفہ تغیر، سرورِ دو عالم ؐ کے نظریہ انقلاب سے ماخوذ ہے۔
نبی ِرحمت ؐ کے ذریعے رونما ہونے والے کائناتِ ارضی کے سب سے بڑے انقلاب کا پرتو کا ظہور وہ ایک بار پھر دیکھنا چاہتے تھے۔ اقبال کے نقطہ نظر کے مطابق انقلابِ نو کے لیے پیغمبرِ انقلاب کا اسوہ حسنہ سب سے بہترین زادِ راہ ہے۔ وہ خاکِ بطحا و نجف کو اپنی آنکھوں کی بینائی تصور کرتے تھے اور اس نور سے دنیا کی تاریکیوں کو منور کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری ایک ایسے جہانِ نو کی تخلیق کی خواہش ہے، جس میں رسول ِکریم ؐ کے تخیلات کی جھلک اور آپ ؐ کے عطا کردہ نظامِ نو کی تصویر نظر آتی ہو۔
ان کا زندگی فکر، علم، خرد، عشق، خود داری، خود گیری، غیرت، عقل اورخودی کا سارا فلسفہ ایک نقطے کے گرد گھومتے نظر آتا ہے۔ وہ مسلم امہ کو ان کا احساسِ ذمہ داری یاد دلانا چاہتے ہیں۔ اقبال کے استعاروں کے رنگین چمن اور تشبیہات کی ساری حسین وادیوں میں مسلم نوجوان کے لیے بیداری کا پیغام ہے۔ وہ مردِ مومن کے اوصاف کی عکس بندی کے لیے شاہین کی مثالیں دیتے ہیں۔ شاہین کی غیرت، عزت نفس، بہادری، مشن، مقصد سے لگن، خود داری اور مضبوط قوت ارادی کو ایک مرد مومن کے اوصاف دیکھنا چاہتے ہیں۔
دلِ فطرت شناس کے متمنی ہیں تاکہ خالقِ کائنات کے وجود پر یقین مضبوط ہو کیونکہ یقین کی پختگی زادِ راہ کا کام سر انجام دیتی ہے۔ اقبال اقوامِ مغرب کی شہرہ آفاق عیاری اور مکاری کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ ان کے احسانات اٹھانے اور ان کی غلامی کو قبول کرنے کو موت سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ افرنگ کی غلامی کو زہر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خود داری، ہر مندی اور ضرب کلیمی کے اوصاف کے بغیر اس قلزمِ خاموش کے اسرار سے پردہ اٹھانا ممکن نہیں۔ وہ سفالِ ہند کو شیشہ افرنگ پر ترجیح دیتے ہیں اور کوہ و بیاباں میں گزر اوقات کو آشیاں بندی کے بکھیڑوں پر برتر تسلیم کرتے ہیں۔ اپنی آخری تصنیف ''ارمغانِ حجاز'' میں ایک جگہ تو نوجوانانِ ملت کو اس بات پر آمادہ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ میرے کلام کے مطالعہ سے مذہبی، ملی اور سیاسی شعور پیدا کرو، کیونکہ میں اپنے کلام کا اساس حکمت بھری کتاب کو تصور کرتے ہیں۔
اقبال کے اس کلام کا بہت بڑا حصہ نوجوانوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ وہ جوانوں کے بے داغ ماضی، روشن حال اور خوب صورت مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں۔ اقبال سارے کلام کی روح اور فلسفے کی جان، خودی کی تعمیر کو قرار دیتے ہیں۔ وہ خود داری اور عزت ِنفس پر کسی قسم کے سمجھوتے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ خودی کو سیم و زر کے عوض فروخت کردینے کو زیاں کاری تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مال و اسباب تو گھٹیاسی چیز ہے۔
بے توقیر اور عارضی مگر خود داری و خود گیری بہت بلند اور ارفع نام ہیں۔ اس لیے قیمتی اشیاء کو کوڑیوں کے دام فروخت کردینا دانش مندی نہیں۔ خودی، آبرو اور عزت کی مانند ہے۔ اس کا وجود بادشاہی عطا کرتا ہے۔ بے غیرت قومیں روسیاہی کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو روسیاہی۔ خودی اور عزتِ نفس کا تصور آزاد قوموں کا وطیرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ غلام قوموں کی کوئی عزت ہوتی ہے نہ آبرو اور ان کو ایسے کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے جس طرح درزی کپڑے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے ۔
غلام انسان کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مالک کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ آقا کا حکم اس کے لیے سب سے عزیز ہوتا ہے۔ اپنے مالک کی خوشی پر وہ اپنی ساری خوشیاں نچھاور کردیتا ہے۔ اس لیے اقبال امت کے نوجوانوں کو خودی کا درس دیتے ہیں۔ بدلتی دنیا کے تیور دیکھتے ہیں اور امت مسلمہ کے نوجوانوں کو غلامی کی زندگی پر رضا مند دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں۔
جو تھا نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
وہ امت مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ قرآن، حدیث اور اصحاب رسول ؐ کی زندگیوں میں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ جب وہ موجودہ دور اور اپنے تخیل کا موازنہ کرتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ
عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے؟
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
وہ اس پستی اور تنزلی کا علاج تلاش کرتے ہیں تو حیرت کا شدید احساس انہیں رلاتا ہے۔ پکار اٹھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں تقلیدِ غیر نے احساس ذمہ داری کا قتل کردیا ہے اور ہم اپنے دکھوں کی دوا، نیو یارک اور جنیوا میں تلاش کرتے ہیں جب کہ ان کی نظر میں
علاج آتش رومی ؒ کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پر ہے غالب فرنگیوں کا فسوں۔
اقبال کی شاعری ایک جستجو ہی نہیں بلکہ رفعتِ تخلیل اور سوز و گداز کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو اردو زبان کا سرمایہ افتخار بھی ہے۔ ان کی شاعری میں حقائق و معارف کوبڑے دل پذیر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ عمیق فکر، بلند تخلیل اور اسلوب بیان پر قدرت نے ان کے پیغام کو ایسی دل کشی دی ہے جو پڑھنے والوں کے دل کو موہ لیتی ہے۔ اقبال نے جہاں جہاں علم اور فقر یا عقل اور عشق کا موازنہ کیا ہے ہمیشہ فقر اور عشق کو فوقیت دی۔ انہوں نے اپنی جدت طرازی، طرفگئی ادا، ندرتِ خیال اور خداداد قوت ِاجتہاد کی مدد سے فلسفے اور منطق کے ایسے ایسے مشکل سوالات کو سلجھایا ہے کہ انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اپنے مافی الضمیر، احساسات و جذبات اور واردات ِقلبی کو ایسے فصیح و بلیغ انداز میں پیش کیا ہے جو صرف اقبال کے کلام کا ہی خاصہ ہے۔
اقبال نے اپنے پورے کلام میں جا بجا قرآن کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید اقبال کے کلام کا ایک بہت بڑا باب ہے۔ امید انسان کی زندگی ہے۔ امید کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ قرآن میں حکم آتا ہے کہ ''اور تم نا امید نہ ہو کیونکہ ﷲ کی رحمت سے صرف کافر ناامید ہوتے ہیں''۔ اسی طرز فکر کو اقبال نے اپنی شاعری میں سمویا ہے۔
نہ ہونا امید، نو امیدی، زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
اقبال نے مسلم امہ کو عزم و استقلال، خود داری، عزتِ نفس، بلند حوصلگی، امید، فقر،عشق اور یقین کا درس دیا ہے۔ ان کی ساری فکر میں ایک تڑپ تھی جو ان کو خاموش بیٹھنے نہیں دیتی تھی۔ اقبال نہ صرف اسلامی تہذیب کے علم بردار تھے بلکہ وہ اردو زبان کے بہت بڑے ترجمان اور حمایتی بھی تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں۔
''میں جواردو لکھتا ہوں،
میری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔
شان جلالت، رعب اور دبدبہ اس کے اوصاف ہیں ۔۔۔ میری لسانی عصبیت، میری دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں۔''
وہ ایسے دور میں پیدا ہوئے جب ساری مسلم دنیا غلامی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ کبھی وہ حجاز و عرب کے دکھوں میں مبتلا ہوئے تو کبھی سپین وسسلی کی ہوائیں ان کو پریشان کرتی ہیں۔ کبھی وہ افرنگ کو للکارتے تو کبھی اپنی ہی صفوں میں پوشیدہ نا اہل لوگوں کی اصلاح کے لیے فکر مند نظر آتے۔ وہ ظلم و جبر کے سخت خلاف تھے۔ غلام قوموں کو بیداری کا پیغام دیا اور کہا کہ غلاموں کے دلوں کو سوزِ یقین کی آگ میں جلاو تاکہ یہ کندھن بن جائیں اور غلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ظالم و جابر حکمرانوں کا تختہ الٹ دیں۔ دنیا میں عوام کی حکومت کا نقشہ جما دیں اور سرمایہ داری، ملکویت، اقرباء پروری، شہنشائیت اور الحاد کی قوتوں کے سارے نقوش ِکہنے کو فنا کردیں ۔
وہ غریب کاشتکار کو جب حالات کی بھٹی میں جلتا دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں کہ جس کھیت اور کھلیان سے اس کے کاشت کار کو فائدہ حاصل نہ ہو اور اس کے مال سے ساہو کار مال دار بن جائے۔ جس دہقان کی شبانہ روز محنت اور اس کے گھر کا چولہا نہ جلایا جائے ایسے کھیت و کھلیان کو جلا کر خاکستر کردینا بہتر ہے تاکہ سرمایہ دار بھی اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔
اقبال مہر ووفا اور محبت و اخوت کی بدولت مسلمان کو حریمِ کبریا کا آشنا بنانے کے خواہاں ہیں۔ وہ باری تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا میری قوم کے نوجوانوں کے دلوں میں عشق ِرسول پیدا کردے۔ یہ نوجوان دراصل شاہین بچے ہیں۔ لیکن بے پال و پر ہیں۔ اس لیے پرواز نہیں کرسکتے۔ عشقِ رسول سے انہیں بال و پر نصیب ہوسکتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک دنیا میں کامیابی اور انقلاب کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ عشق رسول سے نکلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حق و باطل میں امتیاز کرنے والی جو نگاہ مجھے عطا کی ہے۔ اس طاقت کو تو مسلم نوجوانوں کی قوت بنا دے ۔
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔