جنگوں سے آگے
جب بھی کوئی لاپتہ ہوا، کوئی مسخ ہوا، ہم گونگے بہرے آمروں کو دُہائیاں دیتے رہے۔۔۔
جنگ کی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے، بنیادی انسانی اقدار و اخلاقیات سے اسے کچھ خاص علاقہ نہیں ہوتا۔ جنگ خواہ کیسی ہی انقلابی کیوں نہ ہو، ایک مقام پہ آ کر وہ انقلاب کے بنیادی اصولوں سے ہی روگردانی اختیار کر لیتی ہے۔ انقلابی گوریلا جنگ کے بنیادی اصول مرتب کرنے والے چیئرمین ماؤ نے ایسی جنگ کا خواہ کیسا ہی شاہکار ضابطہ اخلاق کیوں نہ مرتب کر رکھا ہو، لیکن جنگ کا اژدھا، ایسے تمام ضابطوں کو ایک دن اپنی خوراک بنا ڈالتا ہے۔
اس لیے جنگ خواہ ریاستی رٹ کی بحالی کے لیے ہو، یا غیر منصف ریاستی ڈھانچے کے خلاف بغاوت پہ مبنی ہو، ہر صورت قابلِ مذمت ہے، اس لیے کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہو، اس کے سامنے دلیل دم توڑ دیتی ہے۔ بندوق کی نال سے ہر قسم کے مباحثے کا خاتمہ منسلک ہے۔ ...اور صاحبو، یہ سب کتابی باتیں نہیں، ہماری اُس نسل کا آنکھوں دیکھا اور بھگتا ہوا حال ہے۔
جس کے بال ابھی تجربے کی بھٹی میں بھلے سفید نہیں ہوئے، مگر جس کے خوابِ نہ تعبیر کو پہنچے اور نہ ٹوٹے، بلکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اغوا کر لیے گئے۔ انقلاب کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کو ہر عہد کی نوجوان نسل رومنٹسائیز کرتی رہی ہے۔ سو، بلوچستان کی جنگ نے بھی ہماری نسل کو ایسے ہی کچھ خواب دکھائے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ایک نسل ان خوابوں کی بَلی چڑھ گئی۔ کیسے کیسے جوان مارے گئے، کیا کیا گھبرو بدن مسخ کر دیے گئے۔ کیسے کیسے روشن دماغ، گولیوں سے بھون دیے گئے۔
جب بھی کوئی لاپتہ ہوا، کوئی مسخ ہوا، ہم گونگے بہرے آمروں کو دُہائیاں دیتے رہے۔ معصوم بلوچوں کے قاتلوں کو ہر اہلِ دل نے سفاک، درندہ، بے انصاف و بے حس گردانا۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے سرخ انقلاب کی امید میں، شہیدوں کے لہو کی سرخی کو انقلاب کے سرخ سویرے سے تشبیہ دی... لیکن جب انھی پہاڑوں سے آنے والا بارود بے گناہ و بے بس انسانوں پہ برس پڑا، تو سبھی کے چہرے سوالیہ نشان بن کر رہ گئے۔ ان کا 'ایمان' پختہ ہے یا پھر دل سخت، جو بے بس مزدور کی موت کا بھی جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ نہیں، نہیں ...ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی معصوم کا خون بہے، اور بلوچستان خاموش رہے۔
لیکن یہ جو جنگ ہے نا، یہ جس طرح اقدار کا معاملہ نہیں، ایسے ہی یہ محض جذباتیت کا معاملہ بھی نہیں۔ اس لیے معصوم اموات کا موازنہ مت کیجیے۔ کسی بھی بے گناہ کی لاش اِدھر گرے یا اُدھر، ریاست کی حفاظت کے نام پر گرے، یا ریاست سے بغاوت کے نام پر، ہر صورت قابلِ مذمت ہے۔ اہلِ دل، اہلِ انصاف ایسی بے انصافی سے بھلا کیسے کام لے سکتے ہیں۔
جب آپ کی بنیادی وفاداری اور ہمدردی عوام کی بجائے محض ریاست سے ہو جائے، تو پھر ایسی فتویٰ بازی اچنبھے کی بات نہیں، جیسی تربت واقعے کے بعد ملکی میڈیا کے اکثر نام ور لکھاریوں کے ہاں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ریاستیں مقدم نہیں ہوتیں، مقدم زمین پہ بسنے والے انسان ہوتے ہیں۔ ریاست، عوام سے بنتی ہے۔ ریاستی سرحدیں مختلف عہد میں بدلتی رہتی ہیں، نہیں بدلتا تو ان ریاستوں میں مقید خاک نشینوں کا مقدر نہیں بدلتا۔ نسل، زبان، عقیدے کے بکھیڑے ریاستوں کے ہی پیدا کردہ ہیں۔
یہ وہ ہتھیار ہیں جن کی بنیاد پر ریاستی اشرافیہ عوام کو تقسیم در تقسیم کر کے نفرت اور تعصب کا ایسا بیج بو دیتی ہے، جس سے اُس شجر ممنوعہ کی نمود ہوتی ہے، جس کا ذائقہ عوام کو اتحاد و یگانگت کے کوچے سے بے آبرو کر کے نکلوا دیتا ہے۔ تعصب، خواہ زبان کا ہو، نسل کا یا عقیدے کا، ایک ایسا منحوس چکر ہے، جس سے نکلنے کے لیے ایمان کی جو پختگی چاہیے، اُس سے ایک عرصہ ہوا، من حیث المجموع، ہم محروم ہو چکے ہیں۔ اس لیے پھر مرنے والے سے ہمدردی کی بنیاد اس کا طبقہ اور اس کے قتل کا جواز نہیں، بلکہ اس کی نسل، زبان، یا عقیدہ ہوتا ہے۔ یہی تماشہ تربت کے شہید مزدروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ان سے ہمدردی کرنے والوں میں کوئی ان کے سندھی ہونے کی دُہائی دے رہا ہے، تو کوئی ان کے سرائیکی ہونے کا رونا رو رہا ہے۔ ان کا طبقاتی معاملہ کہیں بین السطور مکالمے میں سب سے نچلی سطح پہ جگہ پاتا ہے۔نیز، اس سے ملحق کیسے کیسے اہم سوال جن سے کہ ریاست کے 'ماں جیسے کردار' پہ زد پڑتی ہے، کہیں زیر بحث نہیں آتے۔ یہ مزدور اپنے گھروں سے سیکڑوں، ہزاروں میل دور کسی ٹھیکیدار کی 'بے گار' میں آیا ہوا مال تھے۔
یہ انسانی غلامی کا ایک جدید طریقہ ہے۔ مہذب دنیا کے تمام تر قوانین سے لے کر پاکستان کا آئین تک اس کی شدید ممانعت و مذمت کرتا ہے۔ آئین تو ریاست اور حکومت کے لیے، ہر شہری کو اس کی استطاعت کے مطابق روزگار فراہم کرنے کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ مگر جہاں آئین کویا تو محض کاغذ کا چیتھڑا سمجھا جاتا ہو، یا پھر ایک مقدس گائے (دو انتہائیں!)، وہاں کون بھلا آئین کے گُن گائے۔
نہیں، بالکل نہیں، ان سوالات کو اٹھانے کا مطلب ہر گز توجہ بٹانا نہیں۔ ریاست اگر عوام کو باعزت روزگار کی فراہمی میں ناکام ہو جائے، تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مزدروں کے قتلِ عام کو جواز بخشا جائے۔ نہیں، بلوچستان ایسا بے انصاف نہیں، بلوچ ایسا بے رحم نہیں۔ ہمارا تو ملک الشعرا (گل خان نصیر) تک اپنے جوانوں کو مزدوروں، محنت کشوں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا درس دیتا رہا ہے۔
سریں بستہ گوں مزدوراں
گوں شوانگ و مجبوراں
گوں بزگر و کمزوراں
پادا، او گہیں ورنا
ترجمہ:مزدوروں کے ساتھ کمر بستہ ہو کر،چرواہوں، مجبوروں کے ساتھ،مفلس اور کمزوروں کے ساتھ،اٹھ، اے اچھے نوجوان!
تو ایسا قحط الرجال نہیں ہے صاحب۔ بلوچستان کی کوئی سیاسی جماعت، کوئی سیاسی رہنما، کوئی کارکن، کوئی پڑھا لکھا فرد ایسا نہ ہو گا، جس نے بے گناہ قتلِ عام کو برا نہ کہا ہو۔ ہمیں خاموشی کا طعنے دیتے ہوئے ہماری 'معروضی بے بسی' کو ضرور مدنظر رکھیے۔ ہمارا مڈل کلاس وزیر اعلیٰ مزدروں کی میتیوں کو کندھا دے کر، خود اپنے لیے ایک گڑھا کھود چکا۔
اس کی موجودگی میں تربت میں شروع ہونے والا آپریشن، اس کی اور اس کے خاندان کی تاحیات کیچ بدری پہ منتج ہو سکتا ہے، اس بات کا اسے بھی خوب ادراک ہو گا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے نتیجے میں عین ممکن ہے کل اسے تربت میں کوئی کندھا میسر نہ آئے، اس نے مزدوروں کے لیے اپنے کندھے حاضر کر دیے۔ یہ کردار تاریخ کے صفحات میں کیا نام پاتا ہے۔
اسے وقت کے منصف کے حوالے کرتے ہیں۔ ہم اور آپ، جذباتیت کے ہاتھوں لٹنے اور آپس میں الجھنے کی بجائے کیوں نہ بنیادی مسائل پہ بات کریں اور بنیادی بات یہ ہے کہ اہلِ اقتدار کو پھر یاد دلایا جائے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی تھا اور سیاسی ہے، اس کا حل بھی سیاسی ہو گا۔ جنگیں آپ نے بہت کر لیں۔
مزید بھی کر کے دیکھ لیجیے؛ اس کا حصول معصوم لاشوں کے تبادلے کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ اور ہم ایسے بے مصرف کارکنوں کے لیے ایسے واقعات کا پوشیدہ و عیاں سبق یہ ہے کہ جتنے چاہے اِزم آزما لیجیے؛ محنت کشوں کے لیے، سیاسی کارکنوں کے لیے دنیا بھر کے مزدوروں کے ایک ہو جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
اس لیے جنگ خواہ ریاستی رٹ کی بحالی کے لیے ہو، یا غیر منصف ریاستی ڈھانچے کے خلاف بغاوت پہ مبنی ہو، ہر صورت قابلِ مذمت ہے، اس لیے کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہو، اس کے سامنے دلیل دم توڑ دیتی ہے۔ بندوق کی نال سے ہر قسم کے مباحثے کا خاتمہ منسلک ہے۔ ...اور صاحبو، یہ سب کتابی باتیں نہیں، ہماری اُس نسل کا آنکھوں دیکھا اور بھگتا ہوا حال ہے۔
جس کے بال ابھی تجربے کی بھٹی میں بھلے سفید نہیں ہوئے، مگر جس کے خوابِ نہ تعبیر کو پہنچے اور نہ ٹوٹے، بلکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اغوا کر لیے گئے۔ انقلاب کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کو ہر عہد کی نوجوان نسل رومنٹسائیز کرتی رہی ہے۔ سو، بلوچستان کی جنگ نے بھی ہماری نسل کو ایسے ہی کچھ خواب دکھائے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ایک نسل ان خوابوں کی بَلی چڑھ گئی۔ کیسے کیسے جوان مارے گئے، کیا کیا گھبرو بدن مسخ کر دیے گئے۔ کیسے کیسے روشن دماغ، گولیوں سے بھون دیے گئے۔
جب بھی کوئی لاپتہ ہوا، کوئی مسخ ہوا، ہم گونگے بہرے آمروں کو دُہائیاں دیتے رہے۔ معصوم بلوچوں کے قاتلوں کو ہر اہلِ دل نے سفاک، درندہ، بے انصاف و بے حس گردانا۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے سرخ انقلاب کی امید میں، شہیدوں کے لہو کی سرخی کو انقلاب کے سرخ سویرے سے تشبیہ دی... لیکن جب انھی پہاڑوں سے آنے والا بارود بے گناہ و بے بس انسانوں پہ برس پڑا، تو سبھی کے چہرے سوالیہ نشان بن کر رہ گئے۔ ان کا 'ایمان' پختہ ہے یا پھر دل سخت، جو بے بس مزدور کی موت کا بھی جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ نہیں، نہیں ...ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی معصوم کا خون بہے، اور بلوچستان خاموش رہے۔
لیکن یہ جو جنگ ہے نا، یہ جس طرح اقدار کا معاملہ نہیں، ایسے ہی یہ محض جذباتیت کا معاملہ بھی نہیں۔ اس لیے معصوم اموات کا موازنہ مت کیجیے۔ کسی بھی بے گناہ کی لاش اِدھر گرے یا اُدھر، ریاست کی حفاظت کے نام پر گرے، یا ریاست سے بغاوت کے نام پر، ہر صورت قابلِ مذمت ہے۔ اہلِ دل، اہلِ انصاف ایسی بے انصافی سے بھلا کیسے کام لے سکتے ہیں۔
جب آپ کی بنیادی وفاداری اور ہمدردی عوام کی بجائے محض ریاست سے ہو جائے، تو پھر ایسی فتویٰ بازی اچنبھے کی بات نہیں، جیسی تربت واقعے کے بعد ملکی میڈیا کے اکثر نام ور لکھاریوں کے ہاں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ریاستیں مقدم نہیں ہوتیں، مقدم زمین پہ بسنے والے انسان ہوتے ہیں۔ ریاست، عوام سے بنتی ہے۔ ریاستی سرحدیں مختلف عہد میں بدلتی رہتی ہیں، نہیں بدلتا تو ان ریاستوں میں مقید خاک نشینوں کا مقدر نہیں بدلتا۔ نسل، زبان، عقیدے کے بکھیڑے ریاستوں کے ہی پیدا کردہ ہیں۔
یہ وہ ہتھیار ہیں جن کی بنیاد پر ریاستی اشرافیہ عوام کو تقسیم در تقسیم کر کے نفرت اور تعصب کا ایسا بیج بو دیتی ہے، جس سے اُس شجر ممنوعہ کی نمود ہوتی ہے، جس کا ذائقہ عوام کو اتحاد و یگانگت کے کوچے سے بے آبرو کر کے نکلوا دیتا ہے۔ تعصب، خواہ زبان کا ہو، نسل کا یا عقیدے کا، ایک ایسا منحوس چکر ہے، جس سے نکلنے کے لیے ایمان کی جو پختگی چاہیے، اُس سے ایک عرصہ ہوا، من حیث المجموع، ہم محروم ہو چکے ہیں۔ اس لیے پھر مرنے والے سے ہمدردی کی بنیاد اس کا طبقہ اور اس کے قتل کا جواز نہیں، بلکہ اس کی نسل، زبان، یا عقیدہ ہوتا ہے۔ یہی تماشہ تربت کے شہید مزدروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ان سے ہمدردی کرنے والوں میں کوئی ان کے سندھی ہونے کی دُہائی دے رہا ہے، تو کوئی ان کے سرائیکی ہونے کا رونا رو رہا ہے۔ ان کا طبقاتی معاملہ کہیں بین السطور مکالمے میں سب سے نچلی سطح پہ جگہ پاتا ہے۔نیز، اس سے ملحق کیسے کیسے اہم سوال جن سے کہ ریاست کے 'ماں جیسے کردار' پہ زد پڑتی ہے، کہیں زیر بحث نہیں آتے۔ یہ مزدور اپنے گھروں سے سیکڑوں، ہزاروں میل دور کسی ٹھیکیدار کی 'بے گار' میں آیا ہوا مال تھے۔
یہ انسانی غلامی کا ایک جدید طریقہ ہے۔ مہذب دنیا کے تمام تر قوانین سے لے کر پاکستان کا آئین تک اس کی شدید ممانعت و مذمت کرتا ہے۔ آئین تو ریاست اور حکومت کے لیے، ہر شہری کو اس کی استطاعت کے مطابق روزگار فراہم کرنے کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ مگر جہاں آئین کویا تو محض کاغذ کا چیتھڑا سمجھا جاتا ہو، یا پھر ایک مقدس گائے (دو انتہائیں!)، وہاں کون بھلا آئین کے گُن گائے۔
نہیں، بالکل نہیں، ان سوالات کو اٹھانے کا مطلب ہر گز توجہ بٹانا نہیں۔ ریاست اگر عوام کو باعزت روزگار کی فراہمی میں ناکام ہو جائے، تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مزدروں کے قتلِ عام کو جواز بخشا جائے۔ نہیں، بلوچستان ایسا بے انصاف نہیں، بلوچ ایسا بے رحم نہیں۔ ہمارا تو ملک الشعرا (گل خان نصیر) تک اپنے جوانوں کو مزدوروں، محنت کشوں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا درس دیتا رہا ہے۔
سریں بستہ گوں مزدوراں
گوں شوانگ و مجبوراں
گوں بزگر و کمزوراں
پادا، او گہیں ورنا
ترجمہ:مزدوروں کے ساتھ کمر بستہ ہو کر،چرواہوں، مجبوروں کے ساتھ،مفلس اور کمزوروں کے ساتھ،اٹھ، اے اچھے نوجوان!
تو ایسا قحط الرجال نہیں ہے صاحب۔ بلوچستان کی کوئی سیاسی جماعت، کوئی سیاسی رہنما، کوئی کارکن، کوئی پڑھا لکھا فرد ایسا نہ ہو گا، جس نے بے گناہ قتلِ عام کو برا نہ کہا ہو۔ ہمیں خاموشی کا طعنے دیتے ہوئے ہماری 'معروضی بے بسی' کو ضرور مدنظر رکھیے۔ ہمارا مڈل کلاس وزیر اعلیٰ مزدروں کی میتیوں کو کندھا دے کر، خود اپنے لیے ایک گڑھا کھود چکا۔
اس کی موجودگی میں تربت میں شروع ہونے والا آپریشن، اس کی اور اس کے خاندان کی تاحیات کیچ بدری پہ منتج ہو سکتا ہے، اس بات کا اسے بھی خوب ادراک ہو گا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے نتیجے میں عین ممکن ہے کل اسے تربت میں کوئی کندھا میسر نہ آئے، اس نے مزدوروں کے لیے اپنے کندھے حاضر کر دیے۔ یہ کردار تاریخ کے صفحات میں کیا نام پاتا ہے۔
اسے وقت کے منصف کے حوالے کرتے ہیں۔ ہم اور آپ، جذباتیت کے ہاتھوں لٹنے اور آپس میں الجھنے کی بجائے کیوں نہ بنیادی مسائل پہ بات کریں اور بنیادی بات یہ ہے کہ اہلِ اقتدار کو پھر یاد دلایا جائے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی تھا اور سیاسی ہے، اس کا حل بھی سیاسی ہو گا۔ جنگیں آپ نے بہت کر لیں۔
مزید بھی کر کے دیکھ لیجیے؛ اس کا حصول معصوم لاشوں کے تبادلے کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ اور ہم ایسے بے مصرف کارکنوں کے لیے ایسے واقعات کا پوشیدہ و عیاں سبق یہ ہے کہ جتنے چاہے اِزم آزما لیجیے؛ محنت کشوں کے لیے، سیاسی کارکنوں کے لیے دنیا بھر کے مزدوروں کے ایک ہو جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔