یہ جی جی کیا ہے …
اگر میں یہ کہوں کہ ایسا ہی جادو تھا جیسا کہ سونامی کے وقت ہمیں دکھایا جا رہا تھا۔۔۔
KARACHI:
جب ان لوگوں کے پاس طاقت اور شہرت آ جاتی ہے تو یہ اُس مست ہاتھی کی طرح ہو جاتے ہیں جو اپنے پیروں تلے سب کو روندھتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اور اُسے ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنی طاقت کو کس جگہ استعمال کر رہا ہے۔
ہمارے یہاں اکثر یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ لیکن جب کبھی انھیں تھوڑی سی عزت اور شہرت ہاتھ آ جائے تو ان کے پاس سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ان آدھی عقل کے لوگوں کو اگر آپ دیکھیں تو باخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں خود اتنی صلاحیت کبھی بھی نہیں رہی کہ وہ اعلیٰ مرتبے تک پہنچیں لیکن قسمت کے دھنی رہے۔
کبھی کسی حادثے نے انھیں لیڈر بنایا۔ تو اکثر یہ کسی کی انگلی پکڑ کر خود کو بھی بڑا محسوس کرنے لگے۔ جب ان کے پاس وقت ہوتا ہے سب کچھ کر گزرنے کا تو یہ اپنی انا کے بُت کو توڑ نہیں پاتے۔ اور جب وقت ہاتھ میں رکھی مٹی کی طرح نکل جاتا ہے تو یہ اُس وقت بھی اُسی گمان میں ہوتے ہیں کہ اب بھی دنیا انھیں سر پر بٹھانے کے لیے مچل رہی ہے۔
ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ 2013ء نہیں ہے بلکہ ان دو سالوں میں بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ اُس وقت جو لہر چلی تھی اب وہ ساحل سے ٹکرا چکی ہے۔ اور وہ وقت انھوں نے ضایع کر دیا ہے۔ اور سونامی گزر گئی۔
بات الجھ نہ جائے اس لیے تھوڑا سا پیچھے سے اس کو سمجھتے ہیں۔ کیسے جب سونامی آتی ہے تو ہمیں ہوش نہیں ہوتا اور جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم صرف پچھتاوا لے کر خود کو کوستے رہتے ہیں۔ پاکستان کا ایک حصہ الگ کر دیا گیا۔ ہمیں شکست ہوئی تھی اور اُس کے باوجود قوم کے جذبے حیرت انگیز تھے۔ وہ پر امید تھے اور اسی امید کی بنیاد پر 22 فروری 1974ء کو اسلامی سربراہی کانفرنس ہونے جا رہی تھی۔ وہ ہی مسلمانوں کی یکجہتی کا خواب جو علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔
وہ ہی خواب کہ جس کے لیے ہم ہمیشہ بے چین رہے۔ دنیا بھر کے 37 مسلمان ملکوں کے سربراہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آ رہے تھے۔ یہ یقینی طور پر بھٹو کا کارنامہ تھا۔ اور اس کی وجہ سے ہی پورے ملک میں بھٹو کا گراف اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ ایسا ہی جادو تھا جیسا کہ سونامی کے وقت ہمیں دکھایا جا رہا تھا۔ یہ الگ بحث ہے کہ سونامی راتوں رات کیسے لاہور سے ہیرو بنی اور بھٹو اور اُس کی کابینہ کو کیا کیا کرنا پڑا تھا۔
اُس وقت اُن کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ کچھ بھی کرتے تھے عوام اُن کے ساتھ تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ہم سے الگ ہو جانے والا حصہ جو اب بنگلہ دیش بن چکا تھا کیا اُس ملک کا سربراہ پاکستان آئے گا۔ اور اُس سے بڑھ کر یہ کہ کیا پاکستان اُسے اس کانفرنس میں بلائے گا۔ ہمارے زخم تازہ تھے ابھی تین سال ہی ہوئے تھے۔ اور بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس شروع ہونے کے ایک گھنٹے پندرہ منٹ پہلے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش اب ایک حقیقت ہے اُس سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا۔ اتنا بڑا فیصلہ کیا لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی کیونکہ اُس وقت ان کی شہرت اپنے عروج پر تھی۔
بقول کوثر نیازی کہ اُس وقت لاہور کی بادشاہی مسجد میں دنیا بھر کے مسلمان سربراہان کا ایک ساتھ اپنے رب کے حضور سجدہ کرنا ہزاروں خطابات سے بڑھ کر پیغام تھا۔ یہ موقعہ تھا جب نہ کوئی اپوزیشن تھی اور نہ ہی کوئی درمیان میں رکاوٹ۔ اس کارنامے کے بعد ہر جگہ سے اٹھنے والی آوازیں بند ہو چکی تھی۔
بھٹو کو اُس وقت کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ ابھی مدت پوری نہیں ہوئی لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کہ پہلے سے اعلان کر دیا جائے لیکن کچھ دانشوروں کا خیال تھا کہ ایسا نہ کیا جائے اُن میں سے ہی ایک دانشور اس وقت جوڈیشل کمیشن میں بھی پہنچے ہیں۔ اگر وہ اُس وقت انتخابات کا اعلان کر دیتے تو یقینی طور پر انھیں کامیابی ملتی۔ اور پھر انھیں آرام سے پانچ سال اور مل جاتے۔ لیکن اپنی شہرت کا وقت انھوں نے اپنے چند رفقاء کی وجہ سے گنوا دیا۔
اس پورے قصے کے چند مہینوں بعدہی صورتحال تبدیل ہونے لگی۔ اور وقت گزر گیا۔ ملک بھر میں تحریک ختم نبوت کا آغاز ہو گیا۔ یوں تو اس پورے معاملے میں شدت1953 ء کے ہنگاموں سے تھی لیکن 1974ء میں اس تحریک میں شدت آ گئی اور بھٹو حکومت نے آئین کی دوسری ترمیم منظور کر لی۔ اب ماحول بدل چکا تھا۔
یہ ترمیم بھٹو حکومت نے منظور کی تھی۔ لیکن عوامی سطح پر اس کا سارا کریڈیٹ اُس وقت کی سرگرم مذہبی جماعتوں کو جارہا تھا۔ 7 ستمبر 1974ء کو آئیں میں یہ تبدیلی کی گئی۔ اور اُس وقت تک بھٹو کے لیے سیاسی ماحول بدل چکا تھا۔ آپ کو اس بات سے یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس ملک میں صرف چھ مہینے میں کیسی تبدیلیاں آ جاتی ہیں اور رائے عامہ کیسے تبدیل ہو جاتی ہے۔
جیسے ہی یہ بل پاس ہوا حکومتی سطح پر یوم تشکر کا اعلان کیا گیا۔ لیکن یہ یوم تشکر بھی مذہبی جماعتوں نے اپنے نام کر لیا۔ سیاسی طور پر اس کا کریڈٹ بھٹو حکومت نہ لے سکی۔اس بل کی منظوری اور یوم تشکر کے بعد 15 ستمبر کو بھٹو نے عبدالحفیظ پیرزادہ، رفیع رضا اور کوثر نیازی کو ڈنر پر بلایا۔ بھٹو نے ان لوگوں کے سامنے ایک سوال رکھا کہ یوم تشکر جس انداز سے منایا گیا اُس سے حکومت کو کیا فائدہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا حضرات زبردستی اس کا سہرا اپنے سر باندھ رہے ہیں۔
جس کے لیے ہمیں لوگوں کو اصل صورت حال بتانی چاہیے۔ حفیظ پیرزادہ صاحب کی رائے یہ تھی کہ لوگ اصل صورت حال جانتے ہیں مولویوں کے کتنے آدمی اسمبلیوں میں ہیں؟ عوام انھیں خوب جانتے ہیں، میرے خیال میں حکومت کو پورا کریڈیٹ ملا ہے۔ جب حفیظ صاحب اپنی بات پوری کر چکے تو بھٹو نے کوثر نیازی سے پوچھا۔ کوثر نیازی کے بقول وہ سمجھ گئے تھے کہ بھٹو اس سوال کہ پیچھے کیا پوچھنا چاہتے تھے۔ اس لیے کوثر نیازی نے کہا کہ علماء اس حوالے سے کافی وقت سے مہم چلا رہے تھے۔
لیکن میرے خیال سے آپ انتخابات کے نقطہ نظر سے پوچھ رہے تھے۔ اور بالکل بھٹو انتخابات کے حوالے سے ہی پوچھ رہے تھے۔ صرف چھ ماہ میں بھٹو کا گراف نیچے آ چکا تھا اور شہرت کا وہ وقت گزر چکا تھا جب انھیں انتخابات کی طرف بڑھ جانا چاہیے تھا۔ یوں تو بھٹو الیکشن اُس وقت بھی جیت جاتے اور اُس کے بعد بھی جیت ہی گئے۔ لیکن چند نشتوں کو مسئلہ بنا کر ایک قیامت کھڑی کی گئی۔ اُس وقت بھی لاہور کا ایک حلقہ 6 اور اب بھی لاہور کے ہی حلقے ہیں۔
لیکن کچھ فرق ہے۔ بھٹو یہ سوچتے رہے کہ اسلامی سربراہی کانفرنس اور بھارت سے قیدیوں کی واپسی جیسے کارنامے کے بعد اُن کی شہرت کا گراف برقرار رہے گا لیکن صرف چھ مہینے بعد ہی حالات بدل چکے تھے۔
اس لیے حالیہ سونامی بھی گزر چکی ہے انھیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وہ وقت گزر گیا جب ایک لہر آئی اور سب اُس طرف چل چکے۔ دوم اُس وقت بھی بھٹو کو اکثریت حاصل تھی لیکن چند نشتسوں کو ہی ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی ایک تحریک چلی اور چند ماہ پہلے بھی چلی۔ یہاں کچھ نہیں بدلے گا چند ناموں اور چند قصوں میں جگہیں بدل کر بس سارا پلاٹ پرانا ہی رہے گا۔ اس لیے تو شاید دنیا کو گول ہی بنایا گیا۔ سُنا ہے جی تھری کا نہیں اب تھری جی کا دور ہے۔ ہمیں تو ہمیشہ یہاں بس جی جی ہی نظر آیا ہے، تو آپ انجوائے کریں ہمارے موبائل کو کوئی بھی ''جی'' راس نہیں آیا کیونکہ ہمارے پاس تو وہ ہی سستا اور عوامی پیکیج ہے۔
جب ان لوگوں کے پاس طاقت اور شہرت آ جاتی ہے تو یہ اُس مست ہاتھی کی طرح ہو جاتے ہیں جو اپنے پیروں تلے سب کو روندھتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اور اُسے ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنی طاقت کو کس جگہ استعمال کر رہا ہے۔
ہمارے یہاں اکثر یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ لیکن جب کبھی انھیں تھوڑی سی عزت اور شہرت ہاتھ آ جائے تو ان کے پاس سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ان آدھی عقل کے لوگوں کو اگر آپ دیکھیں تو باخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں خود اتنی صلاحیت کبھی بھی نہیں رہی کہ وہ اعلیٰ مرتبے تک پہنچیں لیکن قسمت کے دھنی رہے۔
کبھی کسی حادثے نے انھیں لیڈر بنایا۔ تو اکثر یہ کسی کی انگلی پکڑ کر خود کو بھی بڑا محسوس کرنے لگے۔ جب ان کے پاس وقت ہوتا ہے سب کچھ کر گزرنے کا تو یہ اپنی انا کے بُت کو توڑ نہیں پاتے۔ اور جب وقت ہاتھ میں رکھی مٹی کی طرح نکل جاتا ہے تو یہ اُس وقت بھی اُسی گمان میں ہوتے ہیں کہ اب بھی دنیا انھیں سر پر بٹھانے کے لیے مچل رہی ہے۔
ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ 2013ء نہیں ہے بلکہ ان دو سالوں میں بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ اُس وقت جو لہر چلی تھی اب وہ ساحل سے ٹکرا چکی ہے۔ اور وہ وقت انھوں نے ضایع کر دیا ہے۔ اور سونامی گزر گئی۔
بات الجھ نہ جائے اس لیے تھوڑا سا پیچھے سے اس کو سمجھتے ہیں۔ کیسے جب سونامی آتی ہے تو ہمیں ہوش نہیں ہوتا اور جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم صرف پچھتاوا لے کر خود کو کوستے رہتے ہیں۔ پاکستان کا ایک حصہ الگ کر دیا گیا۔ ہمیں شکست ہوئی تھی اور اُس کے باوجود قوم کے جذبے حیرت انگیز تھے۔ وہ پر امید تھے اور اسی امید کی بنیاد پر 22 فروری 1974ء کو اسلامی سربراہی کانفرنس ہونے جا رہی تھی۔ وہ ہی مسلمانوں کی یکجہتی کا خواب جو علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔
وہ ہی خواب کہ جس کے لیے ہم ہمیشہ بے چین رہے۔ دنیا بھر کے 37 مسلمان ملکوں کے سربراہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آ رہے تھے۔ یہ یقینی طور پر بھٹو کا کارنامہ تھا۔ اور اس کی وجہ سے ہی پورے ملک میں بھٹو کا گراف اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ ایسا ہی جادو تھا جیسا کہ سونامی کے وقت ہمیں دکھایا جا رہا تھا۔ یہ الگ بحث ہے کہ سونامی راتوں رات کیسے لاہور سے ہیرو بنی اور بھٹو اور اُس کی کابینہ کو کیا کیا کرنا پڑا تھا۔
اُس وقت اُن کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ کچھ بھی کرتے تھے عوام اُن کے ساتھ تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ہم سے الگ ہو جانے والا حصہ جو اب بنگلہ دیش بن چکا تھا کیا اُس ملک کا سربراہ پاکستان آئے گا۔ اور اُس سے بڑھ کر یہ کہ کیا پاکستان اُسے اس کانفرنس میں بلائے گا۔ ہمارے زخم تازہ تھے ابھی تین سال ہی ہوئے تھے۔ اور بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس شروع ہونے کے ایک گھنٹے پندرہ منٹ پہلے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش اب ایک حقیقت ہے اُس سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا۔ اتنا بڑا فیصلہ کیا لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی کیونکہ اُس وقت ان کی شہرت اپنے عروج پر تھی۔
بقول کوثر نیازی کہ اُس وقت لاہور کی بادشاہی مسجد میں دنیا بھر کے مسلمان سربراہان کا ایک ساتھ اپنے رب کے حضور سجدہ کرنا ہزاروں خطابات سے بڑھ کر پیغام تھا۔ یہ موقعہ تھا جب نہ کوئی اپوزیشن تھی اور نہ ہی کوئی درمیان میں رکاوٹ۔ اس کارنامے کے بعد ہر جگہ سے اٹھنے والی آوازیں بند ہو چکی تھی۔
بھٹو کو اُس وقت کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ ابھی مدت پوری نہیں ہوئی لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کہ پہلے سے اعلان کر دیا جائے لیکن کچھ دانشوروں کا خیال تھا کہ ایسا نہ کیا جائے اُن میں سے ہی ایک دانشور اس وقت جوڈیشل کمیشن میں بھی پہنچے ہیں۔ اگر وہ اُس وقت انتخابات کا اعلان کر دیتے تو یقینی طور پر انھیں کامیابی ملتی۔ اور پھر انھیں آرام سے پانچ سال اور مل جاتے۔ لیکن اپنی شہرت کا وقت انھوں نے اپنے چند رفقاء کی وجہ سے گنوا دیا۔
اس پورے قصے کے چند مہینوں بعدہی صورتحال تبدیل ہونے لگی۔ اور وقت گزر گیا۔ ملک بھر میں تحریک ختم نبوت کا آغاز ہو گیا۔ یوں تو اس پورے معاملے میں شدت1953 ء کے ہنگاموں سے تھی لیکن 1974ء میں اس تحریک میں شدت آ گئی اور بھٹو حکومت نے آئین کی دوسری ترمیم منظور کر لی۔ اب ماحول بدل چکا تھا۔
یہ ترمیم بھٹو حکومت نے منظور کی تھی۔ لیکن عوامی سطح پر اس کا سارا کریڈیٹ اُس وقت کی سرگرم مذہبی جماعتوں کو جارہا تھا۔ 7 ستمبر 1974ء کو آئیں میں یہ تبدیلی کی گئی۔ اور اُس وقت تک بھٹو کے لیے سیاسی ماحول بدل چکا تھا۔ آپ کو اس بات سے یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس ملک میں صرف چھ مہینے میں کیسی تبدیلیاں آ جاتی ہیں اور رائے عامہ کیسے تبدیل ہو جاتی ہے۔
جیسے ہی یہ بل پاس ہوا حکومتی سطح پر یوم تشکر کا اعلان کیا گیا۔ لیکن یہ یوم تشکر بھی مذہبی جماعتوں نے اپنے نام کر لیا۔ سیاسی طور پر اس کا کریڈٹ بھٹو حکومت نہ لے سکی۔اس بل کی منظوری اور یوم تشکر کے بعد 15 ستمبر کو بھٹو نے عبدالحفیظ پیرزادہ، رفیع رضا اور کوثر نیازی کو ڈنر پر بلایا۔ بھٹو نے ان لوگوں کے سامنے ایک سوال رکھا کہ یوم تشکر جس انداز سے منایا گیا اُس سے حکومت کو کیا فائدہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا حضرات زبردستی اس کا سہرا اپنے سر باندھ رہے ہیں۔
جس کے لیے ہمیں لوگوں کو اصل صورت حال بتانی چاہیے۔ حفیظ پیرزادہ صاحب کی رائے یہ تھی کہ لوگ اصل صورت حال جانتے ہیں مولویوں کے کتنے آدمی اسمبلیوں میں ہیں؟ عوام انھیں خوب جانتے ہیں، میرے خیال میں حکومت کو پورا کریڈیٹ ملا ہے۔ جب حفیظ صاحب اپنی بات پوری کر چکے تو بھٹو نے کوثر نیازی سے پوچھا۔ کوثر نیازی کے بقول وہ سمجھ گئے تھے کہ بھٹو اس سوال کہ پیچھے کیا پوچھنا چاہتے تھے۔ اس لیے کوثر نیازی نے کہا کہ علماء اس حوالے سے کافی وقت سے مہم چلا رہے تھے۔
لیکن میرے خیال سے آپ انتخابات کے نقطہ نظر سے پوچھ رہے تھے۔ اور بالکل بھٹو انتخابات کے حوالے سے ہی پوچھ رہے تھے۔ صرف چھ ماہ میں بھٹو کا گراف نیچے آ چکا تھا اور شہرت کا وہ وقت گزر چکا تھا جب انھیں انتخابات کی طرف بڑھ جانا چاہیے تھا۔ یوں تو بھٹو الیکشن اُس وقت بھی جیت جاتے اور اُس کے بعد بھی جیت ہی گئے۔ لیکن چند نشتوں کو مسئلہ بنا کر ایک قیامت کھڑی کی گئی۔ اُس وقت بھی لاہور کا ایک حلقہ 6 اور اب بھی لاہور کے ہی حلقے ہیں۔
لیکن کچھ فرق ہے۔ بھٹو یہ سوچتے رہے کہ اسلامی سربراہی کانفرنس اور بھارت سے قیدیوں کی واپسی جیسے کارنامے کے بعد اُن کی شہرت کا گراف برقرار رہے گا لیکن صرف چھ مہینے بعد ہی حالات بدل چکے تھے۔
اس لیے حالیہ سونامی بھی گزر چکی ہے انھیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وہ وقت گزر گیا جب ایک لہر آئی اور سب اُس طرف چل چکے۔ دوم اُس وقت بھی بھٹو کو اکثریت حاصل تھی لیکن چند نشتسوں کو ہی ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی ایک تحریک چلی اور چند ماہ پہلے بھی چلی۔ یہاں کچھ نہیں بدلے گا چند ناموں اور چند قصوں میں جگہیں بدل کر بس سارا پلاٹ پرانا ہی رہے گا۔ اس لیے تو شاید دنیا کو گول ہی بنایا گیا۔ سُنا ہے جی تھری کا نہیں اب تھری جی کا دور ہے۔ ہمیں تو ہمیشہ یہاں بس جی جی ہی نظر آیا ہے، تو آپ انجوائے کریں ہمارے موبائل کو کوئی بھی ''جی'' راس نہیں آیا کیونکہ ہمارے پاس تو وہ ہی سستا اور عوامی پیکیج ہے۔