یادوں کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
گماںتم کو کہ سفر کٹ رہاہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
یہ مئی 2005 کا واقعہ ہے۔جنوبی ایشیاء میں غربت کے خاتمے کے لیے قائم تنظیم نے سری لنکا کے شہر کینڈی میں پانچ روزہ مشاورت کا اہتمام کیا۔ جس میں جنوبی ایشیاء کے ہر ملک سے مندوبین شریک تھے۔
بنگلہ دیش سے بھی ایک پانچ رکنی وفد آیا تھا،جس کی قیادت ڈاکٹر عبدالصمد کررہے تھے۔ ڈاکٹر صمد معاشیات میں پی ایچ ڈی ہیں اور اس زمانے میں بنگلہ دیش حکومت کے اقتصادی مشیر ہوا کرتے تھے لیکن بنیادی طورپر وہ بیوروکریٹ تھے،جو1964 میں متحدہ پاکستان کی سول سروس کی اسی بیج میں تھے،جس میں معروف سماجی کارکن اور سندھ کے سابق چیف سیکریٹری تسنیم صدیقی بھی تھے ۔ سقوط ڈھاکا کے وقت ڈاکٹرصمد ٹھٹھہ کے اسسٹنٹ کمشنر تھے۔کینڈی میں پانچ روزہ قیام کے دوران میرا یہ معمول تھا کہ شام کے اوقات بنگالی دوستوں کے ساتھ گذارتا، تاکہ علیحدگی جیسے بڑے فیصلوں کے محرکات کو سمجھ سکوں۔
ڈاکٹرصمد نے کئی انکشافات کیے لیکن سب سے اہم انکشاف امریکا میں سول سروس کے نوجوان افسران کی تربیت کا واقعہ ہے۔ فورڈ فاؤنڈیشن نے 1965 کے اوائل میںسول سروس کے پچاس نئے افسران کو تین ماہ کی تربیت کے لیے واشنگٹن مدعوکیا۔ فارمولے کے تحت مغربی اورمشرقی پاکستان سے25 ، 25 افسران کا انتخاب کیا گیا۔مشرقی پاکستان سے22بنگالی اور3غیر بنگالی افسران اس گروپ میں شامل تھے۔
ڈاکٹر صمد بتاتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام افسران ٹریننگ پر نہیں بلکہ تفریح کے لیے امریکا آئے ہیں۔دن بھرگھومتے رہتے اورکلاس میں دیر سے آتے۔جب کہ بنگالی نوجوان افسران پوری توجہ کے ساتھ کلاس میں بیٹھتے، نوٹس لیتے اور شام کو دن بھر کے لیکچرز پر بحث ومباحثہ کرتے۔کئی بار مغربی پاکستانی افسران نے انھیںشامیں باہر گذارنے کی دعوت دی۔ مگر جب بنگالی افسران نے معذرت کی تو ان کا تمسخر اڑایا گیا۔
ڈاکٹر صمد کا کہنا تھا کہ یوں تین ماہ گذرگئے اور ہم واپس آگئے۔ مغربی پاکستان کے افسران کے ساتھ سامان تعیش تھا، جب کہ بنگالی افسران کے سامان میںنوٹس سے بھری تین کاپیاں تھیں۔1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد ان افسران نے ایک دوسرے سے رابطہ کرکے فورڈ فاؤنڈیشن میں تربیت کے دوران حاصل کردہ نوٹس کی بنیاد پراپنے ملک کی معیشت کو استوار کرنا شروع کردیا۔یوں محض چند ماہ کی محنت کے بعد وہ اپنے ملک کی معیشت کو اس کے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس وفد میں دو ایسے مندوب بھی شامل تھے، جو مکتی باہنی میںفعال رہے تھے مگر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے سماجی سرگرمیوںمیں مصروف ہوگئے ہیں۔ان میں سے ایک کا نام میری یادداشت کے مطابق عبدالحئی تھا۔جب ان سے پوچھا کہ وہ مکتی باہنی میں کیوں شامل ہوئے اور کس لیے مسلح جدوجہد کی؟ ان کا کہنا تھا کہ زیادتیوں کا سلسلہ اتنا طویل ہوگیا تھا کہ بنگالی عوام جو کبھی پاکستان بنانے کے لیے فعال تھے،پاکستان سے علیحدگی پر مجبور ہوگئے۔
ان کا کہنا تھاکہ بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستانیں اتنی زیادہ ہیںکہ انھیں بیان کرنے کے لیے کئی ماہ درکار ہیں۔ لیکن آپ کی معلومات کے لیے چند واقعات اختصار کے ساتھ بیان کیے دیتا ہوں۔پہلا واقعہ یہ ہے کہ 1965ء کی جنگ کے بعد کالجوں میں NCCپروگرام شروع کیا گیا۔ہم نے بھی یہ تربیت حاصل کی۔تربیت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک افسردیا کرتے تھے،جن کا رویہ درست نہ تھا۔ ذرا سی غلطی پر پوری بنگالی قوم کو مغلظات سے نواز دیتے تھے۔
ان کا دعویٰ تھاکہ بنگالیوں میں فوجی بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔اکثر کہتے کہ تم لوگ ملک پر بوجھ بنے ہوئے ہو،وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ سن کر ہمارا دل کڑھتا، مگر خاموش رہتے۔ایسے ان گنت واقعات ہیں جو قیام پاکستان کے بعد سے بنگالیوں کے ساتھ روز کا معمول تھے۔
عبدالحئی کا کہنا تھا کہ بابائے قوم کوچوہدری محمد علی میںنہ جانے کیا خوبیاںنظرآئیں کہ انھیں ملک کا سیکریٹری جنرل مقرر کر کے تمامتر انتظامی اختیارات انھیں تفویض کردیے۔حالانکہ وہ ایک متعصب انسان تھے۔انھوں نے بنگالیوں کے علاوہ ہجرت کر کے آنے والی بیوروکریسی سے بھی اچھا سلوک نہیں کیا۔ جس کے ثبوت میں کئی کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
جنھیں اب تک جھٹلایا نہیں جا سکا ہے۔ انھوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ بنگالیوں کو توقع تھی کہ ہجرت کرکے آنے والے اپنے مڈل کلاس کردار کی وجہ سے ان کا ساتھ دیں گے۔کیونکہ مغربی پاکستان میںآباد تمام اکائیاں قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری کلچر میں جکڑی ہوئی تھیں ۔مگر اردو بولنے والی مڈل کلاس نے طبقاتی تعلق کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف زبان کی بنیاد پر اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔ جس نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد انھیںبھی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔
مکتی باہنی کے قیام کے بارے میں عبدالحئی کا کہنا تھا کہ1970 کے انتخابات سے قبل جب پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے جنرل شیر علی خان کے ذریعہ ایک مذہبی جماعت کو مسلح کیا اس کے ردعمل میں مکتی باہنی قائم ہوئی۔اس مذہبی جماعت کے عسکری ونگز نے بنگالی عوام کے ساتھ جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگالی عوام احسان فراموش نہیں ہیں۔ جن شخصیات نے بنگال کی خدمت کی ، بنگالی عوام انھیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔جن میں جنرل اعظم خان مرحوم، سابق گورنر اختر حسین مرحوم، معروف سماجی کارکن اورسابق بیوروکریٹ اختر حمید خان مرحوم شامل ہیں۔جب کہ ائیر مارشل اصغر خان اور خان عبدالولی خان کے علاوہ حبیب جالب، پروفیسر وارث میر اوردیگر کئی اہل دانش کوبنگال میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے ضمیر کو لسانی شناخت پر ترجیح دی۔
عبدالحی نے مزید کہا کہ آپ نہ تو ہماری باتوں پریقین کریں اور نہ ہمارے قلمکاروں کی کتابوں کا حوالہ دیں۔ بلکہ ان کتب اور دستاویزات کو دیکھیں جو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قلمکاروں نے تحریر کی ہیں۔انھوں نے خاص طورپر بریگیڈئیرصدیق سالک کی کتابWitness to Surrenderکا حوالہ دیا، جس کا اردو ترجمہ '' میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا'' ہے۔
اس کتاب میںمصنف نے آپریشن کے دوران اسٹبلشمنٹ کے بنگالی عوام بالخصوص خواتین کے ساتھ تضحیک آمیز رویوں اور زیادتیوں کا کھل کر ذکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران جب بنگالی نوجوان پکڑے جاتے تو ان کے چہروں کو قمیضوں سے اس طرح ڈھانپا جاتا جیسے جنگی قیدی ہوں۔اس عمل نے نفرتوں کو بڑھانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔
عبدالحئی کی گفتگو سن کر ہمیں 1992 کا آپریشن یاد آگیا۔ عبدالحئی نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے کہ پاکستان ایک وفاق نہیں بلکہ ایک صوبے کی نوآبادی ہے، جس کے ہاتھ میں بندوق بھی ہے اور سیاسی طاقت بھی۔ بلکہ اب تو ذرایع ابلاغ پر بھی اس کا کنٹرول ہے۔ جس کی مدد سے وہ جب چاہے،جہاں چاہے کسی بھی شخص یا جماعت کا میڈیا سمیت ہر قسم کا ٹرائل کرسکتا ہے۔
سابقہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں حبیب جالب نے کہا تھا کہ
محبت گولیوں سے بورہے ہو،وطن کا چہرہ خوں سے دھورہے ہو
گماںتم کو کہ سفر کٹ رہاہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
مگر ایسالگتاہے کہ حکمران اشرافیہ نے سقوط ڈھاکا سے کوئی سبق نہیں سیکھنا،اسی لیے انھیں منزل کھوجانے کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔یہی سبب ہے کہ عوام کو ان کے جمہوری حقوق دینے کے بجائے ہر چند برس بعد کسی نہ کسی صوبے یا شہر پر آپریشن کے نام پر شب خون مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔یہ واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ حکمرانوں کو وفاقیت کے تصور کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ وہ اس ملک کو وحدانی ریاست میں تبدیل کرنے پر مصر ہیں۔
گزشتہ پیرکو چین کے صدر کی آمد کے موقعے پر صرف وزیر اعلیٰ پنجاب موجود تھے۔باقی تین وزرائے اعلیٰ کو نہیں بلایا گیا،انھیں بھی بلایا جاتا تو اچھا ہوتا ۔ حکومت کچھ بھی کہتی رہے، عوام حکمرانوں کے طرز عمل کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں۔
بنگلہ دیش سے بھی ایک پانچ رکنی وفد آیا تھا،جس کی قیادت ڈاکٹر عبدالصمد کررہے تھے۔ ڈاکٹر صمد معاشیات میں پی ایچ ڈی ہیں اور اس زمانے میں بنگلہ دیش حکومت کے اقتصادی مشیر ہوا کرتے تھے لیکن بنیادی طورپر وہ بیوروکریٹ تھے،جو1964 میں متحدہ پاکستان کی سول سروس کی اسی بیج میں تھے،جس میں معروف سماجی کارکن اور سندھ کے سابق چیف سیکریٹری تسنیم صدیقی بھی تھے ۔ سقوط ڈھاکا کے وقت ڈاکٹرصمد ٹھٹھہ کے اسسٹنٹ کمشنر تھے۔کینڈی میں پانچ روزہ قیام کے دوران میرا یہ معمول تھا کہ شام کے اوقات بنگالی دوستوں کے ساتھ گذارتا، تاکہ علیحدگی جیسے بڑے فیصلوں کے محرکات کو سمجھ سکوں۔
ڈاکٹرصمد نے کئی انکشافات کیے لیکن سب سے اہم انکشاف امریکا میں سول سروس کے نوجوان افسران کی تربیت کا واقعہ ہے۔ فورڈ فاؤنڈیشن نے 1965 کے اوائل میںسول سروس کے پچاس نئے افسران کو تین ماہ کی تربیت کے لیے واشنگٹن مدعوکیا۔ فارمولے کے تحت مغربی اورمشرقی پاکستان سے25 ، 25 افسران کا انتخاب کیا گیا۔مشرقی پاکستان سے22بنگالی اور3غیر بنگالی افسران اس گروپ میں شامل تھے۔
ڈاکٹر صمد بتاتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام افسران ٹریننگ پر نہیں بلکہ تفریح کے لیے امریکا آئے ہیں۔دن بھرگھومتے رہتے اورکلاس میں دیر سے آتے۔جب کہ بنگالی نوجوان افسران پوری توجہ کے ساتھ کلاس میں بیٹھتے، نوٹس لیتے اور شام کو دن بھر کے لیکچرز پر بحث ومباحثہ کرتے۔کئی بار مغربی پاکستانی افسران نے انھیںشامیں باہر گذارنے کی دعوت دی۔ مگر جب بنگالی افسران نے معذرت کی تو ان کا تمسخر اڑایا گیا۔
ڈاکٹر صمد کا کہنا تھا کہ یوں تین ماہ گذرگئے اور ہم واپس آگئے۔ مغربی پاکستان کے افسران کے ساتھ سامان تعیش تھا، جب کہ بنگالی افسران کے سامان میںنوٹس سے بھری تین کاپیاں تھیں۔1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد ان افسران نے ایک دوسرے سے رابطہ کرکے فورڈ فاؤنڈیشن میں تربیت کے دوران حاصل کردہ نوٹس کی بنیاد پراپنے ملک کی معیشت کو استوار کرنا شروع کردیا۔یوں محض چند ماہ کی محنت کے بعد وہ اپنے ملک کی معیشت کو اس کے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس وفد میں دو ایسے مندوب بھی شامل تھے، جو مکتی باہنی میںفعال رہے تھے مگر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے سماجی سرگرمیوںمیں مصروف ہوگئے ہیں۔ان میں سے ایک کا نام میری یادداشت کے مطابق عبدالحئی تھا۔جب ان سے پوچھا کہ وہ مکتی باہنی میں کیوں شامل ہوئے اور کس لیے مسلح جدوجہد کی؟ ان کا کہنا تھا کہ زیادتیوں کا سلسلہ اتنا طویل ہوگیا تھا کہ بنگالی عوام جو کبھی پاکستان بنانے کے لیے فعال تھے،پاکستان سے علیحدگی پر مجبور ہوگئے۔
ان کا کہنا تھاکہ بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستانیں اتنی زیادہ ہیںکہ انھیں بیان کرنے کے لیے کئی ماہ درکار ہیں۔ لیکن آپ کی معلومات کے لیے چند واقعات اختصار کے ساتھ بیان کیے دیتا ہوں۔پہلا واقعہ یہ ہے کہ 1965ء کی جنگ کے بعد کالجوں میں NCCپروگرام شروع کیا گیا۔ہم نے بھی یہ تربیت حاصل کی۔تربیت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک افسردیا کرتے تھے،جن کا رویہ درست نہ تھا۔ ذرا سی غلطی پر پوری بنگالی قوم کو مغلظات سے نواز دیتے تھے۔
ان کا دعویٰ تھاکہ بنگالیوں میں فوجی بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔اکثر کہتے کہ تم لوگ ملک پر بوجھ بنے ہوئے ہو،وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ سن کر ہمارا دل کڑھتا، مگر خاموش رہتے۔ایسے ان گنت واقعات ہیں جو قیام پاکستان کے بعد سے بنگالیوں کے ساتھ روز کا معمول تھے۔
عبدالحئی کا کہنا تھا کہ بابائے قوم کوچوہدری محمد علی میںنہ جانے کیا خوبیاںنظرآئیں کہ انھیں ملک کا سیکریٹری جنرل مقرر کر کے تمامتر انتظامی اختیارات انھیں تفویض کردیے۔حالانکہ وہ ایک متعصب انسان تھے۔انھوں نے بنگالیوں کے علاوہ ہجرت کر کے آنے والی بیوروکریسی سے بھی اچھا سلوک نہیں کیا۔ جس کے ثبوت میں کئی کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
جنھیں اب تک جھٹلایا نہیں جا سکا ہے۔ انھوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ بنگالیوں کو توقع تھی کہ ہجرت کرکے آنے والے اپنے مڈل کلاس کردار کی وجہ سے ان کا ساتھ دیں گے۔کیونکہ مغربی پاکستان میںآباد تمام اکائیاں قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری کلچر میں جکڑی ہوئی تھیں ۔مگر اردو بولنے والی مڈل کلاس نے طبقاتی تعلق کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف زبان کی بنیاد پر اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔ جس نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد انھیںبھی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔
مکتی باہنی کے قیام کے بارے میں عبدالحئی کا کہنا تھا کہ1970 کے انتخابات سے قبل جب پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے جنرل شیر علی خان کے ذریعہ ایک مذہبی جماعت کو مسلح کیا اس کے ردعمل میں مکتی باہنی قائم ہوئی۔اس مذہبی جماعت کے عسکری ونگز نے بنگالی عوام کے ساتھ جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگالی عوام احسان فراموش نہیں ہیں۔ جن شخصیات نے بنگال کی خدمت کی ، بنگالی عوام انھیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔جن میں جنرل اعظم خان مرحوم، سابق گورنر اختر حسین مرحوم، معروف سماجی کارکن اورسابق بیوروکریٹ اختر حمید خان مرحوم شامل ہیں۔جب کہ ائیر مارشل اصغر خان اور خان عبدالولی خان کے علاوہ حبیب جالب، پروفیسر وارث میر اوردیگر کئی اہل دانش کوبنگال میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے ضمیر کو لسانی شناخت پر ترجیح دی۔
عبدالحی نے مزید کہا کہ آپ نہ تو ہماری باتوں پریقین کریں اور نہ ہمارے قلمکاروں کی کتابوں کا حوالہ دیں۔ بلکہ ان کتب اور دستاویزات کو دیکھیں جو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قلمکاروں نے تحریر کی ہیں۔انھوں نے خاص طورپر بریگیڈئیرصدیق سالک کی کتابWitness to Surrenderکا حوالہ دیا، جس کا اردو ترجمہ '' میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا'' ہے۔
اس کتاب میںمصنف نے آپریشن کے دوران اسٹبلشمنٹ کے بنگالی عوام بالخصوص خواتین کے ساتھ تضحیک آمیز رویوں اور زیادتیوں کا کھل کر ذکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران جب بنگالی نوجوان پکڑے جاتے تو ان کے چہروں کو قمیضوں سے اس طرح ڈھانپا جاتا جیسے جنگی قیدی ہوں۔اس عمل نے نفرتوں کو بڑھانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔
عبدالحئی کی گفتگو سن کر ہمیں 1992 کا آپریشن یاد آگیا۔ عبدالحئی نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے کہ پاکستان ایک وفاق نہیں بلکہ ایک صوبے کی نوآبادی ہے، جس کے ہاتھ میں بندوق بھی ہے اور سیاسی طاقت بھی۔ بلکہ اب تو ذرایع ابلاغ پر بھی اس کا کنٹرول ہے۔ جس کی مدد سے وہ جب چاہے،جہاں چاہے کسی بھی شخص یا جماعت کا میڈیا سمیت ہر قسم کا ٹرائل کرسکتا ہے۔
سابقہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں حبیب جالب نے کہا تھا کہ
محبت گولیوں سے بورہے ہو،وطن کا چہرہ خوں سے دھورہے ہو
گماںتم کو کہ سفر کٹ رہاہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
مگر ایسالگتاہے کہ حکمران اشرافیہ نے سقوط ڈھاکا سے کوئی سبق نہیں سیکھنا،اسی لیے انھیں منزل کھوجانے کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔یہی سبب ہے کہ عوام کو ان کے جمہوری حقوق دینے کے بجائے ہر چند برس بعد کسی نہ کسی صوبے یا شہر پر آپریشن کے نام پر شب خون مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔یہ واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ حکمرانوں کو وفاقیت کے تصور کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ وہ اس ملک کو وحدانی ریاست میں تبدیل کرنے پر مصر ہیں۔
گزشتہ پیرکو چین کے صدر کی آمد کے موقعے پر صرف وزیر اعلیٰ پنجاب موجود تھے۔باقی تین وزرائے اعلیٰ کو نہیں بلایا گیا،انھیں بھی بلایا جاتا تو اچھا ہوتا ۔ حکومت کچھ بھی کہتی رہے، عوام حکمرانوں کے طرز عمل کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں۔