ضمنی انتخابات سے انقلاب نہیں آجائے گا
کراچی میں نبیل گبول کے استعفے سے خالی ہونے والی نشست پر آج 23 اپریل کو انتخابات ہو رہے ہیں۔
کراچی میں نبیل گبول کے استعفے سے خالی ہونے والی نشست پر آج 23 اپریل کو انتخابات ہو رہے ہیں۔اس نشست کے انتخابات کو ہماری سیاسی جماعتوں نے ایک ایسا ہوّا بنادیا ہے اور انتخابی لڑائی اس طرح لڑ رہے ہیں کہ یہ پانی پت کی جنگ بن گئی ہے اور تاثر کچھ ایسا بن گیا ہے کہ جو اس نشست کو جیت لے گا وہ اس ملک میں انقلاب لے آئے گا۔
ہمارے ملک میں 1970 سے اب تک جو انتخابات ہوتے رہے ہیں، ان کی حیثیت ایک لاحاصل مشق کے علاوہ کچھ نہیں رہی، ہر انتخاب کے بعد عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہا کمی کبھی نہیں آئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نشست کوئی بھی سیاسی پارٹی جیت لے عوام کو اس کا کیا فائدہ ملے گا؟ عوام جن مسائل میں 68 سال سے گرفتار ہیں ان میں کمی آنے کا تو کوئی سوال نہیں ،البتہ اضافہ ہونے کا پورا پورا امکان ہے عزیز آباد اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل یہ نشست متحدہ کے پاس رہی ہے کیونکہ یہ حلقہ 90 سے ملحق ہے اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ اس نشست پر متحدہ ہی کامیاب ہوگی۔ لیکن صورتحال کچھ ایسی بنا دی گئی ہے کہ اس علاقے کا ووٹر سخت کنفیوژن کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔
اس سیٹ کے لیے جو پارٹیاں مدمقابل ہیں ان میں متحدہ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ جب سے متحدہ کے خلاف آپریشن شروع ہوا ہے اور اس کے متعدد کارکن سنگین الزامات میں گرفتار ہیں، سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحدہ کے خلاف سخت مہم چلانے میں مصروف ہیں بورژوا جمہوریت میں انتخابی مہمیں عموماً خوش کن وعدوں پر چلائی جاتی ہیں۔
ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں خواہ عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابات ہر جماعت عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہے اور عوام جس جماعت کے منشورکو بہتر سمجھتے ہیں اسے ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں اور کامیاب ہونے والی جماعت پابند ہوتی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کیے ہوئے وعدے پورے کرے چونکہ انتخابات میں حصہ لینے والے اور انتخابات جیتنے والوں کو عوام میں رہنا ہوتا ہے اور عوام کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے اس لیے انتخاب جیتنے والی جماعت کی کوشش ہی نہیں بلکہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کرے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابات لڑنے والے اپنی جماعت کے منشور پر زیادہ زور دیتے ہیں اور مخالف جماعتوں کے امیدواروں اور ان کی پارٹیوں کی بے جواز مخالفت سے گریز کرتے ہیں۔ اسے ہم ترقی یافتہ ملکوں کی انتخابی اخلاقیات کہہ سکتے ہیں اس کلچر سے ووٹر کی توجہ جماعتوں کے منشور پر ہوتی ہے وہ جماعتوں کے اختلافات میں نہیں الجھتا انتخابی مہم بدمزگیوں سے پاک ہوتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے آپریشن کا سلسلہ جاری ہے متحدہ کے نچلی سطح کے کارکنوں سے لے کر اعلیٰ سطح کی قیادت تک سب سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ کراچی کے شہری عشروں سے ایک غیر محفوظ اور دہشت زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، جبری چندہ، بھتہ، اغوا برائے تاوان، عام ڈکیتیاں، بینک ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائمز نے کراچی کے عوام کی زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے۔ عوام ہر قیمت پر ان عذابوں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور جو جو جماعتیں ان جرائم میں ملوث ہیں ان کا بلاامتیاز غیرجانبدارانہ احتساب بلکہ کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ عوام میں اگر یہ تاثر پیدا ہوا کہ احتساب امتیازی یا جانبدارانہ ہے تو ایسے احتساب کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے نتائج بھی مایوس کن ہی ہوتے ہیں، لہٰذا اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ احتساب ہر قیمت پر غیرجانبدارانہ اور بلاامتیاز ہو۔
ہماری جمہوریت اور انتخابی نظام پرگفتگوکرنا اس لیے وقت کا زیاں ہے کہ ہماری جمہوریت ایلیٹ یا اشرافیہ کی یرغمالی ہے۔ 68 سالوں سے ہماری زمینی اور صنعتی اشرافیہ اور اس کے اتحادی اس نام نہاد جمہوریت پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اس جمہوریت میں دھاندلی اس کا لازمی حصہ ہے ۔
بھٹو مرحوم کے 1977 میں کرائے ہوئے انتخابات پر بھی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور ان الزامات کے حوالے سے 9 ستاروں نے جو تحریک چلائی اس کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان الزامات کے نتیجے میں نہ صرف بھٹو سے اقتدار چھین لیا گیا بلکہ انھیں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔
یہ احتساب نہیں بلکہ ایک بدترین اور اقتدار کے بھوکے آمر کا اپنے محسن کے خلاف بے جواز انتقام تھا۔ اگر یہ انتخابی دھاندلی کی تحقیق تک محدود ہوتا تو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ چند سیٹوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کو اتنی دور تک لے جایا گیا کہ بھٹو کی گردن پھانسی کے پھندے میں آگئی۔
اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ وہ نو ستارے جو امریکی اسپانسر تحریک کی قیادت کر رہے تھے وہ رغبت کے ساتھ ضیا الحق کی کابینہ میں شریک ہوگئے ۔ 1977 کے مرد مومن مرد حق نے طاقت کے بل پر بھٹو کی جان تو لے لی لیکن پاکستان کے عوام اور ساری دنیا آج تک ضیا الحق پر اس قتل پر برا بھلا کہتی ہے۔
2013کے الیکشن میں مبینہ طور پر ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحقیق کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔ ہم اس کی تفصیل میں جائے بغیر اپنی توجہ اس حقیقت پر مرکوز رکھتے ہیں کہ اس جوڈیشل کمیشن کی تحقیق کے دو ہی ممکنہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اول یہ کہ دھاندلی کے الزامات غلط ہیں دوئم یہ کہ دھاندلی ثابت ہوگئی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ہوگا کیا؟
اگر دھاندلی کے الزامات گواہوں ثبوتوں کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے غلط ثابت ہوجائیں تو دھاندلی کا کلچر اور مضبوط ہوجائے گا اور اگر دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ مڈٹرم الیکشن ہوجائیں گے۔
اگر مڈٹرم الیکشن ہوجائیں تو ان میں فرشتے منتخب ہوکر نہیں آئیں گئے بلکہ وہی کرپٹ مافیا منتخب ہوکر پانچ سال کے لیے عوام کے سر پر مسلط ہوجائے گی۔ 1977 کی تحریک کا روح رواں امریکا تھا لیکن اس کا علم عوام کو نہیں تھا بلکہ فہمیدہ حلقوں ہی کو پتہ تھا کہ امریکا ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے سے انکار پر بھٹو سے ناراض بلکہ اس حد تک مشتعل تھا کہ اس کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو عبرت ناک انجام کی دھمکی دی تھی جس پر عملدرآمد ضیا الحق نے کیا۔
ہم نے کالم کا آغاز کراچی کی بدترین صورتحال سے کیا تھا اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ کراچی کا ہر شہری کراچی کے بدترین حالات، خوف و دہشت کی فضا سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے ایک آپریشن بھی جاری ہے۔
کراچی کے بہتر مستقبل کے لیے اس آپریشن کو کامیاب ہونا چاہیے لیکن اس کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہر اس مجرم تک پہنچا جائے جو کراچی کی بدامنی اور شہرمیں ہونے والے سنگین جرائم میں ملوث ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت یا گروہ سے ہو، اگر ایسا نہ ہوا اور آپریشن کا دائرہ محدود رہا تو پھر کراچی کو ان عذابوں سے بچانا مشکل ہے جو 68 سال سے کراچی کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔
حلقہ 246کے ضمنی انتخابات کی ذرہ برابر اہمیت اس لیے نہیں کہ یہ سیٹ کوئی بھی جیت لے کراچی میں کوئی انقلاب نہیں آئے گا بلکہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہماری سیاست ہماری جمہوریت میں اب تک ہوتا رہا ہے اس ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ الزامات کی مہم چلانے کے بجائے کراچی میں یہ سیٹ جیت کر کیا تبدیلیاں لائیں گے کیا کارنامے انجام دیں گے اس پر زور دیں۔
ہمارے ملک میں 1970 سے اب تک جو انتخابات ہوتے رہے ہیں، ان کی حیثیت ایک لاحاصل مشق کے علاوہ کچھ نہیں رہی، ہر انتخاب کے بعد عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہا کمی کبھی نہیں آئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نشست کوئی بھی سیاسی پارٹی جیت لے عوام کو اس کا کیا فائدہ ملے گا؟ عوام جن مسائل میں 68 سال سے گرفتار ہیں ان میں کمی آنے کا تو کوئی سوال نہیں ،البتہ اضافہ ہونے کا پورا پورا امکان ہے عزیز آباد اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل یہ نشست متحدہ کے پاس رہی ہے کیونکہ یہ حلقہ 90 سے ملحق ہے اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ اس نشست پر متحدہ ہی کامیاب ہوگی۔ لیکن صورتحال کچھ ایسی بنا دی گئی ہے کہ اس علاقے کا ووٹر سخت کنفیوژن کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔
اس سیٹ کے لیے جو پارٹیاں مدمقابل ہیں ان میں متحدہ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ جب سے متحدہ کے خلاف آپریشن شروع ہوا ہے اور اس کے متعدد کارکن سنگین الزامات میں گرفتار ہیں، سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحدہ کے خلاف سخت مہم چلانے میں مصروف ہیں بورژوا جمہوریت میں انتخابی مہمیں عموماً خوش کن وعدوں پر چلائی جاتی ہیں۔
ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں خواہ عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابات ہر جماعت عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہے اور عوام جس جماعت کے منشورکو بہتر سمجھتے ہیں اسے ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں اور کامیاب ہونے والی جماعت پابند ہوتی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کیے ہوئے وعدے پورے کرے چونکہ انتخابات میں حصہ لینے والے اور انتخابات جیتنے والوں کو عوام میں رہنا ہوتا ہے اور عوام کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے اس لیے انتخاب جیتنے والی جماعت کی کوشش ہی نہیں بلکہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کرے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابات لڑنے والے اپنی جماعت کے منشور پر زیادہ زور دیتے ہیں اور مخالف جماعتوں کے امیدواروں اور ان کی پارٹیوں کی بے جواز مخالفت سے گریز کرتے ہیں۔ اسے ہم ترقی یافتہ ملکوں کی انتخابی اخلاقیات کہہ سکتے ہیں اس کلچر سے ووٹر کی توجہ جماعتوں کے منشور پر ہوتی ہے وہ جماعتوں کے اختلافات میں نہیں الجھتا انتخابی مہم بدمزگیوں سے پاک ہوتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے آپریشن کا سلسلہ جاری ہے متحدہ کے نچلی سطح کے کارکنوں سے لے کر اعلیٰ سطح کی قیادت تک سب سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ کراچی کے شہری عشروں سے ایک غیر محفوظ اور دہشت زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، جبری چندہ، بھتہ، اغوا برائے تاوان، عام ڈکیتیاں، بینک ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائمز نے کراچی کے عوام کی زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے۔ عوام ہر قیمت پر ان عذابوں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور جو جو جماعتیں ان جرائم میں ملوث ہیں ان کا بلاامتیاز غیرجانبدارانہ احتساب بلکہ کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ عوام میں اگر یہ تاثر پیدا ہوا کہ احتساب امتیازی یا جانبدارانہ ہے تو ایسے احتساب کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے نتائج بھی مایوس کن ہی ہوتے ہیں، لہٰذا اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ احتساب ہر قیمت پر غیرجانبدارانہ اور بلاامتیاز ہو۔
ہماری جمہوریت اور انتخابی نظام پرگفتگوکرنا اس لیے وقت کا زیاں ہے کہ ہماری جمہوریت ایلیٹ یا اشرافیہ کی یرغمالی ہے۔ 68 سالوں سے ہماری زمینی اور صنعتی اشرافیہ اور اس کے اتحادی اس نام نہاد جمہوریت پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اس جمہوریت میں دھاندلی اس کا لازمی حصہ ہے ۔
بھٹو مرحوم کے 1977 میں کرائے ہوئے انتخابات پر بھی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور ان الزامات کے حوالے سے 9 ستاروں نے جو تحریک چلائی اس کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان الزامات کے نتیجے میں نہ صرف بھٹو سے اقتدار چھین لیا گیا بلکہ انھیں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔
یہ احتساب نہیں بلکہ ایک بدترین اور اقتدار کے بھوکے آمر کا اپنے محسن کے خلاف بے جواز انتقام تھا۔ اگر یہ انتخابی دھاندلی کی تحقیق تک محدود ہوتا تو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ چند سیٹوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کو اتنی دور تک لے جایا گیا کہ بھٹو کی گردن پھانسی کے پھندے میں آگئی۔
اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ وہ نو ستارے جو امریکی اسپانسر تحریک کی قیادت کر رہے تھے وہ رغبت کے ساتھ ضیا الحق کی کابینہ میں شریک ہوگئے ۔ 1977 کے مرد مومن مرد حق نے طاقت کے بل پر بھٹو کی جان تو لے لی لیکن پاکستان کے عوام اور ساری دنیا آج تک ضیا الحق پر اس قتل پر برا بھلا کہتی ہے۔
2013کے الیکشن میں مبینہ طور پر ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحقیق کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔ ہم اس کی تفصیل میں جائے بغیر اپنی توجہ اس حقیقت پر مرکوز رکھتے ہیں کہ اس جوڈیشل کمیشن کی تحقیق کے دو ہی ممکنہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اول یہ کہ دھاندلی کے الزامات غلط ہیں دوئم یہ کہ دھاندلی ثابت ہوگئی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ہوگا کیا؟
اگر دھاندلی کے الزامات گواہوں ثبوتوں کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے غلط ثابت ہوجائیں تو دھاندلی کا کلچر اور مضبوط ہوجائے گا اور اگر دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ مڈٹرم الیکشن ہوجائیں گے۔
اگر مڈٹرم الیکشن ہوجائیں تو ان میں فرشتے منتخب ہوکر نہیں آئیں گئے بلکہ وہی کرپٹ مافیا منتخب ہوکر پانچ سال کے لیے عوام کے سر پر مسلط ہوجائے گی۔ 1977 کی تحریک کا روح رواں امریکا تھا لیکن اس کا علم عوام کو نہیں تھا بلکہ فہمیدہ حلقوں ہی کو پتہ تھا کہ امریکا ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے سے انکار پر بھٹو سے ناراض بلکہ اس حد تک مشتعل تھا کہ اس کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو عبرت ناک انجام کی دھمکی دی تھی جس پر عملدرآمد ضیا الحق نے کیا۔
ہم نے کالم کا آغاز کراچی کی بدترین صورتحال سے کیا تھا اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ کراچی کا ہر شہری کراچی کے بدترین حالات، خوف و دہشت کی فضا سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے ایک آپریشن بھی جاری ہے۔
کراچی کے بہتر مستقبل کے لیے اس آپریشن کو کامیاب ہونا چاہیے لیکن اس کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہر اس مجرم تک پہنچا جائے جو کراچی کی بدامنی اور شہرمیں ہونے والے سنگین جرائم میں ملوث ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت یا گروہ سے ہو، اگر ایسا نہ ہوا اور آپریشن کا دائرہ محدود رہا تو پھر کراچی کو ان عذابوں سے بچانا مشکل ہے جو 68 سال سے کراچی کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔
حلقہ 246کے ضمنی انتخابات کی ذرہ برابر اہمیت اس لیے نہیں کہ یہ سیٹ کوئی بھی جیت لے کراچی میں کوئی انقلاب نہیں آئے گا بلکہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہماری سیاست ہماری جمہوریت میں اب تک ہوتا رہا ہے اس ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ الزامات کی مہم چلانے کے بجائے کراچی میں یہ سیٹ جیت کر کیا تبدیلیاں لائیں گے کیا کارنامے انجام دیں گے اس پر زور دیں۔