چینی صدر کا دورہ منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان ایشین ٹائیگر بن جائے گا
سفارتی، دفاعی و اقتصادی ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
چینی صدر شی چن پنگ 20اپریل کو دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تو صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
گزشتہ نو برسوں میں کسی بھی چینی صدر کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے واضح رہے کہ چینی صدر نے گزشتہ برس پاکستان کا دورہ کرنا تھا تاہم اسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سکیورٹی مسائل کی وجہ سے انہیں دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ چینی صدر کا یہ دورہ پاکستان کے لیے اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اس میںدونوں ممالک کے درمیان انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے 51معاہدوں اور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے گئے جن کی مالیت 46ارب ڈالر ہے۔
اس لحاظ سے یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا لہٰذا اب اگر یہ سارے معاہدے اور مفاہمتی یاداشتیں عملی شکل اختیار کرلیں تو آنے والے برسوںمیں پاکستان میںمعاشی و اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی آئے گی جس سے روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان منصوبوں کی تکمیل سے چینی معیشت پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
''چینی صدر کا دورہ پاکستان'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں سفارتی، اقتصادی و دفاعی ماہرین نے اپنے خیالا ت کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
جاویدحسین
(سابق سفارتکار)
پاک چین تعلقات کی بنیاددونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ہیں، چین اور پاکستان کا سٹرٹیجک اور سکیورٹی مفاد اسی میں ہے کہ وہ آپس میں دوستی کو مضبوط کریں لہٰذا 1960ء سے ہی دونوں ممالک کی دوستی کی یہ عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے۔ چینی صدر کے اس دورے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اس سٹرٹیجک اور دفاعی تعاون کو مزید بڑھایا جائے گا ۔
اس دوستی میں دوسری چیز معاشی تعاون ہے اور اس میں بھی دونوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں جبکہ اس وقت بھی ہماری باہمی تجارت 15بلین ڈالر ہے جسے اگلے 30سالوں میں 20بلین ڈالر تک پہنچایا جائے گا لہٰذا یہ ون وے ٹریفک نہیں ہے بلکہ باہمی تعلق ہے جو چین کے مفاد میں بھی ہے تاہم ہمیں بیلنس آف ٹریڈ کرنا ہوگا کیونکہ ہم چین سے برآمد زیادہ کرتے ہیں جبکہ ہماری درآمدات بہت کم ہیں اور اس حوالے سے ہمیں اپنی درآمدات کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس معاشی تعاون کے سلسلے میں جو اقتصادی راہداری بنائی جارہی ہے اس کے ساتھ انڈسٹریل زون اور اکنامک زون بنائی جائیں گی اور پھر صنعتی ترقی کو پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔اس منصوبے سے پاکستان اور چین دونوں کو فائدہ ہوگا اور اس طرح چین کے پسماندہ علاقوں کی بھی ترقی ہوگی۔ 46بلین ڈالر کی اس چینی سرمایہ کاری سے اگلے دس سالوں میں پاکستان کی ترقی اور معیشت مضبوط ہوگی تاہم ہمیں ان منصوبوں سے دانشمندی کے ساتھ فائدہ اٹھانا ہوگا۔
اگر اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر گوادر کی ترقی بھی ہوگی جس سے پاکستان خصوصاََ بلوچستان کی ترقی ہوگی اور اس کے علاوہ چین کو بھی اس کا فائدہ ہوگا کیونکہ چین کے مغربی صوبوں سے دنیا کے ساتھ تجارت کے لیے یہ کم ترین فاصلہ ہوگا لہٰذا گوادر بندرگاہ کی تعمیر وترقی چین کی ضرورت ہے۔
گوادر کی ایک سٹرٹیجک اہمیت بھی ہے، یہ نقطہ بھارت، امریکا اور مغربی طاقتوں کے لیے بہت اہم ہے کہ اگر گوادر میں چین کا کردرا بڑھ جاتا ہے تو پھر بحر ہند میں اس کا اثر بڑھ جائے گا اور اس لحاظ سے امریکا بھی اس پر نظر رکھے گا کہ اس معاہدے کی نوعیت کیا ہے ۔ چابہار بندرگاہ اور گوادربندرگاہ میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے، اگر یہ دونوں بندرگاہیں ڈویلپ ہو جاتی ہیں تو ان میں مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک بندرگاہ کی ترقی سے تو دوسری بندرگاہ بند ہوجائے گی لہٰذا ہمیں اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے اور مقابلے کی دوڑ میں حصہ لینا چاہیے۔
میرے نزدیک ہمیں اس منصوبے کے حوالے سے مثبت سوچنا چاہیے کیونکہ اگر ایران گوادر بندرگاہ کے خلاف ہوتا تو اس کے لیے 100میگاواٹ بجلی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا لہٰذا ہمیں ان باتوں کی بجائے اس منصوبے سے فائدہ حاصل کرنے کیلئے ایمانداری اور خلوص کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔
46بلین ڈالر کے منصوبے ابھی کاغذپر ہیں لہٰذا یہ ہمارے لیے امتحان ہے کہ ہم ان منصوبوں پر کس طرح سے کام کرتے ہیں اور اس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔1980ء سے چین اس پالیسی پر عمل کررہا ہے کہ اس نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کی فضا قائم کرنی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کو کم کیا جائے اور ترقیاتی کاموں پر زیادہ خرچ کیا جائے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین نے بہت تیزی سے ترقی کی اور اب وہ بہت آگے نکل چکاہے اوراس نے خود کو دنیا کی بڑی معیشت کے طور پر منوا لیا ہے۔
ہمیں چین سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس طرح کی اصلاحات لانی چاہئیں۔ ہمیں چاہیے کہ چین نے اپنی پالیسی میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان پر غور کریں کہ ہم کس حد تک انہیں اپنا سکتے ہیں۔ پاک چین تعلقات مزید مضبوط ہورہے ہیں، چین پورے خطے کے ساتھ معاشی تعاون کو بڑھانا چاہتا ہے اور یہی اس کی پالیسی ہے۔
وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر بھارت کے ساتھ معاشی تعاون نہ کیا گیا تو وہ امریکا کی طرف رجوع ہوگا ، میرے نزدیک جیسی صورتحال بن رہی ہے اگلی صدی میں بھارت اور چین کی کشیدگی میں اضافہ ہوگا تاہم چین ابھی یہ کوشش کررہا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو لڑائی جھگڑے سے دور رہے۔
امریکا نے مارچ 2005ء میں کہا تھا کہ امریکا بھارت کوہر طرح کی امدادفراہم کرے گا تاکہ وہ اکیسوں صدی میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اس کا مقصد خطے میں چین کے کردار کو کم کرنا ہے۔ اب اگر پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے توامریکا اپنے اس مقصد میں کافی حد تک ناکام ہوگا۔ اس منصوبے کے گلوبل سٹرٹیجک اورسکیورٹی محرکات ہیں اور یہ کیا رخ اختیار کرتاہے یہ وقت ہی بتائے گا تاہم اس میں مختلف امکانات سامنے آرہے ہیں۔
یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے لیے بہت اہم ہے، میرے نزدیک ہمیں کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے چاہئیں تاکہ مشکل حالات میں ہمارے پاس دیگر راستے موجود ہوں تاہم چین کے ساتھ جو ڈویلپمنٹ ہورہی ہے یہ ہر لحاظ سے پاکستان کے مفادمیں ہے لہٰذا چینی صدر کا حالیہ دورہ خوش آئند ہے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔
بریگیڈیئر(ر) سید غضنفر علی
( دفاعی تجزیہ نگار)
پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اس نے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ پاک چین تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے، مغربی ممالک اور امریکا کے ساتھ چین کے تعلقات استوار کروانے میں پاکستان کا بہت اہم کرداررہا ہے اور پاک چین موجودہ تعلقات اسی کا مظہر ہیں۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کے دفاعی تعلقات بڑھتے گئے ،''ایچ ایم سی'' بنی جس میں ٹینک بن رہے ہیں۔
اس کے علاوہ جے ایف 17تھنڈر ایئرکرافٹ کا بہت بڑا منصوبہ تھا،اس میں بھی پاکستان نے چین کی بہت مدد کی کیونکہ ہمارا مغربی ہتھیاروں کی طرف رجحان تھا اس لیے ہمیں اس ٹیکنالوجی کا علم تھا لہٰذا پاکستانی انجینئروں نے چین کو ٹیکنالوجی میں مدد فراہم کی جبکہ انڈسٹری اس کی استعمال ہوئی۔
اب امریکا اس جہاز کی مخالفت کررہا ہے لہٰذا اب اگر یہ جہاز بکنا شروع ہوجاتا ہے تو ڈیفنس انڈسٹری کو بہت فائدہ ہوگا اور معیشت بہتر ہوگی۔حالیہ رپورٹ کے مطابق سعودیہ یمن کشیدگی میں سب سے زیادہ فائدہ امریکی اسلحہ کمپنیوں کو ہورہا ہے اور اس کے اسلحہ کی مانگ بڑھ گئی ہے اور امریکی معیشت بھی بہتر ہورہی ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان اب جو معاہدے ہورہے ہیں ان میں دیکھنا یہ ہے کہ ہم سیاسی و دفاعی لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں اور خطے میں ہماری پوزیشن کیا ہے۔
بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے ، نریندر موودی کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو تنہا کردیا جائے، ماضی میں بھی بہت سارے ممالک نے مل کرایسا کیااور ہمارے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی اورہمارے ہمسایہ ملک بھی ہمارے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔
اب چینی صدر کے دورئہ پاکستان کو بھارت اسی نظر سے دیکھ رہا ہے کہ یہ بھارت کو تنہا کرنے کی سازش ہے اور اس سے بھارت کا گھیراؤ کیا جارہا ہے۔
اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ 21ویں صدی میری ٹائم کا منصوبہ ہے اس سے آٹھ ممالک نے منسلک ہونا ہے، تبت تک چین پہلے ہی پہنچ چکا ہے ، اب اس نے یہ اندیہ بھی دیا ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے ساتھ بھی اقتصادی راہداری کا منصوبہ کرے گا ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے اور یہ ایشیاء، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیاء و دیگر علاقوں سے رابطے کا ذریعہ ہے۔
اس لیے پاکستان عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، پاکستان ا ور افغانستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے تاہم ابھی بھی بھارت کے قونصل خانے وہاں کام کررہے ہیں اور بلوچستان کی صورتحال میں بھارتی ایجنسی ''را'' کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔یمن کی صورتحال بھی اس خطے پر اثر انداز ہوسکتی ہے، یمن کے مسئلے میں ہمیں کسی حد تک سعودیہ کے ساتھ چلنا پڑے گا جس سے ایران کے ساتھ مسئلہ ہوسکتا ہے۔
لہٰذا ان تمام مسائل کے حل میں پاکستان کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ افغانستان میں چین ایمک مائنز پرکام کررہا ہے ، وہاں سے وہ ریل روڈ پراجیکٹ وسطی ایشیاء تک لے جانا چاہتا ہے لہٰذا چین افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے تاکہ وہاں اس نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ محفوظ رہے امریکا نے پاکستان کے ساتھ مل کر 13سال دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی لیکن صرف 5بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ چین نے 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی لہٰذا امن و امان کی اس بہتر صورتحال سے چین فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس حوالے سے خود امریکا میں ہی امریکی پالیسیوں پر تنقید کی جارہی ہے کہ وہ چینی معاشی ترقی کو تحفظ دے رہا ہے ۔
عالمی تناظر میں چینی صدر کا دورہ پاکستان کو لائم لائٹ میں لانے اور ریجنل پلیئر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگران منصوبوں میں شفافیت نہ ہوئی اور یہ کرپشن کی نذر ہوگئے تو پھر ان کا حال بھی نندی پور پاور پراجیکٹ جیسا ہوجائے گاجو اپنے افتتاح کے اگلے روز ہی بند ہوگیا۔ میرے نزدیک ہمیں اپنی کپیسٹی بھی بڑھانی ہوگی اور ریلوے منصوبوں پر کام کرنا ہوگا، اس کے علاوہ اس سارے عمل میںشفافیت لانی ہوگی اور انرجی کے ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔
پاک فوج نے چینی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی لوگوں کے تحفظ کیلئے سپیشل ڈویژن بنانے کا اعلان بھی کیا ہے لہٰذا ہمیں اس طرح کے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کی پالیسی یہ ہے کہ وہ لڑائی جھگڑا نہیں چاہتا اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ہم بھی بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے لہٰذا ہمیں چین کو یہ باور کروانا ہے کہ یہ مسئلہ لڑائی جھگڑے کا نہیں بلکہ خودارادیت کا ہے ۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمن
(سربراہ شعبہ اکنامکس جامعہ پنجاب )
پاکستان کو ان حالات میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ مل رہی ہے جب اسے اس کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور کرپشن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ دار یہاں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں اور ہم اپنے قدرتی وسائل بھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرسکے لیکن اب جب غیر ملکی سرمایہ دار یہاں آئے گا تو ٹیکنالوجی بھی منتقل ہوگی اور پاکستان کے حالات بہتر ہوجائیں گے ۔
پاکستان پر سرمایہ داروں کی کوئی توجہ نہیں تھی اور نہ ہی یہاں سرمایہ کاری کے مواقع تھے تاہم اب حکومت نے اس پر ہوم ورک کیا اور ایسے حالات پیدا کیے کہ اتنی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی لہٰذا ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان کو بیرونی مسائل کے ساتھ ساتھ اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے اور ابھی سے ہی چند سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس کی مخالفت شروع کردی ہے لہٰذا ہمیں علاقائی کی بجائے قومی سوچ پیدا کرنی ہوگی کیونکہ اگر پاکستان کے کسی بھی کونے میں ڈویلپمنٹ ہوگی ہے تو اس کا سب کو فائدہ ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس منصوبے سے پاکستان میں لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور ہم اپنے قدرتی وسائل سے بھی فائدہ اٹھانے کے قابل ہوجائیں گے۔
اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہوگا اور ہم توانائی کے بحران پر بھی قابو پالیں گے لہٰذا یہ منصوبہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ معاہدوں میں ہمیشہ باہمی مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے، اس منصوبے میں صرف چین کا مفاد ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ہمارے مفادات بھی ہیں تاہم ہمیں باہمی مفادات میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر توازن قائم نہیں ہوگا تو یہ مسئلہ بن سکتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ یہ منصوبے کوئی ایک دو سال کے نہیں ہیں ، یہ قریباََ 2040ء تک مکمل ہوں گے لہٰذا ہمیں اس حوالے سے نیشنل پلان بنانا ہوگا۔ پاکستان کو معاشی لحاظ سے ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا ہے ، ہم حکومتی پالیسی تو بناتے ہیں لیکن نیشنل پالیسی کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی لہٰذا اب اگر نیشنل پالیسی بنائی جاتی تو بعد میں آنے والی حکومت بھی اس منصوبے پر کام کرے گی۔
میرے نزدیک اگر ہم اس منصوبے کو نیشنل ٹارگٹ بنا کر حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو ممکن ہے کہ یہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے ورنہ اس کا حال بھی کالا باغ ڈیم جیسا ہوسکتا ہے جسے پس پشت ڈال دیا گیا اور عوام کو متنفر کردیا گیا ۔
اب یہاں بھی ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پاکستان دشمن قوتیں حرکت میں آگئی ہیں۔ میرے نزدیک اگر حکومت اس معاملے کی طرف توجہ نہیں دے گی تو یہ لوگ نفرت کے بیج بونے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس کا خمیازہ ہمیں صدیوں تک بھگتنا پڑے گا اور ہمارا ملک اب مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعے ایسے قوانین بنانے چاہئیں جس سے ایسی صورتحال پیدا نہ ہواوردشمن عناصر کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا ہے جبکہ قرض بھی بڑھتا جارہا ہے لہٰذا ان حالات میں حکومت کو چاہیے کہ موثرپالیسی بنائے اور اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے نئے قوانین بنائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس بارے میں آگاہی بھی دی جائے۔ چینی ماہرین جب یہاں آئیں گے تو ہمارے لوگوں کی تربیت ہوگی ،اس کے علاوہ چین میں بھی ہمارے لوگوں کو تربیت دی جائے گی لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ ہمیں ایک موقع ملااور ہم پسماندگی سے نکل آئے ۔
میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے، اس کے علاوہ ہماری سرزمین کو قدرتی وسائل سے بھی نوازا ہے لہٰذا اگر اس کا استعمال موثر طریقے سے ہوجائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں اور میرے نزدیک اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس سے مستفید ہوں۔
فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا سب سے بڑا فائدہ ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے، دوسرافائدہ انرجی بحران کا خاتمہ ہے اور تیسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہماری درآمدات زیادہ ہوں گی اور معیشت مضبوط ہوگی۔اس منصوبے کا سٹرٹیجک اور اکنامک اثر زیادہ ہے لہٰذا اگر اس پر سنجیدگی سے کام کیا جائے اور آنے والی حکومتیں بھی اسے قومی منصوبہ سمجھ کر اس پر کام کریں تو بہت فائدہ حاصل ہوگا۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(تجزیہ نگار)
پاکستان میں چین نے پہلی مرتبہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور اس لحاظ سے چینی صدر کے حالیہ دورہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ماضی میں ہمیں امریکا سے ہی امداد ملتی رہی ہے لیکن اب جو تعاون ہمیں چین سے حاصل ہوا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ پاک چین دوستی دوطرفہ تعلقات پر مبنی ہے اور دونوں ممالک عرصہ دراز سے ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں۔
چین کو آزادی کے بعد جب مسائل کا سامنا تھا اور وہ دنیا میں تنہا تھا اس دور میں پاکستان نے اس کی مدد کی اور اقوام متحدہ میں اسے مقام دلوانے کے لیے کوشش کی لہٰذا چین پاکستان کی اہمیت کو سمجھتا ہے ۔ گزشتہ 25سے 30برس میں چین نے جتنی تیزی سے ترقی کی ہے وہ بے مثال ہے لیکن چین کی ترقی اس کے مشرقی علاقوں،ساحلی علاقوں اور شمالی علاقاجات میں نظر آتی ہے جبکہ اس کا مغربی علاقہ ابھی تک پسماندہ ہے اوراس پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مغربی علاقہ اس کی بندرگاہ سے ساڑھے 6ہزار کلومیٹرکے فاصلے پر ہے لہٰذاوہ یہ سمجھتا تھا کہ یہاں صنعت لگانا فائدہ مند نہیں ہوگا۔ اب چین اپنے پسماندہ علاقوں کی ترقی چاہتا ہے جس کے لیے اس نے اقتصادی راہداری کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ کاشغر کے ذریعے اپنے پسماندہ علاقوں کو ترقی دے سکے۔ اس منصوبے سے وہاں خوشحالی آئے گی، لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور بغاوت کا بھی خاتمہ ہوگا لہٰذا چین کو اپنی دیر پا ترقی کے لیے اس منصوبے کی ضرورت ہے ۔
نیو سلک روٹ کے ذریعے چین اپنی تجارت کے لیے جنوبی چین کے سمندری راستے پر انحصار کم کرکے ایک متبادل روٹ بنانا چاہتا ہے اور اس حوالے سے اس نے گوادر بندرگاہ کو اہم سمجھا اورپاکستان کو گوادر کی ترقی کی پیش کش کی ۔
اب اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام ہورہا ہے جس میں پاکستان کو اپنی سٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے بہت فائدہ ہوگا لہٰذا یہ راہداری تعمیر کرنا چین کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا متبادل چین کے پاس نہیں ہے اور یہ راہداری چین کو مغربی ایشیاء، افریقہ اور یورپ تک رسائی دے گی ۔ چین نے پاکستان کو ایک بہت بڑا پیکیج دیا ہے جس کا تعلق اقتصادی راہداری، اس سے منسلک تعمیر وترقی اور توانائی سے ہے۔
بلاشبہ یہ بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس سے کیسے اور کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اوریہ ہمارا سب سے بڑا امتحان ہے۔ میرے نزدیک اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنی ڈومیسٹک اور خارجہ پالیسی میں اپنی ترجیحات درست کرنا ہوگی ورنہ اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
اس وقت اس اکنامک کوریڈور کے روٹ کا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور صوبوں کو آن بورڈ لے کیونکہ اس منصوبے کا تعلق کسی ایک صوبے یا شہر سے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خوشحالی سے ہے۔
ضرب عضب نے بھی پاکستان میں چین کا اعتماد بحال کیا ہے لہٰذا ہمیں سکیورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ اس منصوبے میںچین کا مفاد بہت زیادہ ہے اس لیے چین ہمیں امن و امان کی صورتحال قائم کرنے میں مدد بھی کررہا ہے ۔
افغانستان کے معاملات میں چین نے کبھی مداخلت نہیں کی لیکن اس وقت جب امن کی کوششیں ہورہی ہیں تو چین سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے ، وہ طالبان سے رابطے بھی کررہا ہے اور پاکستان کے ساتھ مل کر امن امان کی صورتحال قائم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔
چین کی ترقی کا پہلا اصول بارڈر پر امن ہے ۔ چین نے سب سے پہلے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا،بھارت اور روس کے ساتھ جھگڑے کو پس پشت ڈال دیا لہٰذا ہم اگر ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی یہ عمل اپنانا ہوگا ، اپنے بارڈر پر امن لانا ہوگا اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ معاملات کو بہتر کرنا ہوں گے۔
اس منصوبے کے حوالے سے بھارت اور ایران کا الائنس خطرناک ہوسکتا ہے اور ان کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ چابہار بندرگاہ اور گوادربندرگاہ میں صرف 72کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور ایران یہ نہیں چاہتا کہ چابہار بندرگاہ کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ بہتر ہو اور وہ یہ چاہتا ہے کہ وسط ایشیاء اور افغانستان تجارت کیلئے صرف چابہار بندرگاہ کا روٹ استعمال کریں۔بھارت نے چابہار بندرگاہ پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے ، اس لیے بھارت ایران الائنس خطرناک ہوسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ اس الائنس میں امریکا بھی شامل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ چین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔اس وقت ہمیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے ، اگر ہم نے سعودیہ عرب کو خوش کرنے کے لیے یمن میں فوج بھیج دی تو ایران کے ساتھ معاملہ خراب ہوجائے گا۔ پھر بھارت بھی اس کی مدد کرے گا اور اس طرح بلوچستان میں صورتحال خراب ہوجائے گی جو ہمارے لیے چیلنج ہوگا۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے چین ایران سے بھی اس منصوبے کے حوالے سے بات کرسکتا ہے لیکن بھارت کے ساتھ ہمارے معاملات حل نہیں ہوپاتے ۔ چین ہمیں ہر وقت یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ تنازعات کو پس پشت ڈال کر تجارت کو فروغ دیں اور اب اس روٹ میں بھارت کی شمولیت بھی اسے لیے کی جارہی ہے تاکہ معاملات بہتر ہوسکیں ۔
اس اقتصادی راہداری سے بھارت کو بھی فائدہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے جب پاکستان کا معاملہ آتا ہے تو بھارت کی لیڈر شپ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی خوشحالی برداشت کرسکے۔ ماضی میں ہمارے وزیراعظم نے کہا تھا کہ چینی سرمایہ داروں کی شکایات سننے کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں شکایت سیل بنائیں گے لہٰذا اب اس سیل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اندرونی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ شفافیت کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان منصوبوں سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔
جس کی ہم خوشی منا رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں چین کی طرف سے سرمایہ مل گیا ہے توہم ٹائیگر بن گئے ہیں لہٰذا اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانا ہوگی اور اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا اور اگر ہم صحیح معنوں میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی بیوروکریسی کے مزاج کو بھی درست کرنا ہوگا اور تمام منصوبوں میں شفافیت لانا ہوگی۔
گزشتہ نو برسوں میں کسی بھی چینی صدر کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے واضح رہے کہ چینی صدر نے گزشتہ برس پاکستان کا دورہ کرنا تھا تاہم اسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سکیورٹی مسائل کی وجہ سے انہیں دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ چینی صدر کا یہ دورہ پاکستان کے لیے اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اس میںدونوں ممالک کے درمیان انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے 51معاہدوں اور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے گئے جن کی مالیت 46ارب ڈالر ہے۔
اس لحاظ سے یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا لہٰذا اب اگر یہ سارے معاہدے اور مفاہمتی یاداشتیں عملی شکل اختیار کرلیں تو آنے والے برسوںمیں پاکستان میںمعاشی و اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی آئے گی جس سے روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان منصوبوں کی تکمیل سے چینی معیشت پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
''چینی صدر کا دورہ پاکستان'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں سفارتی، اقتصادی و دفاعی ماہرین نے اپنے خیالا ت کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
جاویدحسین
(سابق سفارتکار)
پاک چین تعلقات کی بنیاددونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ہیں، چین اور پاکستان کا سٹرٹیجک اور سکیورٹی مفاد اسی میں ہے کہ وہ آپس میں دوستی کو مضبوط کریں لہٰذا 1960ء سے ہی دونوں ممالک کی دوستی کی یہ عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے۔ چینی صدر کے اس دورے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اس سٹرٹیجک اور دفاعی تعاون کو مزید بڑھایا جائے گا ۔
اس دوستی میں دوسری چیز معاشی تعاون ہے اور اس میں بھی دونوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں جبکہ اس وقت بھی ہماری باہمی تجارت 15بلین ڈالر ہے جسے اگلے 30سالوں میں 20بلین ڈالر تک پہنچایا جائے گا لہٰذا یہ ون وے ٹریفک نہیں ہے بلکہ باہمی تعلق ہے جو چین کے مفاد میں بھی ہے تاہم ہمیں بیلنس آف ٹریڈ کرنا ہوگا کیونکہ ہم چین سے برآمد زیادہ کرتے ہیں جبکہ ہماری درآمدات بہت کم ہیں اور اس حوالے سے ہمیں اپنی درآمدات کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس معاشی تعاون کے سلسلے میں جو اقتصادی راہداری بنائی جارہی ہے اس کے ساتھ انڈسٹریل زون اور اکنامک زون بنائی جائیں گی اور پھر صنعتی ترقی کو پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔اس منصوبے سے پاکستان اور چین دونوں کو فائدہ ہوگا اور اس طرح چین کے پسماندہ علاقوں کی بھی ترقی ہوگی۔ 46بلین ڈالر کی اس چینی سرمایہ کاری سے اگلے دس سالوں میں پاکستان کی ترقی اور معیشت مضبوط ہوگی تاہم ہمیں ان منصوبوں سے دانشمندی کے ساتھ فائدہ اٹھانا ہوگا۔
اگر اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر گوادر کی ترقی بھی ہوگی جس سے پاکستان خصوصاََ بلوچستان کی ترقی ہوگی اور اس کے علاوہ چین کو بھی اس کا فائدہ ہوگا کیونکہ چین کے مغربی صوبوں سے دنیا کے ساتھ تجارت کے لیے یہ کم ترین فاصلہ ہوگا لہٰذا گوادر بندرگاہ کی تعمیر وترقی چین کی ضرورت ہے۔
گوادر کی ایک سٹرٹیجک اہمیت بھی ہے، یہ نقطہ بھارت، امریکا اور مغربی طاقتوں کے لیے بہت اہم ہے کہ اگر گوادر میں چین کا کردرا بڑھ جاتا ہے تو پھر بحر ہند میں اس کا اثر بڑھ جائے گا اور اس لحاظ سے امریکا بھی اس پر نظر رکھے گا کہ اس معاہدے کی نوعیت کیا ہے ۔ چابہار بندرگاہ اور گوادربندرگاہ میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے، اگر یہ دونوں بندرگاہیں ڈویلپ ہو جاتی ہیں تو ان میں مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک بندرگاہ کی ترقی سے تو دوسری بندرگاہ بند ہوجائے گی لہٰذا ہمیں اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے اور مقابلے کی دوڑ میں حصہ لینا چاہیے۔
میرے نزدیک ہمیں اس منصوبے کے حوالے سے مثبت سوچنا چاہیے کیونکہ اگر ایران گوادر بندرگاہ کے خلاف ہوتا تو اس کے لیے 100میگاواٹ بجلی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا لہٰذا ہمیں ان باتوں کی بجائے اس منصوبے سے فائدہ حاصل کرنے کیلئے ایمانداری اور خلوص کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔
46بلین ڈالر کے منصوبے ابھی کاغذپر ہیں لہٰذا یہ ہمارے لیے امتحان ہے کہ ہم ان منصوبوں پر کس طرح سے کام کرتے ہیں اور اس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔1980ء سے چین اس پالیسی پر عمل کررہا ہے کہ اس نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کی فضا قائم کرنی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کو کم کیا جائے اور ترقیاتی کاموں پر زیادہ خرچ کیا جائے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین نے بہت تیزی سے ترقی کی اور اب وہ بہت آگے نکل چکاہے اوراس نے خود کو دنیا کی بڑی معیشت کے طور پر منوا لیا ہے۔
ہمیں چین سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس طرح کی اصلاحات لانی چاہئیں۔ ہمیں چاہیے کہ چین نے اپنی پالیسی میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان پر غور کریں کہ ہم کس حد تک انہیں اپنا سکتے ہیں۔ پاک چین تعلقات مزید مضبوط ہورہے ہیں، چین پورے خطے کے ساتھ معاشی تعاون کو بڑھانا چاہتا ہے اور یہی اس کی پالیسی ہے۔
وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر بھارت کے ساتھ معاشی تعاون نہ کیا گیا تو وہ امریکا کی طرف رجوع ہوگا ، میرے نزدیک جیسی صورتحال بن رہی ہے اگلی صدی میں بھارت اور چین کی کشیدگی میں اضافہ ہوگا تاہم چین ابھی یہ کوشش کررہا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو لڑائی جھگڑے سے دور رہے۔
امریکا نے مارچ 2005ء میں کہا تھا کہ امریکا بھارت کوہر طرح کی امدادفراہم کرے گا تاکہ وہ اکیسوں صدی میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اس کا مقصد خطے میں چین کے کردار کو کم کرنا ہے۔ اب اگر پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے توامریکا اپنے اس مقصد میں کافی حد تک ناکام ہوگا۔ اس منصوبے کے گلوبل سٹرٹیجک اورسکیورٹی محرکات ہیں اور یہ کیا رخ اختیار کرتاہے یہ وقت ہی بتائے گا تاہم اس میں مختلف امکانات سامنے آرہے ہیں۔
یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے لیے بہت اہم ہے، میرے نزدیک ہمیں کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے چاہئیں تاکہ مشکل حالات میں ہمارے پاس دیگر راستے موجود ہوں تاہم چین کے ساتھ جو ڈویلپمنٹ ہورہی ہے یہ ہر لحاظ سے پاکستان کے مفادمیں ہے لہٰذا چینی صدر کا حالیہ دورہ خوش آئند ہے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔
بریگیڈیئر(ر) سید غضنفر علی
( دفاعی تجزیہ نگار)
پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اس نے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ پاک چین تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے، مغربی ممالک اور امریکا کے ساتھ چین کے تعلقات استوار کروانے میں پاکستان کا بہت اہم کرداررہا ہے اور پاک چین موجودہ تعلقات اسی کا مظہر ہیں۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کے دفاعی تعلقات بڑھتے گئے ،''ایچ ایم سی'' بنی جس میں ٹینک بن رہے ہیں۔
اس کے علاوہ جے ایف 17تھنڈر ایئرکرافٹ کا بہت بڑا منصوبہ تھا،اس میں بھی پاکستان نے چین کی بہت مدد کی کیونکہ ہمارا مغربی ہتھیاروں کی طرف رجحان تھا اس لیے ہمیں اس ٹیکنالوجی کا علم تھا لہٰذا پاکستانی انجینئروں نے چین کو ٹیکنالوجی میں مدد فراہم کی جبکہ انڈسٹری اس کی استعمال ہوئی۔
اب امریکا اس جہاز کی مخالفت کررہا ہے لہٰذا اب اگر یہ جہاز بکنا شروع ہوجاتا ہے تو ڈیفنس انڈسٹری کو بہت فائدہ ہوگا اور معیشت بہتر ہوگی۔حالیہ رپورٹ کے مطابق سعودیہ یمن کشیدگی میں سب سے زیادہ فائدہ امریکی اسلحہ کمپنیوں کو ہورہا ہے اور اس کے اسلحہ کی مانگ بڑھ گئی ہے اور امریکی معیشت بھی بہتر ہورہی ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان اب جو معاہدے ہورہے ہیں ان میں دیکھنا یہ ہے کہ ہم سیاسی و دفاعی لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں اور خطے میں ہماری پوزیشن کیا ہے۔
بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے ، نریندر موودی کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو تنہا کردیا جائے، ماضی میں بھی بہت سارے ممالک نے مل کرایسا کیااور ہمارے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی اورہمارے ہمسایہ ملک بھی ہمارے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔
اب چینی صدر کے دورئہ پاکستان کو بھارت اسی نظر سے دیکھ رہا ہے کہ یہ بھارت کو تنہا کرنے کی سازش ہے اور اس سے بھارت کا گھیراؤ کیا جارہا ہے۔
اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ 21ویں صدی میری ٹائم کا منصوبہ ہے اس سے آٹھ ممالک نے منسلک ہونا ہے، تبت تک چین پہلے ہی پہنچ چکا ہے ، اب اس نے یہ اندیہ بھی دیا ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے ساتھ بھی اقتصادی راہداری کا منصوبہ کرے گا ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے اور یہ ایشیاء، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیاء و دیگر علاقوں سے رابطے کا ذریعہ ہے۔
اس لیے پاکستان عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، پاکستان ا ور افغانستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے تاہم ابھی بھی بھارت کے قونصل خانے وہاں کام کررہے ہیں اور بلوچستان کی صورتحال میں بھارتی ایجنسی ''را'' کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔یمن کی صورتحال بھی اس خطے پر اثر انداز ہوسکتی ہے، یمن کے مسئلے میں ہمیں کسی حد تک سعودیہ کے ساتھ چلنا پڑے گا جس سے ایران کے ساتھ مسئلہ ہوسکتا ہے۔
لہٰذا ان تمام مسائل کے حل میں پاکستان کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ افغانستان میں چین ایمک مائنز پرکام کررہا ہے ، وہاں سے وہ ریل روڈ پراجیکٹ وسطی ایشیاء تک لے جانا چاہتا ہے لہٰذا چین افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے تاکہ وہاں اس نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ محفوظ رہے امریکا نے پاکستان کے ساتھ مل کر 13سال دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی لیکن صرف 5بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ چین نے 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی لہٰذا امن و امان کی اس بہتر صورتحال سے چین فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس حوالے سے خود امریکا میں ہی امریکی پالیسیوں پر تنقید کی جارہی ہے کہ وہ چینی معاشی ترقی کو تحفظ دے رہا ہے ۔
عالمی تناظر میں چینی صدر کا دورہ پاکستان کو لائم لائٹ میں لانے اور ریجنل پلیئر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگران منصوبوں میں شفافیت نہ ہوئی اور یہ کرپشن کی نذر ہوگئے تو پھر ان کا حال بھی نندی پور پاور پراجیکٹ جیسا ہوجائے گاجو اپنے افتتاح کے اگلے روز ہی بند ہوگیا۔ میرے نزدیک ہمیں اپنی کپیسٹی بھی بڑھانی ہوگی اور ریلوے منصوبوں پر کام کرنا ہوگا، اس کے علاوہ اس سارے عمل میںشفافیت لانی ہوگی اور انرجی کے ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔
پاک فوج نے چینی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی لوگوں کے تحفظ کیلئے سپیشل ڈویژن بنانے کا اعلان بھی کیا ہے لہٰذا ہمیں اس طرح کے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کی پالیسی یہ ہے کہ وہ لڑائی جھگڑا نہیں چاہتا اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ہم بھی بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے لہٰذا ہمیں چین کو یہ باور کروانا ہے کہ یہ مسئلہ لڑائی جھگڑے کا نہیں بلکہ خودارادیت کا ہے ۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمن
(سربراہ شعبہ اکنامکس جامعہ پنجاب )
پاکستان کو ان حالات میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ مل رہی ہے جب اسے اس کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور کرپشن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ دار یہاں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں اور ہم اپنے قدرتی وسائل بھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرسکے لیکن اب جب غیر ملکی سرمایہ دار یہاں آئے گا تو ٹیکنالوجی بھی منتقل ہوگی اور پاکستان کے حالات بہتر ہوجائیں گے ۔
پاکستان پر سرمایہ داروں کی کوئی توجہ نہیں تھی اور نہ ہی یہاں سرمایہ کاری کے مواقع تھے تاہم اب حکومت نے اس پر ہوم ورک کیا اور ایسے حالات پیدا کیے کہ اتنی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی لہٰذا ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان کو بیرونی مسائل کے ساتھ ساتھ اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے اور ابھی سے ہی چند سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس کی مخالفت شروع کردی ہے لہٰذا ہمیں علاقائی کی بجائے قومی سوچ پیدا کرنی ہوگی کیونکہ اگر پاکستان کے کسی بھی کونے میں ڈویلپمنٹ ہوگی ہے تو اس کا سب کو فائدہ ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس منصوبے سے پاکستان میں لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور ہم اپنے قدرتی وسائل سے بھی فائدہ اٹھانے کے قابل ہوجائیں گے۔
اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہوگا اور ہم توانائی کے بحران پر بھی قابو پالیں گے لہٰذا یہ منصوبہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ معاہدوں میں ہمیشہ باہمی مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے، اس منصوبے میں صرف چین کا مفاد ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ہمارے مفادات بھی ہیں تاہم ہمیں باہمی مفادات میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر توازن قائم نہیں ہوگا تو یہ مسئلہ بن سکتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ یہ منصوبے کوئی ایک دو سال کے نہیں ہیں ، یہ قریباََ 2040ء تک مکمل ہوں گے لہٰذا ہمیں اس حوالے سے نیشنل پلان بنانا ہوگا۔ پاکستان کو معاشی لحاظ سے ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا ہے ، ہم حکومتی پالیسی تو بناتے ہیں لیکن نیشنل پالیسی کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی لہٰذا اب اگر نیشنل پالیسی بنائی جاتی تو بعد میں آنے والی حکومت بھی اس منصوبے پر کام کرے گی۔
میرے نزدیک اگر ہم اس منصوبے کو نیشنل ٹارگٹ بنا کر حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو ممکن ہے کہ یہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے ورنہ اس کا حال بھی کالا باغ ڈیم جیسا ہوسکتا ہے جسے پس پشت ڈال دیا گیا اور عوام کو متنفر کردیا گیا ۔
اب یہاں بھی ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پاکستان دشمن قوتیں حرکت میں آگئی ہیں۔ میرے نزدیک اگر حکومت اس معاملے کی طرف توجہ نہیں دے گی تو یہ لوگ نفرت کے بیج بونے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس کا خمیازہ ہمیں صدیوں تک بھگتنا پڑے گا اور ہمارا ملک اب مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعے ایسے قوانین بنانے چاہئیں جس سے ایسی صورتحال پیدا نہ ہواوردشمن عناصر کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا ہے جبکہ قرض بھی بڑھتا جارہا ہے لہٰذا ان حالات میں حکومت کو چاہیے کہ موثرپالیسی بنائے اور اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے نئے قوانین بنائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس بارے میں آگاہی بھی دی جائے۔ چینی ماہرین جب یہاں آئیں گے تو ہمارے لوگوں کی تربیت ہوگی ،اس کے علاوہ چین میں بھی ہمارے لوگوں کو تربیت دی جائے گی لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ ہمیں ایک موقع ملااور ہم پسماندگی سے نکل آئے ۔
میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے، اس کے علاوہ ہماری سرزمین کو قدرتی وسائل سے بھی نوازا ہے لہٰذا اگر اس کا استعمال موثر طریقے سے ہوجائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں اور میرے نزدیک اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس سے مستفید ہوں۔
فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا سب سے بڑا فائدہ ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے، دوسرافائدہ انرجی بحران کا خاتمہ ہے اور تیسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہماری درآمدات زیادہ ہوں گی اور معیشت مضبوط ہوگی۔اس منصوبے کا سٹرٹیجک اور اکنامک اثر زیادہ ہے لہٰذا اگر اس پر سنجیدگی سے کام کیا جائے اور آنے والی حکومتیں بھی اسے قومی منصوبہ سمجھ کر اس پر کام کریں تو بہت فائدہ حاصل ہوگا۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(تجزیہ نگار)
پاکستان میں چین نے پہلی مرتبہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور اس لحاظ سے چینی صدر کے حالیہ دورہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ماضی میں ہمیں امریکا سے ہی امداد ملتی رہی ہے لیکن اب جو تعاون ہمیں چین سے حاصل ہوا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ پاک چین دوستی دوطرفہ تعلقات پر مبنی ہے اور دونوں ممالک عرصہ دراز سے ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں۔
چین کو آزادی کے بعد جب مسائل کا سامنا تھا اور وہ دنیا میں تنہا تھا اس دور میں پاکستان نے اس کی مدد کی اور اقوام متحدہ میں اسے مقام دلوانے کے لیے کوشش کی لہٰذا چین پاکستان کی اہمیت کو سمجھتا ہے ۔ گزشتہ 25سے 30برس میں چین نے جتنی تیزی سے ترقی کی ہے وہ بے مثال ہے لیکن چین کی ترقی اس کے مشرقی علاقوں،ساحلی علاقوں اور شمالی علاقاجات میں نظر آتی ہے جبکہ اس کا مغربی علاقہ ابھی تک پسماندہ ہے اوراس پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مغربی علاقہ اس کی بندرگاہ سے ساڑھے 6ہزار کلومیٹرکے فاصلے پر ہے لہٰذاوہ یہ سمجھتا تھا کہ یہاں صنعت لگانا فائدہ مند نہیں ہوگا۔ اب چین اپنے پسماندہ علاقوں کی ترقی چاہتا ہے جس کے لیے اس نے اقتصادی راہداری کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ کاشغر کے ذریعے اپنے پسماندہ علاقوں کو ترقی دے سکے۔ اس منصوبے سے وہاں خوشحالی آئے گی، لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور بغاوت کا بھی خاتمہ ہوگا لہٰذا چین کو اپنی دیر پا ترقی کے لیے اس منصوبے کی ضرورت ہے ۔
نیو سلک روٹ کے ذریعے چین اپنی تجارت کے لیے جنوبی چین کے سمندری راستے پر انحصار کم کرکے ایک متبادل روٹ بنانا چاہتا ہے اور اس حوالے سے اس نے گوادر بندرگاہ کو اہم سمجھا اورپاکستان کو گوادر کی ترقی کی پیش کش کی ۔
اب اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام ہورہا ہے جس میں پاکستان کو اپنی سٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے بہت فائدہ ہوگا لہٰذا یہ راہداری تعمیر کرنا چین کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا متبادل چین کے پاس نہیں ہے اور یہ راہداری چین کو مغربی ایشیاء، افریقہ اور یورپ تک رسائی دے گی ۔ چین نے پاکستان کو ایک بہت بڑا پیکیج دیا ہے جس کا تعلق اقتصادی راہداری، اس سے منسلک تعمیر وترقی اور توانائی سے ہے۔
بلاشبہ یہ بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس سے کیسے اور کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اوریہ ہمارا سب سے بڑا امتحان ہے۔ میرے نزدیک اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنی ڈومیسٹک اور خارجہ پالیسی میں اپنی ترجیحات درست کرنا ہوگی ورنہ اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
اس وقت اس اکنامک کوریڈور کے روٹ کا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور صوبوں کو آن بورڈ لے کیونکہ اس منصوبے کا تعلق کسی ایک صوبے یا شہر سے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خوشحالی سے ہے۔
ضرب عضب نے بھی پاکستان میں چین کا اعتماد بحال کیا ہے لہٰذا ہمیں سکیورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ اس منصوبے میںچین کا مفاد بہت زیادہ ہے اس لیے چین ہمیں امن و امان کی صورتحال قائم کرنے میں مدد بھی کررہا ہے ۔
افغانستان کے معاملات میں چین نے کبھی مداخلت نہیں کی لیکن اس وقت جب امن کی کوششیں ہورہی ہیں تو چین سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے ، وہ طالبان سے رابطے بھی کررہا ہے اور پاکستان کے ساتھ مل کر امن امان کی صورتحال قائم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔
چین کی ترقی کا پہلا اصول بارڈر پر امن ہے ۔ چین نے سب سے پہلے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا،بھارت اور روس کے ساتھ جھگڑے کو پس پشت ڈال دیا لہٰذا ہم اگر ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی یہ عمل اپنانا ہوگا ، اپنے بارڈر پر امن لانا ہوگا اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ معاملات کو بہتر کرنا ہوں گے۔
اس منصوبے کے حوالے سے بھارت اور ایران کا الائنس خطرناک ہوسکتا ہے اور ان کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ چابہار بندرگاہ اور گوادربندرگاہ میں صرف 72کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور ایران یہ نہیں چاہتا کہ چابہار بندرگاہ کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ بہتر ہو اور وہ یہ چاہتا ہے کہ وسط ایشیاء اور افغانستان تجارت کیلئے صرف چابہار بندرگاہ کا روٹ استعمال کریں۔بھارت نے چابہار بندرگاہ پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے ، اس لیے بھارت ایران الائنس خطرناک ہوسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ اس الائنس میں امریکا بھی شامل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ چین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔اس وقت ہمیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے ، اگر ہم نے سعودیہ عرب کو خوش کرنے کے لیے یمن میں فوج بھیج دی تو ایران کے ساتھ معاملہ خراب ہوجائے گا۔ پھر بھارت بھی اس کی مدد کرے گا اور اس طرح بلوچستان میں صورتحال خراب ہوجائے گی جو ہمارے لیے چیلنج ہوگا۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے چین ایران سے بھی اس منصوبے کے حوالے سے بات کرسکتا ہے لیکن بھارت کے ساتھ ہمارے معاملات حل نہیں ہوپاتے ۔ چین ہمیں ہر وقت یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ تنازعات کو پس پشت ڈال کر تجارت کو فروغ دیں اور اب اس روٹ میں بھارت کی شمولیت بھی اسے لیے کی جارہی ہے تاکہ معاملات بہتر ہوسکیں ۔
اس اقتصادی راہداری سے بھارت کو بھی فائدہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے جب پاکستان کا معاملہ آتا ہے تو بھارت کی لیڈر شپ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی خوشحالی برداشت کرسکے۔ ماضی میں ہمارے وزیراعظم نے کہا تھا کہ چینی سرمایہ داروں کی شکایات سننے کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں شکایت سیل بنائیں گے لہٰذا اب اس سیل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اندرونی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ شفافیت کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان منصوبوں سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔
جس کی ہم خوشی منا رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں چین کی طرف سے سرمایہ مل گیا ہے توہم ٹائیگر بن گئے ہیں لہٰذا اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانا ہوگی اور اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا اور اگر ہم صحیح معنوں میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی بیوروکریسی کے مزاج کو بھی درست کرنا ہوگا اور تمام منصوبوں میں شفافیت لانا ہوگی۔