اسٹیٹس کو اخباری بیانات سے نہیں ٹوٹ سکتا
تحریک انصاف اور متحدہ دو متحارب سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں میں اختلافات کی وجہ کراچی ہے۔
تحریک انصاف اور متحدہ دو متحارب سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں میں اختلافات کی وجہ کراچی ہے۔ متحدہ 1988 سے ہر الیکشن میں جیت کر کراچی میں ایک بالادست قوت کے طور پر موجود ہے۔
تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ شکایت ہے کہ متحدہ دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیت کر سندھ کے شہری علاقوں میں برتری حاصل کرلیتی ہے۔ دوسری شکایت یہ ہے کہ متحدہ کا ایک عسکری ونگ ہے جو متحدہ کی طاقت بنا ہوا ہے اور اس حوالے سے کراچی میں ایک سخت آپریشن جاری ہے۔
کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کا کوئی باشندہ نہ انتخابات میں دھاندلی کو پسند کرتا ہے نہ کسی جماعت میں عسکری ونگ کو پسند کرتا ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف ہو یا جماعت اسلامی اگر متحدہ پر الزام لگاتی ہیں تو اسے غلط نہیں کہا جاسکتا لیکن اصل اعتراض یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف یا جماعت اسلامی یا کوئی اور جماعت متحدہ پر الیکشن میں دھاندلی یا عسکری ونگ رکھنے ہی کے حوالے سے متحدہ کی مخالف ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متحدہ کو الیکشن میں دھاندلی سے روک دیا جائے اور اس کے مبینہ عسکری ونگ کو ختم کردیا جائے تو پاکستان ان بیماریوں سے نجات پاجائے گا؟
جہاں تک سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ کا تعلق ہے، ہماری اعلیٰ عدالتوں میں پیش کی گئی رپورٹوں کے مطابق کئی جماعتوں کے عسکری ونگ موجود ہیں۔ اس حوالے کا مقصد یہ نہیں کہ عسکری ونگ قابل قبول ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ملک کی سیاسی جماعتوں کو عسکری ونگز سے پاک کرنا ہے تو پھر بلاامتیاز ان ساری جماعتوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے جن پر عسکری ونگز رکھنے کے الزامات ہیں تاکہ ہمارا ملک طاقت کی سیاست سے نجات حاصل کرکے مہذب اور پرامن سیاست کے راستے پر آسکے۔
یہ نہ کوئی جانبدارانہ مطالبہ ہے نہ اس کا مطلب کسی جماعت کی حمایت یا کسی جماعت کی مخالفت ہے۔ دوسرا مسئلہ دھاندلی کا ہے۔ بلاشبہ دھاندلی یعنی انتخابات میں دھاندلی جمہوریت کے چہر ے پر سیاہ داغ ہے، اسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں انتخابی دھاندلی علاقائی ہے نہ صوبائی بلکہ یہ ایک قومی بیماری ہے اور اس بیماری میں عام سیاسی جماعتیں ہی مبتلا نہیں بلکہ صالحین کی جماعتیں بھی مبتلا ہیں۔
آج خود تحریک انصاف انتخابی دھاندلی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور اس حوالے سے تحریک انصاف نے اس مسئلے کو ایک ایسا مرکزی مسئلہ بنالیا ہے کہ حکومت کو تحریک انصاف کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ مان لینا پڑا۔ اب 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن تحقیقات کر رہا ہے اور تحریک انصاف کا دھاندلی کا یہ الزام موجودہ (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف ہے۔ یوں اس مسئلے کا تعلق بھی کسی ایک جماعت سے نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاست سے ہے۔ یہ دونوں بیماریاں ہمارے ملک، ہمارے معاشرے ، ہماری سیاست، ہماری جمہوریت کے لیے اس قدر مہلک ہیں کہ اس کے قومی سطح پر خاتمے کی ہر کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے۔
اس حوالے سے اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں بیماریاں نئی نہیں ہیں عشروں پرانی ہیں اور ان بیماریوں کے پھیلاؤ اور استحکام کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے جماعتی مفادات کی خاطر ان بیماریوں کو نظرانداز بھی کرتی رہی ہے اور ان بیماریوں میں خود بھی مبتلا رہی ہے۔
اگر ہمارا حکمران طبقہ اپنی سیاسی مصلحتوں سیاسی ضرورتوں کے تحت ان بیماریوں کی حوصلہ افزائی نہ کرتا تو ہمارا قومی جسم ان مہلک بیماریوں سے پاک رہتا۔ ہمارے ملک میں رائج طریقہ علاج میں ایک طریقہ علاج یونانی طریقہ علاج ہے، اس طریقہ علاج میں بیماری کی علامات کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ بیماری پیدا کرنے والے عنصر کو تلاش کرکے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری کو ایلوپیتھک طریقہ علاج کی طرح وقتی طور پر دبایا نہیں جاتا بلکہ اس کے اسباب کو ختم کرکے بیماری کا مستقل طور پر خاتمہ کردیا جاتا ہے۔
اہل علم اہل دانش بھی معاشی اور سیاسی امراض کا مستقل حل چاہتے ہیں تاکہ قومی جسم صحت مند رہے۔ اس حوالے سے اہل علم اور اہل دانش کی تشخیص یہ ہے کہ ہمارے قومی جسم سے جتنی بیماریاں لپٹی ہوئی ہیں اس کی اصل وجہ 68 سالہ Status Quo ہے جب تک یہ ام الخبائث موجود ہے ہمارا قومی جسم بیماریوں کی آماجگاہ بنا رہے گا۔
ملک کے اس بدترین ماحول میں ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اور متحدہ دونوں ہی اسٹیٹس کو کو ختم کرنے کی مشترکہ خواہش رکھتی ہیں اور اس خواہش کی تکمیل کے امکانات اس لیے روشن ہیں کہ ان دونوں ہی جماعتوں کے پاس ایک موثر اسٹریٹ پاور ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ کیا یہ دونوں جماعتیں اپنی تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں سے نجات حاصل کرکے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے Status Quo کو توڑنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہو جائیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا رسمی یا سیاسی جواب Status Quo توڑنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا بلکہ اس سوال کا مخلصانہ سنجیدہ اور باعزم جواب ہی ملک و قوم کے جسم سے 68 سالوں سے جونک کی طرح چمٹی اس بیماری کو ختم کرسکتا ہے۔
ہماری مروج سیاست میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کی اولین ترجیح اقتدار ہوتا ہے اور یہ اقتدار ملک و قوم کی زندگی بدلنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ بادشاہ بننے کی خواہش پوری کرنے اور دولت کمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی ہمارا ماضی ہے، یہی ہمارا حال ہے۔
اس ماضی اور حال کو بدلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو نظریاتی دریائے گنگا بنانا پڑے گا۔ اور یہ کام اس لیے بہت مشکل ہے کہ ہم 68 سالوں سے جن بیماریوں میں گرفتار ہیں وہ بیماریاں صرف ہمارے جسم ہی میں نہیں بلکہ ہماری روح میں اس طرح پیوست ہوگئی ہیں کہ انھیں صرف اور صرف ایماندارانہ مخلصانہ خود احتسابی کی سخت سرجری کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے، اس کا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
Status Quo ایک سارے قومی جسم پر مسلط ایسی بیماری ہے جو نہ اخباری بیانات سے ختم ہوسکتی ہے نہ نیک خواہشات کے اظہار سے بلکہ اسے اس وقت ہی ختم کیا جاسکتا ہے جب خلوص نیت، ایمانداری، بے غرضی اور اقتدار کی بھوک سے نجات حاصل کرکے عملی طور پر اس کے خاتمے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا جائے۔
اسٹیٹس کو کے مالی اور سرپرست راجے مہاراجے اس قدر طاقتور ہیں کہ محض ایک یا دو جماعتیں ان کی طاقت ان کے وسائل ان کے داؤ پیچ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، اس کے لیے ہم بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ ایک ایسے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ہے جس میں وہ تمام چھوٹی بڑی جماعتیں اور تنظیمیں شامل ہوں جو صدق دل سے اس 68 سالہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کا عزم رکھتی ہیں، اس میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ ٹریڈ یونین، طلبا، ڈاکٹرز، وکلا وغیرہ کی تنظیمیں شامل ہیں۔
اگر یہ دو مذکورہ جماعتیں صدق دل سے اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو دفن کرکے اس مقصد کے لیے آگے بڑھیں تو یہ نہ صرف ان کی غلطیوں کا ازالہ ہوگا بلکہ پاکستان میں ایک ایسی عوامی جمہوریت کا آغاز ہوگا جس میں عوام کی بالادستی ہوگی۔
تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ شکایت ہے کہ متحدہ دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیت کر سندھ کے شہری علاقوں میں برتری حاصل کرلیتی ہے۔ دوسری شکایت یہ ہے کہ متحدہ کا ایک عسکری ونگ ہے جو متحدہ کی طاقت بنا ہوا ہے اور اس حوالے سے کراچی میں ایک سخت آپریشن جاری ہے۔
کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کا کوئی باشندہ نہ انتخابات میں دھاندلی کو پسند کرتا ہے نہ کسی جماعت میں عسکری ونگ کو پسند کرتا ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف ہو یا جماعت اسلامی اگر متحدہ پر الزام لگاتی ہیں تو اسے غلط نہیں کہا جاسکتا لیکن اصل اعتراض یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف یا جماعت اسلامی یا کوئی اور جماعت متحدہ پر الیکشن میں دھاندلی یا عسکری ونگ رکھنے ہی کے حوالے سے متحدہ کی مخالف ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متحدہ کو الیکشن میں دھاندلی سے روک دیا جائے اور اس کے مبینہ عسکری ونگ کو ختم کردیا جائے تو پاکستان ان بیماریوں سے نجات پاجائے گا؟
جہاں تک سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ کا تعلق ہے، ہماری اعلیٰ عدالتوں میں پیش کی گئی رپورٹوں کے مطابق کئی جماعتوں کے عسکری ونگ موجود ہیں۔ اس حوالے کا مقصد یہ نہیں کہ عسکری ونگ قابل قبول ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ملک کی سیاسی جماعتوں کو عسکری ونگز سے پاک کرنا ہے تو پھر بلاامتیاز ان ساری جماعتوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے جن پر عسکری ونگز رکھنے کے الزامات ہیں تاکہ ہمارا ملک طاقت کی سیاست سے نجات حاصل کرکے مہذب اور پرامن سیاست کے راستے پر آسکے۔
یہ نہ کوئی جانبدارانہ مطالبہ ہے نہ اس کا مطلب کسی جماعت کی حمایت یا کسی جماعت کی مخالفت ہے۔ دوسرا مسئلہ دھاندلی کا ہے۔ بلاشبہ دھاندلی یعنی انتخابات میں دھاندلی جمہوریت کے چہر ے پر سیاہ داغ ہے، اسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں انتخابی دھاندلی علاقائی ہے نہ صوبائی بلکہ یہ ایک قومی بیماری ہے اور اس بیماری میں عام سیاسی جماعتیں ہی مبتلا نہیں بلکہ صالحین کی جماعتیں بھی مبتلا ہیں۔
آج خود تحریک انصاف انتخابی دھاندلی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور اس حوالے سے تحریک انصاف نے اس مسئلے کو ایک ایسا مرکزی مسئلہ بنالیا ہے کہ حکومت کو تحریک انصاف کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ مان لینا پڑا۔ اب 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن تحقیقات کر رہا ہے اور تحریک انصاف کا دھاندلی کا یہ الزام موجودہ (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف ہے۔ یوں اس مسئلے کا تعلق بھی کسی ایک جماعت سے نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاست سے ہے۔ یہ دونوں بیماریاں ہمارے ملک، ہمارے معاشرے ، ہماری سیاست، ہماری جمہوریت کے لیے اس قدر مہلک ہیں کہ اس کے قومی سطح پر خاتمے کی ہر کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے۔
اس حوالے سے اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں بیماریاں نئی نہیں ہیں عشروں پرانی ہیں اور ان بیماریوں کے پھیلاؤ اور استحکام کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے جماعتی مفادات کی خاطر ان بیماریوں کو نظرانداز بھی کرتی رہی ہے اور ان بیماریوں میں خود بھی مبتلا رہی ہے۔
اگر ہمارا حکمران طبقہ اپنی سیاسی مصلحتوں سیاسی ضرورتوں کے تحت ان بیماریوں کی حوصلہ افزائی نہ کرتا تو ہمارا قومی جسم ان مہلک بیماریوں سے پاک رہتا۔ ہمارے ملک میں رائج طریقہ علاج میں ایک طریقہ علاج یونانی طریقہ علاج ہے، اس طریقہ علاج میں بیماری کی علامات کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ بیماری پیدا کرنے والے عنصر کو تلاش کرکے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری کو ایلوپیتھک طریقہ علاج کی طرح وقتی طور پر دبایا نہیں جاتا بلکہ اس کے اسباب کو ختم کرکے بیماری کا مستقل طور پر خاتمہ کردیا جاتا ہے۔
اہل علم اہل دانش بھی معاشی اور سیاسی امراض کا مستقل حل چاہتے ہیں تاکہ قومی جسم صحت مند رہے۔ اس حوالے سے اہل علم اور اہل دانش کی تشخیص یہ ہے کہ ہمارے قومی جسم سے جتنی بیماریاں لپٹی ہوئی ہیں اس کی اصل وجہ 68 سالہ Status Quo ہے جب تک یہ ام الخبائث موجود ہے ہمارا قومی جسم بیماریوں کی آماجگاہ بنا رہے گا۔
ملک کے اس بدترین ماحول میں ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اور متحدہ دونوں ہی اسٹیٹس کو کو ختم کرنے کی مشترکہ خواہش رکھتی ہیں اور اس خواہش کی تکمیل کے امکانات اس لیے روشن ہیں کہ ان دونوں ہی جماعتوں کے پاس ایک موثر اسٹریٹ پاور ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ کیا یہ دونوں جماعتیں اپنی تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں سے نجات حاصل کرکے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے Status Quo کو توڑنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہو جائیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا رسمی یا سیاسی جواب Status Quo توڑنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا بلکہ اس سوال کا مخلصانہ سنجیدہ اور باعزم جواب ہی ملک و قوم کے جسم سے 68 سالوں سے جونک کی طرح چمٹی اس بیماری کو ختم کرسکتا ہے۔
ہماری مروج سیاست میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کی اولین ترجیح اقتدار ہوتا ہے اور یہ اقتدار ملک و قوم کی زندگی بدلنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ بادشاہ بننے کی خواہش پوری کرنے اور دولت کمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی ہمارا ماضی ہے، یہی ہمارا حال ہے۔
اس ماضی اور حال کو بدلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو نظریاتی دریائے گنگا بنانا پڑے گا۔ اور یہ کام اس لیے بہت مشکل ہے کہ ہم 68 سالوں سے جن بیماریوں میں گرفتار ہیں وہ بیماریاں صرف ہمارے جسم ہی میں نہیں بلکہ ہماری روح میں اس طرح پیوست ہوگئی ہیں کہ انھیں صرف اور صرف ایماندارانہ مخلصانہ خود احتسابی کی سخت سرجری کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے، اس کا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
Status Quo ایک سارے قومی جسم پر مسلط ایسی بیماری ہے جو نہ اخباری بیانات سے ختم ہوسکتی ہے نہ نیک خواہشات کے اظہار سے بلکہ اسے اس وقت ہی ختم کیا جاسکتا ہے جب خلوص نیت، ایمانداری، بے غرضی اور اقتدار کی بھوک سے نجات حاصل کرکے عملی طور پر اس کے خاتمے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا جائے۔
اسٹیٹس کو کے مالی اور سرپرست راجے مہاراجے اس قدر طاقتور ہیں کہ محض ایک یا دو جماعتیں ان کی طاقت ان کے وسائل ان کے داؤ پیچ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، اس کے لیے ہم بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ ایک ایسے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ہے جس میں وہ تمام چھوٹی بڑی جماعتیں اور تنظیمیں شامل ہوں جو صدق دل سے اس 68 سالہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کا عزم رکھتی ہیں، اس میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ ٹریڈ یونین، طلبا، ڈاکٹرز، وکلا وغیرہ کی تنظیمیں شامل ہیں۔
اگر یہ دو مذکورہ جماعتیں صدق دل سے اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو دفن کرکے اس مقصد کے لیے آگے بڑھیں تو یہ نہ صرف ان کی غلطیوں کا ازالہ ہوگا بلکہ پاکستان میں ایک ایسی عوامی جمہوریت کا آغاز ہوگا جس میں عوام کی بالادستی ہوگی۔