معاشی ترقی اور غیرملکی سرمایہ کاری
حالیہ معاہدوں کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
FAISALABAD:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے لندن پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب بہترین دوست ہے، اگر سعودی عرب کے استحکام کو کوئی خطرہ ہوا تو اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور مستحکم تعلقات ہیں جنھیں مزید بہتر ہونا چاہیے تاہم انھوں نے اس بات کی نفی کی کہ سعودی حکمران نے پاکستان کو خواہشات پر مبنی کوئی فہرست دی ہے۔
بی بی سی نے بھی واضح کیا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوئی وش لسٹ نہیں دی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان یمن کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے اور سعودی عرب بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔ یمن کے معاملے پر ہمارا اور ان کا مؤقف ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے کہا کہ چینی صدر کا دورہ پاکستان کامیاب رہا جس کے دوران 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ چین کے صدر دھرنوں کی وجہ سے پہلے پاکستان نہیں آسکے تھے۔
حالیہ معاہدوں کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے غیرملکیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت بہتر ہوگی تو بیرون ملک پاکستانیوں کا سر بھی فخر سے بلند ہوگا۔ غیرملکیوں کی سیکیورٹی کے لیے فورس بھی تشکیل دے رہے ہیں جو چینی ورکرز کی حفاظت پر مامور ہوگی جب کہ گوادر بین الاقوامی شہر بننے والا ہے اور اقتصادی راہداری سے چاروں صوبوں کو فائدہ ہوگا۔
کراچی کے حلقہ این اے 246 میں الیکشن کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ انسان کو سوچ سمجھ کر الیکشن میں کودنا چاہیے۔ جس پارٹی کی سیٹ خالی ہوتی ہے اسی کی جیت ہوتی ہے۔ ہماری ننکانہ میں سیٹ خالی ہوئی تھی، پہلے ہم 5 ہزار ووٹ سے جیتے تھے لیکن ضمنی انتخاب میں ہم نے38 ہزار کی واضح برتری سے یہ سیٹ جیتی۔ کراچی کے ضمنی الیکشن میں بلند و بالا دعوؤں کی حقیقت سب نے دیکھ لی۔ کسی کے مینڈیٹ کو ہم جعلی نہیں کہہ سکتے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے لندن پہنچ کر قومی امور اور یمن کے بحران پر بات کی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یمن کے بحران پر پاکستان کا مؤقف بھی سب پر عیاں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے انہی حقائق کا ذکر کیا ہے۔
ادھر دفتر خارجہ نے بھی گزشتہ روز وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے پاکستان کے اس مؤقف کا اظہار کیا ہے جس کی وضاحت جناب وزیراعظم نے کی ہے۔ چین کے صدر کے دورے اور اس کے نتیجے میں آنے والی سرمایہ کاری کا بھی انھوں نے ذکر کیا۔ بلاشبہ صدر چین کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 46 ارب ڈالر کے مختلف معاہدے ہوئے اور ایم او یوز پر دستخط ہوئے جو ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔ جناب وزیر اعظم نے غیرملکیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اگر غیرملکی سرمایہ کار خصوصاً امریکا، جاپان، کینیڈا اور یورپ کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار اسی وقت سرمایہ کاری کرے گا جب پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا اور ملک میں جرائم پیشہ مافیاز کا بھی قلع قمع کر دیا جائے گا۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان دہشت گردی نے پہنچایا ہے۔ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوتا، پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے سرمایہ کار بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ جب اپنے ملک کے سرمایہ کار ہی دوسرے ملکوں میں جا کر سرمایہ کاری کر رہے ہوں تو ایسے حالات میں دوسرے ملکوں کے سرمایہ کار یہاں آ کر اپنا سرمایہ کیوں لگائیں گے۔
بہرحال چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا دوسرا مسئلہ ریڈ ٹیپ ازم بھی ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے قوانین لچکدار ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں تیز کرنے کے لیے کاروبار دوست پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے خاصی جدوجہد کر رہی ہے اور اس کے ثمرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
چین کے ساتھ جو 46 ارب ڈالر کے منصوبے بنے ہیں، اگر ان پر ایمانداری سے عملدرآمد ہو جائے اور یہ منصوبے اپنی مقررہ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں تو اس سے پاکستان کی معیشت پر خاصے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے دنیا میں پاکستان کے حوالے سے بڑا سوفٹ امیج جائے گا۔ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ کسی بھی حکومت نے معیشت کو دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کام نہیں کیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کی زراعت بھی پسماندہ ہے اور صنعت بھی پسماندہ ہے حالانکہ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔ موجودہ حکومت کو پاکستان کی زراعت پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ پاکستان زراعت کے ذریعے ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ زرعی معیشت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو اس سے پاکستان خوراک میں بھی خودکفیل ہو گا اور اس سے زرمبادلہ بھی ملے گا اور اس کی صنعتیں بھی ترقی کریں گی۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے لندن پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب بہترین دوست ہے، اگر سعودی عرب کے استحکام کو کوئی خطرہ ہوا تو اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور مستحکم تعلقات ہیں جنھیں مزید بہتر ہونا چاہیے تاہم انھوں نے اس بات کی نفی کی کہ سعودی حکمران نے پاکستان کو خواہشات پر مبنی کوئی فہرست دی ہے۔
بی بی سی نے بھی واضح کیا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوئی وش لسٹ نہیں دی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان یمن کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے اور سعودی عرب بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔ یمن کے معاملے پر ہمارا اور ان کا مؤقف ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے کہا کہ چینی صدر کا دورہ پاکستان کامیاب رہا جس کے دوران 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ چین کے صدر دھرنوں کی وجہ سے پہلے پاکستان نہیں آسکے تھے۔
حالیہ معاہدوں کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے غیرملکیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت بہتر ہوگی تو بیرون ملک پاکستانیوں کا سر بھی فخر سے بلند ہوگا۔ غیرملکیوں کی سیکیورٹی کے لیے فورس بھی تشکیل دے رہے ہیں جو چینی ورکرز کی حفاظت پر مامور ہوگی جب کہ گوادر بین الاقوامی شہر بننے والا ہے اور اقتصادی راہداری سے چاروں صوبوں کو فائدہ ہوگا۔
کراچی کے حلقہ این اے 246 میں الیکشن کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ انسان کو سوچ سمجھ کر الیکشن میں کودنا چاہیے۔ جس پارٹی کی سیٹ خالی ہوتی ہے اسی کی جیت ہوتی ہے۔ ہماری ننکانہ میں سیٹ خالی ہوئی تھی، پہلے ہم 5 ہزار ووٹ سے جیتے تھے لیکن ضمنی انتخاب میں ہم نے38 ہزار کی واضح برتری سے یہ سیٹ جیتی۔ کراچی کے ضمنی الیکشن میں بلند و بالا دعوؤں کی حقیقت سب نے دیکھ لی۔ کسی کے مینڈیٹ کو ہم جعلی نہیں کہہ سکتے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے لندن پہنچ کر قومی امور اور یمن کے بحران پر بات کی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یمن کے بحران پر پاکستان کا مؤقف بھی سب پر عیاں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے انہی حقائق کا ذکر کیا ہے۔
ادھر دفتر خارجہ نے بھی گزشتہ روز وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے پاکستان کے اس مؤقف کا اظہار کیا ہے جس کی وضاحت جناب وزیراعظم نے کی ہے۔ چین کے صدر کے دورے اور اس کے نتیجے میں آنے والی سرمایہ کاری کا بھی انھوں نے ذکر کیا۔ بلاشبہ صدر چین کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 46 ارب ڈالر کے مختلف معاہدے ہوئے اور ایم او یوز پر دستخط ہوئے جو ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔ جناب وزیر اعظم نے غیرملکیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اگر غیرملکی سرمایہ کار خصوصاً امریکا، جاپان، کینیڈا اور یورپ کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار اسی وقت سرمایہ کاری کرے گا جب پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا اور ملک میں جرائم پیشہ مافیاز کا بھی قلع قمع کر دیا جائے گا۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان دہشت گردی نے پہنچایا ہے۔ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوتا، پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے سرمایہ کار بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ جب اپنے ملک کے سرمایہ کار ہی دوسرے ملکوں میں جا کر سرمایہ کاری کر رہے ہوں تو ایسے حالات میں دوسرے ملکوں کے سرمایہ کار یہاں آ کر اپنا سرمایہ کیوں لگائیں گے۔
بہرحال چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا دوسرا مسئلہ ریڈ ٹیپ ازم بھی ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے قوانین لچکدار ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں تیز کرنے کے لیے کاروبار دوست پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے خاصی جدوجہد کر رہی ہے اور اس کے ثمرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
چین کے ساتھ جو 46 ارب ڈالر کے منصوبے بنے ہیں، اگر ان پر ایمانداری سے عملدرآمد ہو جائے اور یہ منصوبے اپنی مقررہ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں تو اس سے پاکستان کی معیشت پر خاصے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے دنیا میں پاکستان کے حوالے سے بڑا سوفٹ امیج جائے گا۔ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ کسی بھی حکومت نے معیشت کو دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کام نہیں کیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کی زراعت بھی پسماندہ ہے اور صنعت بھی پسماندہ ہے حالانکہ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔ موجودہ حکومت کو پاکستان کی زراعت پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ پاکستان زراعت کے ذریعے ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ زرعی معیشت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو اس سے پاکستان خوراک میں بھی خودکفیل ہو گا اور اس سے زرمبادلہ بھی ملے گا اور اس کی صنعتیں بھی ترقی کریں گی۔