انتہاپسندی کی وجوہات پر غور کی ضرورت
مغرب میں پائے جانے والے اسلاموفوبیا نے بھی انتہاپسندی کو فروغ دیا ہے۔
SWAT:
قتل و غارت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے واقعات نئے نہیں لیکن نائن الیون کے بعد جس طرح دہشت گردی نے امن عالم کو نقصان پہنچایا اس بات کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے متحرک انتہاپسندی کی وجوہات کو تلاش کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے۔
اسی پیرائے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ پرتشدد انتہاپسندی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے ، پرتشدد انتہاپسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں طویل عرصہ سے حل طلب تنازعات، سماجی و معاشی محرومیاں، نا انصافی، سماجی عدم استحکام جبر اور نفرت، عدم برداشت اور مذہبی نسلی ولسانی امتیازات شامل ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی اور نفرت کے اظہار کا فرق واضح نہ ہونے کے نتیجہ میں دہشتگردوں کو نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔
مغرب میں پائے جانے والے اسلاموفوبیا نے بھی انتہاپسندی کو فروغ دیا ہے۔ ملیحہ لودھی نے اپنا یہ خطاب ''تحمل و مصالحت پرامن اور کثیر ثقافتی معاشروں کی تشکیل اور پرتشدد انتہاپسندی کا مقابلہ'' کے عنوان کے تحت کیا۔ اگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو دہشت گردی و انتہاپسندی کے تمام واقعات کے پیچھے یہ ہی تمام محرکات نظر آتے ہیں جن کا پاکستانی مندوب نے تذکرہ کیا۔ پاکستان نے دہشت گردی اور پرتشدد انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے 2 نکاتی حکمت عملی پر عملدرآمد اور اس کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دہشت گرد اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، ان کا تعلق کسی ملک و مسلک سے نہیں، یہ شرپسند اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کسی بھی ملک پہنچ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے شہر پشاور میں دہشت گردی میں ملوث عناصر اٹلی میں چھاپوں کے دوران گرفت میں آگئے، ملزمان پر الزام ہے کہ وہ عالمی سطح پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ایک تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جو القاعدہ اور مغرب کے خلاف مسلح جدوجہد اور پاکستان کی موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے انتہاپسند گروہوں سے متاثر ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سام کوٹیسا نے تمام مذاہب کے رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر عدم برداشت کی تبلیغ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔دہشت گردوں کے حملوں کا کوئی جواز نہیں ہم سب کو مل کر ایسے واقعات کی مذمت کرنا چاہیے اور انھیں روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے، اقوام عالم کو بھی انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات پر غور کرکے ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
قتل و غارت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے واقعات نئے نہیں لیکن نائن الیون کے بعد جس طرح دہشت گردی نے امن عالم کو نقصان پہنچایا اس بات کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے متحرک انتہاپسندی کی وجوہات کو تلاش کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے۔
اسی پیرائے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ پرتشدد انتہاپسندی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے ، پرتشدد انتہاپسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں طویل عرصہ سے حل طلب تنازعات، سماجی و معاشی محرومیاں، نا انصافی، سماجی عدم استحکام جبر اور نفرت، عدم برداشت اور مذہبی نسلی ولسانی امتیازات شامل ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی اور نفرت کے اظہار کا فرق واضح نہ ہونے کے نتیجہ میں دہشتگردوں کو نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔
مغرب میں پائے جانے والے اسلاموفوبیا نے بھی انتہاپسندی کو فروغ دیا ہے۔ ملیحہ لودھی نے اپنا یہ خطاب ''تحمل و مصالحت پرامن اور کثیر ثقافتی معاشروں کی تشکیل اور پرتشدد انتہاپسندی کا مقابلہ'' کے عنوان کے تحت کیا۔ اگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو دہشت گردی و انتہاپسندی کے تمام واقعات کے پیچھے یہ ہی تمام محرکات نظر آتے ہیں جن کا پاکستانی مندوب نے تذکرہ کیا۔ پاکستان نے دہشت گردی اور پرتشدد انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے 2 نکاتی حکمت عملی پر عملدرآمد اور اس کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دہشت گرد اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، ان کا تعلق کسی ملک و مسلک سے نہیں، یہ شرپسند اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کسی بھی ملک پہنچ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے شہر پشاور میں دہشت گردی میں ملوث عناصر اٹلی میں چھاپوں کے دوران گرفت میں آگئے، ملزمان پر الزام ہے کہ وہ عالمی سطح پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ایک تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جو القاعدہ اور مغرب کے خلاف مسلح جدوجہد اور پاکستان کی موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے انتہاپسند گروہوں سے متاثر ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سام کوٹیسا نے تمام مذاہب کے رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر عدم برداشت کی تبلیغ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔دہشت گردوں کے حملوں کا کوئی جواز نہیں ہم سب کو مل کر ایسے واقعات کی مذمت کرنا چاہیے اور انھیں روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے، اقوام عالم کو بھی انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات پر غور کرکے ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔