خالی ہاتھ
پوری دنیا میں جس تیزی سے ہر شعبے میں، زندگیوں میں اور ماحول میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں۔۔۔
ماڈل آیان علی منی لانڈرنگ کیس میں پکڑی گئی اور اب تک اڈیالہ جیل میں ہے، مختلف نام اس لانڈرنگ کے حوالے سے سامنے آئے، اور اب نیا انکشاف ذوالفقار مرزا مختلف چینلز پر فرما رہے ہیں۔ الزام سنگین ہے کہ اگر یہ جھوٹ ہے تو فوراً سے پیشتر اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
چھوٹے اور بڑے تمام اداروں میں بیٹھے ہوئے افسران بھی یہ سب سن رہے ہیں، اگر کرپشن ہو رہی ہے اور کرپشن کی نشاندہی کی جا رہی ہے تو ان تمام باتوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے تا کہ عوام میں اداروں پر بھروسہ ہو کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ روزانہ ہم یہ قصے سنیں اور کرپشن کرنیوالا اور کروانیوالا دونوں اگر ہماری طرح ہی قصوں کو سن رہے ہیں اور سب کچھ ویسا کا ویسا ہی چل رہا ہے تو پھر کیا کہیے؟
بچپن میں جب مولانا صاحب قرآن پڑھایا کرتے تھے یا درس ہوا کرتے تھے تو ایک بات ضرور ہوتی تھی، جنت کا ذکر، جہنم کی آگ، جنت میں دودھ کی نہریں اور بہت خوبصورت حوریں۔ جو نیکیاں کرنے پر، برائی سے بچنے پر، گناہوں سے دور رہنے پر ہر اس مرد کو ملیں گی جس نے دنیا میں متقی زندگی گزاری، لیکن اکیسویں صدی شروع ہو چکی ہے، بہت سارے لوگ کہتے ہیں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہ اب قیامت کے اشارے ہمارے اردگرد نظر آ رہے ہیں۔
پتہ نہیں کس کو نظر آ رہے ہیں اور کس کو نہیں مگر واقعی کچھ لوگوں کے لیے دنیا جنت ہے اور ان کے لیے دودھ کی نہریں بھی بہہ رہی ہیں اور ان کے لیے حوریں بھی موجود ہیں اور ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں۔NA-246 کی ایک سیٹ پر تین مقابلے بازوں کا ذکر بھی خوب رہا، ایسا لگتا تھا جیسے پورے ملک کے الیکشن کا دارومدار اسی پر ہے۔
جشن و میلہ بھی جاری رہا، بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان 126 دنوں کے دھرنے میں کہتے تھے کہ ''کل ہم سب یہاں پر جشن منائیں گے کیونکہ نواز شریف استعفیٰ دیں گے۔'' دھرنے بھی ختم، تقریریں بھی ختم، نواز شریف ابھی تک وزیراعظم اور عمران خان واپس اسمبلیوں میں۔ کیسے کیسے جذباتی جملوں سے معصوم عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور کسی اچھے کی امید میں عوام بھی ان لوگوں کو آزماتے رہتے ہیں۔
بے چارے سادہ لوح لوگ اپنا تن من دھن لگاتے ہیں، یہاں تک کہ ان جلسے جلوسوں کے چکر میں کئی گھر بھی خالی ہو جاتے ہیں، کئی مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں سے محروم بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر شاباش ہے ان لوگوں پر کہ یہ اپنی جنت کے چکر میں نجانے کتنی جنتوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔
طاقت اور دولت دونوں انسانوں کو بے حال کر دیتی ہیں۔ نہ ان کو نگلا جاتا ہے نہ اگلا جاتا ہے، پچھلوں کو بھی دیکھ چکے ہوتے ہیں مگر پھر بھی آنکھوں پہ چمک کی پٹی سب کچھ بھلا دیتی ہے اور پھر یہ بھی نئے آنیوالوں کے لیے کہانی ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔
ادھر یہ حلقے کے انتخاب اور ادھر چینی صدر کی آمد اور 45 ارب ڈالرز کے معاہدے، نواز حکومت جو چار مہینے قبل اداس ہو گئی تھی کہ چینی صدر دھرنوں کی وجہ سے اپنا پروگرام کینسل کر چکے تھے اللہ اللہ کر کے پاکستان تشریف لائے اور خیر و خوبی سے معاہدوں پر دستخط ہوئے اب تو موجاں ہی موجاں۔ تمام نواز حکومت کے افسر، منسٹرز کے چہرے کھلے ہوئے ہیں، 45 ارب ڈالر کوئی چھوٹی رقم تھوڑی نا ہے! بہرحال اب دیکھیے کہ یہ 45 ارب ڈالر کے معاہدے پاکستانی عوام کی زندگی میں کیا تبدیلی لاتے ہیں ورنہ اپنی اپنی جنت، دودھ کی نہریں اور حوریں زندہ باد!
پوری دنیا میں جس تیزی سے ہر شعبے میں، زندگیوں میں اور ماحول میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مگر عوام کا معیار زندگی تب ہی بلند ہوتا ہے جب اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت آزادی کے ساتھ موجود ہو۔ کسی بھی طرح کی غلامی اور خوف اس کی صلاحیتوں کو ختم کر دیتا ہے۔
اس لیے ہم لوگوں کو بھی تھوڑا اپنے ذہنوں کو اپنی سوچوں کو وسیع کرنا ہو گا۔ تمام شعبہ زندگی کو پوری دیانت داری سے، محنت سے پھلنے پھولنے دینا ہو گا۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے صحیح معنوں میں کام کرنا ہو گا کہ جانا تو سب کو اپنی اپنی قبر میں ہے اور وہ بھی خالی ہاتھ۔ بے شمار لوگ واقعی اب پاکستان میں ترقی چاہتے ہیں وہ ان تمام مافیا سسٹم سے نکلنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے زندگی روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
بہترین یونیورسٹیز، بہترین اسپتال، صحت و صفائی کا بہتر انتظام کہ جب دنیا بھر کے فیشن اپنائے جا سکتے ہیں تو ان بنیادی ضرورتوں پر کیوں پردہ پوشی کی جاتی رہی ہے۔ سنجیدگی سے تمام معاملات پر نظر دوڑائی جائے اور وفاقی وزیر خواجہ آصف کے مطابق کچھ شرم کرنی چاہیے کچھ حیا کرنی چاہیے۔ جس تیزی سے پاکستانی سیاست میں حالات وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور میڈیا سے لے کر سیاست تک ایک ہلچل کا منظر تھا۔ دیکھیے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بہرحال عوام کی حفاظت اور ان کے لیے مکمل تحفظ اور سہولیات ایک ریاست کا ہی کام ہے۔
اگر آیان علی کی طرح جیسا کہ اور دوسروں کے نام بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں اگر اسی طرح اور اسکینڈل منظر عام پر آئے تو واقعی کام کرنیوالی لڑکیوں کے لیے اور ان کے سربراہان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ یوں تو ہمارا معاشرہ اور روایات بھی سیاست کی بھینٹ چڑھتے جا رہے ہیں۔ مگر ہر ادارے اور ہر کام کے تقدس کو الگ رکھنا ہو گا، حرص و لالچ ختم تو نہیں ہو سکتا مگر اس کو کنٹرول تو کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر خواتین کے لیے، لڑکیوں کے لیے کام کرنے کے مواقعے اور ماحول کو بہتر بنانا ہو گا، اور کرپشن کسی بھی شکل میں ہو اسے روکنا ہو گا۔وہ اشخاص جو توجہ دلا رہے ہیں، چیخ چیخ کر حقیقت سامنے لا رہے ہیں، ان کو ایڈریس کرنا چاہیے۔ قوانین تو بنائے جاتے ہیں بنائے جاتے رہیں گے مگر بہت اہم ہے ان کا نافذ کرنا۔ ایک خوبصورت عدل و انصاف کی فضا قائم ہونا، لگتا تو ہے کہ اب کچھ بہتر ہو گا، آہستہ آہستہ لوگ اور واقعات کو سامنے لایا جا رہا ہے۔
اور بہت ہی تلخ اور کڑوے سچ بھی سامنے آ رہے ہیں، باہر سے نظر آنے والے چہرے اندر سے کتنی کراہیت والی سوچ رکھتے ہیں۔ نہ کوئی اپنا نہ پرایا، بس سب کے سب ایک کے پیچھے ایک چاہتے ہیں کہ اپنی اولاد کے لیے اپنی نسلوں کے لیے شاید اپنے والدین سے زیادہ بہت زیادہ کر جائیں۔ اور اس دوڑ میں تعلیم و تربیت چاہے اپنی ہو یا اپنے لوگوں کی سب کچھ بھول بھال کر ایک کمرشل دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں جن کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔
چھوٹے اور بڑے تمام اداروں میں بیٹھے ہوئے افسران بھی یہ سب سن رہے ہیں، اگر کرپشن ہو رہی ہے اور کرپشن کی نشاندہی کی جا رہی ہے تو ان تمام باتوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے تا کہ عوام میں اداروں پر بھروسہ ہو کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ روزانہ ہم یہ قصے سنیں اور کرپشن کرنیوالا اور کروانیوالا دونوں اگر ہماری طرح ہی قصوں کو سن رہے ہیں اور سب کچھ ویسا کا ویسا ہی چل رہا ہے تو پھر کیا کہیے؟
بچپن میں جب مولانا صاحب قرآن پڑھایا کرتے تھے یا درس ہوا کرتے تھے تو ایک بات ضرور ہوتی تھی، جنت کا ذکر، جہنم کی آگ، جنت میں دودھ کی نہریں اور بہت خوبصورت حوریں۔ جو نیکیاں کرنے پر، برائی سے بچنے پر، گناہوں سے دور رہنے پر ہر اس مرد کو ملیں گی جس نے دنیا میں متقی زندگی گزاری، لیکن اکیسویں صدی شروع ہو چکی ہے، بہت سارے لوگ کہتے ہیں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہ اب قیامت کے اشارے ہمارے اردگرد نظر آ رہے ہیں۔
پتہ نہیں کس کو نظر آ رہے ہیں اور کس کو نہیں مگر واقعی کچھ لوگوں کے لیے دنیا جنت ہے اور ان کے لیے دودھ کی نہریں بھی بہہ رہی ہیں اور ان کے لیے حوریں بھی موجود ہیں اور ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں۔NA-246 کی ایک سیٹ پر تین مقابلے بازوں کا ذکر بھی خوب رہا، ایسا لگتا تھا جیسے پورے ملک کے الیکشن کا دارومدار اسی پر ہے۔
جشن و میلہ بھی جاری رہا، بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان 126 دنوں کے دھرنے میں کہتے تھے کہ ''کل ہم سب یہاں پر جشن منائیں گے کیونکہ نواز شریف استعفیٰ دیں گے۔'' دھرنے بھی ختم، تقریریں بھی ختم، نواز شریف ابھی تک وزیراعظم اور عمران خان واپس اسمبلیوں میں۔ کیسے کیسے جذباتی جملوں سے معصوم عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور کسی اچھے کی امید میں عوام بھی ان لوگوں کو آزماتے رہتے ہیں۔
بے چارے سادہ لوح لوگ اپنا تن من دھن لگاتے ہیں، یہاں تک کہ ان جلسے جلوسوں کے چکر میں کئی گھر بھی خالی ہو جاتے ہیں، کئی مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں سے محروم بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر شاباش ہے ان لوگوں پر کہ یہ اپنی جنت کے چکر میں نجانے کتنی جنتوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔
طاقت اور دولت دونوں انسانوں کو بے حال کر دیتی ہیں۔ نہ ان کو نگلا جاتا ہے نہ اگلا جاتا ہے، پچھلوں کو بھی دیکھ چکے ہوتے ہیں مگر پھر بھی آنکھوں پہ چمک کی پٹی سب کچھ بھلا دیتی ہے اور پھر یہ بھی نئے آنیوالوں کے لیے کہانی ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔
ادھر یہ حلقے کے انتخاب اور ادھر چینی صدر کی آمد اور 45 ارب ڈالرز کے معاہدے، نواز حکومت جو چار مہینے قبل اداس ہو گئی تھی کہ چینی صدر دھرنوں کی وجہ سے اپنا پروگرام کینسل کر چکے تھے اللہ اللہ کر کے پاکستان تشریف لائے اور خیر و خوبی سے معاہدوں پر دستخط ہوئے اب تو موجاں ہی موجاں۔ تمام نواز حکومت کے افسر، منسٹرز کے چہرے کھلے ہوئے ہیں، 45 ارب ڈالر کوئی چھوٹی رقم تھوڑی نا ہے! بہرحال اب دیکھیے کہ یہ 45 ارب ڈالر کے معاہدے پاکستانی عوام کی زندگی میں کیا تبدیلی لاتے ہیں ورنہ اپنی اپنی جنت، دودھ کی نہریں اور حوریں زندہ باد!
پوری دنیا میں جس تیزی سے ہر شعبے میں، زندگیوں میں اور ماحول میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مگر عوام کا معیار زندگی تب ہی بلند ہوتا ہے جب اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت آزادی کے ساتھ موجود ہو۔ کسی بھی طرح کی غلامی اور خوف اس کی صلاحیتوں کو ختم کر دیتا ہے۔
اس لیے ہم لوگوں کو بھی تھوڑا اپنے ذہنوں کو اپنی سوچوں کو وسیع کرنا ہو گا۔ تمام شعبہ زندگی کو پوری دیانت داری سے، محنت سے پھلنے پھولنے دینا ہو گا۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے صحیح معنوں میں کام کرنا ہو گا کہ جانا تو سب کو اپنی اپنی قبر میں ہے اور وہ بھی خالی ہاتھ۔ بے شمار لوگ واقعی اب پاکستان میں ترقی چاہتے ہیں وہ ان تمام مافیا سسٹم سے نکلنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے زندگی روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
بہترین یونیورسٹیز، بہترین اسپتال، صحت و صفائی کا بہتر انتظام کہ جب دنیا بھر کے فیشن اپنائے جا سکتے ہیں تو ان بنیادی ضرورتوں پر کیوں پردہ پوشی کی جاتی رہی ہے۔ سنجیدگی سے تمام معاملات پر نظر دوڑائی جائے اور وفاقی وزیر خواجہ آصف کے مطابق کچھ شرم کرنی چاہیے کچھ حیا کرنی چاہیے۔ جس تیزی سے پاکستانی سیاست میں حالات وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور میڈیا سے لے کر سیاست تک ایک ہلچل کا منظر تھا۔ دیکھیے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بہرحال عوام کی حفاظت اور ان کے لیے مکمل تحفظ اور سہولیات ایک ریاست کا ہی کام ہے۔
اگر آیان علی کی طرح جیسا کہ اور دوسروں کے نام بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں اگر اسی طرح اور اسکینڈل منظر عام پر آئے تو واقعی کام کرنیوالی لڑکیوں کے لیے اور ان کے سربراہان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ یوں تو ہمارا معاشرہ اور روایات بھی سیاست کی بھینٹ چڑھتے جا رہے ہیں۔ مگر ہر ادارے اور ہر کام کے تقدس کو الگ رکھنا ہو گا، حرص و لالچ ختم تو نہیں ہو سکتا مگر اس کو کنٹرول تو کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر خواتین کے لیے، لڑکیوں کے لیے کام کرنے کے مواقعے اور ماحول کو بہتر بنانا ہو گا، اور کرپشن کسی بھی شکل میں ہو اسے روکنا ہو گا۔وہ اشخاص جو توجہ دلا رہے ہیں، چیخ چیخ کر حقیقت سامنے لا رہے ہیں، ان کو ایڈریس کرنا چاہیے۔ قوانین تو بنائے جاتے ہیں بنائے جاتے رہیں گے مگر بہت اہم ہے ان کا نافذ کرنا۔ ایک خوبصورت عدل و انصاف کی فضا قائم ہونا، لگتا تو ہے کہ اب کچھ بہتر ہو گا، آہستہ آہستہ لوگ اور واقعات کو سامنے لایا جا رہا ہے۔
اور بہت ہی تلخ اور کڑوے سچ بھی سامنے آ رہے ہیں، باہر سے نظر آنے والے چہرے اندر سے کتنی کراہیت والی سوچ رکھتے ہیں۔ نہ کوئی اپنا نہ پرایا، بس سب کے سب ایک کے پیچھے ایک چاہتے ہیں کہ اپنی اولاد کے لیے اپنی نسلوں کے لیے شاید اپنے والدین سے زیادہ بہت زیادہ کر جائیں۔ اور اس دوڑ میں تعلیم و تربیت چاہے اپنی ہو یا اپنے لوگوں کی سب کچھ بھول بھال کر ایک کمرشل دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں جن کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔