پاک چین دوستی کے معمار کا ذکر ندارد
آج کل ہر طرف چینی صدر شی چن پنگ کے دورہ پاکستان کا چرچا ہے۔
آج کل ہر طرف چینی صدر شی چن پنگ کے دورہ پاکستان کا چرچا ہے۔ صرف پاکستانی میڈیا نے نہیں عالمی میڈیا میں بھی اس کا بھر پور نوٹس لیا گیا۔ دونوں ملکوں کے عوام کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے ہیں۔ پاکستانیوں کو یقین ہے کہ جو چند ممالک پاکستان کے سچے دوست ہیں اس فہرست میں چین سب سے اوپر ہے۔ یہ کیفیت صرف پاکستانی عوام کی ہی نہیں بلکہ چینی عوام بھی ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ جب امریکی سرپرستی میں دنیا نے چین کا سوشل بائیکاٹ کیا ہوا تھا تو اس وقت پاکستان ہی تھا جس کے ساتھ چین کے رابطے تھے۔ چینی ایئرلائن کو دنیا کے کسی ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت نہیں تھی یہ پی آئی اے کی پرواز ہی تھی جو بیجنگ پہنچی۔ پاکستان نے بھی چین کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پاکستان کے ذریعے ہی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر چین پہنچے پھر اس کے بعد چین پر پوری دنیا کے دروازے کھل گئے۔ دوست دشمن کی پہچان برے وقت پر ہی ہوتی ہے۔ چینی صدر نے پاک چین دوستی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ جب میں جوان تھا تو اکثر پاک چین دوستی کی کہانیاں سنا کرتا تھا۔ جب کوئی بھی چین کو چلتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت پاکستان ہی تھا جس نے چین کو دنیا سے رابطے قائم کرنے اور روابط بڑھانے کے لیے فضائی راستے فراہم کیے۔ جب چین کو اقوام متحدہ کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان نے چین کے اقوام متحدہ کے جائز مقام کے لیے جو بھر پور مدد کی وہ چین کبھی نہیں بھلا سکتا اور پھر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور امریکی صدر نکسن کے دورہ چین کے لیے پاکستان نے جو خدمات فراہم کیں وہ تو روز روشن کی طرح چمکتی ہوئی سب کو نظر آ رہی ہیں۔''
یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جو پاک چائنا دوستی کے معمار تھے ان کا ذکر میڈیا میں نہیں کیا گیا حالانکہ عظیم قائد چیئرمین ماوزے تنگ جو نئے چین کے بانی تھے اور وزیراعظم چو این لائی جو انقلاب کے بانیوں میں سے تھے سے بھٹو کے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ ماؤ اور چو این لائی بھٹو سے بہت محبت کرتے تھے اور بھٹو کے دل میں بھی ان دونوں کا ازحد احترام تھا۔ بے شک ماؤ اور چو این لائی تاریخ ساز شخصیت تھے جنہوں نے نئے چین کو جنم دے کر تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ یہ وہ شخصیات تھیں جن کے ساتھ دنیا کے اربوں عوام کے دل دھڑکتے تھے۔ وہ عوام کے لیے ہی جیتے تھے اور اپنے عوام کے لیے پوری زندگی قربان کر دی۔ ماؤ جب فوت ہوئے تو تین مرلے کے گھر سے ان کا جنازہ نکلا۔ دو جوڑے کپڑوں میں ساری زندگی بسر کر دی۔ انتہائی سادہ طرز زندگی تھا۔ جب کہ آپ اپنے حکمرانوں کے طرز زندگی کا مشاہدہ کریں، اندرون بیرون ملک محلات، سیکڑوں کے حساب سے خدام، ڈالروں میں اربوں کے حساب سے بینک بیلنس اور دعویٰ ہے عوام پر قربان ہونے کا۔ وہ عوام جو کروڑوں کی تعداد میں ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تاریخ میں امر ہو گئے۔ پاکستان چین دوستی میں بھٹو کو نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ بھٹو نے سٹرٹجیکلی جو دو کام کیے جو آج بھی پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں۔پہلا پاک چین دوستی، دوسرا پاکستان کی ایٹمی بنیاد رکھنا۔ جب بھٹو نے پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی تو آج کے حکمران جو پاک چین دوستی کا سارا کریڈٹ لینے کے چکر میں ان کا اس وقت پاکستانی سیاست میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ حکمران چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں وہ تاریخ کو بدل نہیں سکتے۔ پاک چین دوستی ہو یا ایٹمی معاملات یہ ریاستی فیصلے ہوتے ہیں جن پر عملدرآمد ہر دور میں ہرحال میں جاری رہتا ہے۔ عملدرآمد کرانے والی قوتیں ہمیشہ پس پردہ رہتی ہیں۔ کیونکہ ان کا تعلق ملکی سلامتی سے ہوتا ہے۔ جب کہ سامنے نظر آنے والی شخصیتیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سارا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہیں۔
چینی صدر کی اسلام آباد آمد پر ایئرپورٹ پر ایک اور منظر نظر آیا کہ ایک بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ استقبال کے لیے موجود تھے جب کہ باقی تمام صوبوں کے وزیراعلیٰ غائب تھے کیونکہ ان کو بلایا ہی نہیں گیا کیونکہ پاکستانی عوام کو یہ جتلانا تھا کہ پاک چین تعلقات میں اس تمام تر پیش رفت کا سہرا صرف موجودہ حکمران خاندان کو جاتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اسی سلسلے میں چین کا اکیلے ہی طواف کرتے رہے۔ سارے کا سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش حکمرانوں کے اس مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ شراکت اقتدار سمیت کسی بھی معاملے پر کسی دوسرے کو شریک نہیں کر سکتے۔ وہ پورا کا پورا اقتدار چاہتے ہیں۔
یہ مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کے اثرات ہی ہیں کہ آج پاکستان میں بھی جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتیں قائم ہو گئی ہیں۔ مگر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے آج بھی نام جمہوریت کا لیا جا رہا ہے۔ پاکستانی قوم کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب تک مشرق وسطیٰ میں بادشاہتیں ہیں پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمیشہ کمزور ہی رہے گی۔ اس پر برا وقت آتا ہی رہے گا۔ پاکستان سے مشرق وسطیٰ تک غیر جمہوری قوتیں بہت طاقتور ہیں۔
اس موقعہ پر مجھے اس شخص کی تخلیہ میں کی گئی گفتگو یاد آتی ہے۔ جس کا مشرف دور میں پورے پاکستان پر کنٹرول تھا کہ کیا پاکستان میں مشرق وسطیٰ کی طرز پر بادشاہت قائم نہیں ہو سکتی تاکہ ہر پانچ سال کے بعد الیکشن سے جاں چھوٹ جائے۔
... ایم کیو ایم کے حوالے سے 2016اہمیت کا حامل ہے' جس کا آغاز مئی جون 2015ء سے ہو جائے گا۔
پاکستان کے ذریعے ہی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر چین پہنچے پھر اس کے بعد چین پر پوری دنیا کے دروازے کھل گئے۔ دوست دشمن کی پہچان برے وقت پر ہی ہوتی ہے۔ چینی صدر نے پاک چین دوستی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ جب میں جوان تھا تو اکثر پاک چین دوستی کی کہانیاں سنا کرتا تھا۔ جب کوئی بھی چین کو چلتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت پاکستان ہی تھا جس نے چین کو دنیا سے رابطے قائم کرنے اور روابط بڑھانے کے لیے فضائی راستے فراہم کیے۔ جب چین کو اقوام متحدہ کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان نے چین کے اقوام متحدہ کے جائز مقام کے لیے جو بھر پور مدد کی وہ چین کبھی نہیں بھلا سکتا اور پھر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور امریکی صدر نکسن کے دورہ چین کے لیے پاکستان نے جو خدمات فراہم کیں وہ تو روز روشن کی طرح چمکتی ہوئی سب کو نظر آ رہی ہیں۔''
یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جو پاک چائنا دوستی کے معمار تھے ان کا ذکر میڈیا میں نہیں کیا گیا حالانکہ عظیم قائد چیئرمین ماوزے تنگ جو نئے چین کے بانی تھے اور وزیراعظم چو این لائی جو انقلاب کے بانیوں میں سے تھے سے بھٹو کے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ ماؤ اور چو این لائی بھٹو سے بہت محبت کرتے تھے اور بھٹو کے دل میں بھی ان دونوں کا ازحد احترام تھا۔ بے شک ماؤ اور چو این لائی تاریخ ساز شخصیت تھے جنہوں نے نئے چین کو جنم دے کر تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ یہ وہ شخصیات تھیں جن کے ساتھ دنیا کے اربوں عوام کے دل دھڑکتے تھے۔ وہ عوام کے لیے ہی جیتے تھے اور اپنے عوام کے لیے پوری زندگی قربان کر دی۔ ماؤ جب فوت ہوئے تو تین مرلے کے گھر سے ان کا جنازہ نکلا۔ دو جوڑے کپڑوں میں ساری زندگی بسر کر دی۔ انتہائی سادہ طرز زندگی تھا۔ جب کہ آپ اپنے حکمرانوں کے طرز زندگی کا مشاہدہ کریں، اندرون بیرون ملک محلات، سیکڑوں کے حساب سے خدام، ڈالروں میں اربوں کے حساب سے بینک بیلنس اور دعویٰ ہے عوام پر قربان ہونے کا۔ وہ عوام جو کروڑوں کی تعداد میں ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تاریخ میں امر ہو گئے۔ پاکستان چین دوستی میں بھٹو کو نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ بھٹو نے سٹرٹجیکلی جو دو کام کیے جو آج بھی پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں۔پہلا پاک چین دوستی، دوسرا پاکستان کی ایٹمی بنیاد رکھنا۔ جب بھٹو نے پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی تو آج کے حکمران جو پاک چین دوستی کا سارا کریڈٹ لینے کے چکر میں ان کا اس وقت پاکستانی سیاست میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ حکمران چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں وہ تاریخ کو بدل نہیں سکتے۔ پاک چین دوستی ہو یا ایٹمی معاملات یہ ریاستی فیصلے ہوتے ہیں جن پر عملدرآمد ہر دور میں ہرحال میں جاری رہتا ہے۔ عملدرآمد کرانے والی قوتیں ہمیشہ پس پردہ رہتی ہیں۔ کیونکہ ان کا تعلق ملکی سلامتی سے ہوتا ہے۔ جب کہ سامنے نظر آنے والی شخصیتیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سارا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہیں۔
چینی صدر کی اسلام آباد آمد پر ایئرپورٹ پر ایک اور منظر نظر آیا کہ ایک بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ استقبال کے لیے موجود تھے جب کہ باقی تمام صوبوں کے وزیراعلیٰ غائب تھے کیونکہ ان کو بلایا ہی نہیں گیا کیونکہ پاکستانی عوام کو یہ جتلانا تھا کہ پاک چین تعلقات میں اس تمام تر پیش رفت کا سہرا صرف موجودہ حکمران خاندان کو جاتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اسی سلسلے میں چین کا اکیلے ہی طواف کرتے رہے۔ سارے کا سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش حکمرانوں کے اس مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ شراکت اقتدار سمیت کسی بھی معاملے پر کسی دوسرے کو شریک نہیں کر سکتے۔ وہ پورا کا پورا اقتدار چاہتے ہیں۔
یہ مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کے اثرات ہی ہیں کہ آج پاکستان میں بھی جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتیں قائم ہو گئی ہیں۔ مگر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے آج بھی نام جمہوریت کا لیا جا رہا ہے۔ پاکستانی قوم کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب تک مشرق وسطیٰ میں بادشاہتیں ہیں پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمیشہ کمزور ہی رہے گی۔ اس پر برا وقت آتا ہی رہے گا۔ پاکستان سے مشرق وسطیٰ تک غیر جمہوری قوتیں بہت طاقتور ہیں۔
اس موقعہ پر مجھے اس شخص کی تخلیہ میں کی گئی گفتگو یاد آتی ہے۔ جس کا مشرف دور میں پورے پاکستان پر کنٹرول تھا کہ کیا پاکستان میں مشرق وسطیٰ کی طرز پر بادشاہت قائم نہیں ہو سکتی تاکہ ہر پانچ سال کے بعد الیکشن سے جاں چھوٹ جائے۔
... ایم کیو ایم کے حوالے سے 2016اہمیت کا حامل ہے' جس کا آغاز مئی جون 2015ء سے ہو جائے گا۔