اندھیروں میں سفر

ڈیڑھ ماہ میں اندھیرے ختم کرنے کے دعویداروں کے دو سال پورے ہو رہے ہیں ...

کہنے کو تو ہم نو سالہ فوجی آمریت کے بعد جمہوریت کے اس روشن دور میں آ گئے ہیں جہاں آمریت کے تاریک دور کے سات سال گزر جانے کے بعد بھی اندھیرا نہ صرف برقرار ہے بلکہ جمہوریت میں آ کر بھی بڑھا ہے کم نہیں ہو رہا جب کہ اس اندھیرے دور کے خاتمے کے لیے مزید تین سال انتظار کرنے کا سرکاری حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کیونکہ سرکار کو 2018ء میں عام انتخابات میں جانا ہے اور حکمرانوں کا ڈیڑھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ گرمیوں میں پھیل پھیل کر پانچ سالوں تک پہنچ گیا ہے اور اگر یہ دعویٰ جون 2018ء کے شدید گرم موسم میں بھی پورا نہ ہوا تو آنے والے نگراں تو یہ عذاب ختم نہیں کریں گے اور موجودہ حکمرانوں کا بھی وہی حشر ہو گا جو مئی 2013ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ہوا تھا اور مئی کی گرمی میں قوم نے حکمرانوں کو اپنے پسینے کے ساتھ بہا دیا تھا۔

پی پی کے حکمرانوں کو تو (ن) لیگ جیسی فرینڈلی اپوزیشن ملی ہوئی تھی جس کا جواب پیپلز پارٹی (ن) لیگ جیسی فرینڈ بن کر تو نہیں دے رہی اور حمایت کے ساتھ تنقید کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اور اس کے باوجود عمران خان پی پی کو حکومت کی اپوزیشن نہیں مانتے اور خود کو حقیقی اپوزیشن قرار دیتے ہیں۔

پی پی کی حکومت میں نہ (ن) لیگ حقیقی اپوزیشن تھی نہ پی ٹی آئی نے اسمبلیوں میں موجودگی کا احساس دلایا تھا۔ اب تو پی ٹی آئی نہ صرف ایک صوبے میں برسر اقتدار ہے بلکہ نواز حکومت کو ٹف ٹائم بھی دے رہی ہے چار پانچ ماہ کے دھرنوں سے نواز حکومت تو نہیں گئی مگر ملک کو ضرور نقصان پہنچا۔ چین کے صدر اگر چند ماہ قبل دھرنے کے دنوں میں پاکستان آ جاتے تو وزیر اعظم کو چینی صدر سے دھرنوں کا شکوہ نہ کرنا پڑتا اور ممکن تھا، نواز شریف حکومت 2017ء کے آخر میں ملک کو اندھیروں سے نجات دلا سکتی۔

ڈیڑھ ماہ میں اندھیرے ختم کرنے کے دعویداروں کے دو سال پورے ہو رہے ہیں اور ان کی نام نہاد ترقی کا سفر بھی اندھیروں میں جاری ہے۔ پہلا سال تو ہنی مون کا کہہ کر گزارا جا سکتا ہے مگر دوسرے سال میں بھی حکومت اندھیروں ہی میں سفر کر رہی ہے اس عرصے میں وزیر اعظم نے 23 غیرملکی سفر تو کر لیے مگر عوام کا واسطہ اندھیروں سے ہی پڑا ہوا ہے۔ ملک میں بجلی و پانی کے اہم ترین مسئلے کو معمولی سمجھ کر پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف پر وزیر اعظم نے وزارت دفاع کا بھی بوجھ ڈال رکھا ہے جب کہ مقتدر قوتوں کو ایسے وزیر دفاع کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اس لیے خواجہ آصف کو اگر صرف پانی و بجلی تک محدود رکھا جاتا تو ممکن تھا اندھیرے کچھ کم ہو جاتے۔ موجودہ حکومت کو توانائی کا جو شدید بحران ورثے میں ملا تھا اس کے لیے شہباز شریف ہی بہتر ہو سکتے تھے مگر نہ جانے وزیر اعظم نے انھیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے ہی بہتر سمجھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اب شہباز شریف پنجاب میں پہلے جیسے موثر وزیر اعلیٰ نظر نہیں آ رہے جیسے وہ گزشتہ دور میں متحرک تھے۔

راقم کو گزشتہ چند ماہ میں پنجاب کے مختلف شہروں میں جانے کا موقعہ ملا۔ ضلع راجن پور کے پس ماندہ علاقے فاضل پور سے ملک کے ترقی یافتہ شہر لاہور تک جن علاقوں میں جانا ہوا وہاں لوگ موجودہ حکومت سے مایوس ہی نظر آئے اور انھیں دو سالوں میں کہیں کوئی خاص بہتری نظر نہیں آ رہی۔ سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ انتہا پر رہی تو لاہور جیسے حکمرانوں کے شہر میں سردیوں میں بھی بجلی کی ضرورت پوری نہیں رہی اور لوڈشیڈنگ جاری رہی۔


لاہور کی ظاہری خوبصورتی پر تو حکومت پنجاب کی خصوصی توجہ رہی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا فائدہ بھی عوام کو صرف پنجاب میں ملا اور کرایوں میں کسی حد تک کمی ہوئی اور یہ کمی صرف اعلانات تک محدود نہیں تھی بلکہ اس پر عمل بھی کرا کر سندھ بلوچستان اور کے پی کے حکومتوں کی بھی اس طرف توجہ دلائی گئی مگر تینوں حکومتیں عوام کو یہ عارضی فائدہ بھی نہ دلا سکیں۔

فاضل پور، ٹاؤن شپ میں قبرستان کے قریب غلاظت و کچرے سے بھرا ہوا ایک نالہ راقم نے دیکھا جس کے لیے بتایا گیا کہ یہ نالہ نہیں ایک نہر ہے جو پانی نہ ہونے سے اس حال میں ہے۔ خان گڑھ میں شاہ جمال روڈ کی نہر کبھی لبالب چلا کرتی تھی اب کئی سالوں سے پانی سے محروم ہے۔ حکومت نے یہ معلومات حاصل کر لی تھیں کہ نہر میں پانی کے بغیر بھی علاقے کے کسان اپنی فصلیں آباد ٹیوب ویلوں کے ذریعے کر ہی لیتے ہیں تو نہر کو حکومت پانی کیوں فراہم کرے۔

حکومت جانتی ہے کہ بجلی کے ٹیوب ویل کسانوں کو سستا پانی دیتے ہیں اور بجلی کا ویسے ہی بحران ہے تو لوگ ڈیزل سے ٹیوب ویل چلا ہی لیں گے جس سے نقصان لوگوں کا ہی ہو گا حکومت تو فائدے ہی میں رہے گی۔ سندھ میں شور رہتا ہے کہ پنجاب سندھ کا پانی چرا رہا ہے جب کہ پنجاب میں نہریں پانی نہ ملنے سے گندے نالوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔

پنجاب حکومت کسانوں سے صرف جھوٹے دعوؤں کی حد تک ہی مخلص ہے۔ پہلے تین فصلوں میں کسان نقصان اٹھاچکے اب گندم تیار ہے مگر سرکاری گودام پہلے ہی گندم سے بھرے پڑے ہیں مزید خریداری کیسے ہو گی یہ مسئلہ بھی کسانوں زمینداروں کو درپیش ہے جس کی حکومت کو فکر نہیں۔

پنجاب میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے ملک میں دیگر صوبوں سے زیادہ ہیں جس کا بھرپور فائدہ باقی صوبوں کے ٹرانسپورٹر بھی اٹھا رہے ہیں ۔ لاہور سے ملتان بسوں کا سفر تقریباً پانچ گھنٹے اور اے سی کوچ کا کرایہ 560 روپے ہے جب کہ بلوچستان اور سندھ کے ٹرانسپورٹروں کی اے سی بسوں میں شکارپور سے فاضل پور ساڑھے چار گھنٹوں کے سفر کا کرایہ آٹھ سو روپے اور 90 کلومیٹر زائد ڈیرہ غازی خان کا کرایہ ایک ہزار روپے وصول کیا جا رہا ہے جو بہت زیادہ ہے۔ جب پنجاب کے بڑے ٹرانسپورٹر ہی اپنے صوبے کے مسافروں کو لوٹ رہے ہیں تو پنجاب میں کمانے کے لیے سندھ بلوچستان اور کے پی کے کے ٹرانسپورٹر کیوں نہ فائدہ اٹھائیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت گزشتہ حکومت کے وزیر ریلوے غلام بلور نے بڑھائی تھی جب ریلوے عوام کا اعتماد گنوا چکی تھی اور ٹرانسپورٹروں کی کوچز بڑھی تھیں مگر سعد رفیق نے وزیر ریلوے بن کر مسافروں کا کچھ اعتماد پھر حاصل کر تو لیا ہے مگر ریلوے سفر اب بھی اندھیروں میں جاری ہے۔ ٹرانسپورٹر اپنی کوچزکو روشنی سے سجا کر رکھتے ہیں اور سفر لائٹ کے ساتھ ٹی وی دکھا کر کراتے ہیں مگر ریلوے سفر میں ایسا نہیں ہے۔ وزیر ریلوے کو سیاست سے فرصت ملے تو وہ اندھیروں میں سفر کرنے والی اپنی ٹرینوں پر بھی توجہ دیں۔ ریلوے سفر کے لیے مسافر پھر راغب تو ہوئے ہیں۔

ٹرینیں نہ صرف فل جا رہی ہیں اور بوگیوں میں لوگ راستوں پر سفر بیٹھ کر کرنے پر مجبور ہیں جس سے ریلوے پھر منافعے میں آ گئی ہے۔ چند اہم ٹرینوں کے سوا کسی ٹرین میں روشنی ہوتی ہے نہ پانی۔ بوگیوں میں کہیں روشنی تو کہیں اندھیرا۔ بوگیوں میں لگے بلب جلیں نہ جلیں۔ پنکھے چلیں نہ چلیں یہ ریلوے چیکروں کا درد سر نہیں۔ سفر میں ٹکٹ متعدد بار چیک ہوں گے مگر مسافروں کی سہولت کوئی چیک کرنے والا ہے نہ مسافر کسی سے کہہ کر شکایت دور کرا سکتے ہیں۔ انجنوں کی تیز لائٹ میں مسافروں کا اندھیروں میں یہ سفر ضرور جاری ہے۔ ریلوے سے کیا بعید خود حکومت بھی اپنی ترقی کا سفر اندھیروں ہی میں رواں رکھے ہوئے ہے۔
Load Next Story