انتخابی صورتحال
کراچی کی فیصل کالونی اور کلفٹن میں ایم کیو ایم نے بڑی آسانی سے انتخابی فتح حاصل کر لی۔
MELBOURNE:
این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں بعض بڑے دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں جب کہ 42 کنٹونمنٹس میں بلدیاتی انتخابات میں بھی اسی قسم کے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ کراچی کے انتخابات کے کامیاب انعقاد کا سہرا رینجرز اور کراچی پولیس کے سر باندھا جانا چاہیے جنہوں نے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے اور انتخابی عمل بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔
ایم کیو ایم کی ان کے اپنے مضبوط گڑھ میں کامیابی غیر متوقع نہیں تھی جب کہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے بعض ووٹر بھی ووٹر لسٹوں میں اپنے نام کی تلاش کے لیے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے چکر لگاتے رہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں نبیل گبول نے اس حلقہ انتخاب سے استعفیٰ دے دیا تھا اور پارٹی بھی چھوڑ دی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان کو پڑنے والے ایک لاکھ پچاس ہزار ووٹ بیلٹ بکسوں میں موجود نہیں تھے تاہم اس مرتبہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں نمایاں کمی کے بعد ان ووٹوں کی تعداد 93 ہزار رہ گئی۔
ایم کیو ایم کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ کراچی' حیدر آباد' میر پور خاص' سکھر اور صوبہ سندھ کے دیگر علاقوں میں ان کے ووٹ پکے ہیں اور ان کے کرشماتی لیڈر الطاف حسین کے بارے میں مختلف قیاس آرائیوں کے باوجود ان کے ووٹوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ الطاف حسین یو کے میں مقیم ہیں۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے بڑی بڑی انتخابی ریلیاں نکالیں لیکن ایم کیو ایم کے ووٹوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ رینجرز نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے بلا امتیاز کارروائیاں کیں جب کہ کراچی پولیس نے قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیے۔
پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ میں بیس ہزار ووٹ ملے جو کہ اس پارٹی کی اچھی کارکردگی کی علامت ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے بھی سخت محنت کی جس کے نتیجے میں ان کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار تو نہیں البتہ 93 ہزار ضرور ثابت ہو گئی سیکیورٹی کے بڑے سخت انتظامات کیے گئے تھے تاہم ووٹروں کا ٹرن آؤٹ صرف 34فیصد رہا جو کہ توقع سے بہت کم تھا۔
اپر مڈل کلاس کے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کی طرف گئے جب کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد مختلف خدشات کے باعث گھروں سے باہر نہ نکل سکی۔ دوسری پارٹیاں بھی اپنے ووٹروں کو پوری طرح متحرک کرنے میں ناکام رہیں۔ بڑی قومی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو تو امیدوار ہی میسر نہ آ سکے۔
ایم کیو ایم کے سامنے ان کے مضبوط گڑھ میں کھڑا ہونے کا کریڈٹ پی ٹی آئی کے حامیوں کو جاتا ہے۔ گزشتہ دسمبر میں پی ٹی آئی میں علی زیدی کو کراچی میں پارٹی کا لیڈر نامزد کیا گیا تھا جس سے پارٹی کی تنظیم میں کچھ ہلچل پیدا ہوئی۔ جماعت اسلامی نے دس ہزار ووٹوں سے بھی کم ووٹ لے کر مایوس کن نتائج دکھائے۔ اگر این اے 246 کے انتخاب کے موقع پر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی باہم اکٹھا بھی ہو جاتیں تب بھی ان کے ووٹ ایم کیو ایم کے مقابلے میں بہت کم رہتے۔
جہاں تک کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بلدیاتی انتخاب کا تعلق ہے تو خیبرپختونخوا کے دس کنٹونمنٹ بورڈز میں 30وارڈ بنائے گئے پنجاب میں 21 کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے 44 وارڈ ہیں۔ سندھ کے 8 کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے 9 وارڈ ہیں جب کہ بلوچستان میں 3 کنٹونمنٹ ہیں۔ اس اعتبار سے پورے ملک میں 199 وارڈ بنتے ہیں۔ بلوچستان میں ''اورمارہ'' کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی انتخاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس کے لیے حلقہ بندیوں کا کوئی مسئلہ ہے۔
ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے رجسٹر شدہ ووٹروں کی تعداد 1.87 ملین (18 لاکھ 70 ہزار) ہے۔ 610 آزاد امیدوار جب کہ 18 سیاسی پارٹیاں 541 امیدوار میدان میں لا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات 17 سال کے وقفے کے بعد منعقد ہو رہے ہیں۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ نواز نے 68' آزاد امیدواروں نے 55' پی ٹی آئی اے 42' ایم کیو ایم نے 19' پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے 7' جماعت اسلامی نے 6 اور اے این پی نے دو سیٹیں لیں جب کہ نشستوں کی مجموعی تعداد 199 ہے۔
مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں اپنی مقبولیت کی تصدیق کر دی اور اس نے 44 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ ملک بھر میں اسے 68 نشستیں ملیں جو کہ مجموعی نشستوں کا 34 فیصد ہیں۔ پی ٹی آئی نے زیادہ نشستیں کے پی کے میں حاصل کیں جب کہ پنجاب میں اس کو صرف 9 نشستیں ملیں جس سے وہ دوسرے نمبر پر رہی' مسلم لیگ نواز کا مضبوط گڑھ لاہور' سیالکوٹ' راولپنڈی' سرگودھا' چکلالہ کنٹونمنٹ ہے جب کہ پی ٹی آئی نے واہ اور ٹیکسلا میں 8 نشستیں حاصل کیں۔
کامرہ میں مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی نے ایک ایک نشست حاصل کی۔ ملتان میں آزاد امیدواروں نے دس میں سے پانچ نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ کو تین اور پی ٹی آئی کو دو نشستیں ملیں۔ اگرچہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں لیکن پی ٹی آئی بھی زیادہ پیچھے نہیں رہی۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا آیندہ ہونے والے عام انتخابات میں بھی یہی تناسب قائم رہے گا یا اس میں کوئی رد و بدل ہو گا۔
کراچی کی فیصل کالونی اور کلفٹن میں ایم کیو ایم نے بڑی آسانی سے انتخابی فتح حاصل کر لی۔ کلفٹن میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ ایم کیو ایم کو سندھ کے کنٹونمنٹ بورڈز میں سے 19 نشستیں ملیں۔
مسلم لیگ ن کو کے پی کے' بلوچستان اور سندھ میں بلاواسطہ نشستیں ملیں۔ آزاد امیدواروں نے کوئٹہ میں چار نشستیں لیں جب کہ مسلم لیگ ن کو ایک نشست ملی۔ آزاد امیدواروں نے 27.5 فیصد نشستیں حاصل کیں جو کہ سب سے بڑی تعداد پی ٹی آئی کو 24 فیصد نشستیں ملیں جب کہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی سب سے کم رہی جس نے صرف 7 نشستیں حاصل کیں جو کہ ملک کی مجموعی نشستوں کا صرف 3.5 فیصد تھیں۔
اب افواہیں پھیلی ہوئی ہیں کہ فیشن ماڈل ایاز علی جیل کی بہت زیادہ بری حالت کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کی دھمکی دے رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے کے حوالے سے یہ کتاب بہت بڑی تعداد میں فروخت ہو سکے گی۔ این اے 246 کے ضمنی انتخاب کے موقع پر بہت بڑی بڑی انتخابی ریلیاں بھی نکالی گئیں لیکن ان سے ملکی مجموعی سیاسی قوت کا مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلدیاتی الیکشن کے بعد دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی اب بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے تاہم ملکی صحیح سیاسی صورت حال کا اندازہ تو بلدیاتی انتخابات کے بعد ہی لگے گا جو پنجاب میں جیتے گا ملک کا اقتدار اسی کے ہاتھ رہے گا بدقسمتی سے کے پی کے اور سندھ کی اس حوالے سے کوئی خاص اہمیت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کا اصل مسئلہ وفاقیت کا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں بعض بڑے دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں جب کہ 42 کنٹونمنٹس میں بلدیاتی انتخابات میں بھی اسی قسم کے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ کراچی کے انتخابات کے کامیاب انعقاد کا سہرا رینجرز اور کراچی پولیس کے سر باندھا جانا چاہیے جنہوں نے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے اور انتخابی عمل بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔
ایم کیو ایم کی ان کے اپنے مضبوط گڑھ میں کامیابی غیر متوقع نہیں تھی جب کہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے بعض ووٹر بھی ووٹر لسٹوں میں اپنے نام کی تلاش کے لیے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے چکر لگاتے رہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں نبیل گبول نے اس حلقہ انتخاب سے استعفیٰ دے دیا تھا اور پارٹی بھی چھوڑ دی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان کو پڑنے والے ایک لاکھ پچاس ہزار ووٹ بیلٹ بکسوں میں موجود نہیں تھے تاہم اس مرتبہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں نمایاں کمی کے بعد ان ووٹوں کی تعداد 93 ہزار رہ گئی۔
ایم کیو ایم کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ کراچی' حیدر آباد' میر پور خاص' سکھر اور صوبہ سندھ کے دیگر علاقوں میں ان کے ووٹ پکے ہیں اور ان کے کرشماتی لیڈر الطاف حسین کے بارے میں مختلف قیاس آرائیوں کے باوجود ان کے ووٹوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ الطاف حسین یو کے میں مقیم ہیں۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے بڑی بڑی انتخابی ریلیاں نکالیں لیکن ایم کیو ایم کے ووٹوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ رینجرز نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے بلا امتیاز کارروائیاں کیں جب کہ کراچی پولیس نے قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیے۔
پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ میں بیس ہزار ووٹ ملے جو کہ اس پارٹی کی اچھی کارکردگی کی علامت ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے بھی سخت محنت کی جس کے نتیجے میں ان کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار تو نہیں البتہ 93 ہزار ضرور ثابت ہو گئی سیکیورٹی کے بڑے سخت انتظامات کیے گئے تھے تاہم ووٹروں کا ٹرن آؤٹ صرف 34فیصد رہا جو کہ توقع سے بہت کم تھا۔
اپر مڈل کلاس کے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کی طرف گئے جب کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد مختلف خدشات کے باعث گھروں سے باہر نہ نکل سکی۔ دوسری پارٹیاں بھی اپنے ووٹروں کو پوری طرح متحرک کرنے میں ناکام رہیں۔ بڑی قومی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو تو امیدوار ہی میسر نہ آ سکے۔
ایم کیو ایم کے سامنے ان کے مضبوط گڑھ میں کھڑا ہونے کا کریڈٹ پی ٹی آئی کے حامیوں کو جاتا ہے۔ گزشتہ دسمبر میں پی ٹی آئی میں علی زیدی کو کراچی میں پارٹی کا لیڈر نامزد کیا گیا تھا جس سے پارٹی کی تنظیم میں کچھ ہلچل پیدا ہوئی۔ جماعت اسلامی نے دس ہزار ووٹوں سے بھی کم ووٹ لے کر مایوس کن نتائج دکھائے۔ اگر این اے 246 کے انتخاب کے موقع پر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی باہم اکٹھا بھی ہو جاتیں تب بھی ان کے ووٹ ایم کیو ایم کے مقابلے میں بہت کم رہتے۔
جہاں تک کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بلدیاتی انتخاب کا تعلق ہے تو خیبرپختونخوا کے دس کنٹونمنٹ بورڈز میں 30وارڈ بنائے گئے پنجاب میں 21 کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے 44 وارڈ ہیں۔ سندھ کے 8 کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے 9 وارڈ ہیں جب کہ بلوچستان میں 3 کنٹونمنٹ ہیں۔ اس اعتبار سے پورے ملک میں 199 وارڈ بنتے ہیں۔ بلوچستان میں ''اورمارہ'' کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی انتخاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس کے لیے حلقہ بندیوں کا کوئی مسئلہ ہے۔
ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے رجسٹر شدہ ووٹروں کی تعداد 1.87 ملین (18 لاکھ 70 ہزار) ہے۔ 610 آزاد امیدوار جب کہ 18 سیاسی پارٹیاں 541 امیدوار میدان میں لا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات 17 سال کے وقفے کے بعد منعقد ہو رہے ہیں۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ نواز نے 68' آزاد امیدواروں نے 55' پی ٹی آئی اے 42' ایم کیو ایم نے 19' پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے 7' جماعت اسلامی نے 6 اور اے این پی نے دو سیٹیں لیں جب کہ نشستوں کی مجموعی تعداد 199 ہے۔
مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں اپنی مقبولیت کی تصدیق کر دی اور اس نے 44 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ ملک بھر میں اسے 68 نشستیں ملیں جو کہ مجموعی نشستوں کا 34 فیصد ہیں۔ پی ٹی آئی نے زیادہ نشستیں کے پی کے میں حاصل کیں جب کہ پنجاب میں اس کو صرف 9 نشستیں ملیں جس سے وہ دوسرے نمبر پر رہی' مسلم لیگ نواز کا مضبوط گڑھ لاہور' سیالکوٹ' راولپنڈی' سرگودھا' چکلالہ کنٹونمنٹ ہے جب کہ پی ٹی آئی نے واہ اور ٹیکسلا میں 8 نشستیں حاصل کیں۔
کامرہ میں مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی نے ایک ایک نشست حاصل کی۔ ملتان میں آزاد امیدواروں نے دس میں سے پانچ نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ کو تین اور پی ٹی آئی کو دو نشستیں ملیں۔ اگرچہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں لیکن پی ٹی آئی بھی زیادہ پیچھے نہیں رہی۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا آیندہ ہونے والے عام انتخابات میں بھی یہی تناسب قائم رہے گا یا اس میں کوئی رد و بدل ہو گا۔
کراچی کی فیصل کالونی اور کلفٹن میں ایم کیو ایم نے بڑی آسانی سے انتخابی فتح حاصل کر لی۔ کلفٹن میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ ایم کیو ایم کو سندھ کے کنٹونمنٹ بورڈز میں سے 19 نشستیں ملیں۔
مسلم لیگ ن کو کے پی کے' بلوچستان اور سندھ میں بلاواسطہ نشستیں ملیں۔ آزاد امیدواروں نے کوئٹہ میں چار نشستیں لیں جب کہ مسلم لیگ ن کو ایک نشست ملی۔ آزاد امیدواروں نے 27.5 فیصد نشستیں حاصل کیں جو کہ سب سے بڑی تعداد پی ٹی آئی کو 24 فیصد نشستیں ملیں جب کہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی سب سے کم رہی جس نے صرف 7 نشستیں حاصل کیں جو کہ ملک کی مجموعی نشستوں کا صرف 3.5 فیصد تھیں۔
اب افواہیں پھیلی ہوئی ہیں کہ فیشن ماڈل ایاز علی جیل کی بہت زیادہ بری حالت کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کی دھمکی دے رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے کے حوالے سے یہ کتاب بہت بڑی تعداد میں فروخت ہو سکے گی۔ این اے 246 کے ضمنی انتخاب کے موقع پر بہت بڑی بڑی انتخابی ریلیاں بھی نکالی گئیں لیکن ان سے ملکی مجموعی سیاسی قوت کا مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلدیاتی الیکشن کے بعد دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی اب بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے تاہم ملکی صحیح سیاسی صورت حال کا اندازہ تو بلدیاتی انتخابات کے بعد ہی لگے گا جو پنجاب میں جیتے گا ملک کا اقتدار اسی کے ہاتھ رہے گا بدقسمتی سے کے پی کے اور سندھ کی اس حوالے سے کوئی خاص اہمیت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کا اصل مسئلہ وفاقیت کا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔