رضاکارانہ ٹیکس وصولیابی کی اسکیم
ہم زرعی ساز و سامان کی مہنگائی کا شکار ہیں اور کسانوں اور کاشتکاروں کو پہلے سے زیادہ ادائیگیاں کر رہے ہیں
SOFIA:
باخبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت ملک کے متمول اور باحیثیت طبقوں اور زمینداروں سے رضاکارانہ ٹیکس وصول کرنے کی اسکیم پر غور کر رہی ہے جس کی تجویز ملک کے بعض محب وطن زمینداروں نے پیش کی ہے جو ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں مگر اس لیے دل مسوس کے رہ جاتے ہیں کہ زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے۔
ایسے احساس ذمے داری سے سرشار زمینداروں کا ایک خفیہ اجلاس ملک کے ایک بڑے شہر میں منعقد ہوا جس میں اگرچہ کچھ زمینداروں نے حسب روایت اس قسم کا ٹیکس ادا کرنے کی مخالفت کی مگر زیادہ تر زمیندار جن کا ضمیر ملامت کر رہا تھا اور جو شدید شرمندگی کے جذبات سے مغلوب نظر آ رہے تھے اس رائے کی شدت سے حمایت کی کہ زمینداروں کو بھی ملک کے دیگر افراد مثلاً صنعت کار، تاجر، تنخواہ دار طبقوں کی طرح اگر لازمی نہیں تو رضاکارانہ ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔
اس اجلاس میں یوں تو بہت ساری باتیں کہی گئیں مگر قارئین کے لیے ہم ان باتوں کا لب لباب پیش کر رہے ہیں جن لوگوں کو ان باتوں کے طشت از بام ہو جانے پر ناراضگی محسوس ہو ہم ان سے پیشگی معذرت کیے لیتے ہیں۔ زیادہ تر زمینداروں کا (دروغ بر گردن راوی) کچھ یہ کہنا تھا:
''ہماری اس توجیہ میں بہت زیادہ جان نہیں رہی کہ کاشتکاری اور زمیندار کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، ہم زرعی ساز و سامان کی مہنگائی کا شکار ہیں اور کسانوں اور کاشتکاروں کو پہلے سے زیادہ ادائیگیاں کر رہے ہیں۔''
کیونکہ ہمارا لائف اسٹائل ہمارے دعوؤں کی قلعی کھول دیتا ہے ہم پجیرو اور پراڈو گاڑیوں میں پھرتے ہیں، ہم اور ہمارے گھر والے عالیشان محلوں میں رہتے ہیں دنیا بھر کے دورے کرتے ہیں، غیر ممالک جا کر علاج کراتے ہیں اگرچہ یہ سب کچھ سرکاری خرچے پر ہوتا ہے مگر کچھ نہ کچھ تو ہمیں پلے سے بھی مانا چونی اٹھنی سہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔
یہ ساری باتیں ہمیں سخت شرمندگی میں مبتلا کرتی ہیں۔ ہماری مزارع ہمارے ووٹرز ہمیں ووٹ دیتے ہیں کچھ ہم اپنے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں لیکن کب تک؟ جو طوفان شہروں میں اٹھ رہا ہے وہ کبھی نہ کبھی گاؤں دیہات کا رخ بھی کر سکتا ہے انقلاب ایک نہ ایک دن ہمارے دروازوں پر بھی دستک دے سکتا ہے لہٰذا عقلمندی اسی میں ہے کہ پیش بندی کر لی جائے۔
حکومت بھی اس سلسلے میں کچھ بھی کر سکتی ہے وہ یہ پابندی بھی لگا سکتی ہے کہ صرف مقررہ حد تک ٹیکس ادائیگی کرنے والے ہی پارلیمنٹ کے رکن بن سکیں گے کیو نکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جتنی رقم ہم ارکان پارلیمنٹ پر سرکاری مراعات اور معاوضوں کی مد میں خرچ ہو رہی ہے ہم لوگ اتنا ٹیکس بھی ادا نہیں کر رہے۔
میڈیا بھی ایسی باتوں کو خوب اچھال رہا ہے، بجائے اس کے کہ خود بھی چین سے رہے اور ہمیں بھی سکون اور عیاشی کی زندگیاں گزارنے دے ہمارا سارا کچھا چٹھا کھولتا رہتا ہے۔ بے عزتی کرنے اور ہمارے ڈھٹائی برتنے کی بھی حد ہوتی ہے، سوشل میڈیا نے الگ ہماری جان عذاب میں کر رکھی ہے۔
اس کا ہم نے یہی حل سوچا ہے کہ ہم نے زبردستی نہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر جس کی جیسی بھی استطاعت ہو گی ٹیکس ادا کرے گا۔ اس سے طویل المیعاد سہی ہمارا بھلا ہو گا۔ لوگوں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں سے دور ہو جائیں گے اور ہم معاشرے میں فخر کے ساتھ سینہ تان کر اور سر بلند کر کے چل سکیں گے۔
ہاں ہم حکومت سے یہ بات ضرور منوا سکتے ہیں کہ جو رضاکارانہ ٹیکس ہم ادا کریں گے وہ ہمارے حلقے کی ترقی اور وہاں رہنے والے عوام کی خوشحالی پر ہی خرچ ہو گا۔ یہ بات ہمارے فائدے میں ہی ہو گی کیوں کہ وہاں جتنی زیادہ ترقی اور خوشحالی ہو گی وہ اتنی ہی زیادہ گرمجوشی سے ہمیں ووٹ دیں گے بلکہ ابھی تو زیادہ تر زور زبردستی سے دیتے ہیں مگر اس صورت میں برضا و رغبت ووٹ دیں گے اور اس طرح ہمارا اور ہماری اولاد در اولاد کا اپنا تسلط برقرار رکھنا آسان ہو جائے گا۔
اس کے بعد جب ہم ایوانوں میں عوام کے حقوق جمہوریت، ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے جو بڑی بڑی تقریریں کریں گے تو دل سے کریں گے ہم پر ضمیر کا کوئی بوجھ نہیں رہے گا۔
تو یہ تھیں ہمارے بعض با ضمیر اور دور اندیش زمینداروں کی باتیں جو ہم نے بلا کم و کاست آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، جذبات کے بلا تکلف اظہار سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ ایسا قحط الرجال نہیں ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اب بھی تعداد میں کم سہی ایسے لوگ موجود ہیں جو قوم کا درد رکھتے ہیں جن کو عوام کی خواہشات کا احساس اور ادراک ہے جو احساس ذمے داری سے دو چار ہیں جن کا ضمیر نہ صرف ملامت کرتا ہے بلکہ وہ اس کی آواز پر لبیک بھی کہتے ہیں۔
پھر اس کا ایک فالو اپ یہ بھی ہے کہ حکومت نے اس شرط پر کہ زمیندار حضرات اپنی زرعی آمدنی کے کچھ حصے پر رضاکارانہ ٹیکس ادا کرنا شروع کر دیں گے یہ بات مان لی ہے کہ اس کی زیادہ تر رقم ان لوگوں کے حلقوں میں ہی خرچ کی جائے گی اور اس کے لیے مطلوبہ قانون سازی کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔ اس کے لیے محب وطن زمینداروں کو اپنے اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی منصوبے تمام تر تفصیلات کے ساتھ حکومت کے متعلقہ شعبے میں جمع کرانے ہوں گے۔
باخبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت ملک کے متمول اور باحیثیت طبقوں اور زمینداروں سے رضاکارانہ ٹیکس وصول کرنے کی اسکیم پر غور کر رہی ہے جس کی تجویز ملک کے بعض محب وطن زمینداروں نے پیش کی ہے جو ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں مگر اس لیے دل مسوس کے رہ جاتے ہیں کہ زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے۔
ایسے احساس ذمے داری سے سرشار زمینداروں کا ایک خفیہ اجلاس ملک کے ایک بڑے شہر میں منعقد ہوا جس میں اگرچہ کچھ زمینداروں نے حسب روایت اس قسم کا ٹیکس ادا کرنے کی مخالفت کی مگر زیادہ تر زمیندار جن کا ضمیر ملامت کر رہا تھا اور جو شدید شرمندگی کے جذبات سے مغلوب نظر آ رہے تھے اس رائے کی شدت سے حمایت کی کہ زمینداروں کو بھی ملک کے دیگر افراد مثلاً صنعت کار، تاجر، تنخواہ دار طبقوں کی طرح اگر لازمی نہیں تو رضاکارانہ ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔
اس اجلاس میں یوں تو بہت ساری باتیں کہی گئیں مگر قارئین کے لیے ہم ان باتوں کا لب لباب پیش کر رہے ہیں جن لوگوں کو ان باتوں کے طشت از بام ہو جانے پر ناراضگی محسوس ہو ہم ان سے پیشگی معذرت کیے لیتے ہیں۔ زیادہ تر زمینداروں کا (دروغ بر گردن راوی) کچھ یہ کہنا تھا:
''ہماری اس توجیہ میں بہت زیادہ جان نہیں رہی کہ کاشتکاری اور زمیندار کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، ہم زرعی ساز و سامان کی مہنگائی کا شکار ہیں اور کسانوں اور کاشتکاروں کو پہلے سے زیادہ ادائیگیاں کر رہے ہیں۔''
کیونکہ ہمارا لائف اسٹائل ہمارے دعوؤں کی قلعی کھول دیتا ہے ہم پجیرو اور پراڈو گاڑیوں میں پھرتے ہیں، ہم اور ہمارے گھر والے عالیشان محلوں میں رہتے ہیں دنیا بھر کے دورے کرتے ہیں، غیر ممالک جا کر علاج کراتے ہیں اگرچہ یہ سب کچھ سرکاری خرچے پر ہوتا ہے مگر کچھ نہ کچھ تو ہمیں پلے سے بھی مانا چونی اٹھنی سہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔
یہ ساری باتیں ہمیں سخت شرمندگی میں مبتلا کرتی ہیں۔ ہماری مزارع ہمارے ووٹرز ہمیں ووٹ دیتے ہیں کچھ ہم اپنے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں لیکن کب تک؟ جو طوفان شہروں میں اٹھ رہا ہے وہ کبھی نہ کبھی گاؤں دیہات کا رخ بھی کر سکتا ہے انقلاب ایک نہ ایک دن ہمارے دروازوں پر بھی دستک دے سکتا ہے لہٰذا عقلمندی اسی میں ہے کہ پیش بندی کر لی جائے۔
حکومت بھی اس سلسلے میں کچھ بھی کر سکتی ہے وہ یہ پابندی بھی لگا سکتی ہے کہ صرف مقررہ حد تک ٹیکس ادائیگی کرنے والے ہی پارلیمنٹ کے رکن بن سکیں گے کیو نکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جتنی رقم ہم ارکان پارلیمنٹ پر سرکاری مراعات اور معاوضوں کی مد میں خرچ ہو رہی ہے ہم لوگ اتنا ٹیکس بھی ادا نہیں کر رہے۔
میڈیا بھی ایسی باتوں کو خوب اچھال رہا ہے، بجائے اس کے کہ خود بھی چین سے رہے اور ہمیں بھی سکون اور عیاشی کی زندگیاں گزارنے دے ہمارا سارا کچھا چٹھا کھولتا رہتا ہے۔ بے عزتی کرنے اور ہمارے ڈھٹائی برتنے کی بھی حد ہوتی ہے، سوشل میڈیا نے الگ ہماری جان عذاب میں کر رکھی ہے۔
اس کا ہم نے یہی حل سوچا ہے کہ ہم نے زبردستی نہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر جس کی جیسی بھی استطاعت ہو گی ٹیکس ادا کرے گا۔ اس سے طویل المیعاد سہی ہمارا بھلا ہو گا۔ لوگوں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں سے دور ہو جائیں گے اور ہم معاشرے میں فخر کے ساتھ سینہ تان کر اور سر بلند کر کے چل سکیں گے۔
ہاں ہم حکومت سے یہ بات ضرور منوا سکتے ہیں کہ جو رضاکارانہ ٹیکس ہم ادا کریں گے وہ ہمارے حلقے کی ترقی اور وہاں رہنے والے عوام کی خوشحالی پر ہی خرچ ہو گا۔ یہ بات ہمارے فائدے میں ہی ہو گی کیوں کہ وہاں جتنی زیادہ ترقی اور خوشحالی ہو گی وہ اتنی ہی زیادہ گرمجوشی سے ہمیں ووٹ دیں گے بلکہ ابھی تو زیادہ تر زور زبردستی سے دیتے ہیں مگر اس صورت میں برضا و رغبت ووٹ دیں گے اور اس طرح ہمارا اور ہماری اولاد در اولاد کا اپنا تسلط برقرار رکھنا آسان ہو جائے گا۔
اس کے بعد جب ہم ایوانوں میں عوام کے حقوق جمہوریت، ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے جو بڑی بڑی تقریریں کریں گے تو دل سے کریں گے ہم پر ضمیر کا کوئی بوجھ نہیں رہے گا۔
تو یہ تھیں ہمارے بعض با ضمیر اور دور اندیش زمینداروں کی باتیں جو ہم نے بلا کم و کاست آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، جذبات کے بلا تکلف اظہار سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ ایسا قحط الرجال نہیں ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اب بھی تعداد میں کم سہی ایسے لوگ موجود ہیں جو قوم کا درد رکھتے ہیں جن کو عوام کی خواہشات کا احساس اور ادراک ہے جو احساس ذمے داری سے دو چار ہیں جن کا ضمیر نہ صرف ملامت کرتا ہے بلکہ وہ اس کی آواز پر لبیک بھی کہتے ہیں۔
پھر اس کا ایک فالو اپ یہ بھی ہے کہ حکومت نے اس شرط پر کہ زمیندار حضرات اپنی زرعی آمدنی کے کچھ حصے پر رضاکارانہ ٹیکس ادا کرنا شروع کر دیں گے یہ بات مان لی ہے کہ اس کی زیادہ تر رقم ان لوگوں کے حلقوں میں ہی خرچ کی جائے گی اور اس کے لیے مطلوبہ قانون سازی کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔ اس کے لیے محب وطن زمینداروں کو اپنے اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی منصوبے تمام تر تفصیلات کے ساتھ حکومت کے متعلقہ شعبے میں جمع کرانے ہوں گے۔